متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز

(دورہ امریکہ اور گوئٹے مالا۔ اکتوبر نومبر ۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ دوم)

اندھیرے وقت میں روشنی کا مینار

(گذشتہ سے پیوستہ)میں نے جاریاتو صاحبہ کی والدہ حاجہ کادیاتو صاحبہ سے بھی بات کی۔ وہ اپنی مقامی افریقی زبان میں بات کر رہی تھیں جبکہ ان کی بیٹی نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ حاجہ کادیاتو صاحبہ نے مجھے بتایا کہ انہیں اور ان کے شوہر کو کیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان کی وجہ سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

حاجہ کادیاتو صاحبہ نے کہاکہ ہمیں سیرا لیون کے مختلف دیہات میں تبلیغ کرنے پر بہت سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور لوگ ہم سے دُور رہنے لگے،تاہم ہم نے ہمیشہ الحمدللہ ہی کہا کہ ہمیں مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرنے کی توفیق ملی۔

حا جہ کادیاتو صاحبہ نے کہاکہ آج میں پہلی بار خلیفۃ المسیح سے ملی ہوں اور میرا دل شکرگزاری اور خوشی کے جذبات سے لبریز ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے مجھے شفا اور پاکیزگی نصیب ہو گئی ہے۔ بلاشبہ یہ میری زندگی کا سب سے پُر مسرت دن ہے۔ میں ایک ضعیف عورت ہوں۔ میں یہ سوچا کرتی تھی کہ شاید مجھے کبھی بھی حضورِانورسے ملنے کا موقع نہ ملے۔ اب میں سیرالیون واپس جانے کے لیے بیتاب ہوں تاکہ فخر سے سب کو بتا سکوں کہ میری حضور سے ملاقات ہوئی ہے اور حضور کے ساتھ تصویر بنوانے کی بھی سعادت ملی ہے۔

ایک اَور خاتون جنہوں نے حضور سے ملاقات کی، وہ افریقی نژاد امریکی نومسلمہ داوینا انیشہ صاحبہ تھیں۔ ان کی پیدائش نیویارک میں ہوئی تھی تاہم ان کا خاندان وسطی امریکہ کے چھوٹے سے ملک بیلیز سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ اس وقت میری لینڈ میں بطور ٹیچر خدمات انجام دے رہی ہیں۔

احمدیت قبول کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے داوینا انیشہ صاحبہ نے کہاکہ میں نے سال کے شروع میں اپنی ۳۸ویں سالگرہ کے موقع پر احمدیت قبول کی ہے۔ مجھے ہمارا پیغام ’محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں‘ بہت پسند ہے اور مجھے مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے پانچویں خلیفہ سے دلی محبت ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں نے اپنا قبیلہ پا لیا ہو۔

داوینا انیشہ صاحبہ نے مزید کہاکہ آج حضور کو دیکھنا میرے لیے بہت سحر انگیز تھا۔ حضورنہایت ملنسار اور نرم دل ہیں اور وہ میرے چھوٹے بچوں سے بڑی شفقت کے ساتھ ملے۔ مجھے حضور کی موجودگی میں برکت کا احساس ہوا اور حضورِانور نے مجھے اپنے نام کا کندہ ہوا ایک قلم بطور تحفہ دیا جومیں زندگی بھر ایک قیمتی خزانے کی طرح سنبھال کر رکھوں گی۔

ایک والد، دوست، بھائی اور ایک چچا

اسی دن بعد میں اور اگلے دن بھی حضورِانور نے ملاقاتوں کے سیشن کے دوران متعدد احمدی خاندانوں سے ملاقات کی۔

ان خوش نصیب افراد میں سے ایک گھانا کے رہائشی عبدالماجد ینفل صاحب (عمر ۵۴؍سال) ہیں جوپچھلے پچیس برس سے امریکہ میں مقیم ہیں۔

حضورِانور سے فلاڈیلفیا میں ملاقات کے بعد عبدالماجد ینفل صاحب نے کہاکہ میں صرف الحمدللہ کہنا چاہوں گا!حضور تمام افراد جماعت سے تسلی سے بات کرتے ہیں۔ وہ آپ سے ایسے بات کرتے ہیں جیسے کہ آپ کے والد، دوست، بھائی اور چچا ہوں۔ وہ آپ کو ہر وہ چیز فراہم کرتے ہیں جس کی آپ کو ضرورت ہو اور ان کی محبت جماعت کے تمام افراد پر محیط ہے۔ میری والدہ معذور ہیں اور باوجود اس کے کہ حضور کا ہر لمحہ قیمتی ہےپھر بھی حضورنے اس امر کویقینی بنایا کہ میری والدہ کو کوئی تکلیف نہ ہو اور ان کی تصویر بھی ہو سکے۔

عبدالماجد ینفل صاحب کہتے ہیں کہ ۲۰۰۸ء میں میری حضورِانور سے ملاقات ہوئی تو میں نے آپ کو بتایا کہ میری گرین کارڈ کی درخواست نو سال سے زیادہ عرصہ سے زیرِالتوا ہے۔ میں بہت فکرمند اور بکلی نا امید تھا مگر حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایافکر نہ کریں، کام ہو جائے گا۔چنانچہ اس کے بعد ایک ہفتہ سے بھی کم عرصہ میں مجھے اس امیگریشن انٹرویو کے لیے بلاوا آگیا جس کا انتظار میں نو سال سے کر رہا تھا۔ زیادہ تر لوگوں نے مجھے ڈرایا کہ انٹرویو بہت مشکل اور سخت ہو گا مگر میرا انٹرویو بہت آسان تھا بلکہ انہوں نے مجھے وہیں اسی وقت منظوری کا خط تھما دیا۔ بعد میں مجھے علم ہوا کہ ایسا عام طور پر کبھی نہیں ہوتا۔ میںبلامبالغہ اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی بنا پر برکاتِ خلافت پر ایک کتاب تحریر کر سکتا ہوں۔

اپنے دوست سے ملاقات

حضورِ انور سے پہلی بار ملاقات کرنے والی ایک امریکی نومسلمہ جینیفر چودھری صاحبہ تھیں۔ وہ اپنے شوہر طارق چودھری اور اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ حضورِانور سے ملیں۔میں نے جینیفر صاحبہ، جنہوں نے ۲۰۰۵ء میں اسلام قبول کیا تھا، سے ان کی بطور احمدی زندگی کے بارے میں پوچھا۔جواب میں جینیفر صاحبہ نے کہاکہ احمدیت نے مجھے ایک مقصد اور زندگی میں سکون دیا ہے۔ میرا بچپن ایک کیتھولک کے طور پر گزرا، لیکن خدا اور مذہب کبھی بھی میری زندگی کا حصہ نہیں رہے۔ مذہب ہمیشہ ایک فرضی داستان لگتا تھا۔ جب میں نے قرآن پر غور کیا تو سب کچھ معنی خیز لگنے لگا۔ میرے ذہن میں جو بھی سوالات تھے، ان کے جواب مجھے اطمینانِ قلب کے ساتھ قرآن میں مل گئے۔میری زندگی اب اسلام کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ الحمدللہ۔

گفتگو کے دوران جینیفر صاحبہ جذبات پر قابو نہ پاسکیں اور آبدیدہ ہوگئیں، خاص طور پر جب انہوں نے حضور سے ملاقات کے بارے میں بتایا۔

جینیفر صاحبہ نے کہاکہ میں نے ٹی وی پر کئی بار حضور کو دیکھا تھا۔اس لیے بالمشافہ ملاقات کا تصور ہی میرے لیے بےحد جذباتی تھا۔ اگرچہ میں نے پہلے کبھی اپنی آنکھوں سے حضور انور کو نہیں دیکھا تھا لیکن میں اپنے خلیفہ سےپُر خلوص محبت محسوس کرتی تھی اور ہمیشہ ان کی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ اب جب کہ میں نے ان سے ملاقات کرلی ہے تومیرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اپنے جذبات کو کس طرح بیان کروں۔ جیسا کہ مجھے توقع تھی حضور بہت پرسکون تھےلیکن مجھے یہ امید نہیں تھی کہ حضور کی حسِ مزاح بھی اتنی اچھی ہوگی اور وہ ہمارے بچوں کے ساتھ اتنے محبت بھرے اور غیررسمی انداز میں ملیں گے۔ حضور کی مسکراہٹ بہت مہربان اور پُرشفقت ہے، اورمجھے ان سے بات کرنا اتنا آسان لگا کہ گویا میں کسی اپنے سے مل رہی ہوں۔

