حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

قیدیوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حُسنِ سلوک

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲۱؍جولائی۲۰۲۳ء)

قیدیوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ سلوک کے بارے میں طبقاتِ ابن سعد میں درج ہے کہ جب بدر کے قیدی آئے تو اُن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ بھی تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس رات جاگتے رہے۔ آپؐ کے صحابہؓ میں سے کسی نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ کو کس بات نے جگائے رکھا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عباس کے کراہنے کی آواز نے۔ تو ایک شخص گیا اور اس نے حضرت عباسؓ کے بندھن ڈھیلے کر دیے۔ باندھے ہوئے تھے۔ رسیاں کچھ ڈھیلی کر دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا بات ہے مَیں عباس کے کراہنے کی آواز نہیں سن رہا؟ تو ایک شخص نے کہا کہ میں نے ان کے بندھن کچھ ڈھیلے کر دیے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر تمام قیدیوں کے ساتھ ایسا ہی کرو۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد ۴صفحہ۹ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان۲۰۱۲ء) یہ نہیں کہ میرا رشتہ دار سمجھ کر ایک کے کر دیے۔

بدر کے قیدیوں کے متعلق سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو تفصیلات ذکر کی ہیں اس میں لکھا ہے کہ’’تین دن تک آپؐ نے بدر کی وادی میں قیام فرمایا اور یہ وقت اپنے شہداء کی تکفین وتدفین اوراپنے زخمیوں کی مرہم پٹی میں گزرا اور انہی دنوں میں غنیمت کے اموال کو جمع کرکے مرتب کیا گیا اور کفار کے قیدیوں کو جن کی تعداد ستر تھی محفوظ کرکے مختلف مسلمانوں کی سپردگی میں دے دیا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تاکید کی کہ قیدیوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا سلوک کریں اور ان کے آرام کا خیال رکھیں۔

صحابہؓ نے جن کو اپنے آقا ؐکی ہر خواہش کے پورا کرنے کا عشق تھا آپؐ کی اس نصیحت پر اس خوبی کے ساتھ عمل کیا کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ چنانچہ خود ان قیدیوں میں سے ایک قیدی ابوعزیز بن عمیرکی زبانی روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی وجہ سے انصار مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے لیکن خود کھجور وغیرہ کھا کر گزارہ کر لیتے تھے اور کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ ان کے پاس اگر روٹی کا چھوٹا ٹکڑا بھی ہوتا تھا تو وہ مجھے دے دیتے تھے اور خود نہیں کھاتے تھے اوراگر میں کبھی شرم کی وجہ سے واپس کردیتا تو وہ اصرار کے ساتھ پھرمجھی کو دے دیتے تھے۔ جن قیدیوں کے پاس لباس کافی نہیں تھا انہیں کپڑے مہیا کردیئے گئے تھے۔ چنانچہ عباس کو عبداللہ بن ابی نے اپنی قمیص دی تھی۔ سرولیم میور نے قیدیوں کے ساتھ اس مشفقانہ سلوک کا مندرجہ ذیل الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔‘‘ لکھتا ہے کہ ’’محمد (ﷺ)کی ہدایت کے ماتحت انصارو مہاجرین نے کفار کے قیدیوں کے ساتھ بڑی محبت اور مہربانی کا سلوک کیا۔ چنانچہ بعض قیدیوں کی اپنی شہادت تاریخ میں ان الفاظ میں مذکور ہے کہ خدا بھلا کرے مدینہ والوں کا وہ ہم کو سوار کرتے تھے اور آپ پیدل چلتے تھے۔ ہم کو گندم کی پکی ہوئی روٹی دیتے تھے اور آپ صرف کھجوریں کھا کر پڑ رہتے تھے۔ اس لیے (میور صاحب لکھتے ہیں) ہم کویہ معلوم کرکے تعجب نہ کرنا چاہیے کہ بعض قیدی اس نیک سلوک کے اثر کے نیچے مسلمان ہو گئے۔‘‘قیدیوں سے جب یہ سلوک ہوتا تھا تو ان میں سے بعض مسلمان ہو گئے ’’اور ایسے لوگوں کو فوراً آزاد کر دیا گیا ……جو قیدی اسلام نہیں لائے ان پر بھی اس نیک سلوک کا بہت اچھا اثر تھا۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ ۳۶۵)

