بنیادی مسائل کے جوابات(قسط ۸۹)
٭…جب کوئی فوت ہو جاتا ہے تو کیا وہ اپنے زندہ رشتہ داروں کو آسمان سے دیکھ سکے گا؟
٭…حضرت خضر کے بارے میں جماعت کا کیا عقیدہ ہے؟
٭…کیا دوسرے رمضان کے گزرنے کے بعد پہلے رمضان میں رہ جانے والے روزوں کو رکھا جاسکتا ہے؟
سوال: ربوہ پاکستان سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیا کہ جب کوئی فوت ہو جاتا ہے تو کیا وہ اپنے زندہ رشتہ داروں کو آسمان سے دیکھ سکے گا؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۲؍مئی ۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: فوت شدہ لوگوں کی ارواح کا براہ راست اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ وہ وہی بات جان سکتی ہیں جو اللہ تعالیٰ انہیں پہنچانا چاہے۔بالفاظ دیگر ان ارواح کے ساتھ کسی انسان کا جسمانی تعلق نہیں ہوتا بلکہ ان کے ساتھ صرف روحانی تعلق ہی ہو سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو مختلف جگہوں پر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ ارواح کے تعلق قبور کے متعلق احادیث رسول اللہ ﷺ میں آیا ہے وہ بالکل سچ اور درست ہے۔ ہاں یہ دوسرا امر ہے کہ اس تعلق کی کیفیت اور کنہ کیا ہے؟ جس کے معلوم کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں۔ البتہ یہ ہمارا فرض ہو سکتا ہے کہ ہم ثابت کر دیں کہ اس قسم کا تعلق قبور کے ساتھ ارواح کا ہوتا ہے اور اس میں کوئی محال عقلی لازم نہیں آتا… جب روح جسم سے مفارقت کرتا ہے یا تعلق پکڑتا ہے تو ان باتوں کا فیصلہ عقل سے نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو فلسفی اور حکماء ضلالت میں مبتلا نہ ہوتے۔ اس طرح پر قبور کے ساتھ جو تعلق ارواح کا ہوتا ہے یہ ایک صداقت تو ہے مگر اس کا پتہ دینا اس آنکھ کا کام نہیں یہ کشفی آنکھ کا کام ہے کہ وہ دکھلاتی ہے…ہم ایک بات مثال کے طورپر پیش کرتے ہیں کہ ایک نمک کی ڈلی اور ایک مصری کی ڈلی رکھی ہو۔ اب عقل محض ان پر کیا فتویٰ دے سکے گی۔ ہاں اگر ان کو چکھیں گے تو دو جداگانہ مزوں سے معلوم ہو جاوے گا کہ یہ نمک ہے اوروہ مصری ہے۔لیکن اگر حس لسان ہی نہیں تو نمکین اور شیرین کا فیصلہ کوئی کیا کرے گا۔ پس ہمارا کام صرف دلائل سے سمجھا دینا ہے۔ آفتاب کے چڑھنے میں جیسے ایک اندھے کے انکار سے فرق نہیں آ سکتا اور ایک مسلوب القوۃ کے طریق استدلال سے فائدہ نہ اُٹھانے سے اس کا ابطال نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح پر اگر کوئی شخص کشفی آنکھ نہیں رکھتا تو وہ اس تعلق ارواح کو کیونکر دیکھ سکتا ہے؟ پس اس کے انکار سے محض اس لئے کہ وہ دیکھ نہیں سکتا اس کا انکار جائز نہیں ہے۔ ایسی باتوں کا پتہ نری عقل اور قیاس سے کچھ نہیں لگتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس لئے انسان کو قویٰ دیئے ہیں… ہم اپنے ذاتی تجربہ سے گواہ ہیں کہ روح کا تعلق قبر سے ضرور ہوتا ہے۔ انسان میّت سے کلام کر سکتا ہے۔ روح کا تعلق آسمان سے بھی ہوتا ہے جہاں اس کے لیے ایک مقام ملتا ہے۔ پھر میں کہتا ہوں کہ یہ ایک ثابت شدہ صداقت ہے۔ ہندوؤں کی کتابوں میں بھی اس کی گواہی موجود ہے۔ یہ مسئلہ عام طور پر مسلمہ مسئلہ ہے۔ بجز اس فرقہ کے جو نفی بقائے روح کرتا ہے۔ اور یہ امر کہ کس جگہ تعلق ہے کشفی قوت خود ہی بتلا دے گی۔(الحکم نمبر۳، جلد ۳، مورخہ ۲۳؍جنوری ۱۸۹۹ء صفحہ ۲و ۳)
