خلاصہ خطبہ جمعہ

سنہ ۶؍ہجری کےبعض غزوات اور سرایا کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان نیز دنیا کے بگڑتے سیاسی حالات اور آسمانی آفات کے حوالے سے دعاؤں کی تلقین:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍ دسمبر۲۰۲۴ء

٭…آنحضرتﷺ نے اپنے ایک مہاجر صحابی عکاشہ بن محصن ؓکو چالیس مسلمانوں پر افسر بناکر قبیلہ بنو اسد کی طرف مقابلے کےلیے بھجوایا

٭…ابو عبيدہ بن الجراحؓ قريش سے تعلق رکھتے تھے، آنحضرتﷺ نے انہيں امين الملّت کا خطاب عطا فرمايا تھا

٭…قبولِ اسلام کے اعلان کے بعد ابوالعاصؓ مدينے آئے تو رسول اللہﷺنےحضرت زينبؓ  کو بغير کسي جديد نکاح کےان کے پاس لوٹا ديا

٭…دنیا کے بگڑتے سیاسی حالات اور آسمانی آفات کے تناظر میں دعاؤں کی تلقین

٭…مکرم امير حسن مرانڑي صاحب شہيد ولد در محمدصاحب آف نصرت آباد ميرپور خاص اور مولانا عبدالستار رؤوف صاحب مبلغ سلسلہ ملائیشیاکا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۰؍ دسمبر۲۰۲۴ء مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایاکہ

آنحضرتﷺ کی سیرت کے پہلو غزوات اور سرایا کے واقعات کے حوالے سے بیان ہورہے ہیں۔

اس تعلق میں ایک سریہ عکاشہ بن محصن  کا بھی ذکر ملتا ہے۔ یہ سریہ غمر مرزوق کی طرف ربیع الاوّل ۶؍ہجری میں ہوا۔ سیرت خاتم النبیین ﷺمیں لکھا ہے کہ آنحضرتﷺ نے اپنے ایک مہاجر صحابی عکاشہ بن محصن ؓکو چالیس مسلمانوں پر افسر بناکر قبیلہ بنو اسد کی طرف مقابلے کےلیے بھجوایا؛ مگر مسلمانوں کی خبر پاکر یہ لوگ ارد گرد کے علاقوں میں منتشر ہوگئے۔

اسی طرح ایک اَور سریہ دس آدمیوں کے ساتھ حضرت محمد بن مسلمہ ؓکی سربراہی میں ربیع الثانی ۶؍ہجری میں بطرف بنو ثعلبہ و دیگر کی طرف بھیجاگیا۔ جب یہ جماعت وہاں پہنچی تو مخالفین کے سَو آدمیوں نے انہیں گھیر لیا اور نیزوں اور تیروں سے حملہ کرکے سب کو شہید کردیا۔حضرت محمد بن مسلمہ ؓشدید زخمی حالت میں گِر پڑے، مخالفین نے ان کے کپڑے اتار لیے اور وہاں پڑا چھوڑ گئے، وہاں سے ایک مسلمان کا گزر ہوا اس نے شہدا ءپر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور محمد بن مسلمہؓ کو اپنے ساتھ لے کر مدینے آگیا۔

محمد بن مسلمہؓ کے ساتھیوں کی شہادت کے ذمہ دار مخالفین سے بدلے کے لیے ایک سریے کا ذکر ملتا ہے۔

یہ سریہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کہلاتا ہے۔ اس کی تفصیل میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ محمد بن مسلمہؓ کے ساتھیوں کی شہادت کے ساتھ یہ اطلاع بھی ملی تھی کہ قبیلہ بنوثعلبہ مدینے کے مضافات پر حملے کا ارادہ رکھتے ہیں،لہٰذا آنحضورﷺ نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کی قیادت میں چالیس مستعد صحابہ کو روانہ فرمایا۔ آنحضورﷺ نے ہدایت فرمائی تھی کہ راتوں رات سفر کرکے صبح سویرے ان تک جا پہنچولہٰذا تعمیلِ ارشاد میں عین صبح کے وقت انہوں نے مخالفین کا گھیراؤ کرلیا اور وہ تھوڑے سے مقابلے کے بعد بھاگ نکلے۔ ابو عبیدہ ؓنے مالِ غنیمت پر قبضہ کیا اور مدینے لوٹ آئے۔

حضرت محمد بن مسلمہؓ اور ابو عبیدہ بن الجراح ؓ دونوں کبار صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔ محمد بن مسلمہؓ اپنے ذاتی اوصاف کے ساتھ قتلِ کعب بن اشرف یہودی کے ہیرو تھے۔

