سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

یہ کتاب دین اسلام اور نبوت محمدیہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اور قرآن شریف کی حقانیت کو تین سو مضبوط دلائل عقلی اور نقلی سے ثابت کرتی ہے اور عیسائی آریہ نیچریہ ہنود اوربرہمو سماج وغیرہ جمیع مذاہب مخالف اسلام کو از روئے تحقیق رد کرتی ہے۔ حضرت مصنف نے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا ہے کہ اگر کوئی مخالف یا مکذب اسلام تمام دلائل یا نصف یا خمس تک بھی ردّ کر دے تو مصنف صاحب اپنی جائیداد دس ہزار روپے کی اس کے نام منتقل کر دیں گے۔ چنانچہ یہ اشتہار براہین احمدیہ کے حصہ اول میں مندرج ہے

جناب نواب شاہجہان بیگم صاحبہ
کراؤن آف انڈیا رئیسہ بھوپال

حضرت اقدس علیہ السلام نے براہین احمدیہ میں مخیر اور عالی مراتب خریداروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’لہٰذا بذریعہ اس اعلان کے بخدمت ان عالی مراتب خریداروں کے کہ جن کے نام نامی حاشیہ میں بڑے فخر سے درج ہیں اور دیگر ذی ہمت امراء کے جو حمایت دین اسلام میں مصروف ہورہے ہیں عرض کی جاتی ہے کہ وہ ایسے کار ثواب میں کہ جس سے اعلائے کلمہ اسلام ہوتا ہے اور جس کا نفع صرف اپنے ہی نفس میں محدود نہیں بلکہ ہزارہا بندگان خدا کو ہمیشہ پہنچتا رہے گا۔ اعانت سے دریغ نہ فرماویں کہ بموجب فرمودہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سے کوئی اور بڑا عمل صالح نہیں کہ انسان اپنی طاقتوں کو ان کاموں میں خرچ کرے کہ جن سے عبادالٰہی کو سعادت اُخروی حاصل ہو۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلداول صفحہ۳)

اسی طرح اس نواب صاحبہ کے وعدہ کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں :’’اور علیٰ ہٰذا القیاس توجۂ خاص جناب نواب شاہجہان بیگم صاحبہ کرون آف انڈیا رئیس دلاور اعظم طبقہ اعلائے ستارۂ ہند ورئیسہ بھوپال دام اقبالہا کی بھی قابل بے انتہا شکر گزاری کے ہے کہ جنہوں نے عادات فاضلہ ہمدردی مخلوق اللہ کے تقاضا سے خریداری کتب کا وعدہ فرمایا اورمجھ کو بہت توقع ہے کہ حضرت مفتخر الیہا تائید اس کام بزرگ میں کہ جس میں صداقت اورشان وشوکت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہر ہوتی ہے اوردلائل حقیتِ اسلام کی مثل روزِ روشن کے جلوہ گر ہوتی ہیں اوربندگان ِ الٰہی کو غایت درجہ کا فائدہ پہنچتاہے کامل توجہ فرماویں گی۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلداول صفحہ ۶)

لیکن افسوس اس بدنصیب رئیسہ پراوراس کے نصیبے پر کہ وہ اپنا یہ وعدہ ایفا نہ کر سکی اور دوسری طرف ایک ایک دو دوروپے دینے والےمسکین اس لاکھوں کروڑوں کی جائیدادرکھنے والی سے کہیں آگے نکل گئے۔ان کا وعدہ ایفا نہ کرنا تو بہرحال اس لیے نہ تھا کہ دولت کی کمی تھی۔یہ ریاست اس وقت کے ہندوستان کی امیرترین ریاستوں میں سے ایک ریاست شمار ہوتی تھی۔ان کی دولتوں کاتو شمار ہی نہ تھا۔خود اس ریاست کے ’’مدارالمہام‘‘ جو اس رئیسہ کے شوہر بھی تھے۔وہ خود بیان کرتے ہیں کہ رئیسہ بے پناہ دولت کی مالک ہے۔لیکن معلوم ہوتاہے کہ نواب صاحب کے زیر اثر وہ بھی کچھ اعانت کی توفیق نہ پاسکیں اورنواب صدیق حسن ان کو بھی لے ڈوبے۔ ؂