جنگِ بدر کی اہمیت اور اس کے اثرات کے بارےمیں لکھا ہے کہ جب فتح بدر کی خوشخبری لے کر عبداللہ بن رَوَاحَؓہ اور زید بن حارثہؓ مدینہ پہنچے تو ان کے منہ سے فتح کی خوشخبری کا اعلان سن کر اللہ کا دشمن کعب بن اشرف یہودی ان کو جھٹلانے لگا۔ وہ کہنے لگا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بڑے بڑے رؤسا کو مار ڈالا ہے تو زمین کی پشت پر رہنے سے زمین کے اندر رہنا بہتر ہے۔ یعنی زندہ رہنے سے موت بہتر ہے۔ (سیرۃالحلبیہ جلد۲ صفحہ۲۵۰ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲۰۰۲ء)

علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب میں غزوۂ بدر کے نتائج بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’بدر کے معرکہ نے مذہبی اور ملکی حالات پر گونا گوں اثرات پیدا کیے اور حقیقت میں یہ اسلام کی ترقی کا قدمِ اوّلین تھا۔ قریش کے تمام بڑے بڑے رؤسا جن میں سے ایک ایک اسلام کی ترقی کی راہ میں سد آہن تھا فنا ہو گئے۔ عتبہ اور ابوجہل کی موت نے قریش کی ریاست عامہ کا تاج ابوسفیان کے سر پر رکھا جس سے دولت اموی کا آغاز ہوا لیکن قریش کی اصلی زور و طاقت کا معیار گھٹ گیا۔ مدینہ میں اب تک عبداللہ بن ابی بن سلول اعلانیہ کافر تھا لیکن اب بظاہر وہ اسلام کے دائرہ میں آ گیا۔‘‘ فتح بدر کے بعد اس نے بھی ظاہرًا اسلام قبول کر لیا ’’گو تمام عمر منافق رہا اور اسی حالت میں جان دی۔ قبائل عرب جو سلسلہ واقعات کا رُخ دیکھتے تھے اگرچہ رام نہیں ہوئے لیکن سہم گئے۔‘‘ بہت سے قبائل مسلمان تو نہیں ہوئے لیکن فتح کو دیکھ کر سہم ضرور گئے۔ مسلمانوں کے خلاف انہوں نے کارروائیاں کرنی بند کر دیں یا خوفزدہ ہو گئے۔ ’’ان موافق حالات کے ساتھ مخالف اسباب میں بھی انقلاب شروع ہو گیا۔ یہود سے معاہدہ ہو چکا تھا کہ وہ ہر معاملہ میں یکسو رہیں گے لیکن اس فتح نمایاں نے ان میں حسد کی آگ بھڑکا دی اور وہ اس کو ضبط نہ کر سکے … قریش کو پہلے صرف حضرمی کا رونا تھا بدر کے بعد ہر گھر ماتم کدہ تھا اور مقتولینِ بدر کے انتقام کے لیے مکہ کا بچہ بچہ مضطر تھا۔ چنانچہ سُوَیْق کا واقعہ اور اُحُد کا معرکہ اسی جوش کا مظہر تھا۔‘‘ (سیرت النبیؐ از شبلی نعمانی جلد اول صفحہ ۲۱۰-۲۱۱ مطبوعہ آر زیڈ پیکجز لاہور ۱۴۰۸ھ) فتح بدر کے نتائج بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ ’’ابھی تک مدینہ میں قبائل اوس اورخزرج کے بہت سے لوگ شرک پر قائم تھے۔ بدر کی فتح نے ان لوگوں میں ایک حرکت پیدا کر دی اوران میں سے بہت سے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظیم الشان اور خارق عادت فتح کو دیکھ کر اسلام کی حقانیت کے قائل ہو گئے۔ اور اس کے بعد مدینہ سے بت پرست عنصر بڑی سرعت کے ساتھ کم ہونا شروع ہو گیا مگر بعض ایسے بھی تھے جن کے دلوں میں اسلام کی اس فتح نے بغض وحسد کی چنگاری روشن کر دی اور انہوں نے برملا مخالفت کو خلاف مصلحت سمجھتے ہوئے بظاہر تو اسلام قبول کر لیا لیکن اندر ہی اندراس کے استیصال کے درپے ہو ہو کر منافقین کے گروہ میں شامل ہو گئے۔ ان موخرالذکر لوگوں میں زیادہ ممتاز عبداللہ بن اُبَیَّ ابن سلول تھا جو قبیلہ خزرج کاایک نہایت نامور رئیس تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں تشریف لانے کے نتیجہ میں اپنی سرداری کے چھینے جانے کا صدمہ اٹھا چکا تھا۔ یہ شخص بدر کے بعد بظاہر مسلمان ہو گیا، لیکن اس کا دل اسلام کے خلاف بغض و عداوت سے لبریز تھا اوراہلِ نفاق کا سردار بن کر اس نے مخفی مخفی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ریشہ دوانی کاسلسلہ شروع کر دیا۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ ۳۷۶)

