حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

ہمیں چاہئے کہ ہم ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہیں

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۶؍ مارچ ۲۰۰۹ء)

آج کل جبکہ دنیا کی بے حیائیاں عروج پر ہیں۔ نہ حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف توجہ ہے اور نہ ہی حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ ہے۔ فتنہ و فساد ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ مسلمان، مسلمان کی گردن خدا کے نام پر کاٹ رہاہے، مذہب کے نام پر کاٹ رہا ہے۔ ایک طرف سے یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ اسلام کے نام پر جو مملکت ہم نے حاصل کی ہے وہاں خداتعالیٰ کے دین کی حکومت قائم کی جائے گی اور دوسری طرف مذہب کے نام پر، اپنی ذاتی اغراض کی خاطر، کلمہ گوؤں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ اور آج دنیا میں پاکستان کا تصور ظلم و بربریت کے ایک خوفناک نمونہ کے طورپر ابھر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر بھی رحم کرے جس کی خاطر جماعت نے بہت قربانیاں دی ہوئی ہیں۔ اس بات کو ہر پاکستانی احمدی کو یاد رکھنا چاہئے۔ پس آج اگر اس ملک کو کوئی بچا سکتا ہے تو اس فسق و فجور اور فساد اور ظلم کے سمندر میں صرف ایک کشتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تیار کی ہے اور جس پر آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم سوار ہیں۔ پس ایک خاص کوشش کے ساتھ اپنے آپ کو بھی ہمیں اس کا اہل بنانے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اپنے ہم قوموں کے لئے خاص دعا کی ضرورت ہے کہ وہ عقل سے کام لیں اور اپنے نام نہاد راہنماؤں کے پیچھے چل کر اپنی زندگیوں اور ملک کی زندگیوں کو داؤ پر نہ لگائیں۔ بہرحال یہ دو بڑی اور اہم ذمہ داریاں ہیں جو ایک احمدی پر عائد ہوتی ہیں اور خاص طور پر پاکستانی احمدی پر کیونکہ وہاں کے حالات خراب ہیں۔ اور دنیا میں جہاں جہاں بھی حالات خراب ہیں، عموماً اب تو یہی نظر آتا ہے، احمدیوں کو خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ وہ احمدی جن کو اللہ تعالیٰ نے آسودہ حال بنایا ہوا ہے بعض اوقات اپنے احمدی ہونے کے مقصد کو بھول جاتے ہیں۔ دنیاوی کاموں میں ضرورت سے زیادہ پڑ جاتے ہیں۔ کئی شکایات آتی ہیں۔ جماعتی روایات اور اسلامی تعلیمات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ توحید کے قیام کے لئے جو سب سے اہم کام ہے اور جو انسان کا مقصد پیدائش ہے یعنی عبادت کرنا اور نمازوں کی حفاظت کرنا اس کی طرف پوری توجہ نہیں دی جاتی۔ پس بڑا خوف کا مقام ہے کہ ہمارے میں سے کسی ایک کی بھی کمزوری اسے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مصداق نہ بنا دے کہ لَیْسَ مِنْْ اَھْلِکَ (ھود: ۴۷) کہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے۔ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ (ھود: ۴۷)کہ یقیناً اس کے عمل غیرصالح ہیں۔ اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے، کبھی کسی بیعت میں شامل ہونے والے کا مقام خداتعالیٰ کی نظر میں ایسا ہو۔ اس بات سے، خوف سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جانے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس کی نظر میں صالح ہوں۔ ہم اپنے زعم میں اپنے آپ کو، اپنے خودساختہ نیکیوں کے معیار پر پرکھنے والے نہ ہوں۔ بلکہ وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں جو اس زمانہ کے امام نے اپنی جماعت سے توقع رکھتے ہوئے ہمیں بتائے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جب تک ہماری جماعت تقویٰ اختیار نہ کرے نجات نہیں پا سکتی‘‘۔ فرمایا کہ ’’خداتعالیٰ اپنی حفاظت میں نہ لے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۳۳۰۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء)

پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’خداتعالیٰ نے اگرچہ جماعت کو وعدہ دیا ہے کہ وہ اسے اس بلا‘‘ (یہ طاعون کا ذکر ہے) ’’سے محفوظ رکھے گا۔ مگر اس میں بھی شرط لگی ہوئی ہے کہ لَمْ یَلْبِسُوْا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ (الانعام: ۸۳) کہ جو لوگ اپنے ایمانوں کو ظلم سے نہ ملاویں گے وہ امن میں رہیں گے‘‘۔ اس زمانے میں بھی بہت سی بلائیں منہ پھاڑے کھڑی ہیں۔ قدم قدم پر کھڑی ہیں، ان سے بچنے کے لئے بھی یہی اصول ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایاہے۔

فرمایا ’’پھر دار کی نسبت وعدہ دیا تو اس میں بھی شرط رکھ دی کہ اِلَّاالَّذِیْنَ عَلَوْا مِنْ اِسْتِکَبَارٍ۔ اس میں عَلَوْا کے لفظ سے مراد یہ ہے کہ جس قسم کی اطاعت انکساری کے ساتھ چاہئے وہ بجا نہ لاوے۔ جب تک انسان حسن نیتی جس کو حقیقی سجدہ کہتے ہیں، بجا نہ لاو ے تب تک وہ دار میں نہیں ہے اور مومن ہونے کا دعویٰ بےفائدہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۴۵۳۔ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

پس فرمایا کہ حقیقی اطاعت اور انکساری جو ہے جب تک وہ نہیں بجا لاؤ گے، یہ سب دعوے جو ہیں غلط ہیں کہ ہم مومن ہیں، ہم نے بیعت کی ہے۔

پس یہ معیار ہیں جن کی ہم سے توقع رکھی جا رہی ہے۔ پس تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی کوشش اور اطاعت اور انکساری کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش ہے جو ایک احمدی کو کرنی چاہئے اور یہی چیز ہے جو ایک احمدی کی اُس راستہ کی طرف راہنمائی کرے گی جو ان منزلوں کی طرف لے جاتا ہے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نشاندہی فرمائی ہے۔

اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ ایک موت اختیار کرے۔ نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اللہ تعالیٰ کو سب شے پر مقدم رکھے۔ بہت سی ریاکاریوں اور بیہودہ باتوں سے انسان تباہ ہو جاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۴۵۸۔ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

جودکھاوے کی باتیں ہیں، فضول باتیں ہیں، بیہودہ باتیں ہیں، وہ انسان کو تباہ کر دیتی ہیں۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہیں اور پھر ہمارے سامنے جو جائزے آئیں، جو اپنی حالت نظر آئے اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ ہر ایک کا اپنا نفس اس کو اصلاح کی طرف مائل کرنے والا ہونا چاہئے۔ خود اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اصلاح کی کوشش تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب کسی قسم کی ضدنہ ہو۔ جب یہ احساس ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر میری زندگی کا ایک خاص مقصد ہے اور وہ اپنی زندگی کا پاک نمونہ دوسروں کے سامنے پیش کرنا اور خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس کے احکامات پر عمل کرناہے۔ اور یہی بات اپنے نفس کی اصلاح کے ساتھ دوسروں کو احمدیت اور حقیقی اسلام سے متعارف کروانے اور ان کی راہنمائی کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے اور بنتی ہے۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: مرد کی گھر کے سربراہ کی حیثیت سے بھی ذمہ داری ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button