اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی حضرت ہلال بن امیہ واقفیؓ کی سیرتِ مبارکہ کا دلنشیں تذکرہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 06؍دسمبر 2019ءبمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ،سرے،یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 06؍ دسمبر 2019ء کو مسجد مبارک اسلام آباد، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم ضیاء الحق سیٹھی صاحب کے حصہ میں آئی۔
آج جن بدری صحابی کا ذکرکروں گا ان کا نام ہے حضرت ہلال بن امیہ واقفی۔ یہ انصار کےقبیلہ اوس کے خاندان بنو واقف سے تعلق رکھتےتھے۔حضرت ہلال قدیمی اسلام قبول کرنے والے تھے۔ آپؓ غزوۂ بدر،احداور اسی طرح بعد کےغزوات میں شریک ہوئے۔ غزوۂ تبوک میں آپؓ، کعب بن مالک اور مرارۃ بن ربیع کے ساتھ ان تین صحابہ میں شامل تھےجو بغیرکسی عذر کے جنگ میں شریک نہ ہوسکےتھے۔
9ہجری میں غزوہ ٔتبوک کے موقعے پر اِن تین صحابہ کے جنگ سے پیچھے رہ جانے کے متعلق صحیح بخاری میں حضرت کعب بن مالک ؓ کی بیان کردہ روایت ملتی ہے۔رسول اللہﷺ جب کسی غزوے کا ارادہ کرتے تو جنگی حکمتِ عملی کے تحت اس مہم کو مخفی رکھا کرتے تھے۔ غزوۂ تبوک کے موقعے پر آپؐ سخت گرمی کے وقت نکلے۔آپؐ نے مسلمانوں کودوردراز،غیرآباد،بیابانی سفر اور دشمن کی بڑی تعداد کے متعلق آگاہ فرمایا تاکہ تمام مسلمان تیاری کرلیں۔گذشتہ مواقع کے برعکس اس غزوے میں آنحضرتﷺ نے کوئی بات مخفی نہ رکھی تھی۔حضرت کعب فرماتے ہیں کہ مَیں لوگوں کو تیاری کرتے دیکھتا اور ہر روز تیاری شروع کرنےکا ارادہ کرتا لیکن تیاری کر نہ پاتا۔ آپؓ کا خیال تھا کہ وہ بآسانی تیاری کرلیں گے۔یوں ہی رفتہ رفتہ وقت گزر گیا اور ایک روز آنحضرتﷺ اور تمام مسلمان روانہ ہوگئے۔ آپؓ نے سوچا کہ سواری موجودہے ایک دو دن بعد بھی مَیں رسول اللہﷺ سے جاملوں گا۔ لیکن آپؓ اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنا سکےیہاں تک کہ رسول اللہﷺ کی واپسی کی اطلاع مل گئی۔واپسی کی خبر سن کر آپؓ کو خیال گزرا کہ آنحضرتﷺ کے حضورکوئی بہانہ بنادیا جائے۔ آپؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ واپس تشریف لائے تو میرے دل سے جھوٹ کے سارےخیالات نکل گئے۔جب آپؐ واپس لوٹےتو پیچھے رہ جانے والےلوگوں نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عذر پیش کرنےشروع کردیے۔ آپؐ نے سب کے عذر قبول فرمائے ،بیعت لی اور ان کے لیے استغفار کیا۔جب حضرت کعب رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو آپؐ ناراض شخص کی طرح مسکرائےاور کعبؓ سے غزوے میں عدم شرکت کے متعلق استفسار فرمایا۔ حضرت کعبؓ کہتے ہیں کہ مجھے بڑے اچھےبہانے بنانے آتے ہیں لیکن اللہ کی قسم!اگر رسول اللہﷺ کے سامنے کوئی عذر بنا کر پیش کرتا تو شاید آپؐ اس روز تو راضی ہوجاتے لیکن خدا تعالیٰ کسی اور بات پر عنقریب آپؐ کو مجھ پر ناراض کردے گا۔ چنانچہ کعبؓ نے اپنی صحت اور آسودہ حالی کا ذکر کرکے رسول اللہﷺ سے عرض کی کہ مجھے کوئی عذر نہیں تھا۔ آپؓ کا بیان سن کر رسولِ خداﷺ نے فرمایا اِس نے سچ کہا ہے اور پھر فرمایا کہ اٹھو یہاں تک کہ اللہ تمہارے متعلق کوئی فیصلہ کرے۔ کعبؓ اٹھ کر گئے تو کئی لوگ آپؓ کو ملے اورقولِ سدیدپر ملامت کرتے رہےکہ اسّی کے قریب لوگوں نے عذر پیش کیے اور ان کے عذرقبول ہوئے تو آپؓ کو بھی کوئی بہانہ بنادینا چاہیےتھا۔ کعبؓ فرماتے ہیں کہ مجھے علم ہوا کہ میرے علاوہ دو بدری صحابہ مرارہ اور ہلال بھی ہیں کہ جنہوں نے سچ سچ بیان دیا ہے تو مجھے تسلّی ہوئی۔ رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو ان تینوں اصحاب سے بات چیت سے منع فرمادیا تھا۔ کعبؓ کہتے ہیں کہ ان ایّام میں ہمیں مدینے کی گلیاں بالکل اوپری معلوم ہوتی تھیں جیسے ہم کسی نئی جگہ آگئے ہوں۔ اس عالَم میں پچاس راتیں گزر گئیں باقی دونوں اصحاب زیادہ تر گھر پر ہی رہتے اور گریہ و زاری کرتے رہتے۔ کعب باقی دونوں کی نسبت جوان تھےچنانچہ بازاروں میں پھرتے،نمازوں میں شامل ہوتے، رسول اللہﷺ کی مجالس میں جاتے۔ کہتے ہیں کہ مَیں رسول اللہﷺ کو سلام کرتا اور دیکھتا کہ آپؐ کے ہونٹ جواب دینے کےلیے ہلتے ہیں کہ نہیں۔ آپؐ کے قریب ہوکر نماز پڑھتا اور دیکھتا کہ آپؐ مجھےدیکھتے ہیں کہ نہیں۔ ان ہی ایّام میں ایک ابتلا یہ بھی آیا کہ غسان کے بادشاہ نے آپؓ کو ایک خط لکھ کر اس بات پر اکسایا کہ اگر تمہارے نبی نے تم سے قطع تعلق کرلیا ہے تو تم ہمارے پاس چلے آؤ۔ یہاں ہم تمہاری خاطر مدارات کریں گے۔ آپؓ نے خط کو تنور میں ڈال دیا۔ پچاس میں سے چالیس راتیں گزریں تو رسول اللہﷺ کے پیام بر نے یہ فرمان سنایا کہ اپنی بیوی سے علیحدہ ہوجاؤ۔ کعبؓ نے دریافت فرمایا کہ کیا طلاق دے دوں؟ تو جواب ملا کہ قریب نہ جاؤ۔ہلال بن امیہ چونکہ زیادہ ہی بوڑھے تھے چنانچہ ان کی بیوی نے رسول اللہﷺ سے ان کی خدمت گزاری کی استثنائی اجازت حاصل کرلی۔ جب مقاطعے پر پچاس راتیں گزریں تو آپؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا کہ کعب بن مالک تمہیں بشارت ہو۔ آپؓ فرماتے ہیں مَیں فوراًسمجھ گیا کہ تکلیف دُور ہوگئی ہے اور سجدے میں گِر گیا ۔جب آپؓ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو لوگ فوج در فوج آپؓ سے ملے اور مبارک باد دی۔ رسول اللہﷺ نے آپؓ کو دیکھا تو آپؐ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ آپﷺ نے مبارک باد دی۔ کعبؓ نےدریافت کیا کہ یہ اعلان آپؐ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے؟ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ پھرآپؓ نےعرض کی کہ مَیں توبہ قبول ہونے کے عوض اپنی جائے داد سے دست بردار ہوتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جائےداد میں سے کچھ اپنے لیے بھی رکھو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ حضرت ہلالؓ بن امیّہ نے امیر معاویہ کے دورِ حکومت میں وفات پائی تھی۔
