حضرت مصلح موعود ؓ

اَلسَّلَام (قسط اول)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده یکم؍اکتوبر ۱۹۲۰ء)

۱۹۲۰ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے سلام کرنے کے حکم پر روشنی ڈالی ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)

سورج کو چونکہ لوگ ہر روز دیکھتے ہیں اس لئے اسے دیکھ کر انہیں خدا کی صنعت کا خیال نہیں آتا۔ حالانکہ یہ اتنی بڑی چیز ہے کہ اگر اس کا انہیں اندازہ بتایا جائے تو حیران ہو جائیں مگر ایک غبارہ اگر پچاس ساٹھ گز کا دیکھ لیں تو شور مچا دیتے ہیں۔ تو جو چیز روز نظر آتی ہو اس کا اثر آہستہ آہستہ دلوں سے مِٹ جاتا ہے اور اسے معمولی سمجھا جاتا ہے اور جو کبھی کبھی آئے اس کا زیادہ اثر رہتا ہے

تشہدوتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورؓ نے فرمایا: ’’قریباً دو اڑھائی سال کا عرصہ ہواکہ مَیں نے جمعوں کے خطبوں میں ایک سلسلہ مضامین بیان کرنا شروع کیا تھا۔ ان مضامین کا مقصد یہ تھا کہ ایمان کی عمارت کی تکمیل کیونکر ہو سکتی ہے اور یہ کہ بغیر تکمیلِ ایمان کے اعلیٰ درجہ کے نتائج کی اُمید ایک جھوٹی اور عبث بات ہے۔

مکان کی ایک دیوار نہ ہو اور انسان سمجھے آندھی کی گرد اور بارش کے پانی سے محفوظ رہے تو نادانی ہے۔

یا مکان کی چھت نہ ہو۔اور خیال کرے کہ دھوپ اور شبنم سے بچا رہے تو بیوقوفی ہے۔یا مکان میں پانی کے نکاس کا رستہ نہ ہو اور یہ کہے کہ مکان گرے نہ تو کم عقلی ہے۔یا مکان میں ہوا کے آنے جانے کے مَنفَذ نہ رکھے اور سمجھے کہ صحت درست اور اچھی رہے گی تو جہالت ہے۔ بارش وغیرہ سے محفوظ رہنے کے لئے چھت اور دیواریں، پانی کے نکلنے کے لئے رستہ، ہوا کے لئے کھڑکیاں اور روشنی کے لئے روشندان بھی ہوں۔پھر دروازے بھی ہوں، دروازوں کی زنجیریں بھی ہوں تب جاکر مکان مکمل ہو سکتا ہے۔

اگر کوئی شخص ایک چیز پر تو سارا زور خرچ کردے اور باقیوں کو چھوڑ دے تو مکان مکمل نہیں کہلا سکتا۔

مثلاً دیواریں اُٹھاتا چلا جائے آسمان تک اور چھت نہ ڈالے یا دیواریں بنا کر اُوپر چھت بھی ڈال دے مگر پانی کے نکاس کا انتظام نہ کرے یا نہایت اعلیٰ درجہ کی سفید اور مصفّٰی عمارت بنائے مگر ہوا کے مَنفَذنہ رکھے تو مکان مکمل اور مفید نہیں ہو گا اور کوئی یہ نہیں کہے گا کہ چونکہ بہت روپے خرچ کئے اور بڑی محنت کی گئی ہے۔ اس لئے یہ مکان بہت اعلیٰ درجہ کا ہے بلکہ یہی کہیں گے کہ مکان کو نامکمل چھوڑ دیا گیا ہے۔

تمام قانونِ قدرت اسی بات پر شاہد ہے کہ بےہودہ اور فضول محنت و مشقت کا بدلہ نہیں ملا کرتا

بر خلاف اس کے تھوڑی مگر صحیح محنت کا بدلہ مل جاتا ہے اگر کوئی شخص سالہا سال محنت کر کے پہاڑ کی چٹان میں سوراخ کرے اور اس میں بیج ڈال دے تو اس وجہ سے کہ اس نے کئی سال کی محنت کی ہے وہاں اچھی کھیتی نہیں ہو گی لیکن اس کی نسبت نرم زمین میں بہت کم محنت کرنے سے اچھی کھیتی ہو جائے گی۔کیونکہ خدا تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ پتھرپر بہت محنت کی گئی ہے اور نرم زمین پر تھوڑی بلکہ یہ دیکھے گا کہ اس کے بنائے ہوئے قواعد کے ماتحت کس نے محنت کی ہے اور ان کے خلاف کس نے۔ پس

نتیجہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قواعد کے مطابق محنت کرنے سے ہی ملتا ہے۔ ان کو چھوڑکر خواہ کتنی ہی زیادہ محنت کیوں نہ کی جائے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

اس ضمن میں میرا منشاء تھا کہ میں تفصیلی طور پر بیان کروں مگر چار پانچ ہی خطبوں کے بعد ایسے واقعات پیش آئے کہ مَیں تفصیل سے بیان نہ کر سکا اور تمہید میں ہی انہیں چھوڑنا پڑا۔ پھر گزشتہ سال سے پہلے جلسہ پر مَیں نے عرفانِ الٰہی کے اُصول بیان کئے تھے اور بتایا تھا کہ عرفانِ الٰہی حاصل کرنے کے لئے اُصولی طور پر کیا قواعد ہیں۔ فروعات کے بیان کرنے کا نہ وہ موقع تھا اور نہ مَیں بیان کر سکا۔ اب اس کی فروع میں سے ایک حصّہ کے متعلق میرا ارادہ ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ توفیق دے گا تو وقتاً فوقتاً بیان کرتا رہوں۔مگر مصلحتِ وقت کے لحاظ سے اس ترتیب کوجو مَیں نے رکھی تھی چھوڑتا ہوں اور ضرورتِ وقت کے لحاظ سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے بیان کروں گا۔

