ذکر ملک نور الٰہی صاحب کا اور دارالحمد کی کچھ یادیں
ملک نور الہی صاحب کی وفات کی خبر آئی۔ خیالات کی رو بہت پیچھے کی طرف چل پڑی۔ تیس سال۔ اور یہ لکھتے ہوئے بھی حیرت ہورہی ہے کہ اتنا وقت گزر چکا۔
ملک صاحب مرحوم احمدیہ ہاسٹل لاہور، جو دارالحمد کے نام سے زیادہ معروف ہے، کے سپرانٹنڈنٹ تھے۔ یعنی وہاں رہائش پذیر پچاس ساٹھ طلبہ کے نگران۔ اس وقت تو ایسا کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میں جب تیس سال بعد اپنے ہاسٹل کے بارے میں لکھنے بیٹھوں گا تو یہ کہوں گا کہ مجھے فخر ہے کہ میں ان طلبہ میں سے ایک تھا جولاہور تعلیم حاصل کرنےگئے اور حصول تعلیم کے دورانیہ میں دارالحمد میں مقیم رہے۔ بلکہ مجھ جیسوں کا قیام تو اس دورانیہ سے کچھ پہلے اور کچھ بعد تک پھیل گیا۔ کیا کرتے۔ ہمیں دارالحمد سے ایک خاص لگاؤ جو ہوگیا تھا۔ یا یوں کہہ لیں کہ کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی۔
مجبوری کا پہلا حصہ ملک نور الٰہی صاحب سے پہلے کا تھا۔ تب دارالحمد جماعت احمدیہ لاہور کے زیر انتظام تھا۔ نظارت تعلیم کے تحت بعد میں آیا۔ مگر جلد بعد۔
چودھری غلام رسول صاحب سپرانٹنڈنٹ تھے اور مبشر دہلوی صاحب وارڈن۔ میرا داخلہ پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے فلسفہ کے لیے ہوچکا تھا مگر ابھی تعلیمی سال شروع ہونے میں کچھ ماہ باقی تھی۔ محترم ناظر صاحب تعلیم، جو اس وقت حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب تھے، نے فرمایا کہ میں اس دوران پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والے ایک کورس میں داخلہ لے لوں اوررہائش کے لیے احمدیہ ہاسٹل چلا جاؤں۔
میں اپنی درخواست لیے پہنچا تو اس وقت داخلہ کے انٹرویوز میں کچھ وقت تھا۔ اور یہ وقت اتنی ہی مدت کا تھا جتنا میرا ابتدائی کورس تھا۔ یوں میرا داخلہ تو نہ ہوسکا مگر میں اپنے دوست برادرم لطیف قیصر صاحب کے ساتھ ان کے مہمان کے طور پر رہنے لگا۔ انتظامیہ کو علم تھا مگر ناظر صاحب تعلیم کے لحاظ میں خاموشی رہی۔ میرے لیے ایک سہولت کی صورت بن گئی۔ اور اس سہولت کے لیے میں دارالحمد انتظامیہ کا آج شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اپنے دوست کا شکریہ میں نے تب ہی ادا کردیا ہوگا۔ نہ بھی کیا ہو تو وہ حساب در دل ہے۔
عارضی رہائش یعنی دارالحمد میں باقاعدہ داخلہ سے پہلے کے ان ایام میں چودھری صاحب مرحوم شدید بیمار ہو کر سی ایم ایچ لاہور میں داخل تھے۔ روزانہ دو تین طلبہ چودھری صاحب کی عیادت کو جایا کرتے۔ کچھ کو وہ خاص طور پر بلوایا کرتے اور ان سے معافی تلافی کیا کروایا کرتے۔ کسی کو ہاسٹل کے برآمدے میں کرکٹ کھیلنے پر ڈانٹا ہوتا، کسی کو رات دیر سے آنے پر، کسی کو کسی اَور بے قاعدگی پر۔ ان سب کو نام بنام بلاتے اور بڑے پیار سے بتاتے کہ انہیں کس بوجھل دل سےصرف اصلاح کے لیےڈانٹا تھا۔ اوریہ بتا کر معافی بھی مانگ لیتے۔
