حاصل مطالعہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’ہم سب کے سب عمر کی ایک تیز رفتار گاڑی پر سوار ہیں اور مختلف مقامات کے ٹکٹ ہمارے پاس ہیں۔ کوئی دس برس کی منزل پر اتر جاتا ہے۔ کوئی بیس کوئی تیس اور بہت ہی کم ۸۰ برس کی منزل پر جبکہ یہ حال ہے تو پھر کیا بد نصیب وہ انسان ہے کہ وہ اس وقت کی جو اس کو دیا گیا ہے کچھ قدر نہ کرے اور اس کو ضائع کر دے۔(ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۴۰۱، ۴۰۲۔ایڈیشن۱۹۸۸ء)
سراپا محمدﷺ
آپ علیہ السلام ایک جگہ آنحضرت ﷺ کی مدح میں یوں فرماتے ہیں:’’دنیا میں کروڑہا ایسے پاک فطرت گذرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مردِ خدا کو پایا ہے جس کا نام ہےمحمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم۔‘‘(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۰۱)
مسجد مبارک سے مسجد اقصیٰ تک مسجد ہی مسجد ہے
حضرت مولوی محمد عبد الله بو تالوی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں : ’’خاکسار جب قادیان آیا تو میرے ایامِ قیام میں ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر سے مسجد مبارک میں تشریف لائے۔ حضور کے گرداگرد حاضرین کا مجمع استادہ تھا۔ حضور بھی ان کے درمیان کھڑے تھے اس وقت حضورؑ نے کھڑے کھڑے فرمایا کہ شاید کسی دوست کو یاد ہو ہم نے ایک دفعہ پہلے بھی بتایا تھا کہ ہمیں دکھلایا گیا ہے کہ اِس چھوٹی مسجد (مبارک) سے بڑی مسجد ( اقصیٰ) تک مسجد ہی مسجد ہے، اس پر حاضرین میں سے دو تین اصحاب نے کہا کہ ہاں…حضور ہمیں یاد ہے کہ حضور نے اس طرح فرمایا تھا۔ خاکسار کو ان میں سے ایک کا نام تو یاد ہے کہ وہ شیخ یعقوب علی صاحبؓ تھے باقیوں کے متعلق یاد نہیں کہ وہ کون کون صاحب تھے۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اب مجھے پھر یہی دکھایا گیا ہے کہ اس چھوٹی مسجد سے لے کر بڑی مسجد تک مسجد ہی مسجد ہے۔‘‘(اصحاب احمد جلد۷ صفحہ ۱۸۳-۱۸۴)
اولاد کو نیک بنانے کا قطعی نسخہ
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:’’انسان کے نطفہ میں عادات، اخلاق، کمالات کا اثر ہوتا ہے۔ والدین کے ایک ایک برس کے خیالات کا اثر ان کی اولاد پر ہوتا ہے۔ جتنی بداخلاقیاں بچوں میں ہوتی ہیں وہ والدین کے اخلاق کا عکس اور اثر ہوتا ہے۔ کبھی ہم نشینوں اور ملنے والوں کے خیالات کا اثر بھی والدین کے واسطے سے پڑتا ہے۔ پس خود نیک بنو اخلاق فاضلہ حاصل کرو تا تمہاری اولاد نیک ہو۔ اَلْوَلَدُ سِرٌّ لِاَبِیْہِ میں یہی تمہید ہے۔ اولاد والدین کے اخلاق، اعمال، عقائد کا آئینہ ہوتی ہے۔‘‘(الحکم ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳)
ایک ایمان افروز تفسیری نکتہ
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی ایک نہایت پرحکمت اور پر معرفت کتابِ ہدایت ہے۔ اس کی آیاتِ کریمہ سورۃ النحل ۶، ۷ کے حوالے سے ایک نہایت پُر معرفت تفسیری نکتہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ اور حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی تفاسیر میں بیان کیا ہے۔ ازدیادِ علم و عرفان کے لیے درج ذیل ہے۔
اللہ تعالیٰ سورۃ النحل ۶، ۷ میں فرماتا ہے:وَالۡاَنۡعَامَ خَلَقَہَا ۚ لَکُمۡ فِیۡہَا دِفۡءٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ۔وَلَکُمۡ فِیۡہَا جَمَالٌ حِیۡنَ تُرِیۡحُوۡنَ وَحِیۡنَ تَسۡرَحُوۡنَ۔نیز چارپایوں کو (اللہ نے پیدا کیا ہے اور انہیں) ایسا بنایا ہے کہ ان میں تمہارے لئے گرمی کا سامان ہے اور (اور بھی) کئی نفعے ہیں اور تم ان (کے گوشت) کا کچھ حصہ کھاتے ہو۔ اور (اس کے علاوہ) جب تم انہیں چرا کر شام کو (ان کے تھانوں کی طرف) واپس لاتے ہو تو اس میں ایک قسم کا زینت کا سامان ہوتا ہے اسی طرح اس وقت جب تم انہیں (صبح کو) چرنے کے لئے (آزاد) چھوڑتے ہو (تو اس میں بھی تمہارے لئے زینت اور بڑائی کا سامان ہوتا ہے)۔
