خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍ دسمبر2024ء
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے ابنِ عوف! اس جھنڈے کو لے لو اور پھر تم سب خدا کے رستہ میں جہاد کے لیے نکل جاؤ اور کفار کے ساتھ لڑو مگر دیکھنا کوئی بددیانتی نہ کرنا اور نہ کوئی عہدشکنی کرنا اور نہ دشمن کے مُردوں کے جسموں کو بگاڑنا اور نہ بچوں کو قتل کرنا۔ یہ خدا کا حکم ہے اور اس کے نبی کی سنت۔‘‘
اس روایت میں غالباً راوی نے سہواً عورتوں کا ذکر چھوڑ دیا ہے ورنہ دوسری جگہ صراحت آتی ہے کہ آپؐ جب کوئی دستہ روانہ فرماتے تھے تویہ بھی تاکید فرماتے تھے کہ عورتوں کوقتل نہ کرنا اور نہ بوڑھے پیر فرتوت لوگوں کو قتل کرنا اور نہ ایسے لوگوں کو قتل کرنا جن کی زندگی مذہبی خدمت کے لیے وقف ہو
سریۂ زید بن حارثہؓ، سریۂ وادی القریٰ، سریہ عبدالرحمٰن بن عوف، سریہ علی ابن طالبؓ اور سریہ حضرت ابوبکرؓ کے اسباب اور حالات و واقعات کا بیان
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کے مطابق تقسیم ملک کے وقت تین سو تیرہ درویش قادیان میں مقیم رہے۔ مکرم طیّب علی صاحب بنگالی ان درویشان میں سے آخری تھے جن کی وفات ہوگئی۔ اب قادیان میں مزید کوئی درویش نہیں رہا۔ اور قادیان کا یہ پہلا جلسہ ہے جو کسی بھی درویش کے بغیر ہو رہا ہے، آج سے شروع ہے۔ اب قادیان میں رہنے والی نئی نسل کا کام ہے کہ اپنے ان قربانی کرنے والے بزرگوں کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے وفا اور اخلاص سے قادیان میں اپنی زندگیاں گزارے۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق بھی دے
مکرم طیّب علی صاحب بنگالی درویش قادیان، مکرم مرزا محمد الدین ناز صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ ربوہ پاکستان اورمکرم اَک مرات خاکیئیف صاحب نیشنل صدر جماعت احمدیہ ترکمانستان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍ دسمبر2024ء بمطابق27؍ فتح 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج بھی
بعض سرایاکا ذکر
کروں گا۔ تاریخ میںایک سریہ کا ذکر ملتا ہے جو
سریہ زید بن حارثہؓ
کہلاتا ہے۔ یہ سریہ جُمَادَی الآخِرَة چھ ہجری کو بنو جُذام کی جانب حِسْمٰی میں ہوا۔ حِسْمٰی بنو جُذام کا ایک شہر تھا اور مدینہ سے آٹھ راتوں کی مسافت پر واقع تھا۔ اس زمانے کے سفر کے ذریعہ سے اس لحاظ سے سفر کافی لمبا تھا۔
علامہ ابن قیّم نے زاد المعاد میں کہا ہے کہ یہ سریہ بلا شبہ صلح حدیبیہ کے بعد کا ہے یعنی سات ہجری کا ہے۔
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 681)
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد06صفحہ89 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(فرہنگ سیرت صفحہ102 زوار اکیڈمی کراچی)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی مختلف تاریخ کی کتابوں سے لے کر اس پر تبصرہ کیا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’اس سریہ کی تاریخ کے متعلق ایک اِشکال ہے جس کاذکر ضروری ہے۔ ابن سعد اور اس کی اتباع میں دیگر اہل سِیَر‘‘سیرت کے لکھنے والے ’’نے اس سریہ کی تاریخ جمادی الآخرة چھ ہجری لکھی ہے اور اسی کو صحیح قرار دیا گیا ہے مگر علامہ ابن قیم نے زادالمعاد میں تصریح کی ہے کہ یہ سریہ سات ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد ہوا تھا۔ اور غالباً ابن قیم کے قول کی بنیاد یہ ہے کہ اس سریہ کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ دِحْیَہ کَلْبِی قیصر سے مل کر مدینہ کو واپس آ رہے تھے کہ انہیں راستہ میں بنوجذام نے لوٹ لیا اور یہ مسلّم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دِحْیَہ کو قیصر کی طرف خط دے کر صلح حدیبیہ کے بعد بھجوایا تھا۔ اس لیے یہ واقعہ کسی صورت میں حدیبیہ سے پہلے نہیں ہو سکتا۔ یہ دلیل اپنی ذات میں بالکل صاف اور واضح ہے اور اس کی روشنی میں ابن سعد کی روایت یقیناً قابل ردّ قرار پاتی ہے مگر‘‘ آپؓ لکھتے ہیں کہ ’’خاکسار کی رائے میں ایک توجیہہ ایسی ہے جسے علامہ ابن قیم نے نظر انداز کر دیا ہے اور وہ یہ کہ ممکن ہے کہ قیصر کی ملاقات کے لیے دحیہ شام میں دو دفعہ گئے ہوں۔ یعنی پہلی دفعہ وہ صلح حدیبیہ سے قبل از خود تجارتی غرض کے لیے گئے ہوں اور قیصر سے بھی ملے ہوں اور دوسری دفعہ صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاخط لے کر گئے ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قیصر کی طرف پیغامبر بننے کے لیے اسی غرض سے چنا ہو کہ وہ پہلے قیصر سے مل چکے ہیں۔ اس توجیہہ کی تائید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ اس سفر میں دِحْیَہ کے پاس تجارتی سامان تھا اور صلح حدیبیہ کے بعد والے سفر میں بظاہر تجارتی سامان کاتعلق نظر نہیں آتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دحیہ کایہ سفر محض تجارتی غرض سے ہو اور ابن سعد کے راوی نے اس کے دوسرے سفر کے ساتھ اس سفر کو خلط کر کے قیصر کی ملاقات اور خلعت کے ذکر کو قیاساً شامل کرلیا ہو۔ واللہ اعلم‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 682)
سَرِیّے کےحالات و واقعات کے بارے میں مزید تفصیل
یوں بیان ہوئی ہے۔ ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ رِفَاعَہ بن زید جُذَامِی اپنی قوم کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لے کر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔ ان لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اسی عرصہ میں حضرت دِحْیَہ بن خَلِیفہ کَلْبِی قیصر شاہِ روم کے پاس سے واپس آ رہے تھے۔ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصرِ روم کی طرف بھیجا تھا۔ قیصر نے آپؓ کو تحائف دئیے اور پوشاک پہنائی۔ آپؓ کو ھُنَید بن عُوص اور اس کا بیٹا عُوْص بن ھُنَیدرستے میں ملے۔ ابنِ سعد کے نزدیک ھُنَیدبن عَارِض اور اس کا بیٹا عارض بن ھُنید صُلَیْعِی ملے اور صُلَیْع قبیلہ جُذام کی ایک شاخ ہے۔ ان دونوں نے حملہ کر کے ہر چیز حضرت دحیہ سے چھین لی اور آپؓ کے پاس ایک پرانے کپڑے کے سوا کچھ بھی نہ چھوڑا۔ یہ بات بنو ضُبَیْب کو پہنچی جو رِفاعہ بن زید کا قبیلہ تھا۔ یہ قبیلہ اسلام لا چکا تھا۔ اس قبیلے کے لوگ ھُنیداوراس کے بیٹے کی طرف نکلے۔ انہوں نے ان دونوں کے ساتھ لڑائی کی اور حضرت دِحیہ کا مال چھڑا لیا۔ حضرت دِحیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے واقعہ کی خبر دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ھُنَیداور اس کے بیٹے سے انتقام لینے کے لیے درخواست کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہؓ کو پانچ سو آدمی دے کر بھیجا اور حضرت دحیہ کو بھی لشکر کے ساتھ واپس بھیج دیا۔ حضرت زیدؓ رات کو چلتے اور دن کو چھپ جاتے اور ان کے ساتھ بَنُو عُذْرَہ کا ایک رہبر بھی تھا۔ ادھر بنو جُذَام کے کچھ قبائل اکٹھے ہو گئے۔ ان میں سے غَطَفَان قبیلہ سارا تھا۔ قبیلہ وَائِل اور کچھ سَلَامَان سے اور سعد بن ھُذَیم تھے۔ جس وقت رِفَاعَہ بن زید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لے کر اپنی قوم کے پاس آئے تو اس وقت وہ لوگ حَرَّۃُ الرَّجْلَامیں تھے۔ حرّۃ الرَّجْلَا جذام کے علاقے میں سیاہ پتھریلی زمین تھی اور رِفاعہ کُرَاع رَبَّہ مقام میں تھے۔ کُرَاع رَبّہکے بارے میں لکھا ہے کہ بنو جذام کے علاقے میں ایک جگہ تھی۔ رِفاعہ کو اس واقعہ کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ بنو عُدْرَہ کے رہبر نے حضرت زید بن حارثہؓ اور آپ کے ساتھیوں کو صبح کے وقت ھُنَیداور اس کے بیٹے اور ان لوگوں کی رہائش گاہوںپر اچانک پہنچا دیا۔ صحابہؓ نے ان لوگوں پر حملہ کر کے ان کو قتل کیا اور خوب خونریزی ہوئی اورھُنَیداور اس کے بیٹے کو قتل کر دیا۔ ان کے جانوروں اور اونٹوں اور عورتوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ ایک ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں تھیں۔ عورتوں اور بچوں میں سے سو قیدی بنائے۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6صفحہ88دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(فرہنگ سیرت صفحہ 243،101 زوار اکیڈمی کراچی)
اس حملے کے بعد
قبیلہ جُذَام کی شاخ بنو ضُبَیْب کے مدینہ آنے کا ذکر
ملتا ہے۔ ’’ابھی زید مدینہ میں پہنچے نہیں تھے کہ قبیلہ بنو ضُبیب کے لوگوں کو جو قبیلہ بنو جذام کی شاخ تھے زید کی اس مہم کی خبر پہنچ گئی اور وہ اپنے رئیس رِفاعہ بن زید کی معیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! ہم مسلمان ہو چکے ہیں اور ہماری بقیہ قوم کے لیے امن کی تحریر ہو چکی ہے۔‘‘ جو نہیں مسلمان ہوئے ان کے لیے بھی امن کی تحریر ہو چکی ہے جبکہ آپ کا جو بھیجا ہوا لشکر تھا اس نے حملہ کر کے ان میں سے بعضوں کو قتل کر دیا، کچھ کو قیدی بنا لیا، غنیمت حاصل کرلی اور ہم تو مسلمان ہو چکے ہیں اور ان کے بارے میں بھی امن کی تحریر ہے۔ ’’تو پھر ہمارے قبیلہ کو اس حملہ میں کیوں شامل کیا گیا ہے؟‘‘ ہم پر کیوں حملہ کیا؟ ’’آپؐ نے فرمایا ہاں یہ درست ہے۔‘‘ آپؐ نے کوئی دلیل نہیں دی۔ آپ نے فرمایا تم ٹھیک کہہ رہے ہو ’’مگر زید کو اس کا علم نہیں تھا اور پھر جو لوگ اس موقع پر مارے گئے تھے ان کے متعلق آپؐ نے بار بار افسوس کا اظہار کیا۔ اس پر رِفَاعہ کے ساتھی ابو زید نے کہا یا رسول اللہ! جو لوگ مارے گئے ہیں ان کے متعلق ہمارا کوئی مