دادی جان کا آنگن

حضرت کرشن علیہ السلام

دادی جان حسب معمول اپنے کمرے میں اخبار کے مطالعہ میں مصروف تھیں ۔احمد جو ابھی گراؤنڈ سے واپس آیا تھا بیٹ رکھتے ہی دادی جان کے کمرے کی جانب بھاگا۔اس کے ساتھ اس کا دوست بھی تھا ۔

احمد :السلام علیکم دادی جان۔ دیکھیں آج میں کسے اپنے ساتھ لایا ہوں ۔احمد نے کمرے میں داخل ہوتے ہی نعرہ لگایا ۔

کرشن : السلام علیکم دادی جان۔

دادی جان : وعلیکم السلام بچو ! ماشاء اللہ،آج تو کرشن بیٹا ہمارے گھر آیا ہے امی کیسی ہیں آپ کی؟دادی جان نے اخبار سے نظریں ہٹاتے ہوئے بچوں کی جانب دیکھ کر کہا ۔

کرشن : جی دادی جان وہ بھی خیریت سے ہیں آپ کو سلام بھجوایا ہے ۔دادی جان آپ گڑ یا آپی ،احمد اور محمود کو روز اچھی اچھی کہانیاں سناتی ہیں تو میرا بھی بہت دل کرتا ہے کہ آپ سے کہانی سنوں۔

دادی جان : چلیں ایسا ہے کہ آج میں آپ کو حضرت کرشن علیہ السلام کی ہی کہانی سناتی ہوں ۔

کرشن : ہیں میرے ہم نام کوئی نبی بھی تھے ؟

دادی جان : جی بالکل ہے ناں دلچسپ بات! کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ آپ کا نام ہندوؤں کے ایک نبی حضرت کرشنؑ کے نام پر ہی رکھا گیا ہے؟

اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں بھی بہت سے انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے جن میں سے ایک حضرت کرشنؑ تھے۔ آپؑ کا ذاتی نام کنہیا تھا۔ کرشن نام آپ علیہ السلام کونبوت کے بعد اللہ کی طرف سے عطا کیا گیاجس کے معنی ہیں :’’روشن کیا گیا‘‘۔لفظ کرشن کے لفظی معنی متوجہ کرنے والا،گرویدہ کرنے والااورموہ لینے والےکے ہیں۔یعنی جس میں بےحد کشش ہو۔

حضرت کرشنؑ ایک نہایت محتاط اندازے کے مطابق 3228 ق۔م میں متھرامیں پیداہوئے۔ یہ شہر دریائے جمنا کے کنارے دہلی سے 85میل کے فاصلہ پر آباد ہے۔ نہایت سرسبزعلاقہ ہے۔آپ اللہ کے پیارے اور برگزیدہ نبی تھے ۔

کرشن : اچھا تو وہ دیکھنے میں کیسے تھے ؟

دادی جان : آجکل نیلے بدن کے ساتھ ان کی تصاویر بنائی جاتی ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعودؑ اپنے ایک رؤیا کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ایک بار ہم نے کرشن جی کو دیکھا وہ کالے رنگ کے تھے پتلی ناک، کشادہ پیشانی والے ہیں۔ مزیدحضرت مسیح موعودؑ آپ علیہ السلام کی نبوت کے متعلق فرماتے ہیں کہ راجہ کرشن ایک کامل انسان تھے جس کی نظیر ہندوؤں کے کسی رِشی اور اوْتار میں نہیں پائی جاتی۔ وہ اپنے وقت کا اوْتار یعنی نبی تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر روح القدس اُترتا تھا۔ اور پھر حضرت مسیح موعودؑ بھی اس زمانے کے کرشن ہیں۔

کرشن : اس زمانے کے کرشن؟

دادی جان : حضرت مسیح موعودؑ نے آپ کی نبوت کی تصدیق کرتے ہوئے آپؑ کی خوبیاں اور کام بتائے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا ہے کہ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق آخری زمانے میں جس کرشن نے دوبارہ آنا ہے وہ میں ہوں ۔

احمد :حضرت کرشنؑ بھارت میں پیدا ہوئے تھے ناں؟

دادی جان :جی ۔ آپ متھرا میں والد واسو دیو اور والدہ دیوکی کے گھر پیدا ہوئے۔ واسو دیو اور دیوکی کی شادی ہوتے ہی دیوکی کے بھائی کنس کو کسی نجومی نے بتلا دیا تھا کہ دیوکی کا آٹھواں بیٹا اسےقتل کرے گا جس کی وجہ سے کنس نے اسی وقت اپنی بہن دیوکی اور بہنوئی واسو دیو کو قید کر لیا اور آپ دونوں کے تمام جوبیٹے پیدا ہوئے انہیں قتل کرتا رہا۔جب حضرت کرشنؑ کی ولادت ہوئی تو واسو دیو نے خفیہ طریق سے انہیں اپنے دوست نندا کے گھر پہنچا دیا جہاں نندا اور ان کی اہلیہ یشودہ نے آپؑ کی پرورش کی۔

احمد : یعنی جیسا حضرت موسیٰؑ کے ساتھ ہوا تھا؟

دادی جان: جی ہاں! لیکن حضرت موسیٰؑ تو اپنے دشمن کے گھر میں ہی پرورش پاتے رہے۔ اور حضرت کرشنؑ کو چھپایاگیا۔

کرشن: اور آپؑ کا بچپن کیسا تھا ؟

دادی جان:حضرت کرشنؑ بچپن میں بڑے خوبصورت، ہونہار، صحتمند اور ذہین وفطین تھے۔ اُن کی معصوم اداؤں سے سب لوگ محظوظ ہوتے تھے۔ ان کے بچپن کے کئی قصے ہندوستان میں مشہور و معروف ہیں۔ جب وہ خاصے بڑے ہوگئے توکنس کو علم ہوا کہ یہ لڑکا دراصل اس کا بھانجا ہے۔ پھر ایک میلہ میں کنس نے اُن کودھوکے سے قتل کرناچاہامگرکرشن زیادہ پھرتیلے تھے اُنہوں نے اپنے ماموں کوسب کے سامنے قتل کردیااورملک کواس ظالم سے نجات دی۔

اس کے بعد آپؑ علم کے حصول کے لیے کاشی گئے مگر اُن کو جلد واپس لَوٹنا پڑا کیونکہ کنس کے خسرنے متھرا پر بدلہ لینے کے لیے حملہ کردیا تھا۔ متھرا کادفاع کرنے کے بعد آپؑ ہجرت کرکے کاٹھیاواڑگجرات (موجودہ ریاست جوناگڑھ) میں چلے گئے اوروہاں اپنی ریاست میں امن وامان سے رہنے لگے۔ کوروؔ پانڈو کی جنگ ’’مہابھارت‘‘ میں آپؑ بذات خود تو اپنے بھانجوں، پانڈو، کی طرف تھے مگراپنی تمام فوج کوروؔکودےدی تھی۔

جنگ کے وقت جب آپؑ نے دیکھاکہ ارجن اپنے مدّمقابل اپنے ہی قریبی عزیزوں کوصف آرا دیکھ کردل چھوڑبیٹھا ہے اورلڑنا نہیں چاہتا تواُس وقت آپؑ نے جو تقریر فرمائی وہ گیتاؔ کہلاتی ہے۔ اسے ایک خطبۂ الہامیہ سمجھیے۔ یعنی مہا بھارت کے اندر ایک اورجنگ لڑی گئی جس کوباطنی جنگ کہہ سکتے ہیں۔ ارجن رتھ پرسوارتھااوررتھ بان حضرت کرشنؑ تھے۔ آپ نے اپنی تقریر سے اسے قائل کر لیا۔

آپ کی تعلیم خدائی تعلیم تھی۔ بہت افسوس کہ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا لوگوں نے آپ کی اصل تعلیمات کو چھوڑ کر آپ کی ذات میں شرک شروع کردیا یہاں تک کہ کئی قصے کہانیاں آپ سے منسوب کیےجاتے ہیں ۔

احمد: یہ وہی کرشن گوپال ہیں جن کے یوٹیوب پر اکثر کارٹون آتے ہیں؟

دادی جان: جی لوگوں نے عجیب و غریب کہانیاں ان کی طرف منسوب کردی ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں کہ جہاں تک حضرت کرشنؑ کے جسمانی خدوخال کا تعلق ہے وہ کچھ انوکھے سے نظر آتے ہیں۔ہندو فنکاروں نے ان کی جو تصویر بنائی ہےاس میں ان کے دو کی بجائےچار ہاتھ ہیں۔اسی طرح ان کے پر بھی دکھائے گئے ہیں۔اکثر تصاویر میں انہیں بانسری بجاتے دکھایا گیا ہے۔نیز خوش رنگ کپڑوں میں ملبوس کچھ خوب صورت عورتیں ان کے ارد گرد بیٹھی دکھائی گئی ہیں جو ’’گوپیاں‘‘ کہلاتی ہیں۔گوپی ایک اصطلاح ہے جو گائیں پالنے والی عورت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔اسے چرواہن بھی کہتے ہیں۔یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیےکہ خود کرشنؑ کا لقب بھی ’’گوپال‘‘تھا جس کا مطلب ہے’’گائیں پالنے والا‘‘۔ جیسے اسرائیلی انبیاء کے لیے بائبل میں اصطلاح یعنی ’’بنی اسرائیل کی بھیڑوں کے چرواہا‘‘ ہے۔ اسی طرح چونکہ ہندوستان میں بھیڑوں کی بجائے گائے عام ہے اس لیےعوام الناس کو گائے سے تشبیہ دی گئی ہے اور کرشنؑ کو گائیوں کا رکھوالا کہا گیا ہے۔ اسی طرح ان کے حواریوں کو گوپیاں کہا جا سکتا ہے۔ یہ مرد اور عورت دونوں ہو سکتے ہیں۔

پھر ایک واقعہ آپ علیہ السلام کے متعلق یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آپ بانسری بجایا کرتے تھے۔ اس لیے آپؑ کا ایک نام ’’مرلی دھر‘‘ بھی ہے۔

یہاں’’بانسری‘‘واضح طور پر الہام کی علامت ہے۔کیونکہ وہ دُھن جو بانسری سے نکلتی ہے دراصل بانسری کی اپنی دُھن نہیں بلکہ اسے بانسری میں پھونکا جاتا ہے۔بانسری سے خودبخود کو ئی دھن نہیں نکلتی۔پس بانسری خود حضرت کرشنؑ تھے جنہیں خدا کی بانسری کے طور پر دکھایا گیا ہے اور خدا نے جو سُر بھی اس میں پھونکا، انہوں نے بالکل اسی طرح اسے آگے دنیا کو پہنچایا۔اور یہی کام سب نبیوں کا ہے کہ خدا کی بات لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔

احمد: پھر چار ہاتھ اور پنکھ سے کیا مراد ہے؟

دادی جان : یہ ایک تمثیل تھے جسے ظاہرپر سمجھ لیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ والدین پر رحم کے پر جھکاؤ۔ یعنی رحم کا سلوک کرو۔ تو یہ ہے اصل مطلب۔ میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ انبیاؑکا کلام استعاروں میں ہوتا ہے۔ تو ان کو اسی رنگ میں سمجھنا چاہیے۔ان کی تصویر میں ان کے چار ہاتھوں اور پروں سے علامتی طور پر وہ غیر معمولی صلاحیتیں اور قویٰ مراد ہو سکتے ہیں جو خدا تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو ودیعت فرماتا ہے۔قرآن کریم بھی پیغمبرِ اسلام ؐکے تعلق میں پروں کا ذکر فرماتا ہے۔چنانچہ آپ ﷺ کو خدا کی طرف سے مومنوں پر رحمت کے پروں سے سایہ فگن ہونے کا ارشاد ہے۔

احمد: جزاکم اللہ مجھے سمجھ لگ گئی۔

دادی جان: ہاں بھئی کرشن میاں پھر کیسی لگی آپ کو آج کی کہانی ؟

کرشن : بہت اچھی میں تو ابھی تک حیران ہو ں کہ آج تک مجھے کسی نے بتایا ہی نہیں کہ میرا نام ایک نبی کے نام سے منسوب ہے ۔مجھے اس بات سے بہت خوشی محسوس ہورہی ہے ۔شکریہ دادی جان آپ نے اتنی اچھی کہانی ہمیں سنائی ۔اب میں گھر جا کر اپنے بھائی کو سناؤں گا ۔اللہ حافظ ۔

دادی جان :جی بیٹا اللہ حافظ اپنی امی اور ابو کو میرا سلام دیں ۔ احمد کرشن کو گھر کے دروازے تک چھوڑنے کے لیے باہر جاتا ہے۔

(بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 22؍اگست 2023ء)

(درثمین احمد، جرمنی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button