خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍ نومبر 2024ء

’’صلح حدیبیہ کے مبارک ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کو آپؐ کے پاس آنے کا موقع ملا اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیںسنیںتو ان میں صدہا مسلمان ہو گئے۔ جب تک انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں نہ سنی تھیں ان میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک دیوار حائل تھی جو آپؐ کے حسن و جمال پر ان کو اطلاع نہ پانے دیتی تھی‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)

رسول اللہؐ نے فرمایا: اے ابو جندل! صبر کر اورثواب کی امید رکھ۔ بیشک اللہ تعالیٰ تیرے لیے اور تیرے کمزور ساتھیوں کے لیے کشادگی اور نجات کا راستہ پیدا کر دے گا۔ ہم نے قوم کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا ہے اور ہم نے ان کو اور انہوں نے ہم کو عہد دیا ہے اور ہم دھوکانہیں کرتے

رسولِ کریمؐ نے فرمایا: میں نے تم کو بہت حکم دئیے مگر میں نے تم سے مخلص ترین لوگوں کے اندر بھی بعض دفعہ احتجاج کی روح دیکھی مگر ابوبکرؓ کے اندر میں نے یہ روح کبھی نہیں دیکھی

غور کیا جائے توواقعی حدیبیہ کی صلح ہمارے لیے ایک بڑی بھاری فتح ہے

غزوۂ حدیبیہ کے حالات و واقعات کا مفصّل بیان

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍ نومبر 2024ء بمطابق29؍ نبوت 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

صلح حدیبیہ کے واقعہ کا ذکر

ہو رہا ہے۔ اس کی مزید تفصیل بیان کروں گا۔ اس موقع پر

صحابہؓ کی پہرے پر ڈیوٹی

لگائی گئی تھی۔ اس بارے میں ذکر ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ ؓکو رات کے وقت پہرے کا حکم دیا ہوا تھا۔ روزانہ پہرہ ہوتا تھا۔ تین آدمی باری باری پہرہ دیا کرتے تھے۔ جن میں حضرت اَوس بن خَولیؓ، عَبَّاد بن بِشرؓ اور محمد بن مَسْلَمَہؓ تھے۔ ایک رات حضرت محمد بن مَسْلَمَہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہرے پر مامور تھے تو قریش نے مِکْرَزْ بن حَفْص کی نگرانی میں پچاس آدمیوں کو بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد چکر لگائیں اس امید پر کہ مسلمانوں میں سے کسی کو قتل کر دیں یا اچانک ان کو کوئی نقصان پہنچائیں۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ نے ان کو پکڑ لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ مکرز بھاگ گیا اور اس نے اپنے ساتھیوں کو خبر دار کیا۔ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول بھی ظاہر ہو گیا جس کا ذکر گذشتہ خطبہ میں ہوا تھا کہ مکرز دھوکہ باز شخص ہے۔ یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ مسلمانوں میں سے چند آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے تھے جن میں کُرْز بن جابر فِہْرِی، عبداللہ بن سُہَیل، عبداللہ بن حُذَافَہ سَہْمِی، ابورُوم بن عُمَیر عَبْدَرِی، عَیَّاش بن اَبِی رَبِیعہ، ہِشَام بن عاص، ابُو حاطِب بن عَمْرو، عُمَیر بن وَہْب، حَاطِب بن ابی بَلْتَعَہ اور عبداللہ بن اُمَیَّہ شامل تھے۔ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی امان میں مکہ میں داخل ہوئے تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چھپ کر داخل ہوئے تھے۔ مختلف روایتیں ہیں۔

جب ان مسلمانوں کی خبر قریش کو ہوئی تو قریش نے ان کو پکڑ لیا اور قریش کو اپنے ساتھیوں کی گرفتاری کی خبر بھی مل گئی تھی جن کو حضرت محمد بن مسلمہ ؓنے روک لیا تھا۔ جب قریش کو خبر ملی کہ ان کے پچاس آدمی مسلمانوں کے قیدی ہو گئے ہیں۔ پھر قریش کا ایک اَور مسلح دستہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحابؓ کی طرف آیا اور مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ وہ تیر اور پتھر پھینکنے لگے۔

مشرکین کے بارہ شہ سواروں کو مسلمانوں نے گرفتار کر لیا اور مسلمانوں میں سے حضرت اِبنِ زُنَیمؓ شہید ہو گئے۔ قریش نے ان کو تیر مار کر قتل کر دیا تھا۔

پھر قریش نے ایک جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجی جن میں سُہَیل بن عمرو بھی تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے ہی دُور سے اس کو دیکھا تو صحابہؓ سے فرمایا کہ

سُہیل کے ذریعہ تمہارا معاملہ سَہل یعنی آسان ہو گیا۔

اس وقت سُہَیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر کہا کہ آپ کے ساتھیوں یعنی عثمان اور دوسرے دس صحابہ کو قید کرنے اور ہمارے کچھ لوگوں کے آپ سے مقابلہ کرنے کا جو معاملہ ہے اس میں ہمارا کوئی ذی رائے آدمی شریک نہیں ہے۔ ہمیں جب اس بات کا پتہ چلا تو ہمیں بہت ناگواری ہوئی۔ ہمیں اس کے بارے میں کچھ خبر نہیں ہے۔ وہ ہم میں سے اوباش لوگوں کا کام تھا۔ اس لیے ہمارے جو آدمی آپ نے دونوں مرتبہ میں پکڑے ہیں انہیں ہمارے پاس واپس بھیج دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا:

میں ان کو اس وقت تک نہیں بھیجوں گا جب تک تم میرے ساتھیوں کو نہیں چھوڑو گے۔

اس پر ان سب لوگوں نے کہا اچھا ہم انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ اس پر قریش نے حضرت عثمانؓ اور باقی دس صحابہؓ کو واپس بھیج دیا۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے آدمیوں کو چھوڑ دیا۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5 صفحہ 48 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