ہم توڈوبے ہیں صنم تم کوبھی لے ڈوبیں گے

نواب شاہجہان بیگم صاحبہ ۳۰؍جولائی ۱۸۳۸ء کو بھوپال سے نوکوس دُورقلعہ اسلام نگر میں پیداہوئیں۔ان کے والد کانام نواب جہانگیر محمد خان تھا اور والدہ نواب سکندر بیگم تھیں جو بھوپال کی مسندنشین بیگموں میں سے پہلی بیگم تھیں۔شاہجہان بیگم نے چھوٹی عمر میں ہی قرآن کریم یادکرلیا۔عربی فارسی اور اردو زبان پر خاصا عبورتھا۔شعرگوئی سے بھی شغف تھا اورپہلے شیریں تخلص تھا بعد میں تاجور تخلص کیا۔ان کے کلام کو’’تاج الکلام‘‘ اور ’’دیوان شیریں‘‘کے نام سے جمع کیاگیاہے۔اس کے علاوہ ان کی تصنیفات میں سے:تاج الاقبال،خزینة اللغات،تہذیب النسواں اور تنظیمات شاہجہانیہ ہیں۔آپ گھر کی مسجد میں خودجماعت کراتی تھیں۔جمعہ بھی محل کی مسجد میں اداکرتی تھیں۔اٹھارہ برس کی عمر میں ان کی شادی بخشی باقی محمدخان سے ہوئی۔۳۹ برس کی عمر میں،شادی کے آٹھ نوسال بعد، بخشی باقی محمدخان کا انتقال ہوگیا۔بخشی باقی سے ایک لڑکی نواب سلطان جہاں بیگم پیداہوئیں۔جو ۱۹۰۱ء میں اپنی والدہ کےانتقال کے بعد مسندنشین ہوئیں۔۱۸۷۱ء میں نواب شاہجہان بیگم کی دوسری شادی کرنل طامسن پولیٹیکل ایجینٹ اورجنرل میڈ کے مشورہ سے لارڈ میوگورنر جنرل ہند سے اجازت کے بعد مولوی صدیق حسن خان قنوجی سے ہوئی۔نواب صدیق حسن سے شاہجہان بیگم کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔

نواب سکندربیگم کے بعد ۱۸۶۸ء میں نواب شاہجہان بیگم بھوپال کی حکمران خاتون بن گئی تھیں۔ان کی وفات کے بعد پہلے شوہر سے جو بیٹی تھی سلطان جہاں وہ حکمران ہوئیں یہ بھوپال کی چوتھی اورآخری خاتون حکمران تھی جو کہ اپنے واحدزندہ بچ جانے والے بیٹے نواب حمیداللہ خان کے حق میں ۱۹۲۶ء میں تخت وتاج سے دستبردار ہوگئی اور اس حکمران خاتون کا انتقال ۱۹۳۰ء میں ہوا۔

(نواب صدیق حسن خان اورنواب شاہجہان بیگم صاحبہ کا تعارف علاوہ دوسری کتب اورانٹرنیٹ کے ماہنامہ خالد میں شائع ہونے والے ایک تفصیلی مقالہ سے لیاگیا ہے۔یہ مقالہ [ماہنامہ ’’خالد‘‘]ہفت روزہ سیرروحانی، جولائی ۲۰۰۰ء صفحات ۸تا ۱۶،اگست ۲۰۰۰ء صفحات ۱۳ تا ۱۶،اورستمبر ۲۰۰۰ء صفحات ۱۵ تا ۲۱کے تین شماروں میں شائع ہواہے۔مقالہ نگار عاصم جمالی صاحب ہیں۔ان کانام محمدعبدالمالک ہے اورپیشہ کے اعتبار سے بینکنگ کے شعبہ سے وابستہ رہے۔نیشنل بینک کے مینیجر کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے اوراب اپنا کاروبار کرتے ہیں۔علمی وادبی محقق ہیں اورپاکستان وہندوستان کے وقیع مجلات میں ان کے مقالہ جات شائع ہوتے رہتے ہیں۔ حضرت اقدس علیہ السلام کے تین سوتیرہ صحابہؓ کے سوانح پر مشتمل کتاب’’۳۱۳ اصحاب صدق وصفا‘‘ کے نام سے جو شائع ہوئی ہے اس میں بھی انہوں نے خوب محنت اورتحقیق سے مواد تلاش کیا تھا۔

سہولت اورایک تاریخی ریکارڈ کے طورپر ماہنامہ خالد کے ان حوالوں کے متعلق ایک وضاحت بھی ضروری ہے کہ ماہنامہ خالد اورتشحیذ الاذہان کے پبلشرمکرم ومحترم مبارک احمدخالدصاحب کی وفات کے باعث فروری سے اگست ۲۰۰۰ء تک قانونی رکاوٹوں کے پیش نظر پبلشر کی نئی منظوری نہ ہوسکنے کی بنا پر رسالہ خالداورتشحیذ شائع نہیں ہوسکے تھے۔البتہ مئی سے اگست تک ان رسالوں کی کمی اس طرح پوری کی گئی کہ ہفت روزہ ’’سیرِروحانی‘‘ماہنامہ خالد کے متبادل کے طورپر اورہفت روزہ ’’المتکلّم‘‘ تشحیذالاذہان کے طورپر شائع ہوتے رہے۔اس لیے مئی سے اگست تک کے ہفت روزہ سیرروحانی کا ایک ایک شمارہ ماہنامہ خالد کے طورپر شمارکیاجاتاہے۔ستمبر ۲۰۰۰ء سے پبلشر کی منظوری کے بعد ماہنامہ خالد باقاعدہ اپنے نام اورٹائٹل کے ساتھ شائع ہوناشروع ہوگیا۔

(اس تعارف کے لیے دواورکتب سے بھی معلومات لی گئی ہیں:پہلی کتاب:’’اِبقاء الْمِنَنْ بِاِلْقَاءِ الْمِحَنْ۔ خودنوشت سوانح حیات نواب محمدصدیق حسن خان‘‘،۳۹۴ صفحات کی یہ کتاب دارالدعوة السلفیہ شیش محل روڈ لاہور سے دسمبر۱۹۸۶ء میں شائع ہوئی۔اس کتاب کی تسہیل مولانا محمدخالد سیف نے کی اورتنقیح ونظرثانی قاری نعیم الحق نعیم نے کی،اس کتاب کے حصہ دوم میں مولانا جعفرشاہ پھلواری اورمحمدحسین بٹالوی اورکچھ علماء کے مضامین بھی ہیں۔

دوسری کتاب جو کہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی سے شائع ہونے والی کتاب ’’عابدہ سلطان۔ایک انقلابی شہزادی کی خودنوشت‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔یہ کتاب پہلی بار ۲۰۰۴ء میں Memoirs of a Rebel Princessکے نام سے کراچی سے شائع ہوئی اور بعد میں ۲۰۰۷ء کو یہ اردومیں شائع ہوئی )

براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویوز

براہین احمدیہ کا شائع ہونا تھا کہ ہندوستان کے شہروں میں ایک تہلکہ مچ گیا اورمسلمانان ہند کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے۔جیسے ان کا کوئی نجات دہندہ پیداہوگیا ہو۔جیسے ان بیماروں کا مسیحا ہو۔اور واقعی ایسا ہی تو تھا۔تبھی تو جن کی روحانی نگاہ کام کرتی تھی انہوں نے براہین احمدیہ کا آغاز دیکھ کر ہی بے اختیار کہہ دیا تھا۔ ؂

ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نگاہ
تم مسیحا بنو خدا کے لئے

۱: ہندوستان کے مشہور صوفی بزرگ
حضرت صوفی احمدجان ؓ

سب سے پہلے ہم ملک ہندوستان کے مشہور صوفی حضرت صوفی احمدجان رضی اللہ عنہ کا وہ ریویو درج کرتے ہیں جو براہین احمدیہ پرآپ نے کیا۔آپؓ نے ’’اشتہارواجب الاظہار‘‘کے نام سے نہایت عارفانہ ووالہانہ رنگ میں تفصیلی ریویو کرتے ہوئے لکھا:’’عالی جناب۔ فیض رسان عالم۔ معدن جود و کرم، حجۃ الاسلام، برگزیدہ خاص و عام حضرت میرزا غلام احمد صاحب دام برکاتھم رئیس اعظم قادیان ضلع گورداسپور احاطہ پنجاب نے ایک کتاب مسمی براہین احمدیہ سلیس اردو زبان میں جس کی ضخامت قریب تین سو جزو کے ہے۔نہایت عمدہ سفید ڈی کاغذ پر چھپوانی شروع کی ہے جس کے چاروں دفتر جو کہ قریباً۳۵ جزو ہیں نہایت خوشخط چھپ بھی گئے ہیں اور باقی وقتاً فوقتاً چھپتے جائیں گے اور خریداروں کے پاس پہنچتے رہیں گے۔

