اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
{2019ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب}
قارئین الفضل انٹرنیشنل کی خدمت میں ستمبر 2019ء کے دوران پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت کے واقعات کا ایک انتخاب خلاصۃً پیش ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو محض اپنے فضل سے اپنے حفظ و امان میں رکھے اور شریروں کی پکڑ کا سامان فرمائے۔ آمین
قبول احمدیت کے بعد کی مشکلات
پیر محل ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ ،ستمبر2019:محمد انور شہزادنے اپنے بیوی بچوں سمیت جولائی 2019ءمیں احمدیت قبول کی تھی۔ان کے بھائی کو اس عقیدے کی تبدیلی کا علم ہوا تو اس نے والدین اور دیگر رشتہ داروں کو خبر پہنچائی۔ انہوں نے آپ سے سماجی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ انور شہزا د کچہری اور تھانے کے قریب ایک تندور چلاتے تھے۔اس کی خبر کچہری ملازمین اور علاقہ کی مسجد تک بھی پہنچ گئی تو انور شہزادکو سخت مخالفت کی وجہ سے اپنا کاروبار بند کرنا پڑا۔
23؍اگست2019ء کو ان کے گھر پر چند نقاب پوش افراد نے حملہ کر دیا ۔ آپ کے اہل و عیال نے حفاظتی طور پر خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ حملہ آوروں نے انور شہزاد سے تلخ کلامی اور جھگڑا کیا۔ حملہ کے وقت TVپر MTA چل رہا تھا۔ حملہ آوروں نے اس TV اور Dish Antennaکو بھی توڑ دیا اور جاتے ہوئے انہیں احمدیت سے باز نہ آنے صورت میں ان کے گھر کو نظر آتش کرنے کی دھمکی دے گئے۔
23؍ اگست کے اس واقعہ کے بعد سماجی بائیکاٹ میں مزید سختی آ گئی۔ حتی کہ شہزاد صاحب کے لیے اپنے بچوں کے لیے دودھ حاصل کرنا بھی مشکل ہو گیا۔ پھر ان کے بعض غیر احمدی رشتہ داروں نے اپنی خواتین کے ہمراہ ان کے گھر پر دھاوا بول دیا اور موصوف اور ان کی اہلیہ اس حملہ میں زخمی ہوگئے۔ چنانچہ ان کی اہلیہ کے سر سے خون جاری ہونے کی وجہ سے انہیں طبی امداد کے لیے ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑا۔ ان تمام حالات کے باوجود مذکورہ خاندان اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر ثابت قدم ہیں۔
بہاولنگر میں پولیس احمدیوں کے خلاف سرگرم
بہاولپور ۔ ستمبر 2019:پولیس نے اس ماہ معائنہ کی غرض سے ضلع کی متعدد احمدی مساجد کا دورہ کیا۔ انہوں نے بہاولپور شہر، چک23/DNB ، احمد پور شرقیہ، اوچ شریف، بستی شکرانی، بستی طاہر خان ، حاصل پور اور چک 183 مراد کی مساجد کے دورے کے دوران قرآن کریم کےتراجم (جماعتِ احمدیہ کی طرف سے شائع شدہ)، کلمۂ طیبہ کی تحریر، احمدی لٹریچر اور اسلامی لٹریچر کی تلاش کر کے تصاویر بنائیں نیز کچھ سامان بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ بستی طاہر خان میں انہوں نے مقامی صدر جماعت کو کہا کہ وہ کلمے کے بینر کے ساتھ کھڑے ہو ں اور ان کی تصویر لی گئی تاکہ ان کے خلاف عدالتی کارروائی کا تصویری ثبوت دیا جاسکے۔اس تمام کارروائی سے مقامی احمدیوں کو شدید ہراساں کیا گیا ۔ گزشتہ حکومتوں میں احمدیہ مساجد کے ایسے کھلم کھلا معائنہ جات کے معاملات بہت کم تھے۔ ضلعی سطح کی پولیس کا ایسی کارروایوں میں ملوث ہونا انتہائی شرمناک ہے۔
پولیس کا اسلامی لٹریچر ڈھونڈنے کے لیے احمدیہ مساجد کے دورے کرنا ہمیں طالبان دور کے افغانستان کی یاد دلاتا ہے جب آسٹریلوی مبلغین کو بائبل رکھنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
حکام کی طرف سے احمدیوں کی باجماعت عبادت پر پابندی
گوجرانوالہ شہر 4 ستمبر 2019:عسکری 2گوجرانوالہ میں ایک احمدی چوہدی لیاقت علی صاحب کے گھر کو نماز جمعہ کےلیے بطور سنٹر استعمال کیا جاتا تھا۔ گزشتہ جمعہ سٹیشن کمانڈر نے لیاقت علی صاحب کو بلوایا اور ان کو کہا کہ وہ نماز جمعہ غیر قانونی طور پر ادا کر رہے ہیں۔ لہذا اب مزید وہاں نماز جمعہ کی ادئیگی نہ کی جائے۔ اس کے بعد احمدیوں نے وہاں کوئی نماز جمعہ اد نہیں کی۔ ا حمدیوں کے پاس اجتماعی طور پر نماز ادا کرنے کی کوئی جگہ موجود نہیں۔
ایک سرکاری مولوی یوکے کے دورے پر
روزنامہ دنیا نے اپنی 21؍ستمبر 2019ء کی اشاعت میں “برطانیہ میں پانچ روز ’’کے عنوان سے مفتی منیب الرحمٰن کی ایک رپورٹ شائع کی ۔یاد رہے کہ مفتی موصوف پاکستان کی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئر مین ہیں ۔
شائع ہونے والی رپورٹ میں مفتی منیب الرحمٰن نے بیان کیا کہ انہیں ادارہ ‘‘فیضان اسلام انٹرنیشنل ’’لندن کی دعوت پر سا لانہ کانفرنس میں شامل ہونے کا موقع ملا اس کانفرنس کا پہلا سیشن مسئلہ کشمیر کے موضوع پر تھا۔اس کانفرنس میں راجہ فاروق حیدر وزیراعظم آزاد کشمیر ،لارڈ نذیر احمد،چند ارکان پارلیمینٹ،ملائشیا سے وفود اور جماعت اہلسنت برطانیہ کے عہدے داران اور برطانیہ کے سرکردہ علماء شریک تھے ۔
مفتی صاحب نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا کہ
“میں نے اپنی گفتگو میں کہا:آپ اس پراپیگنڈے کا رد کیا کریں کہ پاکستان میں قادیانیوں کے لیے جینا دشوار کر دیا گیا ہے ،پاکستان میں ہندو ،مسیحی ،سکھ پارسی اور دیگر مذاہب کے لوگ پر امن طریقے سے رہتے ہیں ،محفوظ ومامون ہیں۔ غیر مسلموں کو ہمارا دین اور آئین جان و مال اور آبرو کا تحفظ عطا کرتا ہے ،ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ۔قادیانی بھی محفوظ ہیں ان سے اہل پاکستان کا یہ مطالبہ حق بجانب ہے کہ وہ د ستور پاکستان میں طے کردہ اپنی حیثیت کو تسلیم کریں ۔ہم ویزے پر برطانیہ اور مغربی ممالک آتے ہیں یا ہمارے وہ لوگ جو یہاں شہریت حاصل کر چکے ہیں ان پر یہاں کے آئین وقانون کی پابندی لازم ہوتی ہے،سو یہ مطالبہ عالمی معیاروں کے مطابق ہے ۔ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں مسلمانوں ،مسیحیوں اور زیر دست طبقات کے ساتھ جو ظالمانہ برتاؤ ہو رہا ہے ،وہ دنیا کے سامنے ہے ۔”
مفتی صاحب کی گفتگو سے ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ کشمیر والے سیشن میں “قادیانی” اور کشمیر کے ایشو کے مابین موصوف کو کیا قدر مشترک نظر آئی جو انہوں نے مذکورہ بحث چھیڑ دی ۔
دوسرا یہ کہ مسئلہ کشمیر پر ہونے والی کانفرنس کا 7؍ستمبر کی تاریخ پر انعقاد کروانے کا کیا مقصد تھا جبکہ یہی دن پاکستان کے ملاؤں کی طرف سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیئے جانے کی یاد میں منایا جاتا ہے ۔
کیا مفتی صاحب بتائیں گے کہ برطانیہ میں ہونے والی اس کانفرنس کی فنڈنگ کس نے کی؟
اگر اس کانفرنس کا مقصد مسئلہ کشمیر تھا تو پھر مفتی صاحب نے گفتگو کا آغاز احمدیت سے کر کے کانفرنس کے بنیادی اور اہم مقصد سے رو گردانی کیوں کی؟
کشمیر کا مسئلہ چونکہ بنیادی طور پر انسانی حقوق کا مسئلہ ہے مفتی صاحب کو اتنا بھی ادراک نہیں کہ ایسی کانفرنس میں “قادیانی ’’ایشو چھیڑ دیناکشمیر ایشو پر پاکستان کی پوزیشن کو نقصان پہنچاتا ہے ۔
مولوی موصوف نے عمداً اس حقیقت سے پہلو تہی کہ ہے کہ پاکستان میں موجود اقلیتیں مثلاً ہندو ،عیسائی ،سکھ ،پارسی یا دیگر غیرمسلم اپنی مرضی کے مطابق دائرہ اسلام سے باہر ہیں جبکہ احمدیوں کو مفتی منیب الرحمٰن جیسے دیگر پاکستان کے ملاؤں کے دباؤ کی وجہ سے پاکستان کے آئین میںناٹ مسلم قرار دیا گیا ہے ۔
مفتی صاحب حکومت کی طر ف سےایک بڑے عہدہ پر فائز ہیں لہذا اس طرح ان کا فرقہ وارانہ معاملات میں ملوث ہونا ان کو زیب نہیں دیتا !
ایک احمدی کی گرفتاری
اور گھر پر انتظامیہ کی ملی بھگت سے حملہ
مائیں۔ سیال چک ہنس ضلع خانیوال 21؍ اگست 2019ء:
ارشاد علی اور ان کے بھائی اپنے گاؤں میں اکیلے احمدی ہیں۔ارشاد علی نے اپنے گھر کے باہر کلمہ کی ایک تختی لگوائی ہوئی تھی ۔اس پر بعض علاقہ مکینوں نے ان کی مخالفت شروع کر دی اور گاؤں کے نمبردار نے انہیں اپنے گھر پر سے یہ تختی ہٹانے کا پیغام بھجوایا اس پر ارشاد علی نے جواب دیا کہ وہ خود اسے اتاریں گے اور نہ ہی کسی اور کو ایسا کرنے دیں گے سوائے اس کے کہ کوئی حکومتی اہل کار ایسا کرے۔
مخالفین نے ڈی پی او کبیر والا کے پاس ارشاد علی کے خلاف شکایت دائر کر دی ۔
مورخہ 21؍ اگست کو دو پولیس اہل کار ارشاد علی کو ایس ایچ او کے پاس کبیر والا پولیس اسٹیشن لے گئے جہاں دوبارہ انہوں نے اپنا وہی مؤقف دہرایا کہ کوئی حکومتی اہل کار ہی کلمہ والی پلیٹ کو ہٹا سکتا ہے ۔
چنانچہ انسپکٹر پولیس کی طرف سے ارشاد کو ان کے ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا اور اسی رات ہی بیس کے قریب لوگوں نے ارشاد علی کے گھر پر حملہ کر دیا ۔گھر میں اس وقت صرف عورتیں اور بچے تھے ۔حملہ آوروں نے گھر کی دیوار پھلانگ کر گھر کا دروازہ کھولا اور گھر پر لگی کلمہ کی تختی کو اتار دیا نیز افرا د خانہ کو زودو کوب بھی کیا ۔اس تمام واقعہ کے دوران پولیس کی ہیلپ لائن 15پر متعدد بار کال بھی کی گئی مگر وہاں سے کوئی بھی مدد کے لیے نہ آیا ۔
زخمیوں کو جب کبیر والا تحصیل ہسپتال میں لے جا یا گیا تو ڈیوٹی پر موجود پولیس اہل کار نے میڈیکل کا اندراج کرنے سے انکار کر دیا نیز پولیس اسٹیشن سے بھی متاثرہ خاندان کی داد رسی نہ کی گئی۔
اگلے روز 22؍ اگست کو ارشاد علی اور ان کے ساتھیوں کو رہا کر دیا گیا نیز بعد میں واضح ہوا کہ اس تمام کارروائی کے پیچھے خانیوال کے ڈی پی او کا ہاتھ تھا۔ملتان کے آر پی او جو کہ واقعہ کےوقت ملک سے باہر تھے جب ملک میں واپس آئے تو احمدیوں نے ان سے رابطہ کیا ۔چنانچہ ان کے حکم پر حملہ آوروں کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا۔
بہاولپور میں احمدیہ مساجد نشانے پر
ضلع بہاولپور میں احمدیہ مساجد کو گرائے جانےکا خدشہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ احمدیت مخالف سرگرم کارکن محمد اسحاق روپوش رہنے کے بعد واپس آ چکا ہے ۔محمد اسحاق آج کل غلہ منڈی بہاولپور احمدیہ مسجد کے قریب ہی رہائش پذیر ہے ۔
جماعت مخالف نفرت انگیز مہم میں ابتداءًاس نے ڈپٹی کمشنر تک رسائی کر کے جماعت کے خلاف شکایت دائر کی کہ احمدیوں نے اپنی عبادت گاہ چک نمبر 161مراد میں ایک محراب تعمیر کیا ہوا ہے ۔جس کی قانوناً کوئی بھی اجازت نہیں ہے ۔اس نے غلط بیانی سے کام لیا کیونکہ قانون میں احمدیہ مساجد کو محراب اور مینار تعمیر کرنے کی کوئی مناہی نہیں ۔بعد ازاں ڈپٹی کمشنر نے صدر جماعت کو طلب کیا ۔مقامی جماعت کے نمائندگان کا ایک وفد ان سے ملاقات کے لیےگیا اور انہیں محراب کو چھپانے کا کہا گیا۔
اسی طرح دیگر جماعتوں کے صدران کو بھی کہا گیا کہ وہ اپنی اور غیر احمدی مساجدکے درمیان مشابہتوں کو ختم کریں یا ان کو چھپا دیں ۔ڈپٹی کمشنر کے احکامات وزیراعظم عمران خان صاحب کی ریاست مدینہ کے تصور کے بالکل برعکس ہیں جو کہ انہوں نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی راہنماؤں کے سامنے پیش کیے تھے۔کہ
‘‘اسلام میں دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا ایک مقدس فریضہ ہے۔’’
٭…٭…٭