خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 06؍دسمبر 2024ء
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں ہی فرمادیا تھا اگر کوئی مسلمان مدینہ سے منحرف ہوکر جائے گا تووہ ایک گنداعضو ہو گاجس کا کاٹا جانا ہی بہتر تھا۔ لیکن اس کے مقابل پراگر کوئی شخص سچے دل سے مسلمان ہوکر مکہ سے نکلے گا تو خواہ اسے مدینہ میں جگہ ملے یانہ ملےوہ جہاں بھی رہے گا اسلام کی مضبوطی کا باعث ہوگا اور بالآخراللہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی رستہ کھول دے گا‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ابو بصیر! تم جانتے ہو کہ ہم ان لوگوں کواپنا عہدوپیمان دے چکے ہیں اورہمارے مذہب میں عہد شکنی جائز نہیں ہے۔پس تم ان لوگوں کے ساتھ چلے جاؤ۔ پھر اگر تم صبرواستقلال کے ساتھ اسلام پر قائم رہو گے توخدا تمہارے لیے اورتم جیسے دوسرے بے بس مسلمانوں کے لیے خود کوئی نجات کا رستہ کھول دے گا۔‘‘
جب مکہ کے دوسرے مخفی اورکمزور مسلمانوں کو یہ علم ہوا کہ ابوبصیر نے ایک علیحدہ ٹھکانا بنا لیا ہے تو وہ بھی آہستہ آہستہ مکہ سے نکل نکل کر سِیف البحر میں پہنچ گئے
تھوڑے عرصہ میں ہی قریش نے ہتھیار ڈال دیئے اور ابوبصیر کی پارٹی کے حملوں سے تنگ آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک سفارت کے ذریعہ درخواست کی اور اپنی رشتہ داری کا واسطہ دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عرض کیا کہ سیف البحر کے مہاجرین کو مدینہ میں بلاکر اپنے سیاسی انتظام میں شامل کر لیں اور ساتھ ہی صلح حدیبیہ کی اس شرط کو کہ مکہ کے نومسلموں کو مدینہ میں پناہ نہیں دی جائے گی اپنی خوشی سے منسوخ کر دیا۔
انصاف کے دعویداروں کے ہمیشہ سے یہی دوہرے معیار ہیں جس نے دنیا میں فساد پیدا کیا ہوا ہے اور آج بھی یہی فساد چل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آج بھی دنیا کو اور خاص طور پر مسلمانوں کو خود بھی عقل دے اور ان دجالی فتنوں سے بھی بچائے رکھے
صلح حدیبیہ کے حالات و واقعات کا بیان نیز اس تعلق میں عیسائی مؤرخین کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کا مسکت جواب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 06؍دسمبر 2024ء بمطابق06؍ فتح1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
صلح حدیبیہ
کے ذکر میں آج بھی
کچھ مزید تفصیل
بیان کروں گا۔
سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ’’معاہدوں میں رخنے رہ جایا کرتے ہیں جو بعض اوقات بعد میں اہم نتائج کا باعث بن جاتے ہیں۔ چنانچہ صلح حدیبیہ میں بھی یہ رخنہ رہ گیا تھا کہ اس میں گو مسلمان مردوں کی واپسی کے متعلق صراحتاً ذکر تھا مگر ایسی عورتوں کا کوئی ذکر نہیں تھا جو اہلِ مکہ میں سے اسلام قبول کر کے مسلمانوں میں آ ملیں۔ مگر جلد ہی ایسے حالات رونما ہونے لگے جن سے کفار مکہ پراس رخنہ کا وجود کھلے طورپرظاہر ہو گیا۔ چنانچہ ابھی اس معاہدہ پر بہت تھوڑا وقت گزرا تھا کہ مکہ سے بعض مسلمان عورتیں کفار کے ہاتھ سے چھٹ کر مدینہ میں پہنچ گئیں۔ ان میں سب سے اوّل نمبر پر مکہ کے ایک فوت شدہ مشرک رئیس عقبہ ابن ابی معیط کی لڑکی ام کلثوم تھی جو ماں کی طرف سے حضرت عثمانؓ بن عفان کی بہن بھی لگتی تھی۔ ام کلثوم بڑی ہمت دکھا کر پاپیادہ مدینہ پہنچی۔‘‘ اتنا لمبا سفر اس عورت نے پیدل کیا۔ ’’اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ مگر اس کے پیچھے پیچھے اس کے دوقریبی رشتہ دار بھی اس کے پکڑنے کے لیے پہنچ گئے اوراس کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ ان لوگوں کا دعویٰ یہ تھا کہ (گو معاہدہ میں مرد کالفظ استعمال ہوا ہے مگر) دراصل معاہدہ عام ہے اور عورت مرد دونوں پرمساوی اثر رکھتا ہے۔ مگر امِ کلثوم معاہدہ کے الفاظ کے علاوہ اس بنا پر بھی عورتوں کے معاملہ میں استثناء کی مدعی تھی کہ عورت ایک کمزور جنس سے تعلق رکھتی ہے اور ویسے بھی وہ مرد کے مقابلہ پر ایک ماتحت پوزیشن میں ہوتی ہے اس لیے اسے واپس کرنا گویا روحانی موت کے منہ میں دھکیلنا اور اسلام سے محروم کرنا ہے۔ پس عورتوں کا اس معاہدہ سے مستثنیٰ سمجھا جانا نہ صرف عین معاہدہ کے مطابق بلکہ عقلاً بھی قرین انصاف اور ضروری تھا۔ اس لیے طبعاً اور انصافاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امِ کلثوم کے حق میں فیصلہ فرمایا اور اس کے رشتہ داروں کو واپس لوٹا دیا اور خدا تعالیٰ نے بھی اس فیصلہ کی تائید فرمائی۔ چنانچہ انہی دنوں میں یہ قرآنی آیات نازل ہوئیں کہ جب کوئی عورت اسلام کا اِدّعا کرتی ہوئی مدینہ میں آئے تو اس کا اچھی طرح سے امتحان کرو اور اگر وہ نیک بخت اور مخلص ثابت ہو توپھر اسے کفار کی طرف ہرگز نہ لوٹاؤ، لیکن اگر وہ شادی شدہ ہو تو اس کا مہر اس کے مشرک خاوند کو ضرور ادا کر دو۔ اس کے بعد جب بھی کوئی عورت مکہ سے نکل کر مدینہ میں پہنچتی تھی تواس کا اچھی طرح سے امتحان لیا جاتا تھا اور اس کی نیت اور اخلاص کو اچھی طرح پرکھا جاتا تھا۔ پھر جو عورتیں نیک نیت اور مخلص ثابت ہوتی تھیں اور ان کی ہجرت میں کوئی دنیوی یا نفسانی غرض نہیں پائی جاتی تھی تو انہیں مدینہ میں رکھ لیا جاتا تھا اور اگر وہ شادی شدہ ہوتی تھیں تو ان کا مہر اُن کے خاوندوں کو ادا کر دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد وہ مسلمانوں میں شادی کرنے کے لیے آزاد ہوتی تھیں۔‘‘
