خلافت اور امنِ عالم
تقریر برموقع جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ ہالینڈ ۲۰۲۴ء
دنیا میں امن کے قیام کے لیے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کی گئی کوششوں میں ایک بہت بڑا حصہ آپ کے مختلف ممالک کے دورہ جات ہیں۔ ان دوروں میں حضورِانور نے سربراہانِ مملکت، حکومتی وزراء، ممبرانِ پارلیمنٹ، کونسلرز، میئرز، پروفیسرز اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے معززین کے ساتھ ملاقاتوں کے ذریعہ اسلامی تعلیم کے مطابق امن کا پیغام پہنچایا
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ۔(الانبیا:۱۰۸) اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت کے طور پر۔نیز فرمایا:یَہۡدِیۡ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضۡوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَیُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ بِاِذۡنِہٖ وَیَہۡدِیۡہِمۡ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ۔(المائدہ :۱۷) اللہ اس کے ذریعہ انہیں جو اس کی رضا کی پیروی کریں سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دیتا ہے اور اپنے اِذن سے انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکال لاتا ہے اور انہیں صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ایک اَور مقام پر فرمایا: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔ (النور:۵۶) تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لیے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کے خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔
یہ بہت بنیادی بات ہے کہ مذاہب کا اصل مقصد امن کا قیام ہی ہے، چاہے وہ انفرادی امن ہو، معاشی امن ہو، یا امن کی کوئی بھی صورت ہو۔ اور انبیائے کرام وہ امن کے شہزادے ہیں جنہوں نے خدائی احکام اور اِذن سے دنیا میں امن کے قیام کے لیے انتھک اور نہایت پُر اثر عملی کوششیں کی ہیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں دیرپا، حقیقی اورموثر ترین امن کے قیام کی کوششیں صرف انبیائےکرام اور اُن کے نقش قدم پر چلنے والے خلفاءکے ہی حصہ میں آئی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ امن بھی ایک ایسی چیز ہے جو آسمان سے نازل ہوتا ہے، اور اِسی پہلو کی طرف خداتعالیٰ کی صفت السلام میں اشارہ ملتا ہے۔ لوگوں، قوموں، اور دوسری دنیاوی طاقتوں میں یہ قابلیت اور طاقت نہیں کہ وہ حقیقی اور دیرپا امن قائم کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ کشت وخون، ناانصافی اور ہرطرح کے ظلم سے بھری پڑی ہے۔
امن کی ضد فساد ہے جس کو خداتعالیٰ نے متعددبار قرآن کریم میں ایک نہایت ناپسندیدہ عمل قراردیا ہے اور یہاں تک فرمایا ہے کہ فساد قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔فساد کو انگریزی میں disorderبھی کہتے ہیں اور جب خاکسار نے اِس لفظ پر غور کیا تو ایک سائنسی قانون کی طرف خاکسار کی توجہ ہوئی جس کو اینٹراپی کہتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اینٹراپی بے ترتیبی کی پیمائش کا نام ہےاور یہ بے ترتیبی قدرتی طور پرکائنات میں ہر وقت جاری رہتی ہے اور اگر کوئی بیرونی ہاتھ یا طاقت اس کو نہ روکے تو اِس بے ترتیبی یا فساد کو ختم اور کم کرنا ممکن نہیں۔ اِس سائنسی قانون سے بھی ہم کو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جیساکہ ذرات اور دیگر قدرتی طاقتوں میں خودبخود (یا پھر جس کو انگریزی میں بائے ڈیفالٹ کہتے ہیں)بے ترتیبی بڑھتی رہتی ہے اور اُس کو ایک بیرونی طاقت ہی ترتیب کی طرف لاتی ہے تو اُسی طرح انسانوں کی بے ترتیبی اور ڈِس آرڈر بھی ایک بیرونی طاقت، جس کو خداتعالیٰ کی رحمت کہتے ہیں اُس کی محتاج ہے۔
خداتعالیٰ اپنی رحمت کے ہاتھ سے دنیا کو مختلف ادوار میں اور مختلف حالات میں تباہی کے گڑھوں سے باہر کھینچتا رہا ہےاوراس رحمت کا ظہور انبیاء کےبابرکت وجودوں میں جلوہ گر ہوا، جنہوں نے لوگوں کو نہ صرف قال سے بلکہ حال سے اُس آگ اور تباہی سے بچایا جو اُن کا مقدر بن چکی تھی۔اسی کیفیت اور حالت کا ایک نقشہ حضورِ اکرمﷺ کی ایک حدیث میں کچھ اس طر ح سے بیان ہوا ہے۔
حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی اور پتنگے اور پروانے اس میں گرنے لگے اور یہ شخص انہیں اس سے ہٹا رہا ہے۔ (اسی طرح) میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ میں گرنے سے بچا رہا ہوں لیکن تم میرے ہاتھوں سے نکلے جاتے ہو۔(صحیح بخاری)
قرآن کریم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے جسمانی اور ذہنی ارتقا کے ساتھ ساتھ روحانی ارتقا بھی ہوئی ہے اور اسلام سے پہلے کے تمام مذاہب اسلام کی ہی ادنیٰ شکل تھے مگروہ اُس وقت اور حالات کے لحاظ سے مکمل تھے۔اور لفظ اسلام پرغور کرنے سے، جس کا مطلب امن بھی ہے، اور اِس کے ارتقا کے نظریہ کو سامنے رکھنے سے ہم کو یہ نکتہ بھی سمجھ آتا ہے کہ چونکہ ارتقا ایک سمت اور مقصد کی طرف آہستہ آہستہ بڑھنے کا نام ہے اور اس حوالے سے امن کا ادنیٰ درجہ سے اعلیٰ ترین درجہ کی طرف بڑھنا خدا تعالیٰ کے حکم سے اور اُس کے اذن سے ہوا۔
تاریخ کے اوراق میں جھانکنے سے معلوم ہوگا کہ تمام انبیاء اور اُن کے خلفاءنے امن کے قیام کے لیے بے مثال کوششیں کیں اور انسانیت کی بقا ہمیشہ اُس پانی سے منسلک رہی ہے جو انسانوں کے فائدہ کے لیے آسمان سے اپنے وقت پر اور مناسب جگہ پر نازل ہوتا رہا ہے۔اگر خداتعالیٰ ان امن کے شہزادوں کو مبعوث نہ کرتا تو یہ دنیا کب سے تباہ وبرباد ہوچکی ہوتی۔ آج کل کے ترقی یافتہ انسان یہ مت سمجھیں کہ انسان نے اپنی بقا کے لیے وہ مقام حاصل کرلیا ہے کہ وہ خود اپنی کوشش اور عمل سے امن کا قیام کرسکتا ہے۔ یہ زعم رکھنے والے یہ یادرکھیں کہ دوسری عالمی جنگ، جس میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے،کو ہوئے بہت عرصہ نہیں گزرا۔آجکل کی دنیا میں کون سا خطہ ہے جس میں یہ جدید سوچ اور طاقت اور قابلیت رکھنے والے انسان امن قائم کرسکے ہیں۔ اور اب ہم تیسری اور بڑی بھیانک عالمی تباہی کے دور سے گزررہے ہیں۔
آنحضرتﷺ کی بعثت تمام عالم کے لیے تھی اِس لیے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپﷺ کی اور آپ کے خلفاء کی عالمی امن کے لیے قربانیاں اور کاوشیں اور تعلیمات بھی بے مثال ہیں۔آپﷺ جو کہ رحمۃللعالمین کے طور پر مبعوث ہوئے،حقیقت میں تمام عالمین کے لیے رحمت بن گئے۔ عربی کا لفظ عالَم جو یہاں استعمال ہوا یہ بہت وسیع معنے رکھتا ہے، آپ کو تمام جہانوں اور عالموں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ اس کے اور بہت سےمطالب ہونے کے ساتھ، ایک یہ مطلب بھی بنتا ہے کہ انسان، جوکہ قرآن کریم کی رُو سے خود ایک عالم کا درجہ رکھتا ہے، اُس حوالہ سے بھی آپﷺ تمام انسانوں کے لیے رحمت کے طور پر مبعوث کیے گئے۔یہی وہ رحمت ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی اور جس سے نہ صرف دنیا میں امن کا قیام ہوا، بلکہ یہ امن ہر دل تک پہنچا، اور وہ دنیا، جو اپنی تباہی کے کنارے پر تھی، پھر سے خداتعالیٰ نے اُس کو امن کے راستہ پر ڈال دیا اور امن کا یہ فیض ہر دل تک پہنچا، خواہ کسی نے آپﷺ کو قبول کیا یہ نہیں۔ آپﷺ کا وجود انسانیت کی بقااور امن کی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کےخطبات کی روشنی میں اسلامی تاریخ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہےاور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اور اس فیض سے وہ لوگ بھی مستفیض ہوئے ہیں جن کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ امن کے قیام اور فروغ کے لیے آنحضرتﷺ، اُن کے خلفاء اور صحابہ کرامؓ کے حیران کن اور نہایت پیارے اُسوہ کا بغور مطالعہ کرسکیں۔پھر آپﷺ نے آخری زمانہ میں اپنی اتباع میں آنے والے ایک امن کے شہزادے، یعنی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام، کا بھی ذکر کیا جس کے بنیادی کاموں میں سے ایک بڑا کام دنیا میں امن وسلامتی کا قیام تھا۔ اور آنحضرتﷺ کے اِس روحانی فرزند نے اِس کام کا حقیقی معنوں میں حق ادا کیا۔ آنحضرتﷺنےاپنے مختلف ارشادات میں قیامت تک آنے والے مختلف حالات کا نقشہ مختصراً مگر جامع انداز میں ہم سب کے سامنے رکھا ہے۔آنحضرتﷺ نے فرمایا :۔ تم میں جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا نبوت قائم رہے گی، پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھا لے گا اور پھر جب تک اللہ چاہے گا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم رہے گی۔ پھر وہ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اُٹھا لے گا۔ پھر ایذا رساں بادشاہت جب تک اللہ چاہے گا قائم ہو گی۔ پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھا لے گا۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی، جب تک اللہ چاہے گا وہ رہے گی۔ پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھا لے گا۔ اُس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی، پھر آپ خاموش ہوگئے۔(مسند احمد)
اس ارشاد سے جہاں ہمیں خلافت کے قیام اور اُس کی اہمیت کے سلسلہ میں راہنمائی ملتی ہے، وہاں ایک اور دقیق نقطہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضورِ اکرمﷺ نے گویا قیامت تک آنے والے تمام حالات کو مختصر طور پر بیان کردیاہے اور کمال بات یہ ہے کہ حضورِ اکرمﷺ نےتمام حالات کو نبوت اور خلافت کے پیرایہ میں بیان کرکے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ انسانیت کی بقا اور امن کا قیام صرف اور صرف نبوت اور خلافت سے وابستہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔بے شک خلافت سے وابستہ امن اور آشتی مومنین کے حصہ میں سب سے زیادہ آئے گی مگر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تمام دنیا کی بقا اور امن کا قیام صرف خلافت سے ہی وابستہ ہوگا۔ اور اگر ہم دنیا کے اب تک کے حالات پر غور کریں تو یہ بات یقین میں بدل جاتی ہے۔
خلافت احمدیہ کا نظام امن، انصاف اور روحانیت کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اس نظام کی اساس روحانی قیادت اور الٰہی راہنمائی ہے، جو نہ صرف اس کے ماننے والوں کودینی، دنیاوی، اخلاقی اور روحانی بلندیوں پر پہنچاتی ہے بلکہ انفرادی اور عالمی سطح پر ہر ایک اِس الٰہی نظام سے کسی نہ کسی طرح فیض پارہا ہے۔ خاکسار اب کچھ ایسے نکات پیش کرے گا جس سے معلوم ہوگا کہ نظامِ خلافت، عالمی امن کےلیے نہایت اہم ہے اور ان نکات کی بنیادجدید تحقیقات ہیں۔
اجتماعی شناخت کو مضبوط کرنے کا ایک موثر ذریعہ ایک مضبوط اور مستحکم روحانی راہنمائی ہے اورصرف خلافت ہی اپنے پیروکاروں کو مشترکہ اہداف اور مقاصد کے لیے متحد کرسکتی ہے۔ اور یہ اجتماعی شناخت قومی، قبائلی اور دیگر شخصی کمزوریوں کو جو اختلافات اور مسائل پیدا کرتی ہیں، دُور کرتی ہے۔
پھر سماجی نفسیات کے اصولوں کے مطابق تنازعات کے حل میں کسی معاملہ کی جڑتک پہنچ کر، نفسیاتی اور سماجی بنیادوں پر اس کا حل نکالنا ایک مضبوط روحانی نظام کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ تنازعات کو دنیاوی اصولوں کےساتھ کچھ دیر کے لیے دبایا تو جاسکتا ہے مگر اُن کا دیرپا حل پیش نہیں کیا جاسکتا، جس کے باعث برائیاں یا اختلافات دب تو جاتے ہیں مگر حل نہیں ہوتے۔ خلافت ہی وہ نظام ہے جو اپنےماننے والوں کو خصوصاً اورتمام دنیا کو عموماً صبر، تحمل، اور انصاف کے اصولوں پر عمل کرنے کی تلقین کرتاہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تنازعات کا سبب بننے والی تحریکات کو جڑ سے ختم کرنے کا حل صرف خلافت کے پاس ہے۔
پولیٹیکل سائنس کے اصولوں کے پیشِ نظر عالمی امن کے قیام میں اخلاقی قیادت اور شرافت کا اہم کردار ہوتا ہے، لوگوں کے لیے اُن کے راہنما رول ماڈلز ہوتے ہیں۔ خلیفۂ وقت اس دور میں اس حوالے سے سب سے بڑے مقام پر فائز ہوتا ہے جس سے اُس کی تحریکات اور نصائح پُر اثر ہوتی ہیں اور دلوں کو بدلنے والی اور امن کی فضا قائم کرنے والی ہوتی ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات میں مختلف ثقافتوں اور قوموں کے درمیان افہام وتفہیم قائم کرنے کے لیے خلافت ایک پُل کا کردار اداکرتی ہے اور عالمی طور پر امن اور بھائی چارہ بڑھتا ہے۔
معاشیات کے اصولوں کے مطابق وسائل کی منصفانہ تقسیم اور اقتصادی انصاف عالمی امن کی بنیاد ہے۔ خلافت احمدیہ اپنے ماننے والوں کوزکوٰۃ،چندہ جات، صدقات، اور فلاحی کاموں کے ذریعہ معاشرتی انصاف کو فروغ دینے کی ہدایت دیتی ہے۔یہ اقدامات اقتصادی عدم مساوات کو کم کرنے اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
تعلیمی نفسیات کے اصولوں کے مطابق لوگوں کو تعلیم و تربیت کی فراہمی معاشرتی شعور اور امن کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے اور لوگ جہالت کے اندھیروں سے نکل کر نور حاصل کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خلافت مختلف مذاہب میں ہم آہنگی قائم رکھنے کے لیے بین المذاہب مکالمہ جات اور دیگر پروگرام کو فروغ دیتی ہے۔ جس کے ذریعہ مختلف مذاہب کے افراد کے درمیان مفاہمت اور ہم آہنگی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