جیسا کہ ابھی ذکر بھی ہوا ہے اور پہلے بھی گذشتہ خطبہ میں حضرت عثمانؓ کے بارے میں بتاچکا ہوں کہ ان کو کافروں نے پکڑ لیا تھا اور جب یہ خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے ایک بیعت لی تھی۔ایک عہد لیا تھا جسے

بیعتِ رضوان

کہتے ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب قریش کو حدیبیہ کی اس بیعت کا حال معلوم ہوا تو وہ لوگ بہت خوفزدہ ہوئے۔ ان کو بھی پتہ لگ گیا کہ یہ بیعت ہو گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عہد لیا ہے سب مسلمانوں سے۔ اور ان کے ذی رائے لوگوں نے مشورہ دیا کہ صلح کرنا مناسب ہو گا ۔یعنی اس سال اس طرح صلح کی جائے، یہ کہا جائے کہ اس سال آپ واپس لوٹ جائیں اور آئندہ سال آ کر تین روز مکہ میں ٹھہر سکتے ہیں مگر آپ کے ساتھ صرف ایک سوار کے ضروری ہتھیار یعنی میانوں میں پڑی تلوار اور کمانوں کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔ اس مشورے کے بعد قریش نے دوسری دفعہ سُہَیل بن عمرو کو بھیجا۔ اس کے ساتھ مِکرِز بن حَفْص اور حُوَیْطِب بن عبدالعُزّٰی بھی تھے۔ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ تجویز لے کر آئے کہ اس سال تو آپ بغیر عمرہ کیے ہی واپس چلے جائیں تا کہ عرب یہ نہ کہیں کہ آپ طاقت کے زور پر قریش کی مرضی کے خلاف مکہ میں داخل ہو گئے ہیں اور اگلے سال عمرہ کے لیے دوبارہ آ جائیں۔ چنانچہ جب سُہیل سامنے آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دُور سے دیکھ کر فرمایا:

اس شخص کو دوبارہ بھیجنے کا مطلب ہے کہ قریش نے صلح کا ارادہ کیا ہے۔

(سیرت الحلبیہ جلد 3 صفحہ 27 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حدیبیہ کے موقع پر صلح کے بارے میں

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓنے اس طرح لکھا ہےکہ ’’جب سُہَیل بن عمرو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تو آپؐ نے اسے دیکھتے ہی فرمایا: یہ سُہَیل آتا ہے۔ اب خدا نے چاہا تومعاملہ سہل ہو جائے گا۔‘‘ آسان ہو جائے گا۔ ’’بہرحال سُہَیل آیا اور آتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا کہ آؤ جی (اب لمبی بحث جانے دو) ہم معاہدہ کے لیے تیار ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم بھی تیار ہیں۔ اوراس ارشاد کے ساتھ ہی آپؐ نے اپنے سیکرٹری (حضرت علیؓ) کوبلوا لیا۔ (اور چونکہ شرائط پر ایک عمومی بحث پہلے ہو چکی تھی اور تفاصیل نے ساتھ ساتھ طے پانا تھا) اس لیے کاتب کے آتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لکھو‘‘ حضرت علی ؓکو فرمایا کہ لکھو۔ خود آپؐ نے لکھوانا شروع کیا۔ ’’’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘‘‘سے شروع کیا۔ ’’سُہَیل صلح کے لیے توتیار تھا مگر قریش کے حقوق کی حفاظت اور اہل مکہ کے اکرام کے لیے بھی بہت چوکس رہنا چاہتا تھا۔ فوراً بولا یہ رحمٰن کا لفظ کیسا ہے ہم اسے نہیں جانتے۔ جس طرح عرب لوگ ہمیشہ سے لکھتے آئے ہیں اس طرح لکھو یعنی بِاِسْمِکَ اَللّٰھُمَّ۔‘‘ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نہیں لکھنا بلکہ بِاِسْمِکَ اَللّٰھُمَّ لکھو۔ ’’دوسری طرف مسلمانوں کے لیے بھی قومی عزت اور مذہبی غیرت کا سوال تھا وہ بھی اس تبدیلی پر فوراً چونک پڑے اور کہنے لگے ہم تو ضرور بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ہی لکھیں گے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر مسلمانوں کو خاموش کرا دیا کہ نہیں نہیں اس میں کوئی حرج نہیں۔ جس طرح سُہَیل کہتاہے اسی طرح لکھ لو۔ چنانچہ بِاِسْمِکَ اَللّٰھُمَّ کے الفاظ لکھے گئے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لکھو ’’یہ وہ معاہدہ ہے جو محمدرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کیا ہے۔‘‘ سُہَیل نے پھرٹوکا کہ یہ رسول اللہ کا لفظ ہم نہیں لکھنے دیں گے۔ اگر ہم یہ بات مان لیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں توپھر تو یہ سارا جھگڑا ہی ختم ہوجاتا ہے اور ہمیں آپ کو روکنے اور آپ کا مقابلہ کرنے کا کوئی حق نہیں رہتا۔ بس جس طرح ہمارے ہاں طریق ہے صرف یہ الفاظ لکھو کہ محمد بن عبداللہ نے یہ معاہدہ کیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’آپ لوگ مانیں نہ مانیں میں خدا کا رسول تو ہوں‘‘ مگر چونکہ میں محمد بن عبداللہ بھی ہوں اس لیے چلو یہی سہی۔‘‘اس طرح لکھ لو۔ ’’لکھو کہ محمدؐ بن عبداللہ نے یہ معاہدہ کیا ہے۔‘‘مگر اس اثنا میں آپ کے کاتب حضرت علیؓ معاہدہ کی تحریر میں ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ لکھ چکے تھے۔ آپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: محمدؐ رسول اللہ کے الفاظ مٹا دو اور ان کی جگہ محمد بن عبداللہ کے الفاظ لکھ دو۔ مگر اس وقت جوش کا عالم تھا حضرت علیؓ نے غیرت میں آکر عرض کیا ’’یارسول اللہؐ! میں تو آپ کے نام کے ساتھ سے رسول اللہ کے الفاظ کبھی نہیں مٹاؤں گا۔‘‘آپؐ نے ان کی ازخود رفتہ حالت کو دیکھ کر فرمایا اچھا تم نہیں مٹاتے تو مجھے دو میں خود مٹا دیتا ہوں۔ پھر آپؐ نے معاہدہ کا کاغذ (یا جو کچھ بھی وہ تھا) ہاتھ میں لے کر اور حضرت علیؓ سے ان الفاظ کی جگہ پوچھ کر رسول اللہ کے الفاظ اپنے ہاتھ سے کاٹ دیے اور ان کی جگہ ابن عبداللہ کے الفا ظ لکھ دیے۔ ‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ764-765)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اس بات کو اپنی کتاب میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ’’اس کے بعد آپؐ نے لکھوایا کہ ’’معاہدہ یہ ہے کہ اہل مکہ ہمیں بیت اللہ کے طواف سے نہیں روکیں گے۔‘‘سُہَیل فوراً بولا ’’خدا کی قسم! اس سال تو یہ ہرگز نہیں ہو سکے گا ورنہ عربوں میں ہماری ناک کٹ جائے گی۔ ہاں اگلے سال آپ لوگ آکر طواف کرسکتے ہیں۔‘‘آپؐ نے فرمایا اچھا یہی لکھو۔ پھر سُہَیل نے اپنی طرف سے لکھایا کہ یہ بھی شرط ہوگی کہ اہل مکہ میں سے کوئی شخص مسلمانوں کے ساتھ جا کر شامل نہیں ہو سکے گا خواہ وہ مسلمان ہو۔ اور اگر ایسا کوئی شخص مسلمانوں کی طرف جائے گا تواسے واپس لوٹا دیا جائے گا۔ صحابہ نے اس پر شورمچایا کہ سبحان اللہ! یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مسلمان ہو کر آئے اورہم اسے لوٹا دیں۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 766)