(سیرت خاتم النبیین ؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 772۔773)
معاہدے کی شرائط
کے ضمن میں ہی ایک واقعہ کا ذکر ملتا ہے جو حضرت ابوبصیر کا ہے۔ اس کی تفصیل بھی یوں بیان ہوئی ہے کہ ’’معاہدہ حدیبیہ کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ تھی کہ اگر قریش میں سے کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ کی طرف آوے تو مدینہ والے اسے پناہ نہیں دیں گے بلکہ واپس لوٹا دیں گے لیکن اگر کوئی مسلمان اسلام سے منحرف ہوکر مکہ کا رخ کرے تو مکہ والے اسے واپس نہیں کریں گے۔ بظاہر یہ شرط مسلمانوں کے لیے موجبِ ہتک سمجھی گئی تھی اور اسی لیے کئی مسلمان اس پر دل برداشتہ تھے۔ حتٰی کہ حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر اور فہیم صحابی کوبھی اس وقت کی برق زدہ فضا میں ‘‘یعنی اس ماحول میں لوگوں کے اس فیصلے سے دل جل رہے تھے، بجلی پڑی ہوئی تھی کہ ہم اپناحق چھوڑ رہے ہیں۔ ’’اس شرط پر ناراضگی اور بے چینی پیدا ہوئی تھی۔ مگر اس کے بعد جلد ہی ایسے حالات پیدا ہوگئے جن سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ دراصل یہ شرط قریش کے لیے کمزوری کا باعث اور مسلمانوں کی مضبوطی کاموجب تھی۔ کیونکہ جیسا کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں ہی فرمادیا تھا اگر کوئی مسلمان مدینہ سے منحرف ہوکر جائے گا تووہ ایک گنداعضو ہو گا‘‘
منافق یا ایسے لوگ جن کے دلوں میں کجی تھی وہی اسلام لا کے پھر چھوڑ سکتے تھے، مرتد ہوتے تھے۔ اس لیے اگر وہ جاتا ہے تو بیشک جائے۔ کیا ضرورت ہے اسے واپس مدینہ لانے کی۔ اس لیے آپ نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ٹھیک ہے ہمیں اس پہ کوئی اعتراض نہیں کیونکہ وہ ایک گنداعضو ہے ’’جس کا کاٹا جانا ہی بہتر تھا۔
لیکن اس کے مقابل پر اگر کوئی شخص سچے دل سے مسلمان ہوکر مکہ سے نکلے گا تو خواہ اسے مدینہ میں جگہ ملے یا نہ ملے وہ جہاں بھی رہے گا اسلام کی مضبوطی کا باعث ہوگا اور بالآخر اللہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی رستہ کھول دے گا۔
اس نظریہ نے جلد ہی اپنی صداقت کو ثابت کر دیا کیونکہ ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں تشریف لائے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ایک شخص ابوبصیر عُتْبہ بن اُسَیْد ثَقْفِی جو مکہ کا رہنے والا تھا اور قبیلہ بنوزُہْرَہ کا حلیف تھا مسلمان ہو کر اور مکہ والوں کی حراست سے بھاگ کر مدینہ پہنچا۔ قریش مکہ نے اس کے پیچھے پیچھے اپنے دو آدمی بھجوائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا کی کہ ابوبصیر کو معاہدہ کی شرط کے مطابق ان کے حوالہ کر دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر کو بلایا اور واپس چلے جانے کا حکم دیا۔ ابوبصیر نے سامنے سے واویلا کیا‘‘ شور مچانے لگ گیا ’’کہ مَیں مسلمان ہوں اور یہ لوگ مجھے مکہ میں تنگ کریں گے اور اسلام سے منحرف ہوجانے کے لیے جبر سے کام لیں گے۔ آپ نے فرمایا ’’ہم معاہدہ کی وجہ سے معذور ہیں اور تمہیں یہاں نہیں رکھ سکتے اور اگر تم خدا کی رضا کی خاطر صبر سے کام لوگے تو خدا خود تمہارے لیے کوئی رستہ کھول دے گا مگر ہم مجبور ہیں اور کسی صورت میں معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معاہدوں پر کتنی پابندی تھی! ’’ناچار ابوبصیر ان لوگوں کے ساتھ واپس روانہ ہو گیا مگر چونکہ اس کے دل میں اس بات کی سخت دہشت تھی کہ مکہ میں پہنچ کر اس پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جائیں گے اور اسے اسلام جیسی نعمت کو چھپا کر رکھنا پڑے گا بلکہ شاید جبروتشدد کی وجہ سے اس سے ہاتھ ہی دھونا پڑے۔ اس لیے جب یہ پارٹی ذوالحلیفہ میں پہنچی جو مدینہ سے چند میل کے فاصلہ پر مکہ کے راستہ پر ہے توابوبصیر نے موقع پاکر اپنے ساتھیوں میں سے ایک کو جو اس پارٹی کا رئیس تھا قتل کر دیا اور قریب تھا کہ دوسرے کوبھی نشانہ بنائے مگر وہ اپنی جان بچا کر اس طرح بھاگا کہ ابوبصیر سے پہلے مدینہ پہنچ گیا۔ پیچھے پیچھے ابوبصیر بھی مدینہ میں آ پہنچا۔ جب یہ شخص مدینہ میں پہنچا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ اس کی خوف زدہ حالت کو دیکھ کر آپؐ نے فرمایا۔ معلوم ہوتا ہے اسے کوئی خوف وہراس کاسخت دھکا لگا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس نے خود بھی ہانپتے کانپتے آپؐ سے عرض کیا کہ ’’میرا ساتھی مارا گیا ہے اور میں بھی گویاموت کے منہ میں ہوں۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے واقعہ سنا اور تسلی دی۔ اتنے میں ابوبصیر بھی ہاتھ میں تلوار تھامے آ پہنچااور آتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ’’یارسول اللہ! آپ نے مجھے قریش کے حوالہ کر دیا تھا اور آپ کی ذمہ داری ختم ہو گئی مگر مجھے خدا نے ظالم قوم سے نجات دے دی ہے اور اب آپ پر میری کوئی ذمہ داری نہیں۔‘‘آپ نے بے ساختہ فرمایا:وَیْلُ اُمِّہٖ مُسْعِرُحَرْبٍ لَّوْکَانَ لَہٗ اَحَدٌ۔ یعنی اس کی ماں کے لیے خرابی ہو (یہ الفاظ عربوں کے محاورہ میں لفظی معنوں کونظر انداز کرتے ہوئے ملامت یاتعجب یا ناراضگی کے موقع پر بولے جاتے ہیں)۔ ‘‘ فرمایا کہ ’’یہ شخص توجنگ کی آگ بھڑکا رہا ہے کاش !کوئی اسے سنبھالنے والا ہو۔