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ روایت کرتے ہیں:جب ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اہل بیت اور چند خدام کے ساتھ دہلی تشریف لے گئے تو یہ خادم بھی بلحاظ ایڈیٹر اخبار بدر حضورؑکے ہمرکاب تھا۔ محلہ چتلی قبر میں الف خان سیاہی والے کے مکان پر قیام ہوا۔ایک دن حضرت صاحبؑ فرمانے لگے کہ دہلی کے زندوں سے تو بہت امید نہیں چلو یہاں کے مردوں سے ملاقات کریں کیونکہ اس سرزمین میں کئی ایک بزرگ اولیاء مدفون ہیں۔ چنانچہ اس کے مطابق کئی دنوں میں خواجہ میر درد، قطب الدین اولیاء، قطب صاحب اور دیگر بزرگوں کی قبروں میں جاتے رہے۔ ان قبروں پر تھوڑی دیر کھڑے ہو کر ہاتھ اٹھا کر آپؑ دعا کرتے اور دیگر احباب بھی آپ کے ساتھ دعا کرتے۔ حضرت نظام الدین اولیاء کی قبر پر فرمایا ارواح کا تعلق قبور کے ساتھ ضرور ہوتا ہے اور اہل کشف توجہ سے میت کے ساتھ کلام بھی کر سکتے ہیں۔ (ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ صفحہ۱۰۷، ۱۰۸)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں:حدیثوں سے ثابت ہے کہ شروع شروع میں قبر سے روح کا تعلق زیادہ ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ایک مقام پر فرمایا ہے کہ ارواح کا تعلق قبور سے ضرور ہوتا ہے۔اسی طرح اولیاء اللہ نے بہت سے کشوف اس بارے میں بیان کئے ہیں اور انہوں نے لکھا ہے کہ ابتداء میں انسانی روح متوحش ہوتی ہے اور اپنے رشتہ داروں سے جدا ہونے کا اسے صدمہ ہوتا ہے اور وہ گھبرائی گھبرائی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ کچھ عرصہ کے بعد وہ ایک مقام پر ٹک جاتی ہے۔ اگر سعید روح ہو تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے انعامات سے حصہ دینا شروع کر دیتا ہے اور اگر ناپاک روح ہو تو رفتہ رفتہ اسے دوزخ کا عذاب شروع ہو جاتا ہے۔ حضرت عثمانؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ انسانی روح جب قبر میں داخل ہوتی ہے تو اسے سخت کرب ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس پر جو حالت بھی وارد ہوتی ہے وہ پہلے کرب سے ادنیٰ ہوتی ہے۔زیادہ نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ سے امت محمدیہ کے صلحاء و اولیاء قبروں پر جاتے اور دعائیں کیا کرتے تھے۔ مرنے والے کے لیے بھی، اپنے لئے بھی اور اس کے دوسرے رشتہ داروں اور عزیزوں کے لیے بھی۔ ان دعاؤں سے مرنے والی روح تسلی پاجاتی ہے اور اس کا توحش کم ہو جاتا ہے۔ (خطبات محمود جلد۲۵ صفحہ ۱۷۸، خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۴۴ء)
پس خلاصہ کلام یہ کہ مرنے والے کا اپنے زندہ رشتہ داروں سے اس طرح رابطہ تو نہیں رہتا جس طرح ہم دنیا میں ایک دوسرے سے میل ملاقات کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ ارواح کا قبور کے ساتھ ایک تعلق رہتا ہے، اس لیے جب ہم وہاں جا کر ان کے لیے دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہماری یہ دعائیں ان اہل قبور تک پہنچاتا اور ان دعاؤں کی بدولت ان کے مقام و مرتبہ میں ترقی دیتا ہے۔ اسی لیے حضور ﷺ نے قبرستان میں داخل ہونے کی جو دعا ہمیں سکھائی ہے اس میں بھی ہم اہل قبور پر سلامتی بھیجتے اور ان کے اور اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز بَاب مَا يُقَالُ عِنْدَ دُخُولِ الْقُبُورِ وَالدُّعَاءِ لِأَهْلِهَا) نیز خدا تعالیٰ اپنے فرستادوں کی مرنے والوں کے ساتھ کشفی طور پر ملاقات بھی کروا دیتا ہےاور یہ بزرگ اللہ تعالیٰ کے اذن سے میت کے ساتھ کلام بھی کر سکتے ہیں۔
