تقدیر الٰہی (قسط نمبر12)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
پیشگوئیاں کیوں ٹلتی ہیں؟ (حصّہ دوم)
دوسری پیشگوئی وہ ہوتی ہے جس میں تقدیر خاص کی اطلاع کسی بندے کو دے دی جاتی ہے۔ مثلاً کوئی شخص ہے جس نے شرارت میں حد سے زیادہ ترقی کی ہے اور لوگ اس کے ظلموں سے تنگ آگئے ہیں اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی شرارت کی سزا اسی دنیا میں اسے دے اور ملائکہ کو حکم دیتا ہے کہ مثلاً اس کے مال و جان کو نقصان پہنچاؤ یا اس کی عزت تباہ کر دو۔ اس حکم کی اطلاع کبھی وہ اپنے کسی بندے کو بھی دے دیتا ہے۔ اس خبر کو سن کر وہ شریر آدمی جو اپنے دل کے کسی گوشے میں ایک چنگاری خشیت الٰہی کی بھی رکھتا تھا جو گناہوں کی راکھ کے نیچے دبی پڑی تھی گھبرا کر اپنی حالت پر نظر ڈالتا ہے اور اس توجہ کے زمانے میں اس چنگاری کی گرمی کو محسوس کرتا ہے اور اسے راکھ کے ڈھیر کے نیچے سے نکال کر دیکھتا ہے۔ وہ چنگاری راکھ سے باہر آکر زندہ ہو جاتی ہے۔ اور روشنی اور گرمی میں ترقی کرنے لگ جاتی ہے اور اسی شخص کے دل میں نئی کیفیتیں اور نئی امنگیں پیدا کرنے لگتی ہے۔ اور وہ جو چند دن پہلے شریر اور مفسد تھا اپنے اندر محبت اور خشیت الٰہی کی گرمی محسوس کرنے لگتا ہے اور اپنے پچھلے افعال پر نادم ہو کر اپنے رب کی دہلیز پر اپنی جبیں (پیشانی)کو رکھ دیتا ہے اور ندامت کے آنسوؤں سے اس کو دھو دیتا ہے۔ کیا رحمٰن اور رحیم خدا اس کی اس حالت کو دیکھ کر اس کے اس حال پر رحم کھائے گا یا نہیں؟ کیا وہ اپنے پہلے فیصلہ کو جو اس شخص کے پہلے حال کے مطابق اور ضروری تھا اب نئے حال کے مطابق بدلے گا یا نہیں؟ کیا وہ رحم سے کام لے کر اس کی سزا کے حکم کو منسوخ کرے گا یا کہہ دے گا کہ چونکہ میں اپنے فیصلہ سے ایک بندہ کو بھی اطلاع دے چکا ہوں اس لیے میں اب اس حکم کو نہیں بدلوں گا اور خواہ یہ شخص کس قدر بھی توبہ کرے گا اس کی حالت پر رحم نہیں کروں گا۔ کیا اگر وہ اپنے فیصلہ کو ظاہر نہ کرتا تو اسلامی تعلیم کے ماتحت اس فیصلہ کو بدل سکتا تھا یا نہیں؟ بلکہ وہ اپنی سنت کے مطابق اس کو بدل دیتا یا نہیں؟ پھر جب کہ وہ باوجود ایک فیصلہ کر دینے کے باوجود ملائکہ کو اس پر آگاہ کردینے کے اپنے فیصلہ کو بدل سکتا تھا بلکہ بدل دیتا تو کیا وہ اب اس لیے رحم کرنا چھوڑ دے گا کہ اس نے اپنا فیصلہ ملائکہ کے علاوہ ایک انسان پر بھی ظاہر کر دیا ہے اور اس کے ذریعہ دوسرے انسانوں کو بھی اطلاع دے دی ہے اور کیا وہ اپنے فیصلہ کو بدل دے تو کوئی نادان کہہ سکتا ہے کہ اس نے نعوذ باللہ جھوٹ بولا ہے؟ ایک ملازم کے قصور پر اگر کوئی آقا کہے کہ میں تجھے ماروں گا۔ اور وہ ملازم سخت ندامت کا اظہار کرے اور توبہ کرے اور آئندہ کے لیے اصلاح کا وعدہ کرے اوروہ آقا اسے معاف کر دے اور نہ مارے تو کیا کوئی صحیح العقل انسان کہے گا کہ اس نے جھوٹ بولا ہے؟ اور وعدہ خلافی کی ہے؟
پہلی قسم کی پیشگوئیاں یعنی جن میں تقدیر عام کے نتائج سے اطلاع دی جاتی ہے اکثر مومنوں کے لیے ہوتی ہیں تا اللہ تعالیٰ ان کو ہوشیار اور متنبہ کر دے اور آفات ارضی سے بچا لے اور ان پر اپنے رحم کو کامل کرے کیونکہ مومن قانون قدرت کے اثر سے بالا نہیں ہوتا۔ اور بار ہا لاعلمی کی وجہ سے ان کی زد میں آجاتا ہے اور طبعی قوانین کو توڑ کر مشکل میں پھنس جاتا ہے۔ تب خدا تعالیٰ نتائج بد کے پیدا ہونے سے پہلے اسے یا کسی اَور مومن کو اس کے لیے اصل حالت سے آگاہ کر دیتا ہے۔ اور وہ خود قانون قدرت کے ہی ذریعہ سے یا دعا و صدقہ سے اس کا دفعیہ کر لیتا ہے۔ اور دوسری قسم کی پیشگوئیاں جن میں تقدیر خاص کے ذریعہ سے کسی شخص کی نسبت حکم ہوتا ہے۔ خاص سرکشوں اور مفسدوں کے لیے ہوتی ہیں اور اس کی یہ وجہ ہے کہ اس تقدیر کے ماتحت ٹلنے والی پیشگوئی ہمیشہ عذاب کی ہوتی ہے کیونکہ عذاب ہی کی پیشگوئی ہمیشہ ٹلا کرتی ہے وعدہ کی نہیں۔ کیونکہ اس پیشگوئی کا ٹلنا رحم کا موجب ہوتا ہے اور اس سے خدا تعالیٰ کی شان ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن جو مومن کے حق میں تقدیر خاص ظاہرہوتی ہے وہ چونکہ وعدہ ہوتی ہے وہ نہیں ٹلتی۔ کیونکہ اس کے ٹلنے سے اظہار شان نہیں ہوتی۔ اور اس لیے بھی کہ وعید ہمیشہ کسی سبب سے ہوتا ہے۔ اور اس سبب کے بدلنے سے بدل سکتا ہے۔ اور وعدہ کبھی بلاسبب بھی ہوتا ہے اس لیے وہ نہیں ٹل سکتا کیونکہ جس چیز کو اپنے طور پر بلاخدمت کے دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے اسے کسی اَور سبب سے روک دینا خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے۔
تقدیر مبرم
میں پہلے بتا چکا ہوں کہ تقدیر مبرم سوائے خاص حالات کے نہیں ٹلا کرتی۔ اور اب میں بتاتا ہوں کہ تقدیر مبرم کے ٹلنے سے کیا مراد ہے۔ تقدیر مبرم کے ٹلنے سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ واقع میں کلی طور پر ٹل جاتی ہے۔ بلکہ اس کے ٹلنے سے صرف یہ مراد ہے کہ اس کی شکل بدل جاتی ہے اور اسے کسی اَور رنگ میں بدل دیا جاتا ہے۔ یہ تقدیر باریک در باریک رازوں کے ماتحت نازل ہوتی ہے۔ اور اس کے بدلنے سے بعض دفعہ اور بہت سے قوانین پر اثر پڑتا اور بدانتظامی ہوتی ہے۔ پس یہ تقدیر اللہ تعالیٰ کی خاص حکمتوں کے ماتحت کلی طور پر ٹلائی نہیں جاتی۔ اور اگر ٹلتی ہے تو شفاعت کے ماتحت ٹلتی ہے جو ایک خاص مقام ہے اور جب سے دنیا قائم ہوئی ہے صرف چند بار ہی اس مقام پر خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو قائم کیا ہے۔
اس تقدیر کے جزئی طور پر ٹل جانے کی مثال حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں آپؒ کا ایک مرید تھا جس سے انہیں بہت محبت تھی۔ اس کے متعلق انہیں خبر دی گئی کہ وہ ضرور زنا کرے گا اور یہ تقدیر مبرم ہے۔ انہوں نے اس کے متعلق متواتر دعا کرنی شروع کی اور ایک لمبے عرصہ کے بعد ان کو اطلاع ملی کہ ہم نے اپنی بات بھی پوری کر دی اور تیری دعا کو بھی سن لیا۔ وہ حیران ہوئے کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ جب وہ مرید ملنے آیا تو انہوں نے اس کو سب حال بتایا کہ اس طرح مجھے تیری نسبت اطلاع ملی تھی۔ میں نے تجھے بتایا نہیں اور دعا کرتا رہا۔ اب یہ خبر ملی ہے کیا بات ہے؟ اس نے بتایا کہ ایک عورت پر میں عاشق ہوگیا تھا۔ نکاح کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ آخر فیصلہ کر لیا کہ خواہ کچھ ہی ہو اس سے زنا ہی کر لوں گا۔ اسی کوشش میں تھا کہ رات کو رؤیا میں وہ نظر آئی اور میں اس سے ہم صحبت ہوا۔ آنکھ کھلنے پر معلوم ہوا کہ دل سے اس کی محبت بالکل نکل گئی اور وہ حالت جاتی رہی۔ اس اظہار واقعہ سے سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو معلوم ہوا کہ کس طرح وہ تقدیر جو اس شخص کے اپنے ہی اعمال کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والی تھی اور اس کے لیے ایسے حالات جمع ہوگئے تھے کہ وہ ٹل نہیں سکتی تھی خدا تعالیٰ نے ایک اَور صورت میں پوری کر کے اس شخص کو گناہ سے بچا دیا۔ اور سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی دعا کو اس کے حق میں قبول کر کے اپنی خاص قدرت کے ذریعہ سے اس شخص کو اس کے برے اعمال کے بدنتائج سے بچا لیا۔
کیا تقدیر کے ٹلنے سے کوئی نقص تو واقع نہیں ہوتا؟
اب سوال ہوتا ہے کہ تقدیر کے ٹلنے سے خدا کی شان میں فرق نہیں آتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں آتا۔ کیونکہ تقدیر کے ٹلانے میں کئی ایک فوائد ہیں۔ اول تقدیر کے بتلانے اور پھر اس کو ٹلانے سے اللہ تعالیٰ کی شفقت کا اظہار ہوتا ہے۔ کیونکہ جب وہ ایک آنے والی مصیبت کا اظہار بندہ پر کر دیتا ہے تو اس سے بندہ ہوشیار ہو جاتا ہے اور اپنے بچاؤ کے سامان کر لیتا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے احسان سے اس مصیبت سے بچ جاتا ہے۔ پس تقدیر کا قبل از وقت بتانا بھی اللہ تعالیٰ کی شفقت پر دلالت کرتا ہے اور پھر اس کا ٹلانا بھی اس کے رحم پر دلالت کرتا ہے اور بجائے نقص کے اس میں فائدہ ہے۔
تقدیر خاص کے ٹلانے میں کہ جو تقدیر عام کے نتیجہ میں نازل نہیں ہوتی بلکہ روحانی حالت کے تغیر پر اس کا نزول ہوتا ہے ایک اَور فائدہ بھی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار ہے۔ اگر غور کیا جائے تو تقدیر خاص کو ٹلانے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی کامل قدرت کا اظہار ہی نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص انبیاءؑ کی مخالفت کرے اور دین حق کے پھیلنے میں روک ہو اور اس کو سزا دینا ضروری ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اطلاع اپنے مامور کو مل جائے کہ وہ شخص ہلاک ہو جائے گا۔ اور وہ شخص باوجوو توبہ کے ہلاک ہو جائے تو اس سے خدا تعالیٰ کا قادر ہونا مخفی ہو جائے گا اور زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوگا کہ خدا تعالیٰ علیم ہے۔ لیکن علیم ہونا کوئی چیز نہیں جب تک وہ قادر بھی نہ ہو۔ اس کا قادر ہونا ہی انسان کی محبت کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے۔ پس ایک خبر کے بتائے جانے پر پھر اس کا نہ ٹلنا صرف علم غیب پر دلالت کرے گا قدرت پر نہیں۔ بلکہ لوگوں کو شبہ پڑسکے گا کہ جو نبیؑ خبر بتا رہا ہے شاید اسے کوئی ایسا ذریعہ معلوم ہوگیا ہے جس کے ذریعے وہ غیب کی خبر معلوم کرسکتا ہو۔ لیکن جب ایک حکم خاص حالات کے بدلنے پر ٹل جاتا ہے تو صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ حکم ایک قادر ہستی کی طرف سے ہے جو ہر ایک مناسب حالت کے مطابق حکم دیتی ہے جیسا جیسا انسان اپنے حال کو بدلتا رہتا ہے وہ بھی اپنی تقدیر کو اس کے لیے بدلتی جاتی ہے۔ اور اس سے اس کی شوکت اور جلال کا اظہار ہوتا ہے اور بندہ کی امید بڑھتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ پکڑتا ہے تو چھوڑ بھی سکتا ہے اور ایک مشین کی طرح نہیں ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص بھی نظر انصاف سے دیکھے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ اگر انذاری پیشگوئیاں نہ ٹلیں تو خدا تعالیٰ کا قادر ہونا ہرگز ثابت نہ ہو۔ بلکہ یہ معلوم ہو کہ گویا وہ نعوذ باللہ ایک بیلنے کی طرح ہے۔ اگر اس میں گنا ڈالا جاتا ہے تو اسے بھی پیل دیتا ہے اور اگر اس کے آقا کا ہاتھ پڑ جائے تو اسے بھی پیل دیتا ہے۔ خواہ کوئی کتنی ہی توبہ کرے اس کا حکم اٹل ہوتا ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں پڑسکتا۔ اس کی دشمنی ترک کر کے اس کی دوستی کا اختیار کرنا کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچاتا۔
شاید اس جگہ کسی کے دل میں یہ شبہ پیدا ہو کہ اگر اسی طرح پیشگوئیاں بدل جاویں تو ان کی سچائی کا کیا ثبوت ہو؟ پھر کیوں نہ کہہ دیا جائے کہ یہ سب ڈھکوسلا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو پیشگوئیاں مخفی اسباب پر دلالت کرتی ہیں یعنی ان میں ایسی باتیں بتائی جاتی ہیں جن کے اسباب ظاہر میں موجود نہیں ہوتے اور قیاس اور ظن انہی باتوں میں چلتا ہے جن کے اسباب ظاہر ہوں۔ مثلاً ایک شخص بیمار ہو اور اس کی نسبت یہ بتایا جائے کہ وہ مر جائے گا تو اس میں قیاس کا دخل ہوسکتا ہے۔ لیکن ایسی خبر دی جائے جس کے اسباب ہی موجود نہ ہوں اور پھر اس کے آثار ظاہر ہو جائیں تو پھر خواہ وہ ٹل ہی جائے اسے قیاسی خبر نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ اس کے ایک حصہ نے اس کے دوسرے حصہ کی صداقت پر مہر لگا دی ہے۔ پس باوجود پیشگوئیوں کے ٹلنے کے ان کی صداقت میں شبہ پیدا نہیں ہوسکتا اور وہ پھر بھی دنیا کی ہدایت کے لیے کافی ہوتی ہیں۔
دوسرا جواب اس شبہ کا یہ ہے کہ انذاری پیشگوئیاں تو اکثر دشمنوں کے لیے ہوتی ہیں اور دشمن بالعموم ضدی اور اپنے خصم پر تمسخر اڑانے والا ہوتا ہے اور اس کے قبل از وقت ڈرانے سے بہت کم فائدہ اٹھاتا ہے۔ ایسے تو بہت ہی کم ہوتے ہیں جو انذار سے فائدہ اٹھائیں اور ان پر سے عذاب ٹل جائے۔ پس مثلاً پانچ یا دس فیصدی انذاری پیشگوئیوں کے ٹل جانے سے کس طرح شبہ پڑسکتا ہے جب کہ اس کے بالمقابل تمام کی تمام وعدہ والی پیشگوئیاں اور نوے یا پچانوے فیصدی انذاری پیشگوئیاں پوری ہو کر روز روشن کی طرح اس پیشگوئی کرنے والی کی صداقت کی تصدیق کر رہی ہوتی ہیں۔
…………………(باقی آئندہ)
٭…٭…٭