ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (دورہ امریکہ اور گوئٹے مالا۔ اکتوبر نومبر ۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ سوم)
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز
اپنے خلیفہ کی کامل اطاعت
(گذشتہ سے پیوستہ)حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے تمام دورۂ امریکہ کے دوران، میں نے جامعہ احمدیہ کینیڈا کے کئی نوجوان طلبہ کو دیکھا جو جہاں بھی حضور جاتے تھے، وہ وہاں ساتھ جانے کی کوشش کرتے۔ چوتھے سال کے طلبہ اکثرکافی لمبے اوقات تک باہر کھڑے رہتے تاکہ اس جگہ پر موجود ہوں جہاں سے حضور مسجد یا دفتر کی جانب جانے کے لیے گزریں تو وہ حضور کا دیدار کر سکیں۔
اس بات کی خوشی میں کہ وہ تاریخ کے ان لمحات کے گواہ بن رہے ہیں ان طلبہ کے چہروں پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی، خاص طور پر جب حضور ان کی طرف دیکھ کر مسکرا دیتے ہوں یا ہاتھ ہلا کراُن کی دلجوئی فرما دیتے ہوں۔
ان میں سے ایک طالب علم حاشر احمد تھے، جن سے میری فلاڈیلفیا میں چند منٹ کی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اور ان کے ہم جماعت ساتھی کیسے اور کیوں امریکہ آئے۔
حاشر نے بتایا کہ ان کی کلاس کے زیادہ تر طلبہ گرمیوں کی چھٹیوں میں یو کے گئے تھے تاکہ جلسہ سالانہ میں شامل ہوں اور وقفِ عارضی کریں۔ ان کو امید تھی کہ انہیں حضور کے ساتھ کلاس ملاقات کا موقع ملے گا اور انہیں مسجد فضل میں ڈیوٹیاں دی جائیں گی تاکہ وہ حضور کے قریب رہ سکیں اور ان کے پیچھے نماز پڑھ سکیں۔ تاہم انہیں جامعہ احمدیہ یو کے میں خدمت کی ذمہ داری سونپی گئی جو مسجد فضل سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔
حاشر نے بتایا کہ ابتدا میں وہ اس پر دل برداشتہ ہوئے، اور اپنی ذاتی ملاقاتوں میں حضور سے اپنی یہ خواہش بیان کی کہ وہ حضور کے قریب رہنا چاہتے ہیں۔ تاہم حضور نے انہیں ہدایت دی کہ وہ اپنی سونپی گئی ذمہ داریاں نبھائیں لیکن ساتھ ہی انہیں یہ تسلی بھی دی کہ ان شاء اللہ مستقبل میں انہیں حضور کے قریب رہنے کے بہت سے مواقع ملیں گے۔
حضور کے دورۂ امریکہ کے دوران جامعہ احمدیہ کینیڈا نے چھٹیاں کر دیں اور یوں حاشر اور ان کے ساتھیوں نے ایک وین کرائے پر لی اور حضور کی آمد سے پہلے ہی میری لینڈ پہنچ گئے۔
حاشر نے بتایا کہ کس طرح ان کی کوششیں قبول ہوئیں۔ انہوں نے کہا:حضور کی آمد کے اگلے دن ہمیں ان تمام دعاؤں کی قبولیت کا نظارہ دیکھنے کو ملا جو ہم نے گرمیوں میں یو کے میں کی تھیں۔ حضور نے مسجد بیت الرحمان کمپلیکس کا معائنہ فرمایا اور ایک موقع پر ہمیں لنگر خانے کے خیمے کے قریب کھڑا دیکھا۔ ہمارے شوق بھرے چہروں کو دیکھ کر حضور خاص طور پر رکے اور نہایت شفقت سے ہم سے گفتگو فرمائی۔ حضورِانور نے ہمیں یوکے کے حالیہ دورے سے پہچان لیا اور وہ لمحات ہمیں بالکل اسی ’کلاس ملاقات‘ جیسے محسوس ہوئے جس کی ہم نے یو کے میں خواہش کی تھی!