یہ کتاب دین اسلام اور نبوت محمدیہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن شریف کی حقانیت کو تین سو مضبوط دلائل عقلی اور نقلی سے ثابت کرتی ہے اور عیسائی آریہ نیچریہ ہنود اوربرہمو سماج وغیرہ جمیع مذاہب مخالف اسلام کو از روئے تحقیق رد کرتی ہے۔ حضرت مصنف نے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا ہے کہ اگر کوئی مخالف یا مکذب اسلام تمام دلائل یا نصف یا خمس تک بھی ردّ کر دے تو مصنف صاحب اپنی جائیداد دس ہزار روپے کی اس کے نام منتقل کر دیں گے۔ چنانچہ یہ اشتہار براہین احمدیہ کے حصہ اول میں مندرج ہے۔ یہ کتاب مشرکین و مخالفین اسلام کی بیخ و بنیاد کو اکھاڑتی ہے اور اہل اسلام کے اعتقادات کو ایسی قوت بخشتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور اسلام کیانعمت عظمیٰ ہے اور قرآن شریف کیا دولت ہے۔ اوردین محمدیؐ کیا صداقت ہے اور آیات قرآن مجیدجن کا اس کتاب میں اپنے اپنے موقعوں پر حوالہ دیا گیا ہے۔ ۲۰ سپارہ کے قریب ہیں۔ منکروں کو معتقد اور سست اعتقادوں کو چست اور غافلوں کو آگاہ مومنوں کو عارف کامل بناتی ہے۔ اور اعتقادات قویہ اسلامیہ کی جڑ قائم کرتی ہے اور جو وساوس مخالف پھیلاتے ہیں ان کو نیست و نابود کرتی ہے۔ اس چودھویں صدی کے زمانہ میں کہ ہر ایک مذہب و ملت میں ایک طوفان بے تمیزی برپا ہے۔ بقول شخصےدیر و حرم میں کوئی نہیں اپنی راہ پر کافر نئے نئے ہیں مسلماں نئے نئے۔ ایک ایسی کتاب اور ایک ایسے مجدد کی بے شک ضرورت تھی جیسی کہ کتاب براہین احمدیہ۔ اس کے مولف جناب مخدومنا مولانا میرزا غلام احمد صاحب دام فیوضہ ہیں جو ہر طرح سے دعویٰ اسلام کو مخالفین پر ثابت فرمانے کے لیے موجود ہیں جناب موصوف عامی علماء اور فقراء میں سے نہیں بلکہ خاص اس کام پر منجانب اللہ مامور اور ملہم اور مخاطب الٰہی ہیں۔ صدہا سچے الہام اور مخاطبات اور پیشگوئیاں اور رویاء صالحہ اور امر الٰہی اور اشارات و بشارات اجراء کتاب اور فتح و نصرت اور ہدایات امداد کے باب میں زبان عربی فارسی اردو وغیرہ میں جومصنف صاحب کو بہ تشریح تمام ہوئے ہیں۔مشرح و مفصل اس کتاب میں درج ہیں اور بعض الہامات زبان انگریزی میں بھی ہوئے ہیں۔حالانکہ مصنف صاحب نے ایک لفظ بھی انگریزی کا نہیں پڑھا۔ چنانچہ صدہا مخالفین اسلام کی گواہی سے ثابت کرکے کتاب میں درج کئے گئے ہیں جن سے بخوبی صداقت پائی جاتی ہے اور یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مصنف صاحب بےشک امر الٰہی سے اس کتاب کو لکھ رہے ہیں اور صاف ظاہر ہوتا ہے بموجب حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فِيمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ إِنَّ اللّٰهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا(رواہ ابوداؤد) … مصنف صاحب اس چودھویں صدی کے مجدد اور مجتہد اور محدث اور کامل اکمل افراد امت محمدیہ میں سے ہیں۔ اور دوسری حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم یعنی علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل اسی کی تائید میں ہے۔ اس موقعہ پر چند اشعار فارسی اسی کتاب کے لکھتا ہوں۔ جن کو پڑھ کر ناظرین خود جناب ممدوح کا مرتبہ دریافت فرما لیں گے اور یقین ہے کہ خلوص دل اور صدق عقیدت سے یہ شعر زبان حال سے فرمائیں گے:

سب مریضوں کی ہے تمہیں پہ نگاہ
تم مسیحا بنو خدا کے لئے‘‘

’’سن شریف حضرت کا تقریباً چالیس یا پینتالیس سال ہوگا۔ اصلی وطن اجداد کا قدیم ملک فارس معلوم ہوتا ہے۔ نہایت خلیق، صاحب مروت و حیاء، جوان رعنا، چہرہ سے محبت الٰہی ٹپکتی ہے۔ اے ناظرین میں سچی نیت اور کمال جوش صداقت سے التماس کرتا ہوں کہ بے شک و شبہ جناب میرزا صاحب موصوف مجدد وقت اور طالبان سلوک کے واسطے کبریت احمر اور سنگ دلوں کے واسطے پارس اور تاریک باطنوں کے واسطے آفتاب اور گمراہوں کے لئے خضر اور منکران اسلام کے واسطے سیف قاطع اور حاسدوں کے واسطے حجۃ بالغہ ہیں۔ یقین جانو کہ پھر ایسا وقت ہاتھ نہ آئے گا۔ آگاہ ہو کہ امتحان کا وقت آ گیا ہے اور حجت الٰہی قائم ہو چکی ہے اور آفتاب عالمتاب کی طرح بدلائل قطعیہ ایسا ہادی کامل بھیج دیا ہے کہ سچوں کو نور بخشے اور ظلمات و ضلالت سے نکالے اور جھوٹوں پر حجت قائم کرے۔‘‘(الفضل مورخہ ۲۳؍جون ۱۹۳۱ء جلد ۱۸نمبر ۱۴۸صفحہ ۵، ۶)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: آنحضرتﷺ بطور سفیرِ امن

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button