مزید فرماتے ہیں کہ ’’جنگِ بدر کااثر کفار اور مسلمانوں ہردو کے لیے نہایت گہرا اور دیر پا ہوا اوراسی لیے تاریخِ اسلام میں اس جنگ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے حتی کہ قرآن شریف میں اس جنگ کا نام یوم الفرقان رکھا گیا ہے۔ یعنی وہ دن جبکہ اسلام اور کفر میں ایک کھلا کھلا فیصلہ ہو گیا۔ بیشک جنگِ بدر کے بعد بھی قریش اور مسلمانوں کی باہم لڑائیاں ہوئیں اور خوب سخت سخت لڑائیاں ہوئیں اور مسلمانوں پر بعض نازک نازک موقعے بھی آئے لیکن جنگِ بدرمیں کفار مکہ کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی جسے بعد کا کوئی جراحی عمل مستقل طور پر درست نہیں کر سکا۔ تعداد مقتولین کے لحاظ سے بے شک یہ کوئی بڑی شکست نہیں تھی۔ قریش جیسی قوم میں سے ستر بہتر سپاہیوں کامارا جانا ہرگز قومی تباہی نہیں کہلا سکتا۔ جنگِ احد میں یہی تعداد مسلمان مقتولین کی تھی لیکن یہ نقصان مسلمانوں کے فاتحانہ رستہ میں ایک عارضی روک بھی ثابت نہیں ہوا۔’’ حالانکہ مسلمان تو اس وقت بہت کمزور تھے۔ ‘‘پھر وہ کیا بات تھی کہ جنگِ بدر یوم الفرقان کہلائی؟ اس سوال کے جواب میں بہترین الفاظ وہ ہیں جو قرآن شریف نے بیان فرمائے اور وہ یہ ہیں۔ یَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِیْنَ۔ واقعی اس دن کفار کی جڑ کٹ گئی یعنی جنگِ بدر کی ضرب کفار کی جڑ پر لگی اور وہ دو ٹکڑے ہو گئی۔ اگر یہی ضرب بجائے جڑ کے شاخوں پر لگتی توخواہ اس سے کتنا گنا زیادہ نقصان کرتی وہ نقصان اس نقصان کے مقابلہ میں ہیچ ہوتا لیکن جڑکی ضرب نے ہرے بھرے درخت کو دیکھتے دیکھتے ایندھن کا ڈھیر کر دیا اور صرف وہی شاخیں بچیں جو خشک ہونے سے پہلے دوسرے درخت سے پیوند ہو گئیں۔ پس بدر کے میدان میں قریش کے نقصان کا پیمانہ یہ نہیں تھا کہ کتنے آدمی مرے بلکہ یہ تھا کہ کون کون مرے اور جب ہم اس نقطہ نگاہ سے قریش کے مقتولین پہ نظر ڈالتے ہیں تو اس بات میں ذرا بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ بدر میں فی الواقعہ قریش کی جڑ کٹ گئی۔ عتبہ اور شیبہ اور امیہ بن خَلَف اور ابوجہل اور عقبہ بن ابی مُعَیط اور نضر بن حارث وغیرہ قریش کی قومی زندگی کے روح رواں تھے اوریہ روح بدر کی وادی میں قریش سے ہمیشہ کے لیے پرواز کرگئی اوروہ ایک قالب بے جان کی طرح رہ گئے۔ یہ وہ تباہی تھی جس کی وجہ سے جنگِ بدر یوم فرقان کے نام سے موسوم ہوئی۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ ۳۷۱-۳۷۲)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button