کرسمس کا تہوار
کرسمس کاتہواردنیابھرمیں مسیحیوں کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔یہ دن ہرسال ۲۵؍دسمبرکو اُن کے نزدیک حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کی یادمیں بطورعیدمنایاجاتاہے۔ تاہم موجودہ دَور میں کرسمس کا یہ مذہبی پہلو پس منظر میں چلاگیاہے اور یہ تہوار زیادہ تر ایک تجارتی اور مادی تہوار بن گیاہے۔
آج کے دَور میں کرسمس کاتعلق زیادہ تر خریداری، تحائف کے تبادلے، بےتحاشا بناوٹ، سجاوٹ اور تفریح سے جڑ گیاہے۔ حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات اورسادگی و توحیدکاپیغام ان تقاریب کے پیچھے چھپ گیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کرسمس کا تہوار اصل میں ہے کیا اور یہ کب شروع ہوا اورکیسے منایا جاتا ہے۔
کرسمس کالفظ تقریباًچوتھی صدی عیسوی کے قریب استعمال ہونا شروع ہوا۔ اس کوبڑا دن بھی کہا جاتا ہے۔ اس دن کو عیدکی طرح بڑےجوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسا اس دن کو۲۵؍دسمبر،مشرقی آرتھوڈوکس کلیسا ۶؍جنوری اور ارمنی کلیسا ۱۹؍جنوری کو مناتا ہے۔
نئے عہد نام میں موجود چاروں اناجیل میں سے واحد انجیل لوقا کی ہے جس نے مسیحؑ کی ولادت کے موسم کی بابت لکھا ہے اور جس کا بیان قرآن مجید کے بیان کے مطابق ہے۔لوقا میں تحریر ہے کہ جب وہ وہاں (بیت لحم) تھے تو ایسا ہوا کہ اس کے وضع حمل کا وقت آپہنچا اور اس کا پہلو ٹھا بیٹا پیدا ہوا اور اسے کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھا کیونکہ اُن کے واسطے سرائے میں جگہ نہ تھی۔ پھر لکھا ہے:’’اُسی علاقہ میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رَہ کر اپنے گلہ بانی کی نگہبانی کررہے تھے۔‘‘(لوقا باب ۲ آیت ۸) (تفسیر کبیر جلد پنجم سورہ مریم صفحہ ۱۸۴)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے سورہ مریم کی تفسیر میں اس مضمون پران الفاظ میں روشنی ڈالی ہے: ’’اس مقام پر ایک بہت بڑی مشکل پیش آجاتی ہے جس کو حل کرنا ہمارے لیے نہایت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ عیسائی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت مسیح ؑکی پیدائش۲۵؍دسمبرکو ہوئی اورلوقا کہتا ہے کہ قیصر اگسِطس نے اُس وقت مردم شماری کا حکم دیا تھاجس کے لیےیوسف اور مریم ناصرہ سے بیت لحم گئے اور وہیں حضرت مسیحؑ کی پیدائش ہو ئی ۔گویا ۲۵؍دسمبر کو۔ اُس زمانہ میں جب قیصراگسطس کے حکم کے ماتحت یہودکی پہلی مردم شماری ہوئی مسیح ؑبیت لحم میں پیدا ہوئے۔ لیکن قرآن بتاتا ہے کہ مسیح اس موسم میں پیدا ہوئے جس میں کھجور پھل دیتی ہے اور کھجور کے زیادہ پھل دینے کا زمانہ دسمبر نہیں ہوتا بلکہ جولائی اگست ہوتا ہے۔ اور پھر جب ہم یہ دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایک چشمے کا بھی پتہ بتایا جہاں وہ اپنے بچے کو نہلا سکتی تھیں اور اپنی بھی صفائی کر سکتی تھیں تو اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جولائی اگست کا مہینہ تھا ورنہ سخت سردی کے موسم میں چشمہ کے پا نی سے نہانا اور بچے کو بھی غسل دینا خصوصاً ایک پہاڑ پر اور عرب کے شمال میں عقل کے بالکل خلاف تھا۔ لیکن عیسائی تاریخ یہی کہتی ہے کہ حضرت مسیح ؑدسمبر میں پیدا ہوئے اور اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت مسیح ؑکی پیدائش دسمبر میں ہوئی تھی تو سوال پیدا ہو تا ہے کہ قرآن تو حضرت مریم سے کہتا کہ وَہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا(مریم:۲۶)تو کھجور کے تنہ کو ہلا تجھ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔ حالانکہ کھجور اُس وقت بہت کم ہوتی ہے۔کھجور زیادہ تر جولائی اگست میں ہو تی ہے اور مسیح کی پیدائش دسمبر میں ہوئی۔ پس اگریہ درست ہے کہ مسیح دسمبر میں پیدا ہوئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے کھجور کا کیوں ذکرکیا جبکہ کھجور اُس موسم میں ہوتی ہی نہیں۔ اس اعتراض سے ڈر کر ہمارے مفسرین نے یہ لکھ دیا ہےکہ حضرت مریم کھجور کے تنہ کے پاس درد کا سہارا لینے گئی تھیں۔ انہیں خیال آیا کہ مسیح کی پیدائش دسمبر میں بتائی جاتی ہے اور دسمبر میں کھجورکے درخت پر بہت کم پھل لگتا ہے۔ پھر وہ کھجور کے سوکھے درخت کے پاس کیوں گئی تھیں۔ اِس کا جواب اُنہوں نے یہ سوچا کہ وہ درد کا سہار الینے گئی تھیں ۔مگر انہیں یہ خیال نہ آیا کہ ساتھ ہی قرآن نے یہ کہا کہ کھا اور یہ بھی کہا ہے کہ کھجور کے تنہ کو ہلا تو تجھ پر تازہ کھجوریں گریں گی صرف اس وجہ سے کہ عیسائی بیان اُن کے سامنے تھا کہ مسیح دسمبر میں پیدا ہوئے اوردسمبر میں کھجور کو بہت کم پھل لگتا ہے انہوں نے یہ معنےکر لیے کہ وہ سہارا لینے کےلیےکھجور کے سوکھے درخت کے پاس گئی تھیں۔ لیکن بعض مفسروں کو فَکُلِیْ اور تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا کا بھی خیال آیا اورانہوں نے لکھا ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا۔ حضرت مریم کھجور کے سوکھےدرخت کو ہلاتیں تو تازہ بتازہ کھجوریں گرنی شروع ہوجا تی تھیں۔‘‘(تفسیرکبیر،جلدپنجم صفحہ ۱۷۹، ۱۸۰)
آج تمام دنیامیں کرسمس کوحضرت عیسیٰؑ کایوم پیدائش سمجھ کربڑی دھوم دھام سےمنایاجاتاہے۔جبکہ قرآن اوربائبل دونوں اس کی نفی کرتے ہیں۔عیسائی قوم اپنےپادریوں کی من گھڑت کہانیوں کےمطابق اندھیرے میں پڑی ہوئی ہے اور اس دن کواپنےنبی کی ولادت کادن سمجھ کرشرافت اورپاکیزگی کو بالائےطاق رکھ کر شراب و شباب کے نشہ میں مدہوش ہوکر طوفان بدتمیزی برپاکررہی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:’’برتھ ڈے (یوم پیدائش)منانا اسلامی روایت نہیں ہے اسلام کے ابتدائی دنوں میں کبھی بھی کسی نےکسی کا برتھ ڈےنہیں منایا مثلاً حضرت محمدﷺکا برتھ ڈےنہیں منایاگیا جوکہ اسلام کے بانی تھے۔‘‘(مجلس سوال و جواب ۲۵؍نومبر۱۹۸۴ءمسجدفضل لندن)
برتھ ڈے منانا مغربی نظریہ اور مغربی روایات ہیں جنہوں نے بدقسمتی سے دنیائے اسلام میں رواج پا لیا ہے۔ یورپین ممالک میں کرسمس کے چمکتے دمکتے تہوار کے موقع پر گھروں میں سجے کرسمس ٹری کی سجاوٹ سے متاثر ہو کر بعض مسلمان گھروں میں بھی کرسمس ٹری کو سجانے اور کرسمس کی چھٹی کے دن کرسمس منانے کا رجحان رواج پانے لگا ہے جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔ مسلمانوں کو اور خصوصاً احمدی مسلمانوں کو اس طرح کے ماحول سے بالکل متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