ابوبصیر نے یہ الفاظ سنے توسمجھ لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے بہرحال معاہدہ کی وجہ سے واپس جانے کا ارشاد فرمائیں گے۔ چنانچہ اس بارے میں بخاری کے الفاظ یہ ہیں :۔ فَلَمَّا سَمِعَ ذٰلِکَ عَرَفَ اَنَّہٗ سَیَرُدُّہٗ اِلَیْھِمْ۔ یعنی ’’جب ابوبصیر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ سنے تو جان لیا کہ آپؐ بہرحال اسے مکہ والوں کی طرف واپس بھجوا دیں گے۔‘‘ اس پر وہ چپکے سے وہاں سے نکل گیا اور مکہ جانے کی بجائے جہاں اسے جسمانی اور روحانی دونوں موتیں نظر آتی تھیں بحیرۂ احمر کے ساحل کی طرف ہٹ کر سِیف البحر میں پہنچ گیا۔
جب مکہ کے دوسرے مخفی اورکمزور مسلمانوں کو یہ علم ہوا کہ ابوبصیر نےایک علیحدہ ٹھکانا بنا لیا ہے تو وہ بھی آہستہ آہستہ مکہ سے نکل نکل کر سِیف البحر میں پہنچ گئے۔
انہی لوگوں میں رئیس ِمکہ سُہَیل بن عَمرو کا لڑکا ابوجَنْدَل بھی تھا … آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حدیبیہ سے واپس لوٹا دیا تھا۔‘‘ اس کا ذکر پچھلی دفعہ ہوا تھا۔ ’’آہستہ آہستہ ان لوگوں کی تعداد ستّر کے قریب یا بعض روایات کے مطابق تین سو تک پہنچ گئی اور اس طرح گویا مدینہ کے علاوہ ایک دوسری اسلامی ریاست بھی معرضِ وجود میں آگئی جو مذہباً تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت تھی مگر سیاستاً جدا اور آزاد تھی۔ چونکہ ایک طرف حجاز کی حدود میں ایک علیحدہ اور آزاد سیاسی نظام کا موجود ہونا قریش کے لیے خطرہ کا باعث تھا اور دوسری طرف سِیف البحر کے مہاجر قریش مکہ سے سخت زخم خوردہ تھے اس لیے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ان مہاجرینِ سِیف البحر اور قریش مکہ کے تعلقات نے قریباً قریباً وہی صورت اختیار کر لی جو ابتداء میں مہاجرینِ مدینہ کے متعلق پیدا ہوئی تھی اور چونکہ سیف البحر اس رستہ کے بالکل قریب تھا جو مدینہ سے شام کو جاتا تھا اس لیے قریش کے قافلوں کے ساتھ ان مہاجرین کی مٹھ بھیڑ ہونے لگی۔ اس نئی جنگ نے جلد ہی قریش کے لیے خطرناک صورت اختیار کر لی کیونکہ اول تو قریش سابقہ جنگ کی وجہ سے کمزور ہوچکے تھے اور دوسرے اب وہ پہلے کی نسبت تعداد میں بھی بہت کم تھے اور ان کے مقابل پر سیف البحر کی اسلامی ریاست جو ابوبصیر اور ابوجندل جیسے جان فروشوں کی کمان میں تھی۔ ایمان کے تازہ جوش اور اپنے گزشتہ مظالم کی تلخ یاد میں اس برقی طاقت سے معمور تھی جو کسی مقابلہ کو خیال میں نہیں لاتی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ
تھوڑے عرصہ میں ہی قریش نے ہتھیار ڈال دیئے اور ابوبصیر کی پارٹی کے حملوں سے تنگ آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک سفارت کے ذریعہ درخواست کی اور اپنی رشتہ داری کا واسطہ دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عرض کیا کہ سیف البحر کے مہاجرین کو مدینہ میں بلاکر اپنے سیاسی انتظام میں شامل کر لیں اور ساتھ ہی صلح حدیبیہ کی اس شرط کو کہ مکہ کے نومسلموں کو مدینہ میں پناہ نہیں دی جائے گی اپنی خوشی سے منسوخ کر دیا۔‘‘
یہ شرط بھی انہوں نے خود ختم کر دی کہ جو مسلمان ہو کے مدینہ آئے اس کو واپس لوٹایا جائے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے آپ رکھیں بیشک۔
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخواست کو منظور فرما لیا اور ابوبصیر اور ابوجندل کوایک خط کے ذریعہ اطلاع بھجوائی کہ چونکہ قریش نے اپنی خوشی سے معاہدہ میں ترمیم کر دی ہے۔ اس لیے اب انہیں مدینہ میں چلے آنا چاہیے۔‘‘ تم لوگ یہاں مدینہ آ جاؤ۔
’’جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایلچی سیف البحر پہنچا تواس وقت ابوبصیر بیمار ہوکر صاحبِ فراش تھا اور حالت نازک ہو رہی تھی۔ ابوبصیر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوب مبارک کوبڑے شوق کے ساتھ اپنے ہاتھ میں تھامے رکھا اور تھوڑی دیر بعد اسی حالت میں جان دے دی۔‘‘
ان کی وفات ہو گئی ’’اور اس کے بعد ابوجندل اور اس کے ساتھی اپنے اس باہمت اور جوانمرد امیر کو سیف البحر میں ہی دفن کرکے خوشی اور غم کے مخلوط جذبات کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے۔ غم اس لیے کہ ان کا بہادر لیڈر ابوبصیر جو اس واقعہ کا ہیرو تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدم بوسی سے محروم رہا اور خوشی اس بات پرکہ وہ خود اپنے آقا کے قدموں میں پہنچ گئے اور قریش کے خونی مقابلہ سے نجات ملی۔‘‘
(سیرت خاتم النبیین ؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 774 تا 777)
غیر مسلم مؤرخین حسب عادت تاریخ کو توڑ مروڑ کر اسلام پر اعتراض کرتے رہتے ہیں۔
صلح حدیبیہ کے تعلق میں عیسائی مؤرخین کے اعتراضات کا ذکر
بھی ملتا ہے۔ اس ضمن میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ’’غالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح کاکوئی اہم واقعہ ایسا نہیں ہے جسے مسیحی مؤرخین نے بغیر اعتراض کے چھوڑا ہو اور صلح حدیبیہ کا واقعہ بھی اسی کلیہ کے نیچے آتا ہے۔ بعض ضمنی اورغیر اہم اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے عیسائی مصنفین نے صلح حدیبیہ کے تعلق میں دو اعتراض کئے ہیں:۔
اوّل یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صلح حدیبیہ کی شرائط سے عورتوں کو مستثنیٰ قرار دیا یہ شرائط معاہدہ کی رو سے جائز نہیں تھا کیونکہ معاہدہ کے الفاظ عام تھے جس میں مرد عورت سب شامل تھے۔
