حضرت مصلح موعود ؓ

سالِ رواں میں ہمارا نصب العین

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲؍جنوری ۱۹۲۵ء)

۱۹۲۵ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے جماعت کو آئندہ آنے والے سال میں تبلیغ کو نصب العین بنانے کی تلقین فرمائی ۔قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)

پچھلے سال جو کام ہوئے وہ ہماری طاقتوں اور ہمتوں سے بالا تھے اور بہت سے کام ایسے تھے جن میں ہمیں بہت بڑی کامیابی ہوئی۔ مگر وہ ہماری کسی کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ محض خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کا احسان تھا اور بہت سے ایسے کام ہیں جن میں ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں نے روکیں ڈال دی ہیں۔ ہماری کوشش اور ہماری جدوجہد اور ہمارا ہر ایک قدم جو ہم اس کی راہ میں بڑھاتے ہیں اور ہمارے تمام ارادے جو اعلاء کلمۃاللہ کے لئے ہوتے ہیں۔ وہ ایک بیج کی طرح ہوتے ہی۔ جس کے نتائج خدا کے ہاتھ میں ہوتے ہیں

تشهد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

جلسہ آیا اور گزر بھی چکا اب نیا سال شروع ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے اور اس کی غریب نوازی ہے کہ اس نے دیگر سالوں کی طرح پچھلے سال کو بھی ہماری ترقیوں اور کامیابیوں کا باعث بنایا اور اپنے دین اسلام کی اشاعت اور خدمت کی ہمیں توفیق عطا فرمائی۔ ہماری قوم کا جو حال ہے اور جو حیثیت ہے خدا کا فضل اس سے بہت بڑھ چڑھ کر ہم پر ہوا۔ دنیا دار دنیوی طور پر جس کشمکش میں پڑے ہوئے ہیں اور مال والے جن دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہیں۔ ریاستوں اور رتبوں اور شان والے جن جن مصائب میں گرفتار ہیں ان کو دیکھ کر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو کچھ ہوا وہ ہماری کسی کوشش سے ہوا۔

اگر وہ کام جو پچھلے سال ہوئے وہ ہماری عقل اور دانش کا نتیجہ ہوتے تو ہم سے بڑھ چڑھ کر عقل رکھنے والے دنیا میں موجود ہیں۔

ان سے وہ خدمت اسلام اور اعلاء کلمۃاللہ کا کام کیوں نہ ہو سکا اور اگر ہمارے علم و فضل کا نتیجہ ہوتے تو دنیا میں ہم سے بہت بڑھ کر عالم اور فاضل موجود ہیں اور اگر وہ کام جو پچھلے سال ہوئے وہ ہمارے روپے پیسے کا نتیجہ ہوتے تو دنیا میں ہم سے بہت زیادہ مال و دولت رکھنے والے بھی موجود تھے۔ بلکہ ہم تو غریب ہیں اور ہمارے مال اس فضل کے مقابلہ میں جو ہم پر ہوا کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتے اور اگر یہ خیال کیا جائے کہ جو کچھ ترقی اور کامیابی ہمیں ہوئی وہ ہمارے کسی رتبہ اور شان کی وجہ سے ہوئی۔ تو کیا وجہ ہے کہ ہم سے بہت زیادہ رتبے اور شان رکھنے والے تو دنیا میں موجود ہیں مگر ان سے وہ کام اور خدمت نہ ہو سکی۔ غرض ہر ایک چیز میں دوسرے لوگ ہم سے بہت زیادہ وافر حصہ رکھتے ہیں۔ اس لئے جو کچھ بھی ہوا محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوا۔

پس خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کے احسانوں اور غریب نوازیوں پر ہم سے بڑھ کر دوسرا کون ہے کہ وہ انشراح صدر سے الحمدلله رب العالمین کہہ سکے۔ دوسرے لوگ باوجود ہم سے زیادہ عقل رکھنے کے ان کی عقلیں ان کو کام نہ دے سکیں۔ورنہ جو کام خدا نے ہم سے لیا وہ اس کام میں بڑھ کر حصہ لیتے اور کامیاب ہوتے۔ پس وہ بیج جو بویا گیا وہ خدا کے فضل سے بڑھے گا اور پھولے گا اور پھلے گا اور اس کی رحمت کے سائے کے نیچے وہ ہمیشہ ہمیش اپنے تازہ سے تازہ ثمرات لاتا رہے گا اور زیادہ سے زیادہ بخشش اس کی ہم پر ہوگی اور ہماری ناچیز محنتیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ بڑی بڑی حیثیتیں رکھنے والے علم کے لحاظ سے، عقل کے لحاظ سے، مال کے لحاظ سے ، رتبہ و شان کے لحاظ سے اس خدمت اور کام کے کرنے سے محروم رہے۔ مگر خدا تعالیٰ نے ہماری جہالتوں اور ہماری کمزوریوں پر چشم پوشی کر کے اس خدمت اور اس کام کا ہمیں موقع عطا فرمایا اور سلسلہ کو وہ شہرت اور کامیابی عطا فرمائی جو کسی انسان کے اقتدار میں نہیں۔

پس خدا تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا شخص اس قابل نہیں ہو سکتا جس کے لئے یہ واجب ہو کہ خلوص دل سے ہم اس کو اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ کہیں

کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی اپنے کاموں میں مدد چاہتے ہیں جہاں سے انسان کو بہتر سے بہترتعلیمیں ملتی ہیں اور جہاں سے دنیا کے بادشاہوں کو حکومتیں اور بادشاہتیں ملتی ہیں اور جہاں سے مالدار تمام قسم کے مال اور ہر قسم کی چیزیں حاصل کرتے ہیں اور جس کے حضور یہ مال و متاع حقیر اور ہیچ ہیں اور جہاں سے انسان کو جتنی زیادہ نعمتیں ملتی ہیں۔ اتنی ہی زیادہ اس کی ذمہ داریوں اور بوجھ کو بڑھا دیتی ہیں۔ ایک غریب آدمی جو مفلس اور نادار ہے وہ تو رات کو آرام کی نیند سو رہتا ہے لیکن ایک مالدار کو جہاں اپنے مال کی خود حفاظت اور نگرانی کرنی پڑتی ہے وہاں اس کو نوکر بھی رکھنے پڑتے ہیں جو اس کے مال کو تباہی سے بچائیں۔

پس آج ہم سے زیادہ کوئی اس بات کا مستحق نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ کہہ سکے۔ کہ اے خدا !ہم تو نا اہل تھے۔ مگر تو نے اپنے فضل و کرم سے ہم پر وہ انعام اور وہ برکتیں نازل فرمائیں جو دوسروں پر نہیں۔ ہم بےکس ہیں۔ نااہل ہیں۔ تیرے انعامات کو جاننے اور سمجھنے کی ہم میں توفیق نہیں۔ ایک ناسمجھ اور بےخبر جس نے شیشے سے زیادہ کچھ نہ دیکھا ہو وہ ہیرے کی کیا قدر کرے گا اور ایک شخص جس کو پھٹے پرانے کپڑے بھی میسر نہ آئے ہوں وہ شاہی خلعت کی کیا قدر کرے گا۔ وہ کیا جان سکتا ہے کہ یہ خلعت کس قیمت کی ہے۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم کہیں اے خدا ہمیں اس بات سے محفوظ رکھ کہ ہم اپنی جہالت اور غلطی کی وجہ سے تیرے انعامات کو سمجھ نہ سکیں اور سیدھی راہ سے بھٹک جائیں۔ تو ہماری ایسی دست گیری فرما کہ ہم تیرے ہو جائیں اور تو ہمارا۔ یہ نیا سال شروع ہوتا ہے اور ہر نیا سال اپنی نئی ذمہ داریاں اپنے ہمراہ لاتا ہے۔ پچھلے سال جو کام ہوئے وہ ہماری طاقتوں اور ہمتوں سے بالا تھے اور بہت سے کام ایسے تھے جن میں ہمیں بہت بڑی کامیابی ہوئی۔ مگر وہ

ہماری کسی کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ محض خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کا احسان تھا اور بہت سے ایسے کام ہیں جن میں ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں نے روکیں ڈال دی ہیں۔

