خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍نومبر۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: گذشتہ خطبہ کے آخر پر جو تاریخ بیان ہو رہی تھی یا آنحضرتﷺ کی سیرت بیان ہورہی تھی اس کے ضمن میں فرات بن حیان کے قبول اسلام کا بھی ذکر ہوا تھا۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرات بن حیان کےقبول اسلام کی بابت کیابیان فرمایا ؟
جواب: فرمایا: اس کے قبول اسلام کی مزید تفصیل یہ ہے کہ یہ گرفتار ہو کر قیدیوں میں تھا جیساکہ گذشتہ خطبہ میں بیان ہوا تھا۔ غزوۂ بدر کے روز بھی وہ زخمی ہوا تھا تاہم کسی طرح قید سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔ اب پھر وہ مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار تھا۔ حضرت ابوبکرؓاسے دیکھتے ہی کہنے لگے: اب بھی تم اپنے طرز عمل کو نہیں بدلو گے؟ فرات بولا اگر اس دفعہ میں محمدﷺ سے بچ کر نکل گیا تو پھر میں قابو نہ آؤں گا۔ حضرت ابوبکرؓ کہنے لگے پھر اسلام قبول کر لو۔ اگر تم نے بچ کے نکلنا ہی ہے تو ایک ہی طریقہ ہے کہ پھر اسلام قبول کر لو۔ بہرحال فرات بن حیان حضرت ابوبکرؓ کی یہ بات سن کر رسول اللہﷺ کی طرف چل پڑا۔ اپنے ایک انصاری دوست کے پاس سے گزرتے ہوئے کہنے لگا کہ مَیں تو مسلمان ہوں۔ انصاری صحابی نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ آپﷺ نے اس کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا۔ إِنَّ مِنْكُمْ رِجَالًا نَكِلُهُمْ إِلٰى إِیمَانِهِمْ کہ بلا شبہ تم میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں ہم ان کے ایمان کے حوالے کرتے ہیں۔ اگر یہ کہتا ہے کہ میں نے اسلام قبول کرلیاہے تو ٹھیک ہے۔ پھر اس کا اور اللہ کا معاملہ ہے۔ بہرحال نبی کریمﷺ نے اس بات پہ اسے رہا کردیا۔
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سریہ حضرت زیدبن حارثہ کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت زید بن حارثہؓ کا ایک سریہ جمادی الآخر سنہ ۳ ہجری میں قردہ کے مقام کی طرف بھیجا گیا تھا۔ سیرت خاتم النبیینؐ میں اسی واقعہ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ بنو سُلَیم اوربنو غطفان کے حملوں سے کچھ فرصت ملی تو مسلمانوں کو ایک اَورخطرہ کے سدّباب کے لیے وطن سے نکلنا پڑا۔ اب تک قریش اپنی شمالی تجارت کے لیے عموماً حجاز کے ساحلی راستے سے شام کی طرف جاتے تھے لیکن اب انہوں نے یہ راستہ ترک کر دیا کیونکہ اس علاقہ کے قبائل مسلمانوں کے حلیف بن چکے تھے اورقریش کے لیے شرارت کا موقع کم تھا بلکہ ایسے حالات میں وہ اس ساحلی راستے کو خود اپنے لیے خطرے کا موجب سمجھتے تھے۔ صرف یہی وجہ نہیں تھی کہ مسلمانوں سے خطرہ تھا بلکہ وہ خود جو حرکتیں کرنا چاہتے تھے، اب ان کا خیال تھا کہ ان قبائل کے مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے وہ ہم نہیں کر سکیں گے اور مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ بہرحال اب انہوں نے اس راستے کو ترک کرکے نجدی راستہ اختیار کر لیا جو عراق کو جاتا تھا اور جس کے آس پاس قریش کے حلیف اور مسلمانوں کے جانی دشمن تھے۔ پہلے رستے وہ تھے جن سے مسلمانوں کا معاہدہ ہوا تھا اور اس رستے پر جس کو قریش نے اختیار کیا وہاں ان کے اپنے معاہدے والے تھے اور وہ لوگ اور قبائل آباد تھے جو مسلمانوں کے بھی جانی دشمن تھے جو قبائل سلیم اور غطفان تھے۔ چنانچہ جمادی الآخر کے مہینہ میں آنحضرتﷺ کویہ اطلاع موصول ہوئی کہ قریش مکہ کاایک تجارتی قافلہ نجدی راستہ سے گزرنے والا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگرقریش کے قافلوں کاساحلی راستے سے گزرنا مسلمانوں کے لیے موجب خطرہ تھا تو نجدی راستے سے ان کا گزرنا ویسا ہی بلکہ اس سے بڑھ کر اندیشہ ناک تھا کیونکہ برخلاف ساحلی راستے کے، اس راستے پرقریش کے حلیف آباد تھے جو قریش ہی کی طرح مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے اورجن کے ساتھ مل کر قریش بڑی آسانی کے ساتھ مدینہ میں خفیہ چھاپہ مار سکتے تھے یاکوئی شرارت کرسکتے تھے اورپھر قریش کوکمزور کرنے اورانہیں صلح جوئی کی طرف مائل کرنے کی غرض کے ماتحت بھی ضروری تھا کہ اس راستہ پربھی ان کے قافلوں کی روک تھام کی جاوے۔ اسی لیے آنحضرتﷺ نے اس خبر کے ملتے ہی اپنے آزادکردہ غلام زید بن حارثہؓ کی سرداری میں اپنے صحابہؓ کاایک دستہ روانہ فرمادیا۔ قریش کے اس تجارتی قافلے میں ابو سفیان بن حرب اورصفوان بن امیہ جیسے رئوساء بھی موجود تھے۔زید نے نہایت چستی اورہوشیاری سے اپنے فرض کوادا کیا اورنجد کے مقام قردہ میں ان دشمنانِ اسلام کو جاپکڑا۔ اور اس اچانک حملہ سے گھبرا کر قریش کے لوگ قافلہ کے اموال اور جو بھی ان کا مال تھا اس کوچھوڑ کربھاگ گئے اور زید بن حارثہؓ اوران کے ساتھی ایک کثیر مالِ غنیمت کے ساتھ مدینہ میں کامیاب و کامران واپس آئے۔بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ قریش کے اس قافلہ کاراہبر ایک فرات نامی شخص تھاجومسلمانوں کے ہاتھ قید ہوا اور مسلمان ہونے پر رہا کر دیا گیا۔ لیکن دوسری روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف مشرکین کا جاسوس تھا مگر بعد میں مسلمان ہوکرمدینہ میں ہجرت کرکے آگیا۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کعب بن اشرف کےواقعہ قتل کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: کعب بن اشرف مدینے کے سرداروں میں سے تھا اور آنحضرتﷺ کے معاہدہ میں شامل تھا لیکن معاہدہ کر کے بعد میں اس نے فتنہ پھیلانے کی کوشش کی اور اس کے قتل کا حکم آنحضرتﷺ نے دیا۔بخاری میں اس واقعہ کی تفصیلات یوں درج ہیں کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کعب بن اشرف سے کون نپٹے گا؟ اس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کو سخت دکھ دیا ہے۔ محمد بن مسلمہؓ کھڑے ہوگئے کہنے لگے یا رسول اللہﷺ !کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے مار ڈالوں؟آپؐ نے فرمایا ہاں! چنانچہ محمد بن مسلمہؓ کعب کے پاس آئے اور کہنے لگے۔ اس شخص نے ہم سے صدقہ مانگا ہے اور اس نے ہمیں مشقّت میں ڈال دیا ہے یعنی آنحضرتﷺ کی طرف بات منسوب کر کے کہا کہ آپؐ نے ان سے صدقہ مانگا ہے اور مشقت میں ڈال دیا ہے۔ میں تمہارے پاس آیا ہوں تم سے ادھار لوں۔ اس نے کہا بخدا! تم اس سے اکتا جاؤ گے۔ یعنی آنحضرتﷺ سے اکتا جاؤ گے اور پیچھے ہٹ جاؤ گے۔ بہرحال محمد بن مسلمہؓ نے کہا کہ چونکہ ہم نے اس کی پیروی اختیار کر لی ہے اس لیے ہم پسند نہیں کرتے کہ اسے چھوڑ دیں یہاں تک کہ ہم دیکھ لیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے اور ہم چاہتے ہیں ایک یا دو وسق ہمیں ادھار دو۔ کعب نے کہا اچھا! میرے پاس کچھ رہن رکھو۔ انہوں نے کہا تم کیا شے چاہتے ہو؟ کعب نے یہ کہا کہ اپنی عورتیں میرے پاس رہن رکھو۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے پاس اپنی عورتیں کیسے رہن رکھیں جبکہ تم عربوں میں سب سے زیادہ خوبصورت ہو۔ اس نے کہا پھر اپنے بیٹے میرے پاس رہن رکھو۔ انہوں نے کہا ہم تمہارے پاس اپنے بیٹوں کو کیسے رہن رکھیں۔ ان میں سے ہر ایک کو طعنہ دیا جائے گا، کہا جائے گا کہ وہ ایک یا دو وسق کے لیے رہن رکھے گئے تھے۔ یہ ہمارے لیے عار ہے لیکن ہم تمہارے پاس اپنی زرہیں رہن رکھتے ہیں۔زرہوں سے مراد یہاں جنگی سامان بھی ہے۔ چنانچہ انہوں نے کعب سے پھر اس کے پاس آنے کا وعدہ کیا۔ چنانچہ وہ اس کے پاس رات کو آئے اور ان کے ساتھ ابو نائلہ بھی تھے جو کعب کے رضاعی بھائی تھے۔ اس نے انہیں قلعہ میں بلایا اور وہ ان کے پاس قلعہ میں جب چلے گئے تو وہ اپنے بالاخانہ سے نیچے اترا۔ اس کی بیوی اس سے کہنے لگی کہ اس وقت تم کہاں جاتے ہو؟ کعب نے کہا یہ تو محمد بن مسلمہ اور میرے بھائی ابونائلہ ہیں۔ انہوں نے بلایا ہے۔ ان کے پاس جارہا ہوں۔ اس کی بیوی نے کہا مَیں ایسی آواز سنتی ہوں کہ گویا جس سے خون ٹپک رہا ہے۔ کعب بولا کہ معزز آدمی کو رات کے وقت حملے کے لیے بھی بلایا جائے تو وہ ضرور جائے گا۔ بہرحال محمد بن مسلمہؓ اپنے ساتھ دو آدمی بھی لے گئے تھے۔ محمد بن مسلمہؓ نے ان آدمیوں کو کہا کہ جب کعب آئے تو میں اس کے بال پکڑوں گا اور اسے سونگھوں گا۔ جب تم دیکھو کہ میں نے اس کا سر مضبوطی سے پکڑ لیا ہے تو تم بڑھ کر اس کا کام تمام کر دینا۔ چنانچہ کعب ان کے پاس چادر لپیٹے ہوئے نیچے آیا اور اس سے خوشبو کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ محمد بن مسلمہؓ نے کہا۔ آج جیسی خوشبو تو میں نے کہیں نہیں پائی یعنی بہترین خوشبو ہے۔کعب نے کہا میرے پاس عرب کی عورتوں میں سے سب سے زیادہ معطر ہیں اور سب سے زیادہ خوبصورت۔ محمد بن مسلمہؓ نے کہا کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ تمہارے سر کو سونگھوں ؟ اس نے کہا ہاں تو انہوں نے اس کو سونگھا پھر اپنے ساتھیوں کو بھی سونگھایا۔ پھر کہا کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو؟ اس نے کہا ہاں پھر جب محمد بن مسلمہؓ نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا تو اپنے ساتھیوں کو کہا کہ تم اس کو پکڑو اور انہوں نے اس کو قتل کر دیا۔ پھر وہ نبیﷺ کے پاس آئے اور آپؐ کو بتایا۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہودیوں کی طرف سےکعب بن اشرف کےقتل کےالزام اور یہود کے ساتھ ایک نئےمعاہدہ کی بابت کیابیان فرمایا ؟