سوال: یوکے سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حضرت خضر کے بارے میں جماعت کا کیا عقیدہ ہے؟ نیز یہ کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے قرآن کریم میں بیان حضرت موسیٰؑ اور حضرت خضر کے واقعہ کو کشفی قرار دیتے ہوئے حضرت خضر سے مراد آنحضور ﷺ کی ذات مبارک لی ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خضر کو ایک نیک بندہ قرار دیا ہے جس پر وحی نازل ہوتی تھی۔ اس فرق کی کیا وجہ ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۳؍مئی ۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: پہلی بات یہ ہے کہ قرآن کریم جو خدا تعالیٰ کی آخری شرعی کتاب ہے اور جس کے علم ومعرفت قیامت تک ممتد ہیں۔ اور حسب ارشاد قرآنی وَإِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُهٗ وَمَا نُنَزِّلُهٗ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ۔ (الحجر:۲۲) یعنی کوئی چیز ایسی نہیں جس کے (غیر محدود) خزانے ہمارے پاس نہ ہوں۔ لیکن ہم اسے ایک معین اندازے سے ہی اتارا کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق اپنے انبیاء، اولیاء اور فرستادوں کو قرآنی علوم کی معرفت عطا فرماتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اس آیت سے صاف طور پر ثابت ہواکہ ہر یک چیز جو دنیا میں پائی جاتی ہے وہ آسمان سے ہی اُتری ہے۔ اس طرح پر کہ اِن چیزوں کے علل موجبہ اُسی خالق حقیقی کی طرف سے ہیں اورنیز اس طرح پر کہ اُسی کے الہام اورالقاء اورسمجھانے اورعقل اورفہم بخشنے سے ہر یک صنعت ظہورمیں آتی ہے لیکن زمانہ کی ضرورت سے زیادہ ظہور میں نہیں آتی اور ہریک مامور من اللہ کو وسعت معلومات بھی زمانہ کی ضرورت کے موافق دی جاتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس قرآن کریم کے دقائق و معارف و حقائق بھی زمانہ کی ضرورت کے موافق ہی کھلتے ہیں۔ (ازالۂ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۵۱،۴۵۰)
دوسری بات یہ ہے کہ آنحضور ﷺ جن کے قلب مطہر پر اس شریعت کا نزول ہوا، آپؐ نے قرآن کریم کی علم و معرفت کی وسعت اور اس کے غیر محدود معانی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا أنزل القرآن على سبعة أحرف لكل آية منها ظهر وبطن ولكل حد مطلع۔(مشکوٰۃ المصابیح کتاب العلم، الفصل الثانی حدیث نمبر۲۳۸)یعنی قرآن کریم سات پہلوؤں پر اتارا گیا ہے اور اس کی ہر آیت کا ایک ظاہری پہلو ہے اور ایک باطنی پہلو ہے۔
پس قرآن کریم اور آنحضورﷺ کی بیان فرمودہ ان صداقتوں کی بنیاد پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم میں بیان حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کے ایک عبد صالح کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اس آیت کا ظاہری مفہوم بیان فرمایا ہے۔ کیونکہ اس وقت زمانہ کی یہی ضرورت تھی کہ ان آیات کے ظاہری معانی بیان کر کے لوگوں کو ان کے اس غلط تصور کہ اللہ تعالیٰ نبیوں کے علاوہ کسی اور کی طرف وحی نازل نہیں کر سکتا، کو بدلائل ردّ کر کے اس غلطی کی اصلاح کی جائے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عوام الناس اور خاص طور پر علماء امت پر ان آیات کے ظاہری مطالب سے استدلال کر کے یہ بات واضح فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کسی غیر نبی کی طرف بھی وحی و الہام نازل کر سکتا ہے۔ آپ نے اپنی اس بات کی تائید کے لیے قرآن کریم سے چار مثالیں بیان فرمائیں جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات میں اس مرد خدا کا ذکر کر کے ان تمام لوگوں کی طرف وحی کے نزول کا قرآن کریم سے ثبوت بیان فرمایا۔ نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ام موسیٰؑ کے واقعات اور حضرت موسیٰ ؑکے ساتھ اس مرد خدا کے واقعات سے یہ بھی استدلال فرمایا کہ نبی کے علاوہ ایک ولی کا الہام بھی یقینی ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے ام موسیٰ نے اپنے الہام کو برحق اور یقینی خیال کر کے اپنے نوزائیدہ بچہ کو دریا میں ڈال کر اسے ہلاکت کی حد تک پہنچا دیا اور اس عبد صالح نے اپنے الہام کو برحق اور یقینی خیال کر کے ایک بچہ کو قتل کر دیا۔ اگر یہ لوگ اپنے الہام کو برحق اور یقینی خیال نہ کرتے تو ہر گز ایسا نہ کرتے۔
پھر حضور علیہ السلام نے حضرت موسیٰ اور اس عبدصالح کے واقعہ سے تیسرا استدلال یہ فرمایا کہ ایسے اولیاء اللہ جو اعلیٰ درجہ کے مقام ولایت پر فائز ہوں اور جن کا دیگر دلائل اور آسمانی نشانات کے ذریعہ ملہم من اللہ ہونا یقینی طور پر ثابت ہو ان کا قول و فعل اگر ہماری سمجھ میں نہ آئے تو ہمیں ان پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہم ان کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ یہ تمام استدلال ان آیات کے ظاہری مفہوم کو بیان کرنے سے ہی ہو سکتے تھے، نہ کہ ان کے باطنی معانی بیان کر کے۔ اس لیے آپ نے ان آیات کے ظاہری مطلب پر ہی اکتفا فرمایا۔
پھر خلافت احمدیہ کے عہد مبارک میں جب ان قرآنی آیات کے باطنی معانی بیان کرنے کا وقت آیا تو آنحضور ﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم ہونے والی خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کے مظاہر نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والے علم لدنی کے ذریعہ اپنے اپنے وقت میں ان آیات کے باطنی مطالب بھی بیان کرتے ہوئے ان کی نہایت بصیرت افروز تفاسیر بیان فرمائیں اور قرآن کریم میں مذکور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خدا تعالیٰ کے اس عبد صالح کے واقعات کو حضرت موسیٰ کا کشف قرار دیتے ہوئے اس عبد صالح کو ہمارے آقا و مولیٰ سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کے وجود باجود سے تعبیر فرمایا۔
لہٰذا دونوں مطالب اور دونوں تفاسیر اپنی اپنی جگہ بالکل درست اور وقت کی ضرورت کے عین مطابق ہیں۔اور ان میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں۔
سوال: ربوہ پاکستان سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ اگر کسی کے ایک رمضان کے روزے ابھی رکھنے والے رہتے ہوں اور دوسرا رمضان آ جائے تو کیا دوسرے رمضان کے گزرنے کے بعد پہلے رمضان میں رہ جانے والے روزوں کو رکھا جا سکتا ہے یا دوسرے رمضان کے آنے سے پہلے پہلے ہی رکھ سکتے ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۱؍مئی ۲۰۲۳ء میں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: جو شخص کسی بیماری یا سفر کی وجہ سے رمضان میں روزے نہیں رکھ سکا اسے چاہیے کہ اولین فرصت میں جب اسے سہولت ہو فرض روزے مکمل کرلے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضور ﷺ کی ازواج کا یہ طریق تھا کہ وہ اپنے چھوٹے ہوئے روزے اگلا رمضان آنے سے قبل شعبان میں پورے کر لیا کرتی تھیں۔(صحیح مسلم کتاب الصیام باب قضاء رمضان فی شعبان)