بہرحال یہ معاہدہ لکھوایا جا رہا تھا۔

اسی دوران اچانک حضرت اَبُوجَنْدَلؓ بن سُہَیل آ گئے۔

ان کے پاؤں میں زنجیریں تھیں۔وہ مکہ مکرمہ کے نشیبی علاقے سے نکلے اور خود کو مسلمانوں کے سامنے پھینک دیا۔ سُہَیل جو معاہدہ لکھوا رہا تھا اس کے بیٹے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے۔ ان کے باپ سُہَیل نے ان کو زنجیروں میں باندھ کر قید رکھا ہوا تھا اور وہ قید خانے سے نکل کر عام راستے سے بچتے ہوئے پہاڑوں پر سے ہوتے ہوئے حدیبیہ آ گئے تھے۔ مسلمان انہیں خوش آمدید کہنے لگے اور مبارکباد دینے لگے۔ جب حضرت اَبُوجَنْدَلؓ کے باپ سُہَیل نے انہیں دیکھا تو ان کی طرف کھڑا ہوا اور ان کے چہرے پر کانٹے دار ٹہنی ماری اور گریبان سے پکڑ لیا۔ پھر کہنے لگا اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم)یہ پہلا معاملہ ہے جس کے بارے مَیں نے آپ کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ اب تم اس کو واپس کر دو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تک صلح نامہ مکمل نہیں ہوا تو سُہَیل نے کہا اللہ کی قسم !تب میں کسی چیز پر بھی آپ سے صلح نہیں کروں گا۔ پھر آپؐ نے کہا آپ اس کو میرے لیے چھوڑ دیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارش کی کہ اچھا میرے لیے چھوڑ دو اس کو۔ سُہَیل نے کہا میں اس کو کسی صورت چھوڑنے والا نہیں ہوں۔ آپؐ نے کہا نہیں تم اسے چھوڑ دو۔ دوبارہ کہا۔ سُہَیل نے کہا میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔ مِکرِز بن حفص اور حُویطِب بن عبدالعزّٰی جو اس کے ساتھ تھے انہوںنے کہا کہ ہم نے اس کو آپ کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ دونوں نے حضرت اَبُوجَنْدَل ؓکو پکڑ کر ایک خیمہ میں داخل کر دیا اور اس کو اجازت دے دی لیکن اس کے باپ سُہَیل نے انکار کر دیا۔ حضرت اَبُوجَنْدَلؓ نے کہا اے مسلمانوں کے گروہ !کیا اب مجھے مشرکین کی طرف لوٹا دیا جائے گاحالانکہ میں مسلمان ہو کر آیا ہوں۔ تم ان مصیبتوں کو نہیں دیکھتے جو مجھے پیش آئی ہیں اور مجھے سخت عذاب دیا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز بلند کر کے فرمایا

اے ابو جندل! صبر کر اورثواب کی امید رکھ۔ بیشک اللہ تعالیٰ تیرے لیے اور تیرے کمزور ساتھیوں کے لیے کشادگی اور نجات کا راستہ پیدا کر دے گا۔ ہم نے قوم کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا ہے اور ہم نے ان کو اور انہوں نے ہم کو عہد دیا ہے اور ہم دھوکانہیں کرتے۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5 صفحہ 55۔56 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