مجھے چودھری صاحب سے نہ کوئی ڈانٹ نصیب ہوئی، نہ انہیں معافی مانگتے دیکھ کر شرمندگی کا بوجھ اٹھانا پڑا۔ مگر جنہیں چودھری صاحب کی ڈانٹ ڈپٹ نصیب ہوئی تھی، سب چودھری صاحب کو دعائیں دیتے تھے۔ آج بھی دیتے ہوں گے۔ کیونکہ یہ سب کو معلوم ہو چکا تھا کہ چودھری صاحب کا اس سختی (جو نہایت واجبی سی ہوتی) کے درپردہ دارالحمد کے لڑکوں کی فلاح و بہبود کا جذبہ کارفرما تھا۔
پھر ایک دن چودھری صاحب دارالحمد کے رہائشی طلبہ کو اداس چھوڑ کر اس جہان سے رخصت ہوگئے۔ میرا باقاعدہ داخلہ اس سانحہ کے آگے پیچھے ہی ہوا۔ اور یوں دارالحمد کو دو حادثے اوپر تلے پیش آئے۔ دوسرا حادثہ یوں کہ مجھے اپنے داخلے کے لیے کسی انٹرویو میں بیٹھنا نہیں پڑا۔ بس یونہی ایک دن داخلہ ہوگیا۔
ڈاکٹر عطا الرحمن معاذ صاحب ان دنوں دارالحمد میں رہائش رکھتے تھے۔ ڈاکٹر بن چکے تھے اور اب بیرونِ ملک جانے کے لیے کسی امتحان کی تیاری کیا کرتے اور ساتھ آپ کو نائب سپرانٹنڈنٹ کی ذمہ داری بھی سپرد کر دی گئی تھی۔ چودھری صاحب کی وفات اور نئے سپرانٹنڈنٹ کی تقرری کے درمیانی عرصہ میں آپ قائمقام سپرانٹنڈنٹ رہے۔ ڈاکٹر صاحب بھی بہت شفیق اور محبت کرنے والے تھے۔ کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر صاحب بیرونِ پاکستان چلے گئے اور اب بھی بیرونِ پاکستان ہی مقیم ہیں۔
یہ ساری تمہید اس لیے ضروری تھی کہ اس ماحول کا اندازہ ہو سکے جس میں محترم نور الہٰی صاحب کو ہاسٹل کی ذمہ داری سپرد ہوئی۔
ایک روز معلوم ہوا کہ نئے سپرانٹنڈنٹ کی تقرری ہو گئی ہے۔ آج رات عشا کے بعد تشریف لائیں گے اور سب لڑکوں سے ملیں گے۔ ہم سب عشا کے بعد اسی کمرے میں بیٹھے رہے جو مسجد کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ یہ ملک صاحب مرحوم سے ہماری پہلے ملاقات تھی۔
اُس وقت ہاسٹل کے رہائشی تمام لڑکے چودھری صاحب کے زمانے میں ہاسٹل آئے۔ انہیں اپنے مرحوم سپرانٹنڈنٹ کی جگہ کسی اور کو دیکھنے کی عادت نہیں تھی۔ انہوں نے اس کرسی پر آنے والے نئے شخص کو فوری قبول نہ کیا۔ کچھ کھچاوٹ سی تھی۔ ایسے میں ملک صاحب مرحوم نے ماحول کو ہلکا کرنے کے لیے کچھ مزاحیہ رنگ میں بات چیت کرنا چاہی، اورجیسا ردِ عمل نوجوانوں کا ایسی صورتحال میں ہوتا ہے، بالکل ویسے ہی ردِ عمل کا سامنا کرناپڑا۔
ملک صاحب مرحوم کو اپنی جگہ بنانے کے لیے ویسی ہی کوشش کرنا پڑی، جیسی کسی سوتیلے باپ کو اپنی بیوی کی اولاد کے دل میں جگہ بنانے کے لیے کرنا پڑتی ہے۔ یہاں ظاہر ہے اچھے سوتیلے باپ مراد ہیں۔ اور چودھری صاحب بہت ہی اچھے آدمی تھے۔ انہوں نے تھوڑے وقت میں لڑکوں کے دلوں میں جگہ بنا لی۔
مشکل صرف اسی قدر نہ تھی کہ کوئی اور چودھری صاحب مرحوم کی جگہ لے رہا تھا۔ دارالحمد کے رہائشی ہم سب نوجوانوں نے چودھری صاحب کی پیرانہ سالی کا زمانہ پایا تھا۔ اگرچہ ان کی لاٹھی ٹیکنے کی آواز سے ہم سب کمروں میں دبک جایا کرتے، مگر یہ صرف ان کی محبت اور عقیدت کی وجہ سے تھا۔ ورنہ نوجوان لڑکے جوگھروں سے دور تعلیم تو حاصل کرہی رہے تھے، مگر لاہور کی زندہ دلی سے بھی خوب لطف اندوز ہورہے تھے۔ وہ ہاسٹل سے وابستہ آزادی کے تصور پر بھی آنچ نہ آنے دیتے تھے۔
ایسے میں ملک صاحب مرحوم اس قوم کی اصلاح کے لیے آگئے۔ سو یہ دوسرا بڑا چیلنج تھا جس کا ملک صاحب کو سامنا کرنا پڑا۔ مگر آگے چلنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ دارالحمد کا ماحول بہت نیک اور پاک تھا۔ نمازیں پنج وقتہ باجماعت ہوتیں۔ اکثر نوجوان ان کا التزام بھی کرتے۔ بھائی چارے کی فضا قابلِ تحسین تھی اور آج بھی یاد آتی ہے۔ چونکہ اکثر نوجوان تعلیم حاصل کررہے تھے، لہذا ماحول علمی بھی تھا۔ کوئی بھی کسی اخلاقی برائی میں مبتلا نہیں تھا۔ لیکن یہ جو تذکرے ہیں، یہ اس عمر کی شرارتوں کے تذکرے ہیں۔ جو دارالحمد کے ماحول کا بہت خوبصورت حصہ تھیں۔ ملک صاحب مرحوم معصوم شرارتوں کے خلاف تو نہ تھے، تاہم ان تمام راہوں کو مسدود کرنا چاہتے تھے جن پر بعض اوقات بے مہار آزادی اور معصوم شرارتیں لے جا سکتی ہیں۔ مگر لڑکے ظاہر ہے اسے بے جا پابندی کے طور پر دیکھتے تھے۔ وقت کے ساتھ سبھی کو یہ یقین ہو گیا کہ ملک صاحب بھی ہماری بہبود ہی کے خواہاں تھے۔ اس بات کا ثبوت ملک صاحب کے بعض معصومانہ اقدامات سے ہوا۔
ایک نوجوان جو ہاسٹل کا رہائشی نہ تھا کچھ ٹافیاں، بسکٹ وغیرہ ایک خوانچہ پر رکھ کر لے آتا اور لڑکے اس سے یہ سادہ سا سامان خرید لیا کرتے۔ یہ صاحب دونوں ٹانگوں سے معذور تھے اور ویل چئیر کا استعمال کرتے۔ گود میں خوانچہ رکھا ہوتا۔ سامان تو خیر کم ہی بکتا دیکھا۔ جو بکتا وہ بھی تالیفِ قلب کے تحت خریدا جاتا۔ مگر کاروبار سے بے نیاز یہ صاحب کبھی ایک کمرے میں گپ شپ لگانے جا نکلتے۔ کبھی دوسرے میں۔ ایسے میں رات پڑ جاتی اور کبھی کبھار مسجد میں سوئے ہوئے پائے جاتے۔
ملک صاحب مرحوم کی بندہ پروری دیکھیے کہ ملک صاحب نے ان صاحب کو، جو دونوں ٹانگوں سے معذور تھے اور ویل چئیر کے بغیر ایک قدم نہیں اٹھا سکتے تھے، چوکیدار کے طور پر ہاسٹل میں رکھ لیا۔ اس نئے چوکیدار سے تو لڑکوں کو پرانی محبت تھی، مگر سب میں کئی دن یہ مذاق ہوتا رہا کہ چوکیدار کی تو بنیادی تعریف میں گویا یہ بات شامل ہے کہ چل پھر اور دوڑ بھاگ سکتا ہو۔ ملک صاحب کو یہ کیا سوجھی؟
مگر آج سوچتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک صاحب درد مند دل رکھتے تھے۔ ہاسٹل کا پھاٹک نما بڑا سا گیٹ کئی سال سے چو پٹ کھلا چلا آیا تھا۔ اور کبھی کوئی ناخوش گوار واقعہ بھی پیش نہیں آیا تھا۔ ملک صاحب لڑکوں کی رات کو آزادانہ آمد و رفت کی روک تھام چاہتے تھے۔ وہ سب طلبہ کی حفاظت کے ذمہ دار تھے۔ اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے انہیں گیٹ کو رات دس بجے بند کرنے والا اور صبح فجر کے بعد کھول دینے والاملازم درکار تھا۔ اور یہ کام بغیر ٹانگوں کے بھی ممکن تھا۔ سو ملک صاحب مرحوم نے لڑکوں اور ان صاحب دونوں کی فلاح کے پیش نظر یہ اقدام کیا۔ اور جب غالب کی رکی ہوئی طبع کی طرح لڑکوں نے رواں رہنے کی نئی راہیں ایجاد کرنا چاہیں، تو ان سب ’’ملزمان‘‘ کے نام درج کرنے کے لیے بھی بس آنکھیں اور ہاتھ درکار تھے۔ سو یہ معلومات بھی ملک صاحب کو بہم پہنچ جاتیں۔ اور ملک صاحب ضابطے کی کارروائی کر لیا کرتے۔
گیٹ کے مقررہ اوقات کے دوران بند رہنے کے نئے ضابطے کو کئی مراحل سے گزرنا پڑا۔ روزانہ لڑکے ملک صاحب کی جان کھانے جا نکلتے کہ اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا اور اگر ویسا ہوگیا تو پھرکیا ہوگا۔ ان فرضی اندیشوں میں گھِرے بے چارے ملک صاحب اس ضابطے کی شقیں اورذیلی شقیں بنانے میں مشغول رہنے لگے۔ اس دستاویز میں ایک استثنائی صورت یہ نکالنا پڑی کہ ہنگامی صورتحال میں گیٹ کھولا جاسکے گا۔
اب دارالحمد کے وہ رہائشی جو ازل سے رات گئے مزنگ چونگی کے پراٹھے کھانے کے عادی ہو چکے تھے، اس عادت کی تسکین کے لیے اس استثنائی شق کو بروئے کار لانے لگے۔ بات یوں تھی کہ ہاسٹل میں بعض طلبہ تو رات دیر تک پڑھتے۔ یا جب اپنے کالج؍یونیورسٹی کی لائبریری سے رات گئے واپس آتے جب میس بند ہوچکا ہوتا۔ کچھ میری طرح یونہی جاگ جاگ کر بھوک کا شکار ہو جایا کرتے۔ ایسے میں بھوک کو ایک ہنگامی صورتحال کا درجہ دلوایا گیا، مگر اس پابندی کے ساتھ کہ دو لڑکے جائیں اور سب کے لیے اس شبینہ طعام کا بندوبست کر کے لے آئیں۔
اس کے بعد جوں ہی رات گئے کوئی موٹر سائیکل سٹارٹ ہونے کی آواز آتی، تو کمروں کی کھڑکیوں کے پٹ کھلنے لگتے اور سب ان دو مہربانوں کو اپنی اپنی فرمائش نوٹ کروانے لگتے۔ پھر یہ دو مہربان جاتے، خود مزنگ چونگی پر بیٹھ کر تازہ بتازہ پراٹھے کھاتے اور دوسرے ضرورت مندوں کے لیے تھیلیوں میں لپیٹ کر لے آتے۔
غرض ملک صاحب نے پابندیاں لگائیں، مگر اس بات کا خیال کیا کہ کہیں یہ پابندیاں طلبہ کسی غلط راستے پر چلنے پر مجبور نہ کردیں۔ یوں استثنائی صورتیں پیدا کردیتے رہے، یہ جانتے ہوئے بھی بعض اوقات طلبہ محض معصوم شرارت میں ان کے ضابطوں پر نظر ثانی کروارہے ہیں۔
اسی طرح ایک دوست بھی جو ربوہ کے رہنے والے تھے مگر لاہور آگئے ہوئے تھے ملک صاحب کی شفقت کا مورد بنے۔ وہ گویا بجلی کا کام جانتے تھے۔ ہاسٹل کا کام کرنے دو تین مرتبہ آئے اور پھر دارالحمد کےزندہ دل ماحول کو دل دے بیٹھے۔ اکثر آنکلتے اور کبھی یہاں کبھی وہاں مجلس کو گرمایا کرتے۔ طلبہ کو کچھ دیر تفریح چاہیے ہوتی، سو اُن کے ساتھ مجلس لگا لیتے۔ دوبارہ پڑھائی میں لگ جانے کا وقت ہوتا تو اتنی دیر میں کوئی نہ کوئی کمرہ پڑھائی میں وقفہ کرنے کو تیار ہوتا۔ یوں لامتناہی مجالس ان دوست کو میسر آجایا کرتیں۔ کام میں باقاعدگی کبھی بھی نہ تھی۔ پیسے ختم ہوتے تو دو ایک کام پکڑ لیتے اور پھر جب تک وہ پیسے جیب میں رہتے، ان کا دل بے تاب رہتا اور اپنی مجالس کو قائم (اور گرم) رکھنے کی خاطر کھلے دل سے کھانے پینے کی چیزیں لے آیا کرتے۔ جب پیسے ختم ہوجاتے تو دوبارہ کام پر جانکلتے۔ اب جو دارالحمد میں آنا جانا ہوا تو کام میں مزید بے قاعدگی آگئی۔
ملک صاحب مرحوم نے ان کے لیے اور دارالحمد کے طلبہ کے لیے بھی یہ صورت نکالی کہ انہیں علامہ اقبال ٹاؤن کے نزدیک ترین بلاک کی مسجد میں خادم مسجد رکھ لیا۔ ہاسٹل میں بجلی سے متعلق تمام کام بھی ان کے سپرد کر دیے۔ یوں دارالحمد میں رہنا، جو ان صاحب کا مشغلہ تھا، ان کے پیشے میں تبدیل ہوگیا۔ اور پھر ہاسٹل میں مرمت کے کام بھلا ختم ہی کہاں ہوتے تھے۔
سو یہ صاحب مصروف بھی ہوگئے، روزگار کی صورت بھی بن گئی اور یہ مجالس جو ملک صاحب مرحوم کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں، ان کا بھی کسی حد تک سدِ باب ہوا۔ اور ایک آنکھ اس لیے نہ بھاتی تھیں کہ ملک صاحب کو طلبہ کے وقت کی قدر تھی۔ اور چاہتے تھے کہ طلبہ بھی اس کی قدر کریں۔
ایک اَور بات کا ذکر بھی ضروری ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت سینکڑوں افرادِ جماعت ہوں گے جنہیں مختلف اوقات میں دارالحمد میں مقیم ہوکر تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ اور یقیناً سب چاچے بولے سے نہ صرف واقف ہوں گے، بلکہ بہت محبت سے اسے یاد بھی کرتے ہوں گے۔
چاچا بولا، کہ امداد حسین اس کا اصل نام تھا، ہاسٹل کا خانساماں تھا۔ مدتوں سے ہاسٹل میں یہی ذمہ داری ادا کرنے پر فائز تھا۔ چاچا بولا اس قبیل سے تھا جو قلیل تنخواہ سے بے نیازرہتے ہوئے کثیر العیال ہوتے ہیں۔ ہاسٹل کی عمارت سے باہر مگر چاردیواری کے اندر ہی اس کا مختصر سا کوارٹر تھا جہاں وہ اپنے سب بچوں کے ساتھ رہائش رکھتا تھا۔
جس قدر اس کی تنخواہ تھی، اس میں اتنے بچوں کی کفالت مشکل سے بھی ذرا آگے کی بات تھی۔ مگر وہ قریب 25 سال سے دارالحمد کا خانساماں تھا۔ وہ جب آیا تو احمدی نہیں تھا، اور جتنا عرصہ رہا، احمدی نہیں ہوا۔ اور غیر احمدی ہی گیا۔ مگر خلفائے احمدیت کی بہت عزت اور تکریم کرتا۔ جن زمانوں میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحب (رحمہ اللہ) احمدیہ سٹوڈنٹس ایسو سی ایشن کے صدر تھے اور دارالحمد تشریف لے جایا کرتے تھے، ان زمانوں کو چاچا بولا بہت محبت سے یاد کرتا اور ہاسٹل کے کامن روم میں ٹی وی پر حضوررحمہ اللہ کو دیکھ کر آب دیدہ ہو جایا کرتا۔
یہ مختصر سا تعارف اس لیے ضروری تھا کہ دارالحمد کی فضا کا یہ پہلو بھی سامنے رہے کہ نہ احمدی طلبہ کو چاچے بولے کے غیراحمدی ہونے پر اعتراض تھا، نہ اسے ایک خالصتاً احمدی ادارے میں کام کرنے میں کبھی کوئی دقت پیش آئی۔ وہ چاہتا تو کسی ساتھ کی کوٹھی ہی میں ملازم ہوجاتا اور بہتر تنخواہ پا لیتا۔ مگر اسے جماعت احمدیہ سے محبت تھی۔ یہ دارالحمد کی مذہبی رواداری کی فضا کا احوال تھا۔