حاشر نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بعد میں جب ہم نے ان لمحات پر غور کیا تو ہمیں احساس ہوا کہ حضور کے وہ الفاظ سچ ثابت ہوئے جو انہوں نے لندن میں فرمائے تھے کہ مستقبل میں ہمیں ان کے قریب رہنے کے مزید مواقع میسر آئیں گے! یہ ہمارے لیے ایک سبق تھا کہ جسمانی قربت کا یہ مطلب نہیں کہ خلافت سے مضبوط تعلق بھی ہے بلکہ اخلاص، اطاعت اور دعا ہی وہ عوامل ہیں جو خلافت کے ساتھ ایک دائمی رشتہ قائم کرتے ہیں۔
امریکہ میں گزرنے والے ان لمحات کے بارے میں بتانے کے بعد حاشر نے اپنی زندگی کے ایک ذاتی صدمے کے بارے میں بھی ذکر کیا جس کا سامنا حال ہی میں انہیں اور ان کے خاندان کو کرنا پڑا۔
حاشر کی ہمیشہ مسکراتی اور خوش مزاج طبیعت دیکھ کرمیں کبھی اندازہ نہ کر پاتا کہ ہ وہ اس قدر دکھ اور تکلیف سے گزرے ہیں۔ ان کی بڑی بہن مناہل احمد کو ۲۰۱۶ء میں لیوکیمیا کی تشخیص ہوئی تھی اور انہوں نے اس بیماری کا ہمت اور صبر کے ساتھ مقابلہ کیا۔
گرمیوں میں جب حاشر کی لندن میں حضورِانور سے ملاقات ہوئی تو اس نے اپنی بہن کی بیماری کا ذکر کیا اور حضور سے دعاؤں کی درخواست کی۔ حاشر نے بتایا کہ حضور نے اس کی بہن کی حالت کے بارے میں تفصیل سے پوچھا اور ان کے لیے دعائیں کیں اور محبت سے حاشر کو تسلی دی۔
حاشر نے اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے کہاچند ہفتے پہلے میری بہن مناہل احمد ۱۵؍ستمبر ۲۰۱۸ءکو ۲۳ سال کی عمر میں وفات پا گئی، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ تاہم اس کے آخری ایام میں اور اس کے بعد سے میں نے خود دیکھا کہ حضور کے تسلی بخش کلمات کس طرح پورے ہوئے۔ میری بہن پُرسکون تھی اور اکثر ہمیں کہتی تھی کہ وہ اللہ کے ہر فیصلے پر راضی ہے اور اسے اپنی بیماری پر کوئی افسوس یا ملال نہیں۔
حاشر نے مزید کہاکہ میری بہن کو حضور سے بہت محبت تھی اور وہ ہمیں ہمیشہ خلافت سے مضبوط تعلق قائم رکھنے کی تلقین کرتی تھی۔ وفات سے پہلے اس نے تین پیغامات ہمیں دیے کہ ہم انہیں حضور تک پہنچائیں۔ پہلا پیغام یہ تھا کہ حضور کو ’السلام علیکم‘ پہنچائیں۔ دوسرا پیغام یہ تھا کہ وہ حضور سے معذرت چاہتی ہیں کہ ان سے ملاقات نہ کر سکی اور آخری پیغام یہ تھا کہ حضور ان کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت میں بلند مقام عطا کرے۔
اس کی بہن کے حضور کے لیےتین پیغامات سن کر اور اس کی صبر و شکر کی کیفیت جان کر مجھے بے حد جذباتی کیفیت کا سامنا کرنا پڑا اورمجھے یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا کہ ہم کیسے اکثر لوگوں کے دکھ اور مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں۔تاہم ایک ایساشخص ہے جو ہمارے مسائل کو جانتا ہے، جو ہمارے بوجھوں کو بانٹتا ہے، ہمارے درد کو سمجھتا ہے اور دنیا بھر کے احمدیوں کے لیے تسلی کا ذریعہ ہے، اور وہ ہے خلیفۂ وقت۔
حاشر نے حضور کے تسلی بخش کلمات کے بارے میں غور کرتے ہوئے کہا گرمیوں میں حضور نے مجھے یقین دلایا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، اور جب بھی میں ان کلمات کو یاد کرتا ہوں تو مجھے حقیقتاً یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور حضور کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے ہمیں اس مشکل وقت کو صبر اور استقامت کے ساتھ گزارنے کی توفیق دی۔ اس سے مجھے دعا کی قبولیت کی وسعت کا اندازہ ہوا۔
حاشر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا میں نے گرمیوں میں ہونے والی ملاقات میں حضورِ انور کے الفاظ کا کچھ اور مطلب لیا تھا لیکن اب یہ واضح ہے کہ حضور کے تسلی بخش الفاظ میری بہن کے انتقال کے بعد آنے والے وقت کے لیے تھے۔حضور کے الفاظ اور دعاؤں نے ہمیں ایسی تسکین بخشی جو الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ جب بھی حضورِ انور بات کرتے ہیں تو اس میں بے پناہ حکمت ہوتی ہے، جسے ہم شاید فوراً نہ سمجھ پائیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے وقت کے ساتھ ساتھ اس کا مطلب ہم پر واضح ہو جاتا ہے۔
بالٹی مور میں آمد
۲۰؍اکتوبر ۲۰۱۸ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور قافلے کے اراکین فلاڈیلفیا سے بالٹی مور، مسجد بیت الصمد کےافتتاح کے لیے روانہ ہوئے ۔ جیسے ہی ہم مسجد کے قریب پہنچےتو میں نے ایک ہیلی کاپٹر کو فضا میں منڈلاتے ہوئے دیکھا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ مقامی حکام نے حضور انور کے دورے کے دوران سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ایک پولیس ہیلی کاپٹرتعینات کیا تھا۔ ۲۰۱۶ء میں دورۂ کینیڈا کے دوران ہم نے دیکھا تھا کہ پریس کے ہیلی کاپٹرز پیس ولیج میں حضور انور کی آمد کے وقت فضا میں گردش کر رہے تھے، لیکن یہ پہلی بار تھا کہ میں نے حضور انور کے سفر کے دوران پولیس کا ہیلی کاپٹر نگرانی کرتے ہوئے دیکھا۔قافلہ دوپہر ایک بج کر ۵۵؍ منٹ پر نو تعمیرشدہ مسجد پہنچا جہاں سینکڑوں احمدیوں نے حضور انور کا استقبال کیا۔ یہاں پر موسم خوشگوار اور معتدل تھا، حالانکہ پیش گوئی تھی کہ شدید طوفانی بارشیں ہوں گی۔مسجد پہنچنے کے کچھ دیر بعدحضور انور نے مسجد کا باقاعدہ افتتاح فرمایا، دعا کروائی اور یادگاری تختی کی نقاب کشائی فرمائی۔
(مترجم:طاہر احمد۔ انتخاب:مظفرہ ثروت)
مزید پڑھیں: