سیرت النبی ﷺ

آنحضرتﷺ بحیثیت ’مبلّغ‘

(کاشف محمود)

قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًاوَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا

اے نبی ہم نے تمہیں گواہی دینے والا اور خوشخبری دینے والا اور انذار کرنے ولااور اللہ تعالیٰ کے اِذن سے اس کی طرف بلانے والاروشن چراغ بنا کر بھیجا ہے (سورۃ الاحزاب:46تا47)

پھر ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ

اے رسول تیرے رب کی طرف سے جو کلام بھی تجھ پر اتارا گیا ہے اُسے لوگوں تک پہنچا اگر تونے ایسا نہ کیا تو گویا اس کا پیغام بالکل نہیں پہنچایا اور اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کے حملے سے محفوظ رکھے گا اللہ کافروں کو ہر گز کامیابی کی راہ نہیں دکھائے گا (سورۃ المائدہ :68)

اللہ کے پیغام کی تبلیغ انبیاء علیہم السلام کا کام ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو دنیا میں خالص توحید کے قیام کے لیے مبعوث فرمایا ۔ دنیا میں جس قدر انبیاء آئے ان سب نے انسانوں کو معبود ِحقیقی یعنی خدائے واحد کی جانب ہی بلایا اور فرمایا کہ اس کی عبادت کرو اور اس کی تمام تر صفات پر ایمان لاؤ۔

جس احسن طریق پر اور اعلیٰ درجہ پر یہ کام ہمارے آقا و مولیٰ سیّدنا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اس کی مثال نہیں مل سکتی ۔ آپؐ کی بعثت سے قبل دنیا گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی تھی ۔اور کلام اللہ کے مطابق

ظَھَرَ الفَسَادُ فِی البَرِّ وَالبَحْرِ

کا نقشہ تھا ۔

لوگوں میں بے شمار برائیوں کے علاوہ سب سے بڑی خرابی یہ تھی کہ وہ خدا تعالیٰ کے شریک ٹھہرائے گئے سینکڑوں معبودانِ باطلہ کےپجاری تھے ۔ایسے حالات کو دیکھ کر قرآن مجید کے مطابق

وَوَجَدَکَ ضَالًافَھَدٰی

وہ درد مند دل جو اپنی قوم کی محبت سے سرشار تھا وہ تڑپااور خدا نے اسے قوم کے لیے مصلح بنایا۔ آپؐ کا قلبِ اطہر تباہ حال انسانیت کو بچانے کے لیے تنہائی میں خدا کے حضور گریہ و زاری و آہ و بکا سے پگھلتا ۔پس اس فانی فی اللہ کی مضطربانہ دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ اس انتہا ئی بگڑی ہوئی قوم کو نہ صرف انسان بلکہ خدا نما انسان بنا دیا ۔سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان دعاؤں اور تاثیرات کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے

“وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مرد ے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں ایک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا ۔کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا۔ اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُمّی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں ۔

(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ10 اور 11)

آغازِ وحی سے آپؐ پر آپ کے فرائض اور آئندہ آنے والی ذمہ داریوں سےپوری طرح سے آگاہی ہو چکی تھی ۔مگر خدا تعالیٰ نے یہ ارشاد فرما کر کہ

یٰٓا اَیُّھَاالرَّسُوْلُ بِلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ

کہ فریضہ تبلیغ کو آپؐ کی بعثت کا اصل غرض قرار دے دیا۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ رسول ِدو جہاں سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے اِذنِ الٰہی سے ایک مبلغ کے بلند ترین مقام پر فائز ہو کر ارشادِ ربّانی بَلِّغْ مَا اُنزِ لَ اِ لَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ کے فریضہ کو جس احسن طریق پر سر انجام دیا وہ قابلِ ستائش ہے۔ تمام سیرتِ طیبہ پہ نگاہ ڈالنے سے یہ بات پا یۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ آپؐ کامیاب اور بہترین داعی الی اللہ تھے ۔ اور کسی بھی موقع پر خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اپنے اس فرضِ منصبی سے غافل نہیں ہوئے۔ ہزاروں ہزار درود اس محسن پر جس نے اس راہ میں انواع و اقسام کی تکالیف برداشت کیں،گھر سے بے گھر ہوئے،عزیز و اقارب کی قربانیاں دیں ۔ہر قسم کے دنیاوی لالچ دیے گئے ،لہو لہان کیے گئے مگر ہر دو میدان میں دشمن کو ہزیمت اٹھانی پڑی اورکوئی خوف اور نہ ہی کوئی لالچ آپؐ کو آپ کے مشن سے ہٹا سکی ۔

ابتدائے رسالت میں تین سال تک آپؐ نے خاموشی سے یہ فرض انجام دیا اور اس کے بعد بہت خوبصورت پھل عظیم اکابر صحابہ کرام کی صورت میں عطا ہوئے ۔ مگر پھر بھی ایک ضعف کی سی حالت تھی ۔نبوت کے چوتھے سال اعلانیہ تبلیغ کا حکم ہوا تو آپؐ نے نہایت دلیرانہ انداز میں اہلِ مکہ کو حق کی دعوت دی اور اس موقع پر بھی جس فراست اور تبلیغی حکمت عملی کو آپؐ نے اپنایا وہ بھی تاریخ میں ایک نہایت روشن مثال ہے ۔ اس پہ کفار مکہ نے جب استہزا سے کام لیا تو آپؐ تھک کر مایوس ہو کر بیٹھ نہیں گئے بلکہ ایک نئے عزم کے ساتھ پھر ان کے لیے دعوت کا اہتمام فرمایا اور اس موقع پر جب آپؐ نے پیغام ِ حق دینا چاہا تو ابو لہب کی شرارت کی وجہ سے لوگ منتشر ہو گئے ۔اگلی بار پھر دعوت کا اہتمام فرمایا اور کفارِ مکہ تک پیغام ِ خدائے واحد کو رکھا جس کو سن کر سوائے ایک کمسن بچے کے کسی نے قبول نہ کیا ۔آپؐ نے تبلیغی سر گرمیوں کو تیز کرنے کے لیے اپنے چند صحابہ کے ہمراہ ایک مرکز قائم فرمایا تاکہ متلاشیانِ حق تک پیغامِ حق کو پہنچا سکیں۔ کفار مکہ ان سب سرگرمیوں سے خوب آگاہ تھے انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طور پر آپؐ کو پیغامِ حق کو پہنچانے سے روک سکیں ۔ مگر ان کی ہر چال ناکام اور ہر حیلہ بے کار جاتا رہا ۔ اور یوں شمع حق جو ایک چھوٹے سے علاقے میں جلی تھی اس کا چرچا سارے عرب میں ہونے لگا ۔

جوں جوں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشادِ ربّانی کے ماتحت اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو تیز فرماتے جاتے مخالفت کی آگ اور بھڑک اٹھتی ۔اس دوران کئی مصائب کے علاوہ آ پؐ اور آپ کے تمام خاندان کو تین سال تک محصور رہنا پڑا۔ اس طویل عرصے کے بعد جب محصوریت کا الم ناک دَور ختم ہوا تو آپؐ نے مکہ سے باہر تبلیغ کی غرض سے طائف کی جانب سفر اختیار کیا۔طائف میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونے والے اذیّت ناک سلوک سے کون مسلمان واقف نہیں مگر یہ سلوک بھی آپؐ کو اپنے مشن سے ہٹا نہ سکا ۔
غرض کفار مکہ نے اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا کے دیکھ لیا کہ کسی طور پر اسلام کو یا آپؐ کی ذات کو نقصان پہنچا سکیں مگر مشیتِ ایزدی ان کی ہر چال ناکام کر رہی تھی ۔اور اسلامی چشمہ کے جس بہاؤ کو روکنے کے لیے وہ سر توڑ کوشش کر رہے تھے اس کا منہ یثرب کی جانب بہ نکلا اور یوں شوکتِ اسلام کا نیا باب رقم ہوا ۔

مبلغِ اعظم نے 13سال مکہ میں پوری تن دہی کے ساتھ توحیدِ حق کی منادی کی اور جب آپؐ نے چاہا کہ یثرب میں امن و سکون سے دین کے پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں تو یہ بات بھی دشمنوں کو گوارا نہ ہوئی ۔ہجرت مدینہ سے لے کر صلح حدیبیہ تک بارہا آپ کو جنگوں اور غزوات میں سے گزرنا پڑااور کفار نے ہر ممکن کوشش کی کہ واحدو یگانہ کے پرستاروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دالیں مگر انہی کے گرم کیے ہوئے میدانِ کارزار کو خدا نے توحید اور توحید کے علمبرداروں کے لیے عظمت کا نشان بنا دیا ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغی سرگرمیوں میں آپؐ کے حسنِ سلوک اور حسنِ تدبیر کو بھی نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ آپؐ کے حسن ِ سلوک سے متاثر ہو کر بعض اوقات پتھر دل موم بن کر آستانہ الہٰی پر پگھل جاتے اور اکڑی ہوئی گردنیں ربِّ کریم کے حضور سر نگوں ہو جاتیں ۔اشد ترین دشمن ایسے دوست بن جاتے کہ ان سے بڑھ کر کوئی دوست نہ ہو ۔

تبلیغی نقطہ نگاہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آپؐ نے عرب کے دور و قریب کے اکثر بادشاہوں کے نام تبلیغی خطوط بھجوائے اور اس ضمن میں ان تمام امور کو ملحوظِ خاطر رکھا جو بادشاہوں کو مخاطب کرنے کے لیے ضروری تھے اور یہ ایک بہترین حکمت تھی ۔ اس دوران کئی متلا شیان ِحق آپؐ کے دربار میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوتے رہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آغازِ نبوت سے زندگی کے آخری لمحہ تک اپنے فرضِ منصبی سے کبھی غافل نہیں ہوئے ۔خدا کا یہ برگزیدہ انسان اور محبوب رسول ہر دَور میں خدا کا پیغام پہنچاتا رہا ۔پہلے افراد نے آپؐ کی تبلیغ سے اسلام قبول کیا اور پھر قبائل میں اسلام پھیلا اور بڑھتے بڑھتے اکناف عالم میں اسلام کا ڈنکا بجنے لگا ۔ غرض کہ آپؐ کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا خدائے واحد کی تعلیم کا پرچار کرنا تھا ،یہاں تک کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے سوال کیا “کیا میں نے احکامِ الٰہی تم کوپہنچا دیے’’یک زبان ہو کر سب نے جواب دیا ہاں ،اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “اے اللہ تو گواہ رہنا کہ میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا ہے ۔’’چنانچہ اپنے کام کی کامیاب تکمیل کے بعد اللّٰھم با لر فیق الاعلیٰ کہتے ہوئے اس فانی دنیا کو چھوڑ کر اپنے مولائے حقیقی سے جا ملے ۔

ایک بے یار و مددگار شخص جسے اس کی قوم کی ہدایت کے لیے مامور کیا گیا لیکن اُسے حقارت کی نظر سے دیکھا گیا اور اوّلاً رد کر دیا گیا ،خدا کی راہ میں دکھ اٹھا کر اور بے سر و سامانی کی کیفیت میں اپنے شہر سے نکلا اور اپنے مشن کو پورا کرنے کی کوشش میں لگا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کامیابی سے ہم کنار فرما دیا۔

اَللّٰہم صلِّ علیٰ محمد و وعلیٰ اٰلِ محمد __

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button