اسی طرح عائلی نظام کی مضبوطی،ماحول کی حفاظت، انسانی حقوق،تعمیری تنقید، عالمی مسائل کے لیے اجتماعی کوششیں وغیرہ جیسے تمام معاملات میں خلافت ہی ہے جو ایک مستحکم اور دیرپا حل پیش کرتی ہے جس کے باعث عالمی امن ممکن ہوسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک عالمی راہنمائی کے بغیر دنیا میں امن کا قیام ممکن نہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ یہ عالمی راہنمائی، طاقت اور وسائل اور اثرورسوخ کے ذریعہ قائم نہیں کی جاسکتی بلکہ حقیقی عالمی راہنمائی صرف وہی ہے جو دلوں پر راج کرتی ہو۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وقتاً فوقتاً مختلف دنیاوی طاقتوں اور تنظیموں نے اپنے آپ کو دنیا کے راہنما کے طور پر پیش کیا ہے مگر وہ سب بری طرح ناکام ہوئی ہیں۔چاہے وہ امریکہ ہو یا روس، یونائیٹڈ نیشن ہویا لیگ آف نیشنز۔ دنیا کی حقیقی راہنمائی اور اِ س کے ذریعہ امن کا قیام صرف خلافت احمدیہ کے ساتھ منسلک ہے۔ یہی و ہ حق ہے جس کے سامنے دنیا کے تمام باطل خیالات نہیں ٹھہر سکتے۔ یہی وہ حق اور تائید الٰہی کا رُعب ہے جس کے سامنے دنیا کا بڑے سے بڑا لیڈر بھی احترام اور ادب کے ساتھ ہی کھڑا ہوسکتا ہے۔ اورامن کے ضامن اس نظام کے دَر سے آئی ہوئی تمام ہدایات اور راہنمائی تمام دنیاوی لیڈروں کو بھی اس کی گہرائی اور سچائی سے متاثر کرتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خلافت احمدیہ ایک عالمی روحانی نظام ہے، مگریہ بات بھی بالکل درست ہے کہ دنیا کے تمام مسائل، خواہ وہ دینی ہوں یا دنیاوی، معاشی ہوں یا معاشرتی، سیاسی ہوں یا سماجی، ان تمام مسائل کا حل خلافت احمدیہ کے پاس موجود ہے۔دنیا کی تاریخ اور اُس کے موجودہ حالات ہمیں پکار پکار کر یہی کہہ رہے ہیں کہ ہرطرح کے امن کی ضمانت صرف خلافتِ احمدیہ ہی دے سکتی ہے۔
محض خداتعالیٰ کےفضل سے خلافتِ احمدیہ کو ہر دور میں عالمی امن کے قیام کے لیےنہایت پُر اثر اور قابل ستائش کاوشوں کی توفیق عطا ہوتی رہی ہے۔ خاکسار یہاں صرف خلافتِ خامسہ میں اس سلسلہ میں ہونے والی کوششوں کا ایک نہایت مختصر جائزہ پیش کرتا ہے۔ خلافت ِ خامسہ کے آغاز سے ہی حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نگرانی اور راہنمائی میں امن عالم کے لیے ہمہ جہت کوششیں اور کاوشیں جاری ہیں اور اِس میں اِس قدر وسعت آچکی ہے کہ اِس کا احاطہ بھی ممکن نہیں۔
حضورِانور نے مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے ساتھ ہی مختلف مواقع پر اور مختلف پلیٹ فارمز پر اپنے خطبات کے ذریعہ دنیا کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے افرادِ جماعت کو خصوصاً اور تمام عالم کو عموماً مخاطب کرتے ہوئے امن قائم کرنے کے لیے کوششوں کی تلقین فرمائی۔ نیز بارہا ان مسائل کے حل کے لیے دعاؤں کی تحریک کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ ہم وہ قوم ہیں جو دعا کی تاثیر پر یقین رکھتے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ خلیفہ وقت کی شب وروز کی دعائیں ہی ہیں جنہوں نے دنیا کو اب تک بڑی تباہی سے بچارکھا ہے، ورنہ اقوام ِعالم اور تمام طاقتیں پورے زور سے تمام دنیا کو تباہی کے گڑھے میں گھسیٹ رہی ہیں۔یہ غیرممکن کو ممکن میں بدلنے والی دعائیں خلیفہ وقت کی ہی ہیں ورنہ کسی بھی اعتبار سے یہ عالمی تباہیاں رکنے والی نہیں۔
قیامِ امن عالم کی خاطر دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں اور سربراہوں کو بذریعہ خطوط مخاطب کرنا خلافت خامسہ کے کارہائے نمایاں کاایک درخشندہ اور تاریخی باب ہے۔ حضورِانور کے یہ خطوط ہمیں حضورِ اکرمﷺ کے جرأت مندانہ اور حکیمانہ طرز تبلیغ اور امن کی کوششوں کی یاد دلاتے ہیں، اور اسی طرح آپﷺ کے روحانی فرزند کی امنِ عالم کے لیے کی گئی کوششوں کا تسلسل ہیں جن کا مقصد خداتعالیٰ کی توحیدکا قیام اور اُس کے بندوں میں پیار اور وحدت قائم کرنا ہے۔ یہ خطوط پوپ بینیڈکٹ، اسرائیل کے وزیرِ اعظم، صدر اسلامی جمہوریہ ایران، صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ، وزیرِ اعظم کینیڈا، خادمین حرمین شریفین سعودی عرب، عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم، وزیرِ اعظم برطانیہ، چانسلر جرمنی وغیرہ کو لکھے گئے، اور ایک بار نہیں بلکہ مختلف وقتوں میں یہ خطوط لکھے جاتے رہے۔ یہ خطوط خلافتِ احمدیہ کی سچائی کی بھی ایک بہت بڑی دلیل ہیں، جن سے ہمیں یہ بھی پتا لگتا ہے کہ خلافتِ احمدیہ کو خداتعالیٰ کی تائید ونصرت حاصل ہے اور تمام دنیاوی طاقتیں، باوجود یکہ بہت طاقت اور اثر رکھتی ہیں، آپ کے پیغام، کوششوں، اور کردار کو عزت اور تکریم کی نظر سے دیکھتے ہیں اور باوجود اپنے تکبر اور نخوت کے خلافتِ احمدیہ کے متعلق خدائی وعدہ نصرت بالرعبکے تصرف کے نیچے ہی رہتی ہیں۔
گو کہ جماعت احمدیہ نے ہر دَور میں بین المذاہب کانفرنسز کا اہتمام کیا ہے لیکن دنیا کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر خلافتِ خامسہ میں امن کانفرنسز منعقد کرنے کا آغاز ہوا ہے۔یہاں پر ان کانفرنسز کا ذکر تفصیل سے تو کیا مختصراً بھی ناممکن ہے۔ یہ کانفرنسز مختلف ممالک میں منعقد ہوچکی ہیں جن میں ہزاروں سربراہان، حکومتی نمائندے، وکلا، اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوچکے ہیں اوران شاملین کو نہ صرف اسلام کی حقیقی تصویردیکھنے کو ملی بلکہ حضورِانور کی قیام امن کے لیےقیمتی اور قابلِ عمل نصائح سننے کا بھی موقع ملا۔ اور میڈیا کے ذریعہ سے پیغامات کروڑوں لوگوں تک پہنچتے رہے ہیں۔
دنیا میں امن کے قیام کے لیے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کی گئی کوششوں میں ایک بہت بڑا حصہ آپ کے مختلف ممالک کے دورہ جات ہیں۔ ان دوروں میں حضورِانور نے سربراہانِ مملکت، حکومتی وزراء، ممبرانِ پارلیمنٹ، کونسلرز، میئرز، پروفیسرز اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے معززین کے ساتھ ملاقاتوں کے ذریعہ اسلامی تعلیم کے مطابق امن کا پیغام پہنچایا۔ دنیا کی موجودہ صورتحال، عالمی معیشت، ماحولیاتی آلودگی، دہشتگردی کے سدباب، پناہ گزینوں سے متعلق مشکلات، عالمی اختلافات، آفات، سماجی اور ثقافتی مسائل اور عالمی امن کے قیام جیسے موضوع زیرِ بحث رہے۔آپ نے دنیا کی طاقتوں کے سرچشمے سمجھے جانے والی شخصیات، اداروں، اور جگہوں پر بڑے پُرزور، پُرتاثیر اور پُرحکمت انداز سے اُن کی راہنمائی فرمائی۔ وہ برطانوی ہاؤسز آف پارلیمنٹ ہو، یا یورپین پارلیمنٹ، یاپھر وہ دنیا کے سب سے طاقتور سمجھے جانے والے ملک امریکہ کا کیپیٹل ہل ہوجہاں بظاہر قوموں کی قسمتوں کے فیصلےکیے جاتے ہیں۔ غرض یہ خدا تعالیٰ کا شیر ہر میدان میں کامیاب اور کامران رہا ہے اور خداتعالیٰ کی توحید کا پرچم اونچا کرنے، انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے اورعالمی انصاف اور مساوات کاپرچار کرنے کے لیےاس دور میں آپ ایک بے مثال وجود ہیں۔
خاکسار یہاں نمونے کے طور پر صرف چند حوالے پیش کردیتا ہے جو ایسے لوگوں کے ہیں جو دنیاوی لحاظ سے بہت طاقتور اور اثرورسوخ رکھنے والےرہے ہیں، اور ان حوالہ جات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی عالمی امن کے لیے کوششوں کااثر کتنا گہرا اور عظیم ہے۔