جواب: فرمایا: جب کعب کے قتل کی خبر مشہور ہوئی تو شہر میں ایک سنسنی پھیل گئی اوریہودی لوگ سخت جوش میں آگئے۔ دوسرے دن صبح کے وقت یہودیوں کا ایک وفد آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ ہمارا سردار کعب بن اشرف اس طرح قتل کردیا گیا ہے۔ آنحضرتﷺ نے ان کی باتیں سن کر فرمایا کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ کعب کس کس جرم کا مرتکب ہوا تھا اور پھر آپؐ نے اجمالاً ان کو کعب کی عہد شکنی،تحریک جنگ اورفتنہ انگیزی اورفحش گوئی اور سازش قتل وغیرہ کی کارروائیاں یاد دلائیں۔ جس پر یہ لوگ ڈر کر خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ نے ان سے فرمایا کہ تمہیں چاہیے کہ کم از کم آئندہ کے لیے ہی امن اور تعاون کے ساتھ رہو اور عداوت اورفتنہ و فساد کابیج نہ بوئو۔ چنانچہ یہود کی رضامندی کے ساتھ آئندہ کے لیے ایک نیا معاہدہ لکھا گیا اور یہود نے مسلمانوں کے ساتھ امن وامان کے ساتھ رہنے اورفتنہ وفساد کے طریقوں سے بچنے کا ازسرنو وعدہ کیا اوریہ عہدنامہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سپردگی میں دے دیا گیا۔ تاریخ میں کسی جگہ بھی مذکور نہیں کہ اس کے بعد یہودیوں نے کبھی کعب بن اشرف کے قتل کا ذکر کرکے مسلمانوں پرالزام عائد کیا ہو کیونکہ ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ کعب اپنی مستحق سزا کو پہنچا ہے۔پس اس وقت کے رائج قانون یا طریق کے مطابق کعب سے جو سلوک ہوا اس پر یہودیوں کا خاموش رہنا بتاتا ہے کہ انہوں نے اس سزا اور اس سلوک کو تسلیم کیا۔
سوال نمبر۶:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت امام حسنؓ کی پیدائش کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت امام حسن بن علی بن ابوطالب نصف رمضان تین ہجری کو پیدا ہوئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کی ولادت شعبان ۳ ہجری میں ہوئی۔ بعض کہتے ہیں غزوۂ احد کے ایک سال بعد ہوئی اور بعض کہتے ہیں دو سال بعد ہوئی۔ شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ پہلی رائے زیادہ درست ہے اور محکم ہے۔ حضرت علیؓ نے ان کا نام حَرْب رکھا تھا لیکن رسول اللہﷺ نے اسے بدل کر حَسن کر دیا۔ ولادت کے ساتویں دن آپؐ نے ان کا عقیقہ کیا اور ان کے بال منڈوائے اور حکم دیا کہ ان کے بالوں کے ہم وزن چاندی خیرات کی جائے۔ اُمّ فضل نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ یارسول اللہؐ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا ایک عضو آپؐ کا میرے گھر میں ہے یا کہا میرے کمرے میں ہے۔آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم نے اچھا خواب دیکھا ہے۔ فاطمہ سے ایک بچہ پیدا ہو گا تم اس کی دیکھ بھال کرو گی اور تم اس کو قُثَم کے ساتھ دودھ پلاؤ گی۔ ام فضل رسول اللہﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کی زوجہ تھیں اور قُثَم ان کے بیٹے کا نام تھا۔ چنانچہ حضرت امام حسنؓ پیدا ہوئے اور ام فضل نے ان کو قُثَم کے ساتھ دودھ پلایا۔
مزید پڑھیں:خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب