اچھی دوستی
حکایتِ مسیح الزماں
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دوستیاں ہمیشہ ایسی ہونی چاہئیں جو بربادی کا موجب نہ ہوں، حضرت مصلح موعودؓ نے ایک واقعہ بیان فرمایا کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے (یہ پرانی حکایت ہے) کہ ایک شخص کا ریچھ سے دوستانہ تھا۔ اس نے اسے پالا تھا یا کسی مصیبت کے وقت اس پر احسان کیا تھا۔ اس وجہ سے وہ اس کے پاس بیٹھا کرتا تھا۔ یہ گویا ایک حکایت ہے جو حقیقت بیان کرنے کی غرض سے بنائی گئی ہے۔ اگرچہ ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ آدمی ریچھ وغیرہ جانوروں کو پال کر اپنے ساتھ ہلا لیتا ہے۔ مگر جب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کوئی حکایت روایت کرتا ہوں تو اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ یہ حقیقت بیان کرنے کی غرض سے ایک قصہ ہے۔ (یعنی ایک نصیحت کرنے کی غرض سے ایک قصہ ہے۔) یہ مَیں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ تا دشمن یہ اعتراض نہ کرے کہ یہ ایسے بیوقوف لوگ ہیں کہ سمجھتے ہیں کہ ریچھ انسانوں کے پاس آ کر بیٹھتے ہیں۔ یہ پرانی حکایتیں سبق حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں اور ان سے مراد ایسے خصائل رکھنے والے انسان ہوتے ہیں۔ (یعنی بعض لوگ ایسے خصائل رکھتے ہیں کہ وہ وہی حرکتیں کر رہے ہوتے ہیں۔) مثلاً پرانی حکایتوں میں بادشاہ کے دربار کو شیر کا دربار اور اس کے امراء و وزراء کو دوسرے جانوروں کی صورت میں پیش کیا جاتا تھا اور اس طرح وہ بادشاہ بھی جس کے متعلق بات ہوتی نہایت مزے لے کر پڑھتا۔ خیر، تو ریچھ اس آدمی کا دوست تھا اور اس کے پاس آتا تھا۔ ایک دن اس کی والدہ بیمار پڑی تھی اور وہ پاس بیٹھا پنکھا ہلا رہا تھا اور مکھیاں اڑا رہا تھا۔ اتفاقاً اسے کسی ضرورت کے لئے باہر جانا پڑا اور اس نے ریچھ کو اشارہ کیا کہ تم ذرا مکھیاں اڑاؤ۔ مَیں باہر ہو آؤں۔ ریچھ نے اخلاص سے یہ کام شروع تو کر دیا مگر انسان اور حیوان کے ہاتھ میں فرق ہوتا ہے اور حیوان ایسی آسانی سے ہاتھ نہیں ہلا سکتا جتنی آسانی سے انسان ہلا سکتا ہے۔ وہ مکھی اڑائے لیکن وہ پھر آ بیٹھے۔ پھر اڑائے پھر آ بیٹھے۔ اس نے خیال کیا کہ مکھی کا بار بار بیٹھنا میرے دوست کی ماں کی طبیعت پر بہت گراں گزرتا ہو گا۔ چنانچہ اس کا علاج کرنے کے لئے اس نے ایک بڑا سا پتھر اٹھایا اور اسے دے مارا تا کہ مکھی مر جائے۔ مکھی تو مر گئی مگر ساتھ ہی اس کی ماں بھی کُچلی گئی۔ یہ ایک مثال ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض نادان کسی سے دوستی کرتے ہیں مگر دوستی کرنے کا ڈھنگ نہیں جانتے۔ وہ بعض دفعہ خیر خواہی کرتے ہیں مگر ہوتی دراصل تباہی ہے۔ اگر اپنے دوست کے سچے خیر خواہ ہوتے تو بے ایمانی کی طرف نہ لے جاتے بلکہ اگر اسے اس طرف مائل بھی دیکھتے تو اسے روکتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوستی کا نقشہ کیا خوب کھینچا ہے۔ فرمایا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہؓ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ کیا بات ہے؟ کیا ہم ظالم کی مدد بھی کیا کریں۔ آپؐ نے فرمایا: جب تُو ظالم کا ہاتھ ظلم سے روکے تو تُو اس کی مدد کرتا ہے۔‘‘
(خطبات محمود جلد 13 صفحہ 204-205 بحوالہ خطبہ جمعہ 29؍ جنوری 2016ء)