۲۰۱۲ء میں ڈیموکریٹک لیڈر نینسی پلوسی نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کہا:اپنی قیادت کی وجہ سے آپ دنیا میں ایک عالمی اہمیت کی حامل شخصیت کے طورپر اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ آپ سرحدوں کے پار ایک عظیم طاقت اور ترقی پذیر دنیا کے لیے ایک سرمایہ ہیں۔ آپ حکمت اور خداترسی سے پُر راہنما ہیں جنہوں نے عدم تشدد نیز مختلف مذاہب کے درمیان باہمی احترام کو ایک فاتح کے طور پر قائم کیا ہے۔(کیپیٹل ہل امریکہ مورخہ ۲۷؍جون ۲۰۱۲ء)
برطانیہ کے سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نےحضورِانور سے متعلق کہا: حضر ت مرزا مسرور احمدامن کے پیغامبر ہیں۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ کے فلاحی کام اور باہمی پیارومحبت کی آپ کی فلاسفی برطانیہ میں بھی اور ساری دنیا میں یونہی پھلتی پھولتی رہے گی۔(مورخہ ۲۹؍جنوری ۲۰۱۵ءبرطانیہ)
ایک امریکی کانگریس وومن کارَن باس نے کہا: آپ ایدہ اللہ تعالیٰ ایک انقلابی شخصیت ہیں جنہوں نے پوری دنیا میں امن اور رواداری کو بڑھاوادیا ہے۔(مورخہ ۱۱؍مئی ۲۰۱۳ء ساؤتھ کیلیفورنیا)
کینیڈا کے سابق وزیراعظم سٹیفن ہارپر نے سیدنا حضورِانور کے متعلق کہا کہ آپ مذہبی آزادی اور امن کے ایک بہادر فاتح ہیں اور آپ اسلام کا ایک سچا خیرخواہ چہرہ ہیں۔
خاکسار نے یہ چند حوالہ جات بطور نمونہ پیش کیے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس باب میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور ہر ذی شعور اور وہ روح جس میں خداتعالیٰ کا کچھ خوف اور اُس کے بندوں کے لیے کچھ محبت قائم ہے وہ خلافتِ احمدیہ اور عالمی امن کو ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم قراردیتے ہیں۔
خاکسار نے جب اِس بات پر غور کیا کہ آجکل دنیا میں کون سی ایسی مشکلات ہیں جن کا سامنا ہم سب کو ہے۔ خاکسار کے کم علم اور ناقص رائے میں دنیا کے ہر مسئلے، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا،اُس کا حل خلافتِ احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہے۔
چاہے وہ کلائمیٹ چینج کا مسئلہ ہو، یا گلوبل ہیلتھ کرائسز ہو، جیوپولیٹیکل اختلافات ہوں، یا معاشی عدم مساوات، ٹیکنولوجیکل ڈسرَپشنز ہوں یا پانی اور غذا کی کمی اور سیکیورٹی، انسانی حقوق کی پامالی ہو یا تعلیمی اورتربیتی مسائل، اخلاقی گراوٹ ہو یا پھرمذاہب، قوموں اور ثقافتوں کی ایک دوسرے پر چڑھائی۔ اگر ہم غور کریں تو ان تمام مسائل کا حل دو بنیادی اور بہت اہم باتوں میں موجود ہے۔ اور وہ ہے وحدت اوردوسرا یہ کہ کسی بالا ہستی کےوجود کو اپنا آقااور مطاع بنایا جائے۔ اب ان مسائل کو دوبارہ دیکھنے سے اور ان دو پہلوؤں پر غورکرنے سے ہم یقیناً اِ س نتیجہ پر پہنچیں گے کہ اِن تمام مسائل کا حل خلافتِ احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہونے سے مل سکتا ہے۔ہمیں یہ یادرکھنا چاہیے کہ اب دنیا ایک ایسے دور میں آچکی ہے کہ مسائل کا دائرہ کار بہت وسیع ہے اور کوئی بھی ملک ہو یا خطہ زمین وہ کسی طرح بھی اپنی ذات میں محفوظ نہیں اور محدود پالیسیاں، محدود سوچیں،کسی کو دیرپا امن اور مسائل کے حل تک نہیں پہنچا سکتیں۔ حضورِ اکرمﷺ کو عالمی نبوت عطا کی گئی، اور آپﷺ ایک عالمی رسول ہیں۔ آپﷺ کی اتباع میں آنے والے آپﷺ کے غلام ِ صادق کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے خلافتِ احمدیہ بھی ایک عالمی خلافت ہے۔ دنیا کو خلافت کی ضرورت ہے، اور اِس کے بغیر دنیا میں حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ دنیا کو ایک کرنے کی قوت، قوموں، اداروں، اور دوسری طاقتوں میں نہیں، بلکہ خلافتِ احمدیہ ہی وہ طاقت ہے جس سے دنیا ایک ہوسکتی ہے۔ اور دوسرا یہ کہ جب تک دنیا اپنے خداتعالیٰ کو نہیں پہچانتی اور اِس کے قائم کردہ نظامِ خلافت کے سامنے اپنی گردنوں کو نہیں جھکائے گی، تب تک دنیا کے مسائل، خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، وہ حل نہیں ہوسکتے۔خلافتِ احمدیہ انسانیت کی بقا کا وہ پانی ہے جو عین اپنے وقت پراور عین ضرورت کے مطابق اترا ہے، اور یہ عالمی نظام دنیا کی بقا کا ذریعہ ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے۔
میں وہ پانی ہوں جو آیا، آسماں سے وقت پر
میں ہوں وہ نورِ خدا،جس سے ہوا دن آشکار
خاکسار اپنی گزارشات کا اختتام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک الفاظ کے ساتھ کرتا ہے۔حضور فرماتے ہیں:یہ بہت اہم بات ہے جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ انسانی علم اور عقل کامل نہیں ہے بلکہ یقیناً محدود ہے…لیکن خدا کا قانون ناقص نہیں ہے اس لیے اس میں کوئی ذاتی مفادات یا ناانصافی کے امکانات موجود نہیں ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ خدا کو بہرحال اپنی مخلوق کی بھلائی اور بہبود عزیز ہے اس لیے اس کا قانون کلیۃ ًانصاف پر مبنی ہے۔ جس دن لوگ اس اہم حقیقت کو شناخت کر لیں گے اور اسے سمجھ لیں گے یہ وہ دن ہو گا جب حقیقی اور دائمی امن کی بنیاد رکھی جائے گی۔ بصورت دیگر ہم یہ دیکھیں گے کہ قیام امن کے لیے مسلسل کوششیں تو ہورہی ہوں گی مگر یہ کوئی قابل قدر اور ٹھوس نتائج پیدا نہیں کر رہی ہوں گی۔(عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ ۷۳۔۷۴)
پھر فرمایا: اگر ہم حقیقی طور پر امن قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انصاف سے کام لینا ہوگا۔ہمیں عد ل اور مساوات کو اہمیت دینی ہوگی۔آنحضرتﷺ نے کیا ہی خوبصور ت فرمایا ہےکہ دوسروں کے لیے وہی پسند کر وجو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ہمیں صرف اپنے فائدے کے لیے نہیں بلکہ وسیع النظری سے کام لیتے ہوئے دنیا کے فائدے کے لیے کام کرنا ہوگا۔فی زمانہ حقیقی امن کے قیام کے یہی ذرائع ہیں۔(۲۸؍ اکتوبر ۲۰۱۶، خطاب یارک یونیورسٹی)
خداتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب اور ہماری آئندہ تمام نسلیں خلافت کی برکات حاصل کرنے والی ہوں، اور اِس کے فیض ہمیشہ ہمیں ملتے رہیں۔ نیز یہ عالمی نظام دنیا میں امن وسلامتی قائم کرتا رہے، دنیا خلافت کی حقیقت اور ضرورت کو سمجھتے ہوئے اِس کے سایہ رحمت میں بسیرا کرنے والی ہو، اور تمام عالمی مسائل کو اِس عالمی نظام کی راہنمائی میں حل کرنے والی بنے۔ آمین۔
صدق سے میری طرف آؤ، اِسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہرطرف،میں عافیت کا ہوں حصار
(عطاءالقیوم عارف۔نیشنل سیکرٹری تربیت ہالینڈ)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: تبلیغ و اشاعتِ اسلام۔ وہ بولتا ہے تو اک روشنی سی ہوتی ہے