اس موقع پر

حضرت عمر ؓکے جوش و خروش کا ذکر

بھی ملتا ہے۔ لکھا ہے کہ مسلمانوں نے ان شرائط کو ناپسند کیا اور غضبناک ہو گئے۔ سُہَیل نے ان شرائط کے علاوہ سے صلح کا انکار کر دیا۔ جب انہوں نے صلح طے کر لی تو صرف لکھنا باقی تھا کہ عمر بن خطابؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے اور کہا یا رسول اللہ !کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور وہ کافر باطل پر نہیں ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کیوں نہیں! تو انہوںنے کہا کہ کیا ہمارے مقتول جنت میں نہیں اور ان کے مقتول آگ میں نہیں؟ آپؐ نے فرمایا کیوں نہیں!تو حضرت عمر ؓنے کہا کہ ہم حدیبیہ کے دن جو صلح کر رہے ہیں تو اپنے دین سے متعلق ایسی ذلت کیوں برداشت کریں۔ کیا ہم یہاں سے یونہی لوٹ جائیں یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہ کر دے۔ بغیر لڑے چلے جائیں بغیر حق لیے چلے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَیں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور میں اس کی نافرمانی نہیں کرتا اور وہ مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ اور وہ میری مدد کرنے والا ہے۔

تو عمر بن خطاب نے کہا کیا آپ نے ہم کو نہیں بتایا تھا کہ ہم بیت اللہ میں عنقریب آئیں گے اور بیت اللہ کا طواف کریں گے؟ تو آپؐ نے فرمایا کیوں نہیں! کیا میں نے تمہیں یہ بتایا تھا کہ تم اس سال آؤ گے؟ حضرت عمرؓ نے کہا نہیں۔پھر فرمایا:

بیشک تم بیت اللہ آ ؤ گے اور اس کا طواف کرو گے۔

پھر حضرت عمر ؓغصہ کی حالت میں حضرت ابوبکر ؓکی طرف گئے اور صبرنہیں کیا۔ کہنے لگے اے ابوبکر! کیا یہ اللہ کے نبی حق پر نہیں ہیں؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کیوں نہیں! پھر حضرت عمر ؓنے کہا کیا وہ باطل پر اور ہم حق پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارے مقتولین جنت میں اور ان کے مقتولین جہنم میں نہی ںجائیں گے؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کیوںن ہیں! اس پر حضرت عمر ؓنے کہا: پھر کیوں ہم اپنے دین میں کمزوری اختیار کریں اور ہم اس حال میں واپس لوٹ جائیں کہ اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیںکیا تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ

وہ اللہ کے رسولؐ ہیں اور اپنے ربّ کی نافرمانی نہیں کرتے ۔اور اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے والا ہے۔ پھر حضرت عمرؓ کو کہا کہ پس تُو اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ مرتے دم تک منسلک رکھ۔ اللہ کی قسم !وہ حق پر ہیں

اور ایک روایت میں ہے کہ کہا وہ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ پھر حضرت عمر ؓنے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسولؐ ہیں۔پھر کہا کیا وہ ہم سے بیان نہی ںکرتے تھے کہ عنقریب ہم بیت اللہ آئیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کیوں نہیں!کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں یہ خبر دی تھی کہ اسی سال طواف کرو۔ حضرت عمر ؓنے کہا نہیں۔ تو حضرت ابوبکر نے کہا کہ تو تم ضرور بیت اللہ جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے۔ بہرحال حضرت عمرؓ پر یہ شرائط بہت گراں گزریں۔

بخاری میں یہ ذکر ہے کہ حضرت عمر ؓنے بیان کیا کہ اللہ کی قسم !جب سے میں اسلام لایا تو میں نے کبھی شک نہیں کیاسوائے حدیبیہ کے دن کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا جواب دیتا رہا۔ یعنی کہ میں کبھی آگے سے بولا نہیںتھا لیکن اس وقت بولتا رہا۔ حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ نے کہا اے ابن خطاب !تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو کیوں نہیںسنتا جو وہ کہتے ہیں۔ تُو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ اور اپنی رائے درست کر۔ حضرت عمر ؓنے کہا پھر میں اللہ کی پناہ طلب کرنے لگا۔ مجھے اتنی شرم کبھی بھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ پھر میں نیک اعمال بھی کرتا رہا تا کہ اس گناہ کی معافی ہو سکے جو میں نے حکم بجا لانے میں ابتدا میں توقف کیا تھا۔ میں اس گفتگو کی وجہ سے جو میں نے حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی تھی صدقہ کرتا رہا، روزے رکھتا رہا اور غلام آزاد کرتا رہا یہاں تک کہ مجھے امید ہو گئی کہ اب خیر ہو گی۔یعنی کہ احساس ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ اب بخش دے گا۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5 صفحہ 52۔53 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے کہ’’ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ

میں نے تم کو بہت حکم دئیے مگر میں نے تم سے مخلص ترین لوگوں کے اندر بھی بعض دفعہ احتجاج کی روح دیکھی مگر ابوبکرؓ کے اندر میں نے یہ روح کبھی نہیں دیکھی۔‘‘