آنحضرت ﷺ نے ہمیں عیسائیوں اور یہودیوں کی نقل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے غیروں سے مشابہت اختیار کرے۔ (سنن الترمذی حدیث نمبر ۲۶۹۵)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’کسی قسم کے احساس کمتری میں ہمیں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ نہ بچوں کو نہ بڑوں کو۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ دنیا میں دینی اور روحانی انقلاب ہم نے پیدا کرنا ہے تو یہ دینی اور روحانی انقلاب وہی لوگ پیدا کر سکتے ہیں جو ہر قسم کے احساس کمتری سے آزاد ہوں اور اپنے اندر سب سے پہلے دینی اور روحانی انقلاب پیدا کرنے والے ہوں۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍ جون ۲۰۱۲ء)
آپ مزید فرماتے ہیں: ’’ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور مہدی معہود ؑکو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تعلیم کا نچوڑ یا خلاصہ نکال کر رکھ دیا اور ہمیں کہا کہ تم اس معیار کو سامنے رکھو تو تمہیں پتا چلے گا کہ تم نے اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کیا ہے یا پورا کرنے کی کوشش کی ہے یا نہیں؟ اس معیار کو سامنے رکھو گے تو صحیح مومن بن سکتے ہو۔ یہ شرائط ہیں ان پہ چلو گے تو صحیح طور پر اپنے ایمان کو پرکھ سکتے ہو۔ ہر احمدی سے آپ نے عہد بیعت لیا اور اس عہد بیعت میں شرائط بیعت ہمارے سامنے رکھ کر لائحہ عمل ہمیں دے دیا جس پر عمل اور اس عمل کا ہر روز ہر ہفتے ہر مہینے اور ہر سال ایک جائزہ لینے کی ہر احمدی سے امید اور توقع بھی کی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍دسمبر۲۰۱۶ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍جنوری۲۰۱۷ء)
کرسمس کا تہوار منانے میں مشرکوں اور کفار کی مشابہت ہے۔ نیز یہ کہ یہ تمام تقریبات دین میں جائز نہیں اور نہ ہی حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات کے مطابق جائز ہیں۔ یہ تقریبات محض شرک اور بدعت اپنے ساتھ لیے ہوئے ہیں۔ ان سے صرف عیش و مستی اور بےحیائی کو رواج مل رہا ہے۔ ان تقریبات کے ذریعے مسلمانوں کو اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو عیسائیت اور کفر و شرک کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انبیائے کرام کا بنیادی پیغام دنیاوی خواہشات یا مادی فوائد کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کی روحانی ترقی کے لیے تھا۔ اگر مذہبی تہواروں کو صرف مادی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ اپنی اصل روح کھو بیٹھتے ہیں۔ عیسائیوں کے لیے کرسمس کو منانے کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ حضرت عیسیٰؑ کی تعلیم کو یاد رکھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے نہ کہ محض عارضی خوشیاں منائی جائیں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت عیسیٰؑ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے اور آپؑ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو قرآن کریم میں بیان فرمایا گیا ہے۔ اسی طرح سے حضرت مریمؑ کے پاکیزہ کردار کی شہادت قرآن کریم نے دی ہے اور وہ ہم سب کے لیے بے حد قابلِ احترام ہیں۔ اس ادب و احترام کا اظہار صرف کرسمس منانے تک محدود نہیں ہونا چاہیے جو کہ بدقسمتی سے عیسائیوں نے اپنا رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مقام کو سمجھنے کی توفیق دے اور ہر طرح کی بدعتوں سے بچاتے ہوئے اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا کو بھی حق اور سچ کا راستہ دکھائے تا وہ ایسے جھوٹ سے خود کو آزاد کر سکیں۔ آمین ثم آمین
٭…٭…٭
(مرسلہ:سعیدہ خانم۔ سسکاٹون،کینیڈا)