ہماری کوشش اور ہماری جدوجہد اور ہمارا ہر ایک قدم جو ہم اس کی راہ میں بڑھاتے ہیں اور ہمارے تمام ارادے جو اعلاءکلمۃاللہ کے لئے ہوتے ہیں۔ وہ ایک بیج کی طرح ہوتے ہیں جس کے نتائج خدا کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ آئندہ سال کیسا سال ہو گا اور کیا کیا خدا کے فضل اور اس کے احسان ہمراہ لائے گا۔ اس لئے میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس سال کو ہمارے لئے مبارک کرے اور وہ خود ہمارا ناصر و مددگار ہو۔ ہمارے قدموں کو گمراہی، جھوٹ اور لغزشوں سے محفوظ رکھے اور اس کی نصرت اور تائید ہمارے شامل حال ہوتا ہمارے دل اور ہماری زبانیں اور ہمارے جوارح اور ہماری گفتگو اور ہمارے تمام اعمال بھی اسی کے لئے ہوں۔ ہمارے ارادے اس کے ارادوں کے ماتحت ہوں۔ ہمیں سامان بھی میسر آئیں اور ہماری کوششوں میں برکت ہو اور نتائج کے لحاظ سے ماضی سے ہمارا استقبال اعلیٰ اور مکمل ہو جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں۔ ہر سال اپنے ساتھ نئے کام لاتا ہے اور انسان کو ہر سال ایک نیا نصب العین اپنے لئے مقرر کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے ہمیں بھی اس نئے سال کے لئے ایک نیا نصب العین مقرر کرنا چاہیے۔ گذشتہ سالوں میں جہاں تک ہم نے اپنے لئے نصب العین مقرر کئے اور جہاں تک ان میں ہمیں کامیابی ہوئی خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ پچھلے سالوں میں تو میرا یہ طریقہ رہا ہے کہ میں خود کوئی نہ کوئی آئندہ سال کے لئے نصب العین مقرر کرتا تھا۔ مگر آج میں وہ بات کہتا ہوں جو مجھے کہی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارا رب یہ چاہتا ہے کہ ہم بار بار اور دور دور ملکوں میں خدا تعالیٰ کے سچے اور سلامتی کے دین کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دیں۔ ہمارے رب نے یہ ارشاد کیا ہے۔ گو وہ ہمیشہ کے لئے ہے مگر اس کی حکمت یہی چاہتی ہے کہ اس کو اس سال کے لئے ہم اپنا نصب العین مقرر کریں کہ ہم اس کی سچی اور پاک تعلیم کو بار بار دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچا دیں اور کسی انسان سے نہ ڈریں۔ یہی حکم اس پیدا کرنے والے نے ہمیں دیا ہے۔ شائد اس کے علم میں یہ سال ہماری کامیابیوں کے لئے دوسرے سالوں سے بہت بڑھ کر ہو اور شائد یہ سال پچھلے سال سے اپنی عظمت اور نتائج کے لحاظ سے بہت بڑی شان رکھتا ہو اور ایسے لوگ سلسلہ میں داخل ہوں اور اس طرح داخل ہوں کہ پہلے سالوں میں اس کی نظیر نہ پائی جاتی ہو۔ مجھے یہ نہیں بتایا گیا کہ اسی سال یوں کرو۔ یہ میرا استدلال ہے کہ اس سال ہمیں اس کام کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے ارشاد جب دوبارہ نازل ہوتے ہیں تو ان سے مقصد یہی ہوتا ہے کہ یہ امور اس وقت کے لحاظ سے زیادہ قابل توجہ ہیں۔ اس لئے میں اس سال کے لئے جماعت کا نصب العین تبلیغ تجویز کرتا ہوں اور اپنے تمام ساتھیوں اور دوستوں کو اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں تا خدا کے فضل کے ماتحت پوری سعی اور کوشش سے اس کے دین کو دنیا کے کناروں تک پہنچایا جائے اور مجھے جو خدا نے بار بار تبلیغ کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی ہے تو اس میں حکمت ہے۔ ایک شخص ایک دفعہ بات کو نہیں سمجھتا۔ تو دوسری دفعہ تیسری دفعہ سن کر سمجھ جاتا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ایک شخص جو سو دفعہ سن کر نہیں سمجھ سکا وہ ایک سو ایک دفعہ سن کر نہیں سمجھے گا یا ایک ہزار دفعہ سن کر وہ ایمان نہیں لایا تو ایک ہزار ایک دفعہ سنانے سے وہ نہیں مانے گا۔ اس لئے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم تھکو نہیں۔ کمزوری اور سستی اپنی طرف سے تم نہ دکھلاؤ۔ تم نہیں جانتے کہ کون دور افتادہ اور کون دراصل ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہے۔ اس لئے وہ چاہتا ہے کہ تم کوشش کرو اور وقت پر ہدایت ہم دیں گے۔پس

ہر ایک کو مبلغ بن کر تبلیغ کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ خواہ وہ عالم ہو یا غیر پڑھا ہو۔

جہاں تک بھی اس کو علم ہو اور اسے واقفیت حاصل کرنی چاہیے وہ خدا کی تعلیم اور اس کی ہدایات کو دنیا تک پہنچائے تا خدا کا جلال ظاہر ہو اور لوگ اخلاص سے اس کی بادشاہت کو تسلیم کریں۔ دنیادار اپنی نادانی سے دوسرے مشاغل میں محو اور مشغول ہیں اور وہ اپنی نفسانی ہوا و ہوس میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو اپنی دنیوی ترقی اور جاہ و جلال کی فکر ہے۔ خدا کرے ہمارے دل میں کوئی فکر ہو تو وہ محض اس کے دین کی اور اس کے آب کی فکر ہو اور ہمیں توفیق ملے کہ ہم بہتر سے بہتر اور زیادہ سے زیادہ اس کے دین کے لئے کوشش کر سکیں اور ہمیں بار بار اس خدمت کا فخر حاصل ہو ۔ اللھم یا رب ۔ آمین ۔

(الفضل۸جنوری۱۹۲۵ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button