حضرت ابوبکر ؓکی یہ صفت بیان کی کہ کبھی انہوں نے میری بات کا انکار نہیں کیا، چاہے پسند ہے یا نہیں ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا انسان بھی گھبرا گیا اور وہ اسی گھبراہٹ کی حالت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گئے اور کہا کہ کیا ہمارے ساتھ خدا کا یہ وعدہ نہیں تھا کہ ہم عمرہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں خدا کا وعدہ تھا۔ انہوںنے کہا کیا خدا کا ہمارے ساتھ یہ وعدہ نہیں تھا کہ وہ ہماری تائید اور نصرت کرے گا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں تھا۔ انہوں نے کہا تو پھر کیا ہم نے عمرہ کیا؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا عمرؓ! خدا نے کب کہا تھا کہ ہم اسی سال عمرہ کریں گے؟ پھر انہوں نے کہا کہ کیا ہم کو فتح و نصرت حاصل ہوئی؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا خدا اور اس کا رسول فتح و نصرت کے معنے ہم سے بہتر جانتے ہیں مگر عمرکی اس جواب سے تسلی نہ ہوئی اور وہ اسی گھبراہٹ کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا خدا کا ہم سے یہ وعدہ نہ تھا کہ ہم مکہ میں طواف کرتے ہوئے داخل ہوں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ انہوں نے عرض کیا کہ کیا ہم خدا کی جماعت نہیں ؟ اور کیا خدا کا ہمارے ساتھ فتح و نصرت کا وعدہ نہیں تھا؟ آپ نے فرمایا۔ ہاں، تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا تو یا رسول اللہ! کیا ہم نے عمرہ کیا؟ آپ نے فرمایا کہ خدا نے کب کہا تھا کہ ہم اسی سال عمرہ کریں گے۔ یہ تو میرا خیال تھا کہ اس سال عمرہ ہو گا۔ خدا نے تو کوئی تعیین نہیں کی تھی۔ انہوں نے کہا تو پھر فتح و نصرت کے وعدے کے کیا معنے ہوئے؟‘‘ حضرت عمر ؓنے یہ سوال کیا۔ ’’آپؐ نے فرمایا نصرت خدا کی ضرور آئے گی اور جو وعدہ اس نے کیا ہے وہ بہرحال پورا ہو گا۔ گویا جو جواب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیا تھا وہی جواب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔‘‘

(خطبات محمود جلد 20صفحہ382)

حضرت عمر ؓکے بارے میں یہ مختلف روایات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے اور اپنے جذبات کا اظہار کرنے اور حضرت ابوبکر کے پاس جا کر یہی بات کرنے کی ملتی ہیں۔ ترتیب مختلف ہے جیسے پہلے بیان کی اور اب بیان کی لیکن واقعہ بہرحال ایک ہی ہے اور اس واقعہ کی صداقت پر ان کے آگے پیچھے ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔

صلح کے معاہدے کی تحریر

کے بارے میں سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’بہرحال بڑی رَدّوکَدْ کے بعد یہ معاہدہ تکمیل کوپہنچا اور قریباً ہر امر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو چھوڑ کر قریش کامطالبہ مان لیا اور خدائی منشاء کے ماتحت اپنے اس عہد کو پوری وفاداری کے ساتھ پورا کیا کہ بیت اللہ کے اکرام کی خاطر قریش کی طرف سے جو مطالبہ بھی ہو گا اسے مان لیا جائے گا اور بہرصورت حرم کے احترام کو قائم رکھا جائے گا اس معاہدہ کی شرائط حسب ذیل تھیں :۔

1۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھی اس سال واپس چلے جائیں۔

2۔ آئندہ سال وہ مکہ میں آکر رسم عمرہ اداکرسکتے ہیں مگر سوائے نیام میں بند تلوار کے کوئی ہتھیار ساتھ نہ ہو اورمکہ میں تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں۔

3۔ اگرکوئی مرد مکہ والوں میں سے مدینہ جائے توخواہ وہ مسلمان ہی ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے مدینہ میں پناہ نہ دیں اور واپس لوٹا دیں۔ چنانچہ اس تعلق میںصحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں کہ لَا یَأْتِیْکَ مِنَّا رَجُلٌ وَاِنْ کَانَ عَلٰی دِیْنِکَ اِلَّا رَدَدْتَہٗ اِلَیْنَا۔ یعنی ’’ہم میں سے اگر کوئی مرد آپ کے پاس جائے تو آپ اسے واپس لوٹا دیں گے‘‘ لیکن اگر کوئی مسلمان مدینہ کوچھوڑ کر مکہ میںآجائے تو اسے واپس نہیںلوٹایا جائے گا۔‘‘ انہوں نے اپنی شرط منوا لی کہ مسلمان ہو کے اگر کوئی مدینہ جاتا ہے تو واپس ہو گا لیکن اگر مسلمان کسی طرح مکہ میں آ جائے اور پکڑا جائے تووہ واپس نہیں لوٹایا جائے گا۔

’’اور ایک روایت میں یہ ہے کہ اگر مکہ والوں میں سے کوئی شخص اپنے ولی یعنی گارڈین (guardian) کی اجازت کے بغیر مدینہ آجائے تواسے واپس لوٹادیا جائے گا۔

4۔ قبائل عرب میں سے جو قبیلہ چاہے مسلمانوں کاحلیف بن جائے اورجو چاہے اہل مکہ کا۔‘‘

اور پانچویں شرط یہ تھی کہ

’’5۔ یہ معاہدہ فی الحال دس سال تک کے لیے ہوگا اوراس عرصہ میں قریش اور مسلمانوں کے درمیان جنگ بندرہے گی۔‘‘

صلح حدیبیہ کے گواہ

کے بارے میں تفصیل اس طرح ہے کہ ’’اس معاہدہ کی دو نقلیں کی گئیں اور بطور گواہ کے فریقین کے متعدد معززین نے ان پر دستخط ثبت کیے۔ مسلمانوں کی طرف سے دستخط کرنے والوں میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ (جو اس وقت تک مکہ سے واپس آ چکے تھے) عبدالرحمن بن عوفؓ، سعد بن ابی وقاصؓ اور ابوعبیدہؓ تھے۔ معاہدہ کی تکمیل کے بعد سُہَیل بن عمرو معاہدہ کی ایک نقل لے کر مکہ کی طرف واپس لوٹ گیا اور دوسری نقل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہی۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اےصفحہ 768۔769)