شریعت کے احکام کتنے اقسام کے ہیں۔

ان کے کیا اثرات انسان کی عقل، فہم، قوت، طاقت، تعلق باﷲ، جماعت اور قوم کی ترقی پر پڑتے ہیں۔اس کا پہلے بیان ہونا ضروری ہے لیکن چونکہ اصلی ترتیب کو مَیں چھوڑتاہوں اس لئے مَیں سمجھتا ہوں اس حصّہ کو بھی چھوڑ سکتا ہوں اور فی الحال میں اس ٹکڑہ کو لیتا ہوں جس میں بنی نوع کے آپس کے تعلقات کے احکام دیئے گئے ہیں اور جن کی نگہداشت کئے بغیر ایمان کی تکمیل ناممکن ہے۔ اس حصّہ میں سے بعض احکام بیان کروں گا اور آج کے لئے جو حکم چُنا ہے وہ ایسا ہے کہ اس سے ہر مُسلم واقف ہے یا اسے واقف ہونا چاہئے۔

لیکن چونکہ کثرت سے اس کے استعمال کے مواقع پیش آتے ہیں اس لئے لوگ اسے معمولی خیال کرتے ہیں اور یہ عام بات ہے کہ

جو چیز کثرت کے ساتھ استعمال میں یا دیکھنے سُننے میں آئے اس کو معمولی سمجھ لیا جاتا ہے۔

دیکھو سورج کو چونکہ لوگ ہر روز دیکھتے ہیں اس لئے اسے دیکھ کر انہیں خدا کی صنعت کا خیال نہیں آتا۔ حالانکہ یہ اتنی بڑی چیز ہے کہ اگر اس کا انہیں اندازہ بتایا جائے تو حیران ہو جائیں۔ مگر ایک غبارہ اگر پچاس ساٹھ گز کا دیکھ لیں تو شور مچا دیتے ہیں۔ تو جو چیز روز نظر آتی ہو اس کا اثر آہستہ آہستہ دلوں سے مِٹ جاتا ہے اور اسے معمولی سمجھا جاتا ہے اور جو کبھی کبھی آئے اس کا زیادہ اثر رہتا ہے۔

دیکھو مسلمان نماز نہیں پڑھتے، روزانہ نماز کے تارک ہوں گے۔مگرعید کی نماز پڑھنے چلے جائیں گے۔

حالانکہ روزانہ نماز ایمان کی تکمیل کے لئے اس کی نسبت نہایت ضروری ہے۔ پھر عید کی نماز تو ایسی ہے کہ اگر انسان اکیلا ہو تو رہ جاتی ہے۔مگر روزانہ نماز کسی صورت میں بھی چھوڑی نہیں جاسکتی۔ حتّٰی کہ بیماری میں بھی پڑھنی ضروری ہے تو

یہ نماز بہت زیادہ افضل اور اعلیٰ ہے

مگر لاکھوں آدمی اس کو تو چھوڑ دیتے ہیں اور عید کی نماز کو نہیں چھوڑتے۔ وجہ یہ کہ وہ سال میں ایک دو دفعہ آتی ہے اور یہ ہر روز پڑھنے کا حکم ہے۔ حالانکہ یہ اس سے افضل اور اعلیٰ ہے۔ اُس دن کی فضیلت کی اور وجوہات ہیں اور وہ چَھٹی نماز ہے جو اس دن کو افضل بناتی ہے۔ اکیلی عید کی نماز اس کی فضیلت کا باعث نہیں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ کسی کے پاس پانچ روپے اور کسی کے پاس پانچ روپے اور ایک چونّی ہو۔ دوسرے کا مال پہلے کی نسبت زیادہ ہو گا لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ چونّی روپیہ سے بڑھ کر ہے مگر لوگ نادانی سے چونّی کو بڑا سمجھتے ہیں حالانکہ

اصل میں روزانہ نماز روپیہ کی طرح ہوتی ہے اسی طرح لوگ نمازوں کے تارک ہوتے ہیں مگر روزے آنے پر شور پڑ جاتا ہے۔

حالانکہ گو روزے فرض ہیں مگر نماز کی نسبت کم ہیں اور یہ اس درجہ پر نہیں جس درجہ پر نماز ہے۔ وہ بھی دین کے ارکان میں سے ایک رُکن ہے۔مگر نماز زیادہ ضروری ہے۔تو

جو چیز دیرکو آتی ہے اس کو عزت سے دیکھتے ہیں اور جو روزانہ کی ہے اسے معمولی سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح جو چیز آسانی سے حاصل ہو جائے اسے معمولی سمجھا جاتاہے اور جس پر محنت صرف ہو اس کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ حالانکہ بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں وہ بعض اوقات کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہیں اور بعض اوقات بڑی بڑی کچھ نتیجہ نہیں پیدا کرتیں۔

رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے پیشاب اور پاخانہ کے وقت ابن عباسؓ لوٹا رکھ دیتے تھے۔ اتنی سی بات کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے لئے وہ دُعا کی جو جنگوں پر جانے والوں کے لئے بھی نہیں فرمائی۔ چنانچہ ان کے لئے توفرمایا اَللّٰھُمَّ فَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ(بخاری و مسلم بروایت مشکوٰۃکتاب المناقب اھل البیت)مگر لڑائی پر جانے والوں کے لئے یہ نہیں فرمایا۔ تو کاموں کے لئے بڑائی اور چھوٹائی صرف محنت سے نہیں دیکھی جاتی بلکہ اور بھی وجوہات ہوتی ہیں۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: اپنی طاقتوں کو صحیح رنگ میں استعمال کرو

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button