چاچے کی تنخواہ اگرچہ قلیل تھی، مگر ہاسٹل کا کثیر المقدار راشن اسی کے ہاتھ میں ہوتا۔ چاچے بولے نے ہاسٹل کا اپنا گھر ہی سمجھا، اور ہاسٹل کی انتظامیہ نے چاچے کو گھر کا فرد۔ ملک صاحب مرحوم راشن پانی کے حسابات کے نگران اعلیٰ تھے۔ مگر یہ انتظام بحسن و خوبی چلتا رہا اور چاچے کےکنبے اور ملک صاحب کے ضمیر دونوں کو چین کی نیند نصیب ہوتی رہی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ملک صاحب نے جماعتی اموال پر کبھی آنچ نہ آنے دی۔ اور غریب پروری کی صورت بھی نکالی رکھی۔ یہ ان کی ذاتی نیکی تھی۔ فجزاھم اللہ احسن الجزا۔
یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ملک صاحب مرحوم کل وقتی سپرانٹنڈنٹ نہیں تھے۔ وہ اگرچہ ملازمت سے ریٹائر ہو چکے تھے مگر علامہ اقبال ٹاؤن آصف بلاک کی بہت سی جماعتی ذمہ داریاں ان کے سپرد تھیں۔ وہ دن بھر دیگر جماعتی ذمہ داریاں سر انجام دیتے اور پھر شام کو ہاسٹل تشریف لاتے۔ سادہ آدمی تھے۔ سائیکل پر ہاسٹل آتے اور پھر رات کو یا تو سپرانٹنڈنٹ کے لیے مختص کمرے میں قیام کرلیتے، یا واپس گھرتشریف لے جاتے۔ صاف ستھرے اور وضع دار آدمی تھے۔ لڑکوں کے مذاق اور شرارتوں پر ہنس بھی دیتے۔ اپنے زمانے کے واقعات بھی سناتے۔ مگر جہاں کوئی شرارت دوسرے طلبہ کے لیے زحمت کا سامان یا بے قاعدگی میں ڈھلتی نظر آتی، توفوراً ٹوک دیا کرتے۔ کم کم ہی سہی، مگر ملک صاحب کو سخت جلال میں دیکھنا بھی یاد ہے۔ اور وہ نظارہ یاد آتا ہے تو دکھ ہوتا ہے کہ ملک صاحب کو کس کوفت اور تکلیف میں سے گزرنا پڑا ہوگا۔
یہ ذمہ داری آسان ذمہ داری نہ تھی۔ ایک گھرانے میں ایک لڑکا بھی شرارتی نکل آئے تو والدین کا ناک میں دم کردیتا ہے۔ ملک صاحب کو تو ایسے پچاس ساٹھ لڑکوں کی نگرانی سپرد ہو گئی تھی۔ اندازہ کر لیں کہ ان پر کیا بیت جاتی ہوگی۔ مگر یہ سب لڑکے بھلے گھروں سے تھے۔ خود بھی بھلے مانس تھے۔ ملک صاحب ہلکی پھلکی شرارت کی گنجائش دیتے رہتے۔ لڑکے بھی ہلکے پھلکے مذاق سے اچھی گزراوقات کی صورت نکال لیتے اور اپنی تعلیم مکمل کر کے دنیا میں نئی منزلوں کی تلاش میں نکل جایا کرتے۔ ملک صاحب محبت اور دعاؤں سے رخصت کرتے۔
والدین نے جماعت پر اعتماد کر کے اپنے بچوں کو لاہور پڑھنے بھیجا، کہ رہائش کے لیے بہترین ماحول میسر آجائے۔ اور جماعت نے اس بات کی ہمیشہ لاج رکھی۔ ہزاروں طلبہ نے حصولِ علم کی راہوں پر چلتے ہوئے دارالحمد میں قیام کیا۔ ملک نورالٰہی صاحب سینکڑوں طلبہ کے امین رہے اور ان کی تربیت اور فلاح اور بہبود کے لیے بہت قربانی سے اپنی ذمہ داری کو سرانجام دیتے رہے۔اللہ تعالیٰ بہت جزائے خیر سے نوازے۔