صحابہؓ میں اضطراب

کا بھی ذکر ملتا ہے جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ جب آپؐ اس تحریر کے قضیہ سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا کہ اٹھو اپنے اونٹوں کو ذبح کرو۔ پھر سر منڈواؤ۔ تو ان میں سے کوئی ایک بھی کھڑا نہ ہوا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بات تین دفعہ کہی۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5 صفحہ 56 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ’’جب سُہَیل واپس جاچکا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ ’’لو اب اٹھو اور یہیں اپنی قربانیاں ذبح کر کے سروں کے بال منڈوا دو۔ (قربانی کے بعد سر کے بالوں کو منڈوایا یا کتروایا جاتا ہے) اور واپسی کی تیاری کرو‘‘ مگر صحابہ کو اس بظاہر رسواکن معاہدہ کی وجہ سے سخت صدمہ تھا اور ساتھ ہی جب انہیں اس طرف خیال جاتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ایک خواب کی بنا پر یہاں لائے تھے اور اللہ تعالیٰ نے خواب میں طواف بیت اللہ کا نظارہ بھی دکھایا تھا توان کی طبیعت‘‘ صحابہ کی طبیعت’’بہت مضمحل ہونے لگتی اور وہ قریباً بے جانوں کی طرح بے حس وحرکت پڑے تھے۔ انہیںخدا کے رسول پر پورا پورا ایمان تھا اور اس کے وعدہ پر بھی کامل یقین تھا مگر لوازمات بشریت کے ماتحت‘‘ بشری تقاضے ہیں ’’ان کے دل اس ظاہری ناکامی پر غموں سے نڈھال تھے۔‘‘ فوری ری ایکشن یہ تھا۔ ’’اس لیے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ فرمایا کہ اب یہیں قربانی کے جانور ذبح کر دو۔‘‘ مکہ میں ہم داخل ہوئے ہیں یا نہیں ،کعبہ میں گئے ہیں یا نہیں، طواف کیا ہے یانہیں۔ یہاں بیٹھے ہیں قربانی کر دو ’’اور واپس لوٹ چلو تو کسی صحابی نے سامنے سے حرکت نہ کی۔‘‘ کوئی بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ جو قربانیاں کرنے لائے تھے سب بیٹھے رہے۔ ’’اس لیے نہیں کہ وہ نعوذ باللہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نافرمان تھے کیونکہ صحابہ سے بڑھ کر دنیاکے پردے پرکوئی فرمانبردار جماعت نہیں گزری۔ پس ان کی طرف سے یہ عدم تعمیل بغاوت یا نافرمانی کے رنگ میں نہ تھی بلکہ اس لیے تھی کہ غم اور ظاہری ذلت کے احساس نے انہیں اتنا نڈھال کر رکھا تھا کہ وہ گویا سنتے ہوئے نہ سنتے تھے اور دیکھتے ہوئے بھی ان کی آنکھیں کام نہ کرتی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد کو دوبارہ، سہ بارہ دہرایا مگر کسی صحابی نے سامنے سے حرکت نہ کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا صدمہ ہوا‘‘ کہ میرے حکم پر کوئی عمل نہیں کر رہا۔’’اور آپؐ خاموش ہوکر اپنے خیمہ کے اندر تشریف لے گئے۔ اندرونِ خیمہ آپؐ کی حرم محترم حضرت ام سَلَمہؓ جوایک نہایت زیرک خاتون تھیں یہ سارا نظارہ دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے اپنے مؤقّر اور محبوب خاوند کو فکر مند حالت میں اندر آتے دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے آپؐ کے فکروتشویش کی تفاصیل معلوم کیں تو ہمدردی اور محبت کے انداز میں عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )آپ رنج نہ فرمائیں۔ آپ کے صحابہ خدا کے فضل سے نافرمان نہیں۔ مگر اس صلح کی شرائط نے انہیںغم سے دیوانہ بنا رکھا ہے۔ پس میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ ان سے کچھ نہ فرمائیں بلکہ خاموشی کے ساتھ باہر جاکر اپنے قربانی کے جانور کوذبح فرما دیں اور اپنے سر کے بالوں کو منڈوا دیں۔ پھرآپ کے صحابہ خود بخود آپ کے پیچھے ہولیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تجویز پسند آئی اور آپؐ نے باہر تشریف لا کر بغیر کچھ کہے اپنے قربانی کے جانور کو ذبح کرکے اپنے سرکے بال منڈوانے شروع کردیے۔

صحابہؓ نے یہ منظر دیکھا تو جس طرح ایک سویا ہوا شخص کوئی شور وغیرہ سن کر اچانک بیدار ہوتا ہے وہ چونک کر اٹھ کھڑے ہوئے اور دیوانہ وار اپنے جانوروں کو ذبح کرنا شروع کردیا اور ایک دوسرے کے سر کے بال مونڈنے لگے۔

مگر غم نے اس قدر بے چین کررکھا تھا کہ راوی بیان کرتا ہے کہ

اس وقت ایسا عالم تھا کہ ڈر تھا کہ مسلمان کہیں ایک دوسرے کے بال مونڈتے مونڈتے ایک دوسرے کا گلا ہی نہ کاٹ دیں۔

بہرحال حضرت ام سلمہ ؓکی تجویز کارگر ہوئی اورجہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک کے الفاظ وقتی طور پر ناکام رہے تھے آپؐ کے عمل نے سوئے ہوؤں کو چونکا کر بیدار کر دیا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اےصفحہ 769۔770)