دوم یہ کہ ابوبصیر کے واقعہ کے تعلق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ کی روح کو توڑا بلکہ ابوبصیر کویہ اشارہ دے کر کہ وہ مکہ میں واپس جانے کی بجائے ایک الگ پارٹی بناکر اپنا کام کرسکتا ہے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی۔
ان اعتراضوں کے جواب میں سب سے پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہیے کہ یہ معاہدہ قریش مکہ کے ساتھ ہوا تھا اورقریش مکہ وہ قوم تھی جو ابتداء اسلام سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف برسرپیکار چلی آتی تھی‘‘اور جب معاہدہ ہو رہا تھا تو اس وقت بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جو ان کے نمائندے تھے وہ کس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپ کو ٹوک رہے تھے لیکن بہرحال ’’اور بات بات پراعتراض کرنے اور طعنہ دینے کی عادی تھی اورویسے بھی وہ کوئی دور دراز کی غیر قوم نہ تھی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ہی قوم تھی جسے سب حالات کاپوراپوراعلم تھا۔‘‘ قریش جن کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا وہ تو اپنے ہی لوگ تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے ہی تھے۔ ہر چیز کا ان کو علم بھی تھا اور بڑی تفصیل سے انہوں نے معاہدہ بھی طے کیا تھا۔ اس لیے یہ کہنا کہ عورت مرد شامل تھے ان کو بھی پتہ تھا کہ شامل تھے یا نہیں شامل تھے۔
بہرحال پھر لکھتے ہیں کہ ’’اور پھر شرائط معاہدہ کی تمام تفصیلات اور ان کا مکمل پس منظر بھی ان کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ پس جب مکہ کے قریش نے جو فریق معاہدہ تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل پر اعتراض نہیں کیا اور اسے معاہدہ کے خلاف نہیں سمجھا تو تیرہ سوسال بعد میں آنے والے لوگوں کو جن کی آنکھوں سے بہت سی جزئی تفاصیل پوشیدہ ہیں اور انہیں اس معاہدہ کے پس منظر پر بھی پوری طرح آگاہی نہیں اعتراض کاحق کس طرح پیدا ہوسکتا ہے؟‘‘ ان مشرکین نے تو اعتراض نہیں کیا۔ آجکل کے اسلام پر اعتراض کرنے والے مستشرقین اعتراض کرتے ہیں۔
’’یہ تو مدعی سست گواہ چست والا معاملہ ہوا کہ جن کے ساتھ یہ سارا قصہ گزرا وہ تو اسے درست قرار دے کر خاموش رہتے ہیں مگر تیرہ سو سال بعد میں آنے والوں نے گویا آسمان سرپر اٹھا رکھا ہے۔
آخر یہ کیا وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ قرآن وحدیث اور عرب کی تاریخ ان اعتراضوں سے بھرے پڑے ہیں جوکفار مکہ اور دوسرے کفار عرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے خلاف کیا کرتے تھے مگر یہ ذکر کسی جگہ نہیں آتا کہ مسلمانوں پر صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ہو۔‘‘ ایک لمبے عرصہ تک کوئی اعتراض نہیں لگا۔ آج ان کو پتہ لگ رہا ہے کہ اعتراض کرو۔
’’علاوہ ازیں یہ بات مضبوط ترین شہادت سے ثابت ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کی طرف تبلیغی خط ارسال کیا اور اس وقت اتفاق سے ابوسفیان بن حرب رئیس مکہ بھی شام میں گیا ہوا تھا اور ہِرَقْلشہنشاہ روم نے اسے اپنے دربار میں بلا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بعض سوالات کئے جن میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ ’’کیا تمہاری قوم کے اس مدعی نبوت نے کبھی کسی معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہے؟ تو اس سوال کے جواب میں ابوسفیان نے جو اس وقت رأس المنکرین، منکرین کا سردار تھا اور اسلام کا اشد ترین دشمن تھا جو الفاظ کہے وہ یہ تھے ۔ … ’’نہیں۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کبھی کسی معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں کی ہاں آج کل اس کے ساتھ ہمارے ایک معاہدہ کی میعاد چل رہی ہے اور میں نہیں کہہ سکتا کہ اس معاہدہ کے اختتام تک اس کی طرف سے کیا امر ظاہر ہو۔ ابوسفیان کہتا ہے کہ اس ساری گفتگو میں میرے لیے اس فقرہ کے بڑھا دینے کے سوا کوئی اَور موقع نہیں تھا کہ میں آپؐ کے خلاف ہرقل کے دل میں کوئی امکانی شبہ پیدا کر سکوں۔‘‘
ابوسفیان اور ہرقل کی یہ گفتگو صلح حدیبیہ کے معاً بعد نہیں ہوئی تھی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہرقل کے نام تبلیغی خط تیار کر کے روانہ کرنے اور پھر اس خط کے ہرقل تک پہنچنے اور پھر ہرقل کی طرف سے دربار منعقد ہونے اور ابوسفیان کو تلاش کرکے اپنے دربار میں بلانے وغیرہ میں لازماً وقت لگا ہو گا‘‘ کیونکہ سفر بھی اس زمانے میں کوئی آسان نہیں تھے ’’اور قرین قیاس یہ ہے کہ اس وقت تک ابوبصیر کے مدینہ میں بھاگ آنے اور ام کلثوم وغیرہ مسلمان عورتوں کے مکہ سے نکل کر مدینہ پہنچ جانے کے واقعا ت ہوچکے ہوں گے۔ اسی لیے سب مؤرخ ابوبصیر اور امِ کلثوم والے واقعہ کوپہلے اور قیصر روم والے خط کے واقعہ کو اس کے بعد بیان کرتے ہیں مگر باوجود اس کے ابوسفیان ہرقل کے دربار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عہدشکنی کا الزام نہیں لگا سکا حالانکہ اس کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اس کی یہ خواہش تھی کہ اگر کوئی ہاتھ پڑ سکے تو دریغ نہ کروں۔ مگر باوجود اس کے تیرہ سوسال بعد میں پیدا ہونے والے نقاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر عہد شکنی کاالزام لگاتے ہوئے خدا کاخوف محسوس نہیں کرتے۔ افسوس صد افسوس!