لیکن اگر کسی شخص کے رمضان کے کچھ روزے چھوٹ گئے ہوں اور اگلا رمضان آنے تک وہ کسی عذر کی وجہ سےیہ روزے نہیں رکھ سکا تو ایسا شخص اگلا رمضان گزرنے کے بعد اپنے گذشتہ رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے پورے کر سکتا ہے۔ اگر چہ بہترین اور افضل طریق وہی ہے جو امہات المؤمنین کا تھا کہ وہ اگلے رمضان سے قبل گذشتہ رمضان کے روزے پورے کر لیا کرتی تھیں۔ تاہم قرآن کریم نے رمضان کےچھوٹے ہوئے روزوں کو اگلے رمضان سے قبل پورا کرنے کی کوئی قید نہیں لگائی چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُواْ الْعِدَّۃَ۔(البقرہ:۱۸۶)یعنی جو شخص اس مہینہ کو (اس حال میں) دیکھے (کہ نہ مریض ہو نہ مسافر) اسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے اور جو شخص مریض ہو یا سفرمیں ہو تو اس پر اور دنوں میں تعداد (پوری کرنی واجب) ہوگی۔ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتااور (یہ حکم اس نے اس لئے دیا ہے کہ تم تنگی میں نہ پڑو اور) تا کہ تم تعدادکو پورا کر لو۔
اس جگہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے قضا کرنے کے لیے کسی مدت کا تعین نہیں فرمایا بلکہ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ فرماکراسے انسان کی سہولت پر چھوڑا ہے، وقت کی قید نہیں لگائی۔
پس اگر کسی شخص کے ایک سال کے رمضان سے زیادہ رمضان کے مہینوں کے روزے کسی جائز عذر کی وجہ سے رہ گئے ہوں اور پھر اللہ تعالیٰ اس عذر کے دُور ہونے پر اسے روزوں کی توفیق عطا فرما دے تو وہ جس قدر ان چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کر سکتا ہو اسے تھوڑے تھوڑے کر کے ان روزوں کو رکھ لینا چاہیے۔ ایک سال کے رمضان سے زیادہ رہ جانے والے روزوں کی قضا کے بارے میں مختلف نظریات ہیں۔بعض فقہاء کا خیال ہے کہ پچھلے سالوں کے چھوٹ جانے والے روزے دوسرے سال نہیں رکھے جاسکتے۔ جبکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد اس سے مختلف ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں:میں جماعت کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جن دوستوں نے رمضان کے سارے روزے نہیں رکھے وہ بعد میں روزے رکھیں اور ان کو پورا کریں۔ خواہ وہ روزے غفلت کی وجہ سے رہ گئے ہوں یا وہ روزے بیماری یا سفر کی وجہ سے رہ گئے ہوں۔ اسی طرح اگر گذشتہ سالوں میں ان سے کچھ روزے غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے رہ گئے ہیں تو ان کو بھی پورا کرنے کی کوشش کریں تا خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے سے پہلے پہلے وہ صاف ہو جائیں۔ بعض فقہاء کا یہ خیال ہے کہ پچھلے سال کے چھوٹے ہوئے روزے دوسرے سال نہیں رکھے جا سکتے۔لیکن میرے نزدیک اگر کوئی لاعلمی کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکا تو لاعلمی معاف ہو سکتی ہے۔ہاں اگر اس نے دیدہ دانستہ روزے نہیں رکھے تو پھر اس پر قضانہیں، جیسے جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نماز کی قضا نہیں۔لیکن اگر اس نے بھول کر روزے نہیں رکھے یا اجتہادی غلطی کی بنا پر اس نے روزے نہیں رکھے تو میرے نزدیک وہ دوبارہ رکھ سکتا ہے۔ اور اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ روزے رکھے۔ہاں اگر وہ روزہ رکھ سکتا تھا اور اس نے جان بوجھ کر روزہ نہیں رکھا تو اس پر کوئی قضا نہیں۔ وہ جب توبہ کرے گا اس کے اعمال نئے سرے سے شروع ہوں گے۔ لیکن اگر اس نے غفلت کی وجہ سے روزے نہیں رکھے یا کسی اجتہادی غلطی یا بیماری کی وجہ سے روزے نہیں رکھے تو میرے نزدیک خواہ وہ روزے کتنے ہی دُور کے ہوں وہ دوبارہ رکھے جا سکتے ہیں۔(الفضل نمبر ۵۵، جلد ۵۱،۵۰۔ مورخہ ۸مارچ ۱۹۶۱ء صفحہ ۲، ۳)
مزید پڑھیں: بنیادی مسائل کے جوابات (قسط ۸۸)