یہ حوالہ بھی سیرت خاتم النبیین ؐکا ہے۔

چنانچہ جب حُدَیبیہ مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی کے اونٹ کو ذبح کر دیا تو قربانی کے جانوروں میں سے ابوجہل کا اونٹ جو بدر کے مال غنیمت میں سے تھا اس وقت بھاگ گیا جب وہ چَر رہا تھا۔ وہ چھوڑا ہوا تھا چلا گیا اور اس کو ہار پہنایا گیا تھا اور اس کا اِشعار کیا گیا۔ وہ کچھ عرصہ کے لیے دوڑ گیا لیکن بہرحال آخر میں اس وقت پکڑا گیا تو قربانی کے لیے لایا گیا تھا۔ آپؐ نے اس اونٹ کو سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کیا۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستّر جانوروں کو ذبح کیا۔ ایک جانور سات آدمیوں کی طرف سے تھا اور اس دن ہم چودہ سو آدمی تھے۔

قربانی کرنے والے لوگوں سے زیادہ وہ لوگ تھے جنہوں نے قربانی نہیں کی تھی۔ اتنی حیثیت نہیں تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرم سے باہر مقیم تھے لیکن نمازیں حرم میں ادا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلم قبیلہ کے ایک آدمی کے ہاتھ اپنےقربانی کے جانوروں میں سے بیس جانور بھیجے تا کہ وہ ان جانوروں کو مَرْوَہ کے قریب ذبح کر دے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانوروں کو ذبح کرنے سے فارغ ہو گئے تو خیمے میںتشریف لے گئے اور حضرت خِرَاشْ بن اُمَیّہ ؓکو بلایا اور اپنے سر کا حلق کروایااور اپنے بالوں کو ایک جانب میں سبز خاردار درخت کے اوپر ڈال دیا۔ لوگ درخت کے اوپر سے بال اٹھانے لگے اور آپس میں تقسیم کرنے لگے۔ حضرت اُمِّ عُمَارہ ؓنے آپؐ کے کچھ بال لیے۔ وہ مریض کے لیے انہیں پانی میں ڈالتیں اور مریض کو بھی علاج کے لیے پلاتیں۔ تو کہتے ہیں کہ جن کا علاج کیا جاتا ان میں سے بعض مریض تندرست ہو جاتے تھے۔ ان میں برکت تھی۔ صحابہؓ میں سے بعض بعض کا سر مونڈنے لگے۔ بعض نے بال منڈوائے اور بعض نے بال کتروائے جن میں حضرت عثمانؓ اور حضرت ابوقتادہؓ بھی شامل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر خیمہ سے باہر نکالا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پر رحم کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ اور قصر کروانے والے۔ یعنی کٹوانے والوں سے؟ تو

تین دفعہ آپؐ نے فرمایا اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم کرے اور چوتھی مرتبہ فرمایا اور قصر کرنے والوں یعنی بال کتروانے والوں پر بھی رحم کرے۔

روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ میں انیس(19) دن تک مقیم رہے اور کہا جاتا ہے کہ بیس(20) راتیں قیام کیا۔ محمد بن عمرواقدی اور ابن سعد نے اس کا ذکر کیا ہے۔

( سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5 صفحہ57دار الکتب العلمیۃ بیروت)

(سیرت الحلبیہ جلد 3 صفحہ34دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’قربانی وغیرہ سے فارغ ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف واپسی کا حکم دیا۔ اس وقت آپؐ کو حدیبیہ میں آئے کچھ کم بیس یوم ہوچکے تھے۔ جب آپؐ واپسی سفر میں عُسْفَان کے قریب کُرَاعُ الغَمِیْمِ میں پہنچے اور یہ رات کا وقت تھا تواعلان کراکے صحابہ کو جمع کروایا اور فرمایا کہ

آج رات مجھ پر ایک سورة نازل ہوئی ہے جومجھے دنیا کی سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے

اور وہ یہ ہے۔

اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ﴿۲﴾ لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ وَ یَہۡدِیَکَ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا ﴿۳﴾ وَّ یَنۡصُرَکَ اللّٰہُ نَصۡرًا عَزِیۡزًا …‘‘ یہ دوسے چار تک آیتیں ہیں سورت فتح کی۔ پھر اٹھائیسویں آیت بھی اس کے بارے میں ہے کہ ’’لَقَدۡ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ مُحَلِّقِیۡنَ رُءُوۡسَکُمۡ وَ مُقَصِّرِیۡنَ لَا تَخَافُوۡنَ (الفتح :2تا4و 28)

یعنی ’’اے رسول! ہم نے تجھے ایک عظیم الشان فتح عطا کی ہے تاکہ ہم تیرے لیے ایک ایسے دور کاآغاز کرا دیں جس میں تیری اگلی اور پچھلی سب کمزوریوں پر مغفرت کا پردہ پڑجائے اور تاخدا اپنی نعمت کو تجھ پر کامل کرے اورتیرے لیے کامیابی کے سیدھے رستے کھول دے اور ضرور خدا تعالیٰ تیری زبردست نصرت فرمائے گا … حق یہ ہے کہ خدا نے اپنے رسول کی اس خواب کوپورا کردیا جواس نے رسول کو دکھائی تھی۔ کیونکہ اب تم انشاء اللہ ضرور ضرور امن کی حالت میں مسجد حرام میں داخل ہو گے اور قربانیوں کوخدا کی راہ میں پیش کرکے اپنے سر کے بالوں کو منڈواؤ گے یا کترواؤ گے اورتم پر کوئی خوف نہیں ہو گا۔‘‘یعنی

اگر تم اس سال مکہ میں داخل ہو جاتے تو یہ داخلہ امن کا نہ ہوتا بلکہ جنگ اور خون ریزی کاداخلہ ہوتا مگر خدا نے خواب میں امن کا داخلہ دکھایا تھا۔ اس لیے خدا نے اس سال معاہدہ کے نتیجہ میں امن کی صورت پیدا کر دی اور اب عنقریب تم خدا کی دکھائی ہوئی خواب کے مطابق امن کی حالت میں مسجد حرام میں داخل ہوگے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