پھر اگر ان اعتراضوں کی تفصیل میں جائیں تو ان کا بودا پن اَور بھی زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے۔
مثلاً پہلا اعتراض یہ ہے کہ دراصل معاہدہ میں مرد اور عورتیں دونوں شامل تھیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زبردستی سے کام لے کر عورتوں کو مستثنیٰ قرار دے دیا، لیکن جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں‘‘ یہاں پہلے بیان ہوا ہے کہ ’’یہ اعتراض بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کیونکہ معاہدہ کے وہ الفاظ جو صحیح ترین روایت میں بیان ہوئے ہیں ان میں صراحتاًمذکور ہے کہ معاہدہ میں صرف مرد مراد تھے نہ کہ مرد اور عورتیں دونوں۔ چنانچہ جیسا کہ …‘‘یہ بیان ہوا ہے پہلے بھی کہ ’’… صحیح بخاری میں معاہدہ کے یہ الفاظ درج ہیں:۔ لَا یَاْتِیْکَ مِنَّارَجُلٌ وَاِنْ کَانَ عَلٰی دِیْنِکَ اِلَّارَدَدْتَہٗ اِلَیْنَا۔ یعنی ’’ہم میں سے جو مرد بھی آپ کی طرف جائے گا وہ خواہ مسلمان ہی ہوگا اسے ہماری طرف لوٹا دیا جائے گا۔‘‘
ان واضح اور غیر مشکوک الفاظ کے ہوتے ہوئے یہ اعتراض کرنا کہ دراصل معاہدہ میں مرد وعورت دونوں مراد تھے صرف بے انصافی ہی نہیں بلکہ انتہائی بددیانتی ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ کی بعض روایتوں میں معاہدہ کے الفاظ میں رجل (مرد) کا لفظ مذکور نہیں بلکہ عام الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن میں مرد و عورت دونوں شامل سمجھے جاسکتے ہیں تواس کا جواب یہ ہے کہ اول تو بہرحال مضبوط روایت کومقدم سمجھا جائے گا اور جب صحیح ترین روایت میں رجل (مرد) کا لفظ آتا ہے تو لازماً اسی کو صحیح لفظ قرار دینا ہوگا۔ علاوہ ازیں جو الفاظ تاریخی روایت میں آتے ہیں وہ بھی اگر غور کیا جائے تو اسی تشریح کے حامل ہیں جو ہم نے اوپر بیان کی ہے مثلاً تاریخ کی سب سے زیادہ مشہور اور معروف کتاب سیرۃ ابن ہشام میں یہ الفاظ آتے ہیں:۔ مَنْ اَتٰی مُحَمَّدًامِنْ قُرَیْشٍ بِغَیْرِ اِذْنِ وَلِیِّہٖ رَدَّہٗ عَلَیْھِمْ۔ یعنی ’’جو شخص قریش میں سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس اپنے گارڈین کی اجازت کے بغیر پہنچے گا اسے قریش کی طرف واپس لوٹا دیا جائے گا۔‘‘
عربی کے ان الفاظ میں بے شک ’’مرد‘‘ کا لفظ صراحتاً بیان نہیں ہوا مگر عربی زبان کا ابتدائی علم رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ عربی میں بخلاف بعض دوسری زبانوں کے عورت اور مرد کے لیے علیحدہ علیحدہ صیغے اور علیحدہ علیحدہ ضمیریں استعمال ہوتی ہیں اور اوپر کی عبارت میں شروع سے لے کر آخرتک مردوں والے صیغے اور مردوں والی ضمیریں استعمال کی گئی ہیں۔ پس جیسا کہ معاہدوں کی زبانوں کی تشریح کااصول ہے لازماً اس عبارت میں صرف مرد ہی شامل سمجھے جائیں گے نہ کہ عورت اور مرد دونوں۔ بیشک بعض اوقات عام محاورہ میں مردانہ صیغہ بول کر اس سے مرد و عورت دونوں مراد لے لیے جاتے ہیں مگرظاہر ہے کہ
زیرِبحث عبارت اس قسم کی عبارت نہیں ہے بلکہ معاہدہ کی عبارت ہے جسے قانون کا درجہ بلکہ اس سے بھی اوپر کادرجہ حاصل ہوتا ہے کیونکہ اس کا ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر رکھا جاتا ہے اور الفاظ کا انتخاب دونوں فریقوں کی جرح اورمنظوری کے بعد ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسی عبارت میں لازماً وہی معنی لیے جائیں گے جو محدود ترین اور مخصوص ترین پہلو رکھتے ہوں۔‘‘
اور جرح کا قصہ اور اس کی تفصیل تو آپ پچھلے خطبہ میں سن ہی چکے ہیں۔ کس تفصیل سے کافروں کے نمائندے نے جرح کی تھی۔ ’’پس اس جہت سے بھی بہرحال یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس معاہدہ میں صرف مرد شامل تھے نہ کہ مرد اور عورت دونوں۔
علاوہ ازیں جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے عورت جو ایک کمزور جنس ہے اور عموماً اپنے خاوند یامرد رشتہ داروں کے رحم پر ہوتی ہے، اسے واپس لوٹانے کے یہ معنی تھے کہ اسے اسلام لانے کے بعد پھر اپنےہاتھوں سے کفر اورشرک کی طرف لوٹا دیا جائے جو نہ صرف رحم وشفقت بلکہ عدل وانصاف کے جذبہ سے بھی بعید تھا۔ بیشک ایک مرد کو واپس لوٹانے میں بھی اس کے لیے یہ خطرہ تھا کہ مکہ کے کفار اسے مختلف قسم کے عذابوں اور دکھوں میں مبتلا کریں گے مگر مرد پھربھی مرد ہے۔ وہ نہ صرف تکلیفوں کا زیادہ مقابلہ کر سکتا ہے بلکہ حسبِ ضرورت اِدھر اُدھر چھپ کر یا بھاگ کر یا جتھہ وغیرہ بنا کر اپنے لیے بچاؤ کے کئی راستے کھول سکتا ہے‘‘ جیسا کہ ابوبصیر نے کیا تھا۔ ’’مگر ایک بے بس عورت کیا کر سکتی ہے؟ اس کے لیے ایسے حالات میں یا تو اسلام سے جبری محرومی کی صورت تھی اور یا موت۔ اندریں حالات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسی رحیم وکریم ہستی سے بالکل بعید تھا کہ بے کس اوربے بس مسلمان عورتوں کوظالم کفار کے مظالم کی طرف لوٹا دیتے۔ پس جو کچھ کیا گیا وہ نہ صرف معاہدہ کے الفاظ کی رو سے بالکل صحیح اور درست تھا بلکہ عدل وانصاف اور رحم وشفقت کے مسلمہ اصول کے لحاظ سے بھی عین مناسب اور درست تھا اور اعتراض کرنے والوں کے حصہ میں اس قابل افسوس شرم کے سوا کچھ نہیں آیا کہ انہوں نے مظلوم اور بے بس عورتوں کی حفاظت کے انتظام پر بھی زبان طعن دراز کرنے سے دریغ نہیں کیا۔