حضورِ انور نے تبوک سے متعلق ایک معلوماتی نوٹ بھی پیش فرمایا۔ تبوک مدینے سے شام کی جانب اس شاہ راہ پر واقع ہے جو تجارتی قافلوں کی عام گزرگاہ تھی۔ یہ وادئ القریٰ اور شام کے درمیان ایک شہر ہے۔ اسے اصحاب الا یکہ کا شہر بھی کہا گیا ہے۔ حضرت شعیبؑ یہاں مبعوث ہوئے تھے۔ غزوۂ تبوک کو غزوۃ العسرہ یعنی تنگی والا غزوہ بھی کہا جاتا ہے۔ صلح حدیبیہ کےبعد آپؐ نے بصریٰ کے گورنر ابو شمر غسانی کو تبلیغی خط بھجوایا۔ جس کے جواب میں اس نے مدینے پر حملےکی دھمکی دی۔ اس جنگ کی تیاری کا سبب یہ امر بنا کہ شام کے نبطی لوگ جو تجارت کے لیے مدینے آیا کرتے تھے اُن کے ذریعے آپؐ کو یہ خبر ملی کہ قیصرِ روم کا ایک لشکر قیصر کے ساتھ ملکِ شام میں اکٹھا ہورہا ہے۔ رسول اللہﷺ کو جب یہ خبر ملی تو لوگوں میں طاقت نہیں تھی۔ تاہم آپؐ نے لوگوں میں اعلان کروایااور انہیں اس جگہ کے بارے میں آگاہ کردیا جس طرف سفر کرنا تھا تاکہ وہ تیاری کرسکیں۔
اس موقعے پر صحابہ کے ایثار اور منافقین کی سازشوں کے بھی کئی واقعات ہوئے۔ چناچہ حضرت عمرؓ کے نصف مال اور حضرت ابو بکرؓ کے گھر کا سارا اسباب لے آنے والا مشہور واقعہ بھی اسی موقعے کا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ نے جو کُل اثاثہ پیش کیا تھا اس کی مالیت چار ہزار درہم تھی۔ حضرت عثمانؓ نے اونٹوں اور گھوڑوں اورنقد کی قربانی پیش کی تھی۔ اس قربانی کی وجہ سے آپؐ نےمنبر پر کھڑے ہوکر فرمایا تھا کہ اس عمل کے بعد اب عثمان کے کسی عمل پر کوئی مؤاخذہ نہیں۔ حضرت ابو عقیلؓ کو ساری رات مزدوری کے عوض تقریباً چار پانچ کلو کھجوریں ملیں۔ انہوں نے آدھی بیوی بچوں کے لیے رکھ دیں اور باقی آدھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش کردیں۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے چار ہزار چار سو درہم کا اپنا نصف مال آنحضورﷺ کی خدمت میں پیش فرمایا۔
حضورِانور نے فرمایا کہ ہلال بن امیہ کا کچھ اور ذکر ان شاء اللہ آئندہ بیان ہوگا۔
خطبے کے آخر میں حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شعبہ وقفِ نو کی ویب سائٹ کے اجرا کا اعلان فرمایا۔اس ویب سائٹ پر والدین اپنے بچوں کو وقفِ نو میں شامل کرنےکےلیے لکھے گئے خطوط کے متعلق شعبے سے براہِ راست رہ نمائی لے سکتے ہیں۔ واقفین نَوکی تعلیم و تربیت کے لیے حضورِانور کی ہدایات، وقفِ نو سے متعلق خلفائے احمدیت کے خطابات اور خطبات، واقفینِ نو کا نصاب، رسالہ ‘‘اسماعیل’’ اور ‘‘مریم’’ ،اسی طرح وقفِ نو سے متعلق مختلف وڈیو کلپس بھی اس ویب سائٹ پر دست یاب ہوں گے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ ویب سائٹ ان شاء اللہ آج سے شروع ہوگی واقفینِ نو اور ان کے والدین ضرور اس سے استفادہ کریں۔
٭…٭…٭