جب آپؐ نے یہ آیات صحابہ کو سنائیں تو چونکہ بعض صحابہؓ کے دل میں ابھی تک صلح حدیبیہ کی تلخی باقی تھی وہ حیران ہوئے کہ ہم تو بظاہر ناکام ہوکر واپس جارہے ہیں اور خدا ہمیں فتح کی مبارک باد دے رہا ہے حتّٰی کہ بعض جلد باز صحابہؓ نے اس قسم کے الفاظ بھی کہے کہ کیا یہ فتح ہے کہ ہم طواف بیت اللہ سے محروم ہوکر واپس جارہے ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپؐ نے بہت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور ایک مختصر سی تقریر میں جوش کے ساتھ فرمایا: ’’یہ بہت بیہودہ اعتراض ہے کیونکہ

غور کیا جائے توواقعی حدیبیہ کی صلح ہمارے لیے ایک بڑی بھاری فتح ہے۔‘‘

فرمایا کہ

’’قریش جو ہمارے خلاف میدان جنگ میں اترے ہوئے تھے انہوں نے خود جنگ کوترک کرکے امن کا معاہدہ کرلیا ہے اور آئندہ سال ہمارے لیے مکہ کے دروازے کھول دینے کا وعدہ کیا ہے اور

ہم امن وسلامتی کے ساتھ اہل مکہ کی فتنہ انگیزیوں سے محفوظ ہو کر آئندہ فتوحات کی خوشبو پاتے ہوئے واپس جا رہے ہیں۔ پس یقیناً یہ فتح ایک عظیم الشان فتح ہے۔

کیا تم لوگ ان نظاروں کو بھول گئے کہ یہی قریش اُحُد اور احزاب کی جنگوں میں کس طرح تمہارے خلاف چڑھائیاںکر کر کے آئے تھے۔ اور یہ زمین باوجود فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی تھی اور تمہاری آنکھیں پتھراگئی تھیں اورکلیجے منہ کو آتے تھے۔مگرآج یہی قریش تمہارے ساتھ امن وامان کا معاہدہ کر رہے ہیں۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم سمجھ گئے۔ ہم سمجھ گئے۔ جہاں تک آپؐ کی نظر پہنچی ہے وہاں تک ہماری نظر نہیں پہنچتی۔مگراب ہم نے سمجھ لیا ہے کہ واقعی یہ معاہدہ ہمارے لیے ایک بھاری فتح ہے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے770تا 772)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بیان فرماتے ہیں کہ

’’حدیبیہ کے قصہ کو خدا تعالیٰ نے فتح مبین کے نام سے موسوم کیا ہے اور فرمایا ہے۔
إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِيْنًا۔ (الفتح:2) وہ فتح اکثر صحابہؓ پر بھی مخفی تھی بلکہ بعض منافقین کے ارتداد کی موجب ہوئی مگر دراصل وہ فتح مبین تھی۔ گو اس کے مقدمات نظری اور عمیق تھے۔‘‘

( انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 9صفحہ 90)

علامہ بَلَاذُرِی نے لکھا ہے کہ صلح کے بہت سے نتائج اور ثمرات ظاہر ہوئے۔ بالآخر مکہ مکرمہ فتح ہوا۔ سارے مکہ والے اسلام میں داخل ہو گئے۔ لوگ گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صلح سے قبل لوگ باہم مل نہیں سکتے تھے نہ ان کے سامنے آپؐ کا معاملہ عیاں تھا۔ ان کے پاس ایسا شخص نہ آتا جو تفصیل سے آپؐ کے حالات بتاتا۔

جب صلح حدیبیہ ہوئی تو لوگ باہم ایک دوسرے سے ملے۔ مشرکین مدینہ آئے۔ مسلمان مکہ گئے۔ وہ اپنے اہل خانہ دوستوں اور خیر خواہوں سے ملے۔ ان سے حضور اکرم ؐکے ارشادات اور معجزات کا ذکر سنا۔ نبوت کی علامتیں جانیں۔ آپ کی حسن سیرت اور اسوہ حسنہ سے آگاہ ہوئے۔ بہت سے امور کا بنظر خود جائزہ لیا تو ان کے نفس ایمان کی طرف مائل ہوئے حتی کہ بہت سے لوگوں نے ایمان لانے کی طرف جلدی کی اور صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان اسلام لے آئے۔ دوسروں کا اسلام کی طرف میلان ہو گیا حتی کہ مکہ کے روز سارے ایمان لے آئے۔ اہل عرب قریش کے اسلام لانے کے ہی منتظر تھے۔ جب قریش ایمان لے آئے تو سارا عرب ایمان لے آیا۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5 صفحہ 80 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صلح حدیبیہ کی ہے تو

صلح حدیبیہ کے مبارک ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کو آپ کے پاس آنے کا موقع ملا اور انہوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں تو ان میں صدہا مسلمان ہو گئے۔

جب تک انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں نہ سنی تھیں ان میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک دیوار حائل تھی جو آپؐ کے حُسن و جمال پر ان کو اطلاع نہ پانے دیتی تھی

اور جیسا دوسرے لوگ کذاب کہتے تھے (معاذ اللہ) وہ بھی کہہ دیتے تھے اور ان فیوض و برکات سے بے نصیب تھے جو آپؐ لے کر آئے تھے اس لیے کہ دُور تھے۔ لیکن جب وہ حجاب اٹھ گیا اور پاس آکر دیکھا اور سنا تو وہ محرومی نہ رہی اور سعیدوں کے گروہ میں داخل ہو گئے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 371۔ ایڈیشن 2022ء)

باقی انشاء اللہ آئندہ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button