حضرت مولانا حکیم نورالدین خلیفۃالمسیح الاوّلؓ
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۳؍نومبر۲۰۱۵ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو عشق اور محبت کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تھا اسے ہر وہ احمدی جس نے آپؓ کے بارے میں کچھ نہ کچھ پڑھا ہو یا سنا ہو جانتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محض لِلّٰہ عقدِاخوت اور محبت کی کوئی مثال اگر دی جا سکتی ہے تو وہ حضرت مولانا حکیم نور الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال ہے۔ اقرارِ اطاعت کرنے کے بعد اگر اس کے انتہائی معیاری نمونے دکھا کر اس پر قائم رہنے کی مثال کوئی دی جا سکتی ہے تو وہ حضرت مولانا نورالدینؓ کی ہے۔ تمام دنیوی رشتوں سے بڑھ کر بیعت کا حق ادا کرتے ہوئے اگر کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رشتہ جوڑا تو اس کی اعلیٰ ترین مثال حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی ہے۔ خادمانہ حالت کا بیمثال نمونہ اگر کسی نے قائم کیا تو وہ حضرت حکیم الامّت مولانا نورالدینؓ نے قائم کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے عجز و انکسار میں اگر ہمیں کوئی انتہائی اعلیٰ مقام پر نظر آتا ہے تو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اس کا بھی اعلیٰ معیار حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے قائم کیا اور پھر امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وہ اعزاز پایا جو کسی اور کو نہ مل سکا۔ آپ علیہ السلام نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بارے میں فرمایا کہ ’’چہ خوش بُودے اگر ہر یک زِ اُمّت نورِ دیں بودے‘‘۔ (نشانِ آسمانی روحانی خزائن جلد ۴صفحہ۴۱۱)
پس یہ ایک زبردست اعزاز ہے جو کہ زمانے کے امام نے اپنے ماننے والوں کے لئے ہر چیز کا معیار حضرت مولانا نورالدین کے معیار کو بنا دیا کہ اگر ہر ایک نور الدین بن جائے تو ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حکیم مولانا نور الدین خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے بعض واقعات بیان فرمائے ہیں۔ ان واقعات کو پڑھ کر آقا و غلام، مرشد و مرید کے دو طرفہ تعلق اور محبت کے نمونے نظر آتے ہیں۔ عاجزی اور انکساری کے نمونے بھی نظر آتے ہیں۔ اخلاص و وفا کے نمونے بھی نظر آتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی قربانیوں کے معیار اور اطاعت کے اعلیٰ ترین نمونے کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ جب آپ قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مجھے آپ کے متعلق الہام ہوا ہے کہ اگر آپ اپنے وطن گئے تو اپنی عزت کھو بیٹھیں گے۔ اس پر آپ نے وطن واپس جانے تک کا نام تک نہ لیا۔ اس وقت آپ اپنے وطن بھیرہ میں ایک شاندار مکان بنا رہے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جب میں بھیرہ گیا ہوں تو میں نے بھی یہ مکان دیکھا تھا۔ اس میں آپ ایک شاندار ہال بنوا رہے تھے تا کہ اس میں بیٹھ کر درس دیں اور مطب بھی کیا کریں۔ حضرت مصلح موعود ؓکہتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے لحاظ سے (یعنی اس زمانے میں جب یہ بیان ہو رہا ہے)تو وہ مکان زیادہ حیثیت کا نہ تھا لیکن جس زمانے میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے قربانی کی تھی اس وقت جماعت کے پاس زیادہ مال نہیں تھا۔ اس وقت اس جیسا مکان بنانا بھی ہر شخص کا کام نہیں تھا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے بعد آپ نے واپس جا کر اس مکان کو دیکھا تک نہیں۔ بعض دوستوں نے کہا بھی کہ آپ ایک دفعہ جا کر مکان تو دیکھ آئیں۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ میں نے اسے خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑ دیا ہے اب اسے دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ (ماخوذ از مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۵۶ء میں خطابات، انوارالعلوم جلد۲۵ صفحہ ۴۱۹۔۴۲۰)
پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں۔ جب انجمن کے بعض عمائدین اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے لگ گئے تھے اور دنیا داری کا رنگ ان پر غالب آ رہا تھا۔ بہت سے معاملات جب انجمن میں پیش ہوتے تو عموماً حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اور حضرت مصلح موعودؓ کی رائے ایک ہوتی تھی اور بعض دوسرے بڑے سرکردہ ممبران کی مختلف ہوتی تھی۔ بہرحال ایک ایسے ہی موقع پر ایک مجلس میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کو بند کرنے کا معاملہ پیش ہوا۔ حضرت مصلح موعودؓ اس کو بند کرنے کے خلاف تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی رائے بھی یہی تھی کہ اس کو بندنہ کیا جائے۔ اس پر بڑی زور دار بحث ہو رہی تھی۔ آخر فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہونا تھا۔ بہرحال اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے ایام میں بعض لوگوں نے کوشش کی کہ اس سکول کو توڑ کر صرف عربی کا ایک مدرسہ قائم رکھا جائے کیونکہ جماعت دو سکولوں کے بوجھ برداشت نہیں کر سکتی اور اس پراتفاق جماعت اتنا زبردست تھا (یعنی وہ جو ممبران تھے)۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں شاید ڈیڑھ آدمی سکول کی تائید میں رہ گیا تھا۔ ایک تو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ تھے اور حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ آدھا مَیں اپنے آپ کو کہتا ہوں کیونکہ اُس وقت میں بچہ تھا لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ جو جوش مجھے اس وقت سکول کے متعلق تھا وہ دیوانگی کی حد تک پہنچا ہوا تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ چونکہ ادب کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے بات نہ کرسکتے تھے اس لئے آپ نے مجھے اپنا ذریعہ اور ہتھیار بنایا ہوا تھا۔ وہ مجھے بات بتا دیتے اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہنچا دیتا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہمیں کامیابی عطا کی اور باوجودیکہ بعض جلد باز دوستوں نے قریباً ہم پر کفر کا فتویٰ لگا دیا کہ اگر یہ سکول بندنہ کیا تو گویا کہ تم لوگ کفر کر رہے ہو اور کہا یہ دنیادار لوگ ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کو بھی اور حضرت مصلح موعود کو بھی کہنے لگے یہ لوگ دنیادار ہیں کیونکہ انگریزی تعلیم کی تائید کرتے ہیں۔ پھر بھی فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے حق میں کیا۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد۱۳صفحہ ۴۸۰-۴۸۱)
اس واقعہ سے سکول کے جاری رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں جو باتیں ہیں وہ تو ہیں لیکن حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے بات کرنے کے ادب اور احترام کا بھی پتا چلتا ہے۔ شاید آپ کو یہ بھی خیال ہو کہ معاملہ کو پیش کرتے وقت جوش میں کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ادب کے خلاف ہو۔
…حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی سادگی اور اطاعت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ہم نے خود حضرت خلیفہ اول کو دیکھا ہے آپ مجلس میں بڑی مسکنت سے بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مجلس میں شادیوں کا ذکر ہو رہا تھا۔ ڈپٹی محمد شریف صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابیؓ ہیں وہ سناتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول اکڑوں بیٹھے ہوئے تھے یعنی آپ نے اپنے گھٹنے اٹھائے ہوئے تھے اور سر جھکا کر گھٹنوں میں رکھا ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا مولوی صاحب جماعت کے بڑھنے کا ایک ذریعہ کثرت اولاد بھی ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ اگر جماعت کے دوست ایک سے زیادہ شادیاں کریں تو اس سے بھی جماعت بڑھ سکتی ہے۔ حضرت خلیفہ اول نے گھٹنوں پر سر اٹھایا اور فرمایا کہ حضور میں تو آپ کا حکم ماننے کے لئے تیار ہوں لیکن اس عمر میں مجھے کوئی شخص اپنی لڑکی دینے کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہنس پڑے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں دیکھو یہ انکسار اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ادب تھا جس کی وجہ سے انہیں یہ رتبہ ملا۔ (ماخوذ از الفضل۲۷ مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ ۵جلد۴۶/۱۱نمبر۷۴)