دوسرا اعتراض ابوبصیر کے واقعہ سے تعلق رکھتا ہے۔
مگر غور کرنے سے یہ اعتراض بھی بالکل بودا اور کمزور ثابت ہوتا ہے۔ بیشک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معاہدہ فرمایا تھا کہ کفار مکہ میں سے جوشخص یعنی جو مرد مدینہ بھاگ کر آجائے گا تو وہ خواہ مسلمان ہی ہو گا اسے مدینہ میں پناہ نہیں دی جائے گی اور واپس لوٹا دیا جائے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی؟ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ آپؐ نے اس معاہدہ کے ایفا کاایسا کامل اور شان دار نمونہ دکھایا کہ دنیا اس کی نظیر لانے سے عاجز ہے۔ غورکرو اوردیکھو کہ ابوبصیر اسلام کی صداقت کاقائل ہو کر مکہ سے بھاگتا ہے۔ اور کفار کے مظالم سے محفوظ ہونے اور اپنا ایمان بچانے کے لیے چھپتا چھپاتا مدینہ میں پہنچ جاتا ہے مگر اس کے ظالم رشتہ دار بھی اس کے پیچھے پیچھے پہنچتے ہیں اور اسے تلوار کے زور سے اسلام کی صداقت سے منحرف کرنے کے لیے جبراً واپس لے جانا چاہتے ہیں۔ اس پر یہ دونوں فریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ ابوبصیر بھرائی ہوئی آواز اور سہمے ہوئے انداز میں عرض کرتا ہے کہ یارسول اللہ! مجھے خدا نے اسلام کی نعمت سے نوازا ہے اور مکہ واپس جانے میں جو دکھ اور خطرہ کی زندگی میرے سامنے ہے اسے آپ جانتے ہیں۔ خدا کے لیے مجھے واپس نہ لوٹائیں۔ مگر اس کے مقابل پرابوبصیر کے رشتہ دار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ کا اور ہمارا معاہدہ ہے کہ ہمارا جو آدمی بھی مدینہ آئے گا اسے واپس لوٹا دیا جائے گا۔ ابوبصیر کا دکھ اور اپنے صحابہ کی غیرت آپؐ کی آنکھوں کے سامنے ہے‘‘(صلی اللہ علیہ وسلم) ’’اور خود آپؐ کے اپنے جذبات آپؐ کے دل میں تلاطم برپا کررہے ہیں۔‘‘ سخت صدمہ تھا آپ کو دل میں’’مگر یہ امانت ودیانت کامجسمہ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ’’اپنے عہدپر چٹان کی طرح قائم رہتے ہوئے فرماتا ہےاورکن پیارے الفاظ میں فرماتا ہے : آپؐ فرماتے ہیں:
… ’’اے ابو بصیر! تم جانتے ہو کہ ہم ان لوگوں کواپنا عہدوپیمان دے چکے ہیں اورہمارے مذہب میں عہد شکنی جائز نہیں ہے۔‘‘
دیکھیں کسی کی جان کا سوال ہے لیکن آپ فرما رہے ہیں کہ ہمارے مذہب میں عہد شکنی جائز نہیں ہے۔ اب ہم جو چھوٹے چھوٹے عہدوں کو توڑ دیتے ہیں ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کیا ایمانی حالت ہے ہماری۔ پھر آپؐ نے فرمایا
’’پس تم ان لوگوں کے ساتھ چلے جاؤ۔ پھر اگر تم صبرواستقلال کے ساتھ اسلام پر قائم رہو گے توخدا تمہارے لیے اورتم جیسے دوسرے بے بس مسلمانوں کے لیے خود کوئی نجات کا رستہ کھول دے گا۔‘‘
اور وہ نجات کا رستہ پھر ہم نے دیکھا کہ کھل گیا۔
’’اس ارشاد نبویؐ پر ابوبصیر مکہ والوں کے ساتھ واپس چلا گیا اورجب وہ مکہ کے رستہ میں اپنے قید کرنے والوں کے ساتھ لڑائی میں غالب ہوکر پھر دوبارہ واپس آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھتے ہی غصہ کے ساتھ فرمایا:۔ وَیْلُ اُمِّہٖ مُسْعِرُحَرْبٍ لَوْکَانَ لَہٗ اَحَدٌ۔ یعنی ’’خرابی ہو اس ماں کے لیے۔ یہ شخص تولڑائی کی آگ بھڑکا رہا ہے۔کاش اسے کوئی سنبھالنے والا ہو۔‘‘
یہ الفاظ سنتے ہی ابوبصیر یہ یقین کر لیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بہرحال واپس لوٹا دیں گے اور مدینہ سے چپکے چپکے نکل آتا ہے اور ایک دُور کی علیحدہ جگہ میں اپنا ٹھکانا بنا لیتا ہے۔ اب اس سارے واقعہ کو انصاف کی نظر سے دیکھو کہ ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرکیا ذمہ واری عائد ہوتی ہے اور آپ کے خلاف کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ بلکہ حق یہ ہے کہ آپؐ نے اس معاملہ میں اپنے جذبات کو کچلتے ہوئے معاہدہ کو پورا کیا اور نہ صرف ایک دفعہ بلکہ دو دفعہ ابوبصیر کو واپس لوٹایا اور واپس بھی ایسے شان دار الفاظ میں لوٹایا کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آپؐ نے اپنے جذبات کو کچلا۔ اپنے صحابہ کے جذبات کوکچلا اور ابوبصیر کے جذبات کوکچلا اور ہر حال میں معاہدہ کو پورا کیا۔ پھر اگر ابوبصیر خود اہل مکہ سے آزاد ہوکر کسی اَور جگہ چلاگیا تو اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے اورمعاہدہ کی وہ کون سی شرط ہے جس کے مطابق آپؐ اس بات کے پابند تھے کہ خواہ مکہ سے بھاگا ہوا شخص کہیں بھی ہو آپ اسے مکہ میں واپس پہنچا دینے کے ذمہ دار ہوں گے۔ افسوس! افسوس!! اسلام کے دشمنوں نے کسی بات میں بھی اسلام سے انصاف نہیں کیا۔