میں دو سال کے عرصے میں اپنا کورس مکمل کرچکا تھا۔ مقالہ جمع کروانا باقی تھا۔ مجھے رہائش کی ضرورت تھی۔ مگردارالحمد میں میرے قیام کی معینہ اور باضابطہ مدت پوری ہوچکی تھی۔ ملک صاحب مرحوم نے میرے قیام کو جاری رہنے دیا۔ یاددہانی کرواتے رہتے مگر مہربان دل کے مالک بھی تو تھے۔ جس طرح خوانچہ فروش اور الیکٹریشن کے مسجد میں پڑ رہنے سے صرفِ نظر کرلیا۔ اور پھر کوئی جائز صورت نکال لی۔ اسی طرح لاہور شہر میں مجھ جیسےکو بھی بے آسرا اور بے در نہیں ہونے دیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں بہت جزا دے۔
مجھے ملک صاحب سے اپنی الوداعی ملاقات یاد ہے۔ ہاسٹل کے مٹھی بھر فرشتہ سیرت طلبہ کے سوا کوئی نہ تھا جو کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی رنگ میں کسی ہلکی پھلکی شرارت میں ملوث نہ پایا گیا ہو۔ میں بھی اکثریتی قبیلے سے تھا۔ ملک صاحب کی معصوم سی ناراضگی بھی چند بار مول لینا پڑی۔ مگر اس الوداعی ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو ملک صاحب نے بہت عزت سے بٹھایا۔ حال احوال پوچھا۔ آئندہ کے ارادے دریافت کیے۔ نصائح فرمائیں۔ اور بہت محبت سے رخصت کیا۔ کہیں گزشتہ دو سال میں مجھے سے سرزدہونے والی کوتاہیوں کا ذکر نہ کیا۔ اللہ ان سے بھی مغفرت کا سلوک فرمائے۔
ملک صاحب نے سپرانٹنڈنٹ کی ذمہ داری سنبھالی تو ہاسٹل کا انتظام اور انصرام نظارت تعلیم کے سپرد ہورہا تھا۔ ناظر صاحب تعلیم حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (ایدہ اللہ تعالیٰ) متعدد مرتبہ خود بھی ہاسٹل تشریف لائے۔ دارالحمد میں اصلاحِ معاشرہ کا کام جاری ہوا اور پایہ تکمیل کو بھی پہنچا۔
اب تو کوئی مجھ جیسا دارالحمد کی محبت اور اپنی نوجوانی کے کھوئے دنوں کی تلاش میں وہاں جانکلے تو یہ دونوں جواز اندر داخل ہونے کو ناکافی ہیں۔ اب وہاں قوانین اور ضابطے پوری طرح سے رائج ہیں۔ اللہ اس ادارے کو سلامت رکھے کہ ہماری جوانی اور حصول تعلیم کے ایام اس عمارت کی راہداریوں اور کمروں اور صحن میں امانتاً دفن ہیں۔
ملک صاحب مرحوم قریب سو سال کی عمر پاکر اس جہان سے گئے ہیں۔ اور بہت کامیاب زندگی گزار کر۔ جب تک صحت اور عمر نے اجازت دی، ہر لمحہ خدمتِ دین کے لیے وقف رکھا۔ بیس سال سے زائد عرصہ تو آصف بلاک جماعت کے صدر رہے۔ اور ساتھ دارالحمد کے سپرانٹنڈنٹ بھی رہے۔ تو ہم جو ان کی زیرنگرانی تعلیم حاصل کرتے رہے، ان کے جدا ہونے پر غمزدہ ضرورہیں، مگر ان کے مرہونِ احسان ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی کامیاب زندگی پر خوش بھی ہیں۔
یہ ساری سطور جو آپ نے یہاں تک پڑھ لی ہیں، یہ ایک خوشگوار یاد ہیں ملک نور الٰہی مرحوم کی۔ اور اس زمانے کی جب جماعتی عمارت دارالحمد کا پھاٹک دن اور رات کو چوپٹ کھلا بھی رہتا، تو اندر احمدی نوجوان کوئی خطرہ محسوس نہ کرتے۔ اس قدر محفوظ کہ پھاٹک کے ساتھ ساتھ گرمیوں میں اپنے کمروں کے دروازے بھی کھلے چھوڑ کر سو جایا کرتے۔
خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کو نیک اور پاک خدمت گزار عطا فرماتا چلا جائے اور پاکستان میں وہ دن جلد لوٹ آئیں جہاں احمدی بے خطر ہو کر زندگی گزار سکیں۔