جینیفر صاحبہ کے شوہرطارق صاحب نےمجھےبتایا کہ انہیں حضور کاان کے خاندان کےساتھ اس طرح محبت کا اظہار کرنا بے حد اچھا لگا۔ جب انہوں نے یہ بات کہی تو جینیفر صاحبہ ایک بار پھر جذباتی ہو گئیں۔اپنے آنسو پونچھتے ہوئےجینیفر صاحبہ نے کہاکہ آج کے دَور میں اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرنا بہت مشکل ہے، لیکن میں اپنے بچوں کو بار بار یہی کہتی ہوں کہ وہ بہت خوش قسمت ہیں کہ وہ احمدی مسلمان ہیں۔ اگر وہ اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں تو ان کی زندگی با مقصد ہو گی، اور وہ میری طرح نہیں ہوں گے،کیونکہ میں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سال ضائع کیے۔ میرا بڑا بیٹا مڈل سکول میں ہے اور میں دیکھتی ہوں کہ اس کے کچھ دوست اس پر اثر ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں، اس لیے میں بے حد شکر گزار ہوں کہ اسے حضور سے ملنے کا موقع ملا تاکہ اسے یہ احساس ہو کہ ہماری زندگی میں سب سے اہم چیز ہمارا ایمان ہے۔

عاجزی اور سادگی کا مذہب

ایک اَور خاندان جنہوں نے حضور سے ملاقات کی، وہ جبریل ادو فرید صاحب (عمر۶۲؍سال)اور ان کی اہلیہ برِجٹ ادو فرید صاحبہ تھیں۔ ان کا تعلق دراصل گھانا سے ہے لیکن اب نیویارک میں مقیم ہیں۔

میں جبریل صاحب کی اس بات پر ہنس پڑا کہ انہیں امریکہ میں رہنا اس لیے زیادہ پسند ہے کیونکہ گھانا میں احمدی بہت زیادہ ہیں جس کی وجہ سے جب بھی حضور وہاں تشریف لاتے ہیں تو ملاقات کا وقت ملنا مشکل ہوتا ہے، جبکہ امریکہ میں یہ اب بھی ممکن ہے۔

جبریل صاحب نے چہرے پر ایک روشن مسکراہٹ کے ساتھ کہاکہ آج میں گویا ایک خواب دیکھ رہا ہوں! حضور کی شخصیت بہت شاندار ہے! وہ مذاق بھی کرتے ہیں اور آپ کو پُرسکون محسوس کراتے ہیں اور ہمارے ساتھ ہمارے انداز میں بات کرتے ہیں۔ جب میں نے حضور کا ہاتھ پکڑا تو میں یہی سوچتا رہا کہ میں براہ راست اس رسی کو تھامے ہوئے ہوں جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جاتی ہے۔ وہ چند سیکنڈ انتہائی جذباتی تھے۔

جبریل صاحب کی اہلیہ برِجٹ نے بتایا کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ مسیحی گھرانے میں پلی بڑھی تھیں۔ انہوں نے کہاکہ احمدیت نے مجھے روحانیت بخشی ہے اور مجھے اس سے محبت ہے کیونکہ یہ عاجزی اور سادگی سکھاتی ہے۔ جب میں چرچ جاتی تھی تو ہمیں خوبصورت لباس پہننا پڑتا تھا اور عورتوں کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا۔ اگر میں مسلسل دو اتوار ایک ہی لباس پہن لیتی تو دوسری عورتیں حیرت سے پوچھتیں کہ‘تم نے یہ کیوں کیا؟’لیکن یہاںمسجد میں سب کچھ اتنا سادہ ہے اور یہاں توجہ دل کی حالت پر ہے، نہ کہ ظاہری حالت پر۔ جب ہم مسجد میں عبادت کرتے ہیں تو واقعی عبادت کرتے ہیں اور ہماری توجہ اللہ کی طرف ہوتی ہے۔

سسٹربرِجٹ نے گفتگو جاری رکھتے ہو ئے کہاکہ مجھے پورا یقین ہے کہ حضور کی دعائیں بڑے بڑے معجزات کا سبب بن سکتی ہیں۔ میں حضور سے ملتے ہوئے نروس تھی، لیکن وہ بہت محبت کرنے والے اور مہربان ہیں۔ ان سے ملنے کے بعد، چونکہ اب میں نے اپنے روحانی باپ کو پا لیا ہے اس لیے میں ایک بہتر احمدی بن جاؤں گی، ان شاء اللہ۔

(مترجم:طاہر احمد۔ انتخاب:مظفرہ ثروت)

٭…٭…٭

گذشتہ قسط:(دورہ امریکہ اور گوئٹے مالا۔ اکتوبر نومبر ۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ اول)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button