اوراگریہ اعتراض کیا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابوبصیر کواس کے قائم کردہ کیمپ میں حکم بھجواسکتے تھے کہ تم مدینہ واپس چلے آؤ اور یہ کہ چونکہ آپؐ نے ایسا نہیں کیا اس لیے آپؐ نے گویا معاہدہ کے الفاظ کو تو نہیں مگر ان کی روح کو توڑا۔‘‘ یہ بھی ایک بودا سا اعتراض کیا جاتا ہے۔
’’سو یہ اعتراض بھی ایک سراسر جہالت کا اعتراض ہے اور خود معاہدہ کے الفاظ اوران الفاظ کی روح اسے رد کرتے ہیں۔ معاہدہ کی یہ شرط کہ اگر کوئی مکہ کا رہنے والا مسلمان بھاگ کرمدینہ میں پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے واپس لوٹا دیں گے صاف طورپر ثابت کرتی ہے کہ اس شرط کی غرض وغایت یہ تھی کہ ایسے شخص کو باوجود اس کے مسلمان ہونے کے مدینہ کی اسلامی سیاست کے دائرہ میں قبول نہیں کیا جائے گا یعنی گو وہ عقیدہ کی رو سے مسلمان ہو گا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی مدنی سیاست میں شریک نہیں کریں گے۔ تو جب ایسا شخص خود معاہدہ کی شرائط کے ماتحت مدینہ کی اسلامی سیاست سے خارج قرار دیا گیا تھا تو اس کے متعلق یہ مطالبہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ وہ جہاں بھی ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے حکم دے کر واپس لوٹادیں گے۔ پس یہ کتنا بھاری ظلم ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کومدینہ میں رکھتے ہیں تو آپؐ پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ آپ کامعاہدہ تھا کہ مسلمان ہونے کے باوجود آپؐ اسے اپنی سیاست میں شامل نہیں کریں گے اور اگر آپ اسے اپنی مدنی سیاست سے خارج کرکے اہل مکہ کے سپرد کرتے اور مدینہ سے نکالتے ہیں تو پھر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپؐ اسے اپنی سیاست میں شامل کرکے حکم کیوں نہیں بھجواتے۔ پس سیاسی لحاظ سے یہ ایک ایسا بودا اور ایسا کمزور اور ایسا لایعنی اعتراض ہے کہ کوئی سمجھ دار شخص اس کی طرف توجہ نہیں کر سکتا۔ اور
حق یہ ہے کہ یہ نامعقول شرط جوکفار کی طرف سے معاہدہ میں شامل کی گئی تھی کہ کسی مسلمان مہاجر کو مدینہ میں پناہ نہ دی جائے خدا نے اسی کو ان کے لیے عذاب بناکر بتا دیا کہ ہمارے رسولؐ نے تو بہرحال معاہدہ کی پابندی کی مگر تم نے اپنے رستہ میں خود کانٹے بوئے اور خود اپنے ہی بنائے ہوئے ہتھیار سے اپنے ہاتھ کاٹے۔
جب تم نے خود کہا کہ مکہ کا جو نوجوان بھی مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں نہیں رکھیں گے اور یہ کہ وہ مدینہ کی سیاست سے خارج سمجھا جائے گا تو پھر اسی منہ سے تم یہ مطالبہ کس طرح کرسکتے ہو کہ یہ مدنی سیاست سے خارج لوگ جہاں جہاں بھی ہوں انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حکم دے کر اور ان پر اپنی سیاست قائم کرکے مکہ پہنچائیں؟‘‘بالکل جاہلانہ بات ہے۔ ’’تم نے خود یہ شرط پیش کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کی روحوں پر اور ان کے امور اخروی پر تو بیشک حکومت کریں مگر ان کی سیاست اور دنیوی امور پر حاکم نہ بنیں۔‘‘ سیاسی لحاظ سے، حکومتی لحاظ سے، قانونی لحاظ سے آپ کا ان پر حق نہیں ہو گا۔ ہاں بیشک وہ مسلمان ہیں روحانی طور پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت میں شامل ہوئے، مسلمان ہوئے، مومن کہلائیں گے۔ لیکن خود انہوں نے شرط رکھی تھی کہ سیاسی لحاظ سے تمہارے نہیں ہوں گے جو آپ نے مان لیا کہ ٹھیک ہے نہیں ہوں گے۔’’اور جب تم نے خود انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست سے نکال دیا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیسا؟ بہرحال یہ قریش مکہ کا اپنا مکر تھا جو خود انہی پر لوٹ کر گرا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کادامن بہرصورت پاک تھا اور پاک رہا۔ آپؐ نے معاہدہ کے الفاظ کوبھی پورا کیا اور ابوبصیر کو مکہ والوں کے سپرد کرتے ہوئے مدینہ سے رخصت کر دیا اور پھر آپؐ نے معاہدہ کی روح کوبھی پورا کیا کہ جیسا کہ اس شرط کااصل منشاء تھا۔ آپ نے ابوبصیر اور اس کے ساتھیوں کواپنی سیاست کے دائرہ سے خارج رکھا۔ پس آپ ہرجہت سے سچے رہے اور کفار مکہ اپنے ہی پھیلائے ہوئے جال کا خود شکار ہو کر رہ گئے اور بالآخر خود ذلیل ہو کر آپؐ کے پاس آئے کہ ہم اس شرط کومعاہدہ سے خارج کرتے ہیں۔
اوریہ کہنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ کہہ کر کہ وَیْلُ اُمِّہٖ مُسْعِرُحَرْبٍ لَوْکَانَ لَہٗ اَحَدٌ۔ (یعنی اس کی ماں کے لیے خرابی ہو۔یہ شخص توجنگ کی آگ بھڑکار رہا ہے۔ کاش کوئی اسے سنبھالنے والا ہو) ابوبصیر کو یہ اشارہ کیا تھا۔‘‘ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ ان الفاظ میں ابوبصیر کو یہ اشارہ کیا تھا ’’کہ تم الگ پارٹی بناکر قریش سے جنگ شروع کر دو۔ کتنا ظلم اور کتنی گندی ذہنیت ہے اور حالات پیش آمدہ سے کتنی جہالت ہے! یہ الفاظ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور ناواجب جنگ سے آپؐ کی بیزاری کابین ثبوت ہیں۔‘‘آپ نے کہا۔ کیا یہ جنگ بھڑکانا چاہتا ہے؟ نہ یہ کہ اشارہ ہے کہ تم جنگ بھڑکاؤ۔ ’’اور اس بات کوثابت کرتے ہیں کہ آپؐ ابوبصیر کے اس فعل سے بریت اوربیزاری کااظہار فرما رہے ہیں نہ یہ کہ اسے کوئی مخفی اشارہ دے کر جنگ پر ابھارنا چاہتے ہیں۔
اوراگر کوئی شخص یہ خیال کرے جیسا کہ سرولیم میور نے خیال کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری الفاظ لَوْکَانَ لَہٗ اَحَدٌ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ ’’اگر اسے کوئی ساتھی مل جائے۔‘‘ اور اس سے پتہ لگتاہے کہ آپؐ کا یہی منشاء تھا کہ اگر ابوبصیر کو کوئی ساتھی مل جائے تو وہ جنگ کی آگ بھڑکا سکتا ہے اور اس طرح اس کلام میں گویا جنگ کی انگیخت کااشارہ پایا جاتا ہے۔
تواس کا یہ جواب ہے کہ اول توجو معنی ہم نے کئے ہیں وہ عربی محاورہ کے عین مطابق ہیں۔‘‘ جو ہم نے تاریخ سے بیان کئے ہیں۔ ’’جس کی مثالیں حدیث میں بھی کثرت سے ملتی ہیں۔ علاوہ ازیں اگر بالفرض دوسرے معنی جائز بھی ہوں‘‘ کئے بھی جائیں جس طرح ولیم میور کرنا چاہتے ہیں ’’تو پھربھی عبارت کے سیاق وسباق کے ماتحت اس فقرہ کامطلب اس کے سوا کوئی اور نہیں لیا جاسکتا کہ اگر ابوبصیر کو اس کا کوئی ہم خیال ساتھی مل جائے تو یہ جنگ کی آگ بھڑکادے مگر شکر ہے کہ اسے مدینہ میں کوئی ایسا ساتھی میسر نہیں۔‘‘ پس اس سے یہ بھی تو نکلتا ہے ناں کہ اگر مل جائے تو ٹھیک ہے مگر ہمارے پاس تو کوئی ایسا ساتھی نہیں ہے کہ اس کی مدد کرے۔
’’پس خواہ کوئی معنی لیے جائیں اس عبارت کاسیاق وسباق اور اس کے ابتدائی ٹکڑے اس بات کا کافی وشافی ثبوت ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامنشاء ابوبصیر کو ملامت کرنا تھا نہ کہ جنگ کے لیے ابھارنا۔
کیا اپنے کلام کو اس غصہ اورملامت کے الفاظ سے شروع کرنے والا شخص کہ ’’فلاں شخص کی ماں کے لیے خرابی ہو وہ تو جنگ کی آگ بھڑکانے والا ہے۔‘‘ اس کے معاً بعد اس قسم کے الفاظ منہ پر لاسکتا ہے کہ ’’ہاں ہاں جنگ کی آگ بھڑکاؤ؟‘‘آخر اعتراض کرنے کے شوق میں عقل کوتو ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے!‘‘ لیکن بظاہر یہ جو اوریئنٹلسٹ (orientalist) ہیں، مستشرقین ہیں، اپنے آپ کو پڑھے لکھے کہتے ہیں لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا سوال آتا ہے، اسلام کی تاریخ کا سوال آتا ہے تو یہاں بالکل عقل سے عاری باتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ ’’پھرسب سے بڑی بات یہ دیکھنے والی ہے کہ خود ابوبصیر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ نے کیا اثر کیا اور اس نے آپؐ کا کیا مطلب سمجھا۔ سواس کے متعلق اسی روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ:۔ فَلَمَّا سَمِعَ ذٰلِکَ عَرَفَ اَنَّہٗ سَیَرُدُّہٗ اِلَیْھِمْ۔ یعنی ’’جب ابوبصیر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ سنے تو اس نے سمجھ لیا کہ آپ بہرحال اسے مکہ والوں کی طرف واپس لوٹا دیں گے۔‘‘ جس پر وہ چپکے سے بھاگ کردوسری طرف نکل گیا۔
افسوس! صد افسوس!! کہ جس شخص کومخاطب کر کے یہ الفاظ کہے گئے وہ خود تو ان کا یہ مطلب سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اس فعل کو ناپسند کیا ہے اور آپؐ بہرحال اسے مکہ کی طرف واپس لوٹادیں گے مگر ہمارے تیرہ سوسال بعد آنے والے مہربان یہ کہہ رہے ہیں کہ دراصل آپؐ نے ابوبصیر کوالگ پارٹی بناکر جنگ کرنے کی انگیخت کی تھی۔ تعصب کا ستیاناس ہو۔ بے انصافی کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیین ؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ778 تا 785)
انصاف کے دعویداروں کے ہمیشہ سے یہی دوہرے معیار ہیں جس نے دنیا میں فساد پیدا کیا ہوا ہے اور آج بھی یہی فساد چل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آج بھی دنیا کو اور خاص طور پر مسلمانوں کو خود بھی عقل دے اور ان دجالی فتنوں سے بھی بچائے رکھے۔
٭…٭…٭