٭…حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓفرماتے ہیں:’’جَمَالٌ : عزت کا نشان
تُرِیْحُونَ : واپس لاتے ہو۔ واپس لانے کا ذکر پہلے اس لئے فرمایا کہ اس وقت جانور موٹا تازہ ہو کر واپس آتا ہے اور اس میں زیادہ تر اظہار شوکت کا ہوتا ہے۔ یہ انعام اس لئے ذکر فرمائے کہ دیکھیں ان نعمتوں کا تم کُفر کر رہے ہو۔ جس کا نتیجہ بَد اٹھاؤ گے۔‘‘(حقائق الفرقان جلد دوم، صفحہ ۴۷۳ )
٭…حضرت مصلح موعودؓ شام کو جانوروں کے آنے کا ذکر ان کو صبح چرنے کے لیے چھوڑنے سے پہلے کرنے کی وجہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ یہاں تُرِیْحُونَ یعنی شام کو جانوروں کے آنے کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور تَسْرَحُوْنَ یعنی صبح کو انہیں چرنے کے لئے بھیجنے کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے۔ حالانکہ جانور پہلے گھر سے جاتا ہے اور پھر شام کو واپس آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جگہ جمال کا ذکر ہے اور جانوروں کے صبح گھر سے نکلنے کی نسبت شام کو گھر آنے کی حالت میں جمال زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ شام کو کھلا پھرنے اور پیٹ بھر کر گھاس کھا لینے کے بعد وہ تروتازہ نظر آتے ہیں۔ نیز اس لئے بھی کہ صبح جب جانور جاتے ہیں تو انسان کے دل میں خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی جانور کھویا نہ جائے۔ یا کوئی درندہ اُسے نہ پھاڑ کھائے۔ مگر جب شام کو جانور صحیح سلامت گھر کی طرف لوٹتے ہیں تو انسان کا دل مطمئن ہو جاتا ہے اور وہ ان کو دیکھ کر اپنے اندر فخر محسوس کرتا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۶، صفحہ ۲۰، ۲۱)
احمدیت کی فتح اب مسجدوں کو آباد کرنے سے وابستہ ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’دنیا میں جہاں بھی جماعت کی مساجد ہیں اللہ کرے کہ وہ گنجائش سے کم پڑنے لگ جائیں۔ اور نمازیوں سے چھلک رہی ہوں۔ یاد رکھیں اسلام اور احمدیت کی فتح اب ان مسجدوں کو آباد کرنے سے ہی وابستہ ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ ۳؍اکتوبر ۲۰۰۳ء)
والدین کا بے پایاں احسان
حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں:’’جب میٹریکولیشن کے امتحان میں قریباً چھ مہینے باقی رہ گئے تو والد صاحب نے دریافت فرمایا کہ قرآن مجید کا ترجمہ کہاں تک پڑھ لیا ہے۔ میں نے عرض کی کہ ساڑھے سات پارے ختم کئے ہیں۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اس رفتار سے تو تم کا لج جانے تک شاید دس پارے بھی ختم نہ کر سکو اور میری بڑی خواہش ہے کہ کالج جانے سے پہلے تم سارے قرآن کریم کا کم سے کم سادہ ترجمہ ضرور سیکھ لو۔ اس سے آگے تمہارے اپنے ذوق اور اخلاص پر منحصر ہے لیکن اس قدر سکھا دینا میرا فرض ہے۔ اب وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے تم دن میں فراغت کے وقت دو تین رکوع کا ترجمہ دیکھ لیا کرو اور شام کو مجھے سنا دیا کرو۔ چنانچہ اس طریق سے انہوں نے امتحان تک مجھ سے قرآن کریم کا ترجمہ سن لیا۔ جہاں تلفظ یا ترجمہ میں مجھ سے غلطی ہوتی آپ مجھے بتا دیتے۔ اولاد پر ماں باپ کے احسانات کا سلسلہ لامتناہی ہوتا ہے۔ مجھ پر میرے والد صاحب کے بے پایاں احسانات میں سے ایک احسان عظیم یہ تھا کہ انہوں نے مسلسل توجہ فرما کر مجھے قرآن کریم کے سادہ ترجمے سے شناسا کرا دیا اور اس کے نتیجہ میں قرآن کریم کے ساتھ میری اجنبیت دور ہو گئی اور میرے دل میں قرآن کریم کا احترام اور عظمت قائم ہو گئے۔ اور مجھے قرآن کریم سے محبت ہوگئی۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔‘‘(تحدیثِ نعمت صفحہ ۶)
٭…٭…٭