آپؓ انصار کے قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت عمرؓ  کی خلافت میں ان کے خاص معتمد سمجھے جاتے تھے۔

ابو عبیدہ بن الجراحؓ قریش سے تعلق رکھتے تھے، آنحضرتﷺ نے انہیں امین الملّت کا خطاب عطا فرمایا تھا۔

حضرت ابو بکرؓ نے جن دو صحابہ کو خلافت کا اہل قرار دیا تھا آپؓ ان میں سے ایک تھے۔ آپ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں طاعون سے شہید ہوئے۔

ایک سریہ زید بن حارثہ، ربیع الآخر ۶؍ہجری میں بنو سلیم کی طرف بھیجا گیا۔

اسی طرح ایک اَورسریہ زید بن حارثہ ؓ کی سربراہی میں ایک سَو ستّر صحابہؓ کے ہمراہ جمادی الاولیٰ ۶؍ہجری میں بطرف عیص بھیجا گیا۔

ان واقعات میں آنحضورﷺ کے داماد ابوالعاص بن ربیع کے قید ہونے اور قبولِ اسلام کا بھی ذکر ملتا ہے۔ یہ اپنے اموالِ تجارت کے مسلمانوں کے قبضے میں چلے جانے کے بعد مدینے آئےاور زینبؓ  بنت رسول اللہﷺ سے پناہ کے طالب ہوئے، حضرت زینبؓ نے انہیں پناہ دی، جب رسول اللہﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ مجھے بھی اس کا علم ابھی ہوا ہے اور مَیں پہلے اس بات کو نہیں جانتا تھا۔ آپؐ نے حضرت زینب ؓ کی درخواست پر ابو العاص کا مال واپس کرنے کی سفارش کی جس پر نہ صرف ابوالعاص بلکہ دیگر تمام افراد کا مال بھی واپس کردیا گیا۔

ابوالعاص واپس مکّے گئےاور لوگوں کو ان کے اموال واپس پہنچا کر اہلِ مکّہ کے سامنے اپنے قبولِ اسلام کا اعلان کیا۔

قبولِ اسلام کے اعلان کے بعد ابوالعاصؓ مدینے آئے تو رسول اللہﷺنےحضرت زینبؓ کو بغیر کسی جدید نکاح کےان کے پاس لوٹا دیا۔ حضرت ابوالعاصؓ کا کاروبار مکّے میں تھا اس لیے وہ مدینے میں زیادہ قیام نہ کرسکے اور مکّے لوٹ آئے۔ ۱۲؍ہجری میں ابو العاص نے وفات پائی۔

ایک غزوہ بنو لحیان جمادی الاولیٰ ۶؍ہجری میں ہوا۔

اس غزوے کے پس منظر میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے واقعہ رجیع کا ذکر فرمایا ہے کہ جب دس بےگناہ مسلمانوں کو نہایت بےدردی سے شہید کردیا گیا تھا۔ چونکہ بنو لحیا ن ابھی تک مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں ملوث تھے لہٰذا آنحضورﷺ نے مناسب خیال کیا کہ ان کی کسی قدر گوشمالی ہوجائے۔ چنانچہ آنحضورﷺ اپنے ساتھ دو سَو صحابہ اور بیس گھوڑے لے کران کی طرف روانہ ہوئے۔ آنحضورﷺ ان کی لاعلمی میں وہاں پہنچ گئے، مگر بنو لحیان کو آنحضرتﷺ کی آمد کی خبر مل گئی اور وہ پہاڑوں کی چوٹیوں میں جاچھپے اور ان میں سے کوئی بھی پکڑا نہ جاسکا۔ آپؐ نے ایک یا دو دن وہاں قیام فرمایا اور کئی پارٹیوں کو ارد گرد بھجوایا مگر کوئی پکڑا نہ جاسکا۔

آنحضورﷺ اس سفر میں جب اس مقام پر پہنچے جہاں آپؐ کے صحابہ شہید ہوئے تھے تو آپؐ پر شدید رقّت طاری ہوگئی۔ آپؐ نے نہایت درد کے ساتھ ان شہداء کے لیے دعا مانگی۔

حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ  لکھتے ہیں کہ اس سفر سے واپسی پر آپؐ نے ایک دعا کی جو بعد میں مسلمان عموماً اپنے اہم سفروں سے واپسی پر پڑھا کرتےہیں اور وہ دعا یہ ہے

اٰئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ سَاجِدُوْنَ لِرَبِّـنَا حَامِدُوْنَ

یعنی ہم لوگ اپنے خدا کی طرف لوٹنے والے ہیں، اسی کی طرف جھکنے والےہیں، اسی کی عبادت کرنے والے، اسی کے سامنے گرنے والے، اور اپنے ربّ کی تعریف کے گیت گانےوالے ہیں۔

آنحضورﷺ اپنے بعد کے سفروں میں بھی عموماً یہ دعا پڑھا کرتے تھے،اور اس کے ساتھ بعض اوقات یہ الفاظ بڑھایا کرتے تھے

صَدَقَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ وَنَصَرَ عَبْدَهٗ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهٗ۔

یعنی ہمارے خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور دشمن کے لشکروں کو اپنے دم سے پسپا کردیا۔

یہ دعا ایک خاص کیفیت کی حامل ہے اور اس دعا سے اُن جذبات کامطالعہ کرنے کا موقع ملتا ہے جو اس پُر آشوب زمانے میں آنحضورﷺ کے قلبِ مطہر میں موجود تھے اور جنہیں آپؐ اپنے صحابہ کے اندر پیدا کرنا چاہتے تھے۔اس دعا میں یہ تڑپ مخفی ہے کہ جو روک مسلمانوں کی عبادت گزاری اور اسلام کی پُر امن تبلیغ کے راستے میں ڈالی جارہی ہے اللہ تعالیٰ اسے دُور فرمائے۔
ایک سریہ زید بن حارثہ ہے جو جمادی الآخر ۶؍ہجری میں ہوا۔

اس سریے میں آنحضورﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ  کو پندرہ آدمیوں کے ہمراہ بنو ثعلبہ بن سعد کی جانب بھجوایا۔ اس سریے میں لڑائی کی نوبت نہ آئی۔

یہ سلسلہ آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے

دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے متعلق فرمایا

کہ دنیا کے جو حالات ہیں وہ سب جانتے ہیں، شام میں جو حالات ابھرے ہیں وہ ابھی واضح نہیں ہیں۔کہنے کو تو ایک ظالم جابر حکومت ختم ہوئی ہے، دعا کریں کہ آنے والی حکومت انصاف سے کام لینے والی ہو۔

اللہ تعالیٰ ان علاقوں کے احمدیوں کو اپنی حفاظت میں رکھے۔

تجزیہ نگار تو لکھتے ہیں کہ عوام بظاہر ظلم ختم ہونے پر خوشیاں منا رہے ہیں مگر آئندہ کیا ہوگا کچھ علم نہیں۔اسرائیل بھی ان علاقوں پر بلا جواز حملے کر رہا ہےبظاہر اسلامی دنیا کے خلاف ان کے ارادے خطرناک لگتے ہیں۔

پاکستان کے لیے بھی اس حوالے سے بہت دعا کریں، ایران کے لیے اور باقی ملکوں کے لیے بھی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بھی عقل دے۔ اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو بھی محفوظ رکھے۔

احمدی نہ تومسلمانوں کے ہاتھ سے محفوظ ہیں اور نہ ہی ان غیروں کے ہاتھوں، جو مسلمانوں کے خلاف ہیں۔

حضورِانور نے فرمایا کہ آج کل دنیا میں طوفان بھی بکثرت آرہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ دنیا کو آسمانی آفات سے بھی محفوظ رکھے۔

خطبے کے آخری حصّے میں حضورِانور نے درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر فرمایا اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان کیا:

۱۔مکرم امیر حسن مرانڑی صاحب شہید ولد در محمدصاحب نصرت آباد میرپور خاص

آپ کو۱۳؍دسمبر کی صبح فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پسماندگان میں والدہ، اہلیہ، دو بیٹے اورتین بیٹیاں نیز بہن بھائی شامل ہیں۔ مرحوم کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے، آپ کو قائد مجلس کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی، اسی طرح بوقتِ شہادت آپ بطور سیکرٹری وقفِ نَو خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ مرحوم مہمان نواز، حلیم،بہادر اور خلافت سے اخلاص و وفا کا تعلق رکھنے والی شخصیت کے مالک تھے۔

۲۔مکرم مولانا عبدالستار رؤوف صاحب مبلغ سلسلہ ملائیشیا

مرحوم گذشتہ دنوں ۷۵؍برس کی عمر میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ۱۹۷۳ءمیں انہوں نے احمدیت قبول کی تھی، ۱۹۷۷ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخل ہوئے اور مبشر کا کورس مکمل کیا۔ مرحوم کو ملائیشیا، فجی، انڈونیشیا، ویت نام وغیرہ ممالک میں خدمت کی توفیق ملی۔ پسماندگان میں اہلیہ، تین بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ مرحوم بڑے مخلص اور بےلوث خدمت گار تھے۔آپ کی شخصیت میں عشقِ رسولﷺ کا پہلو بہت نمایاں تھا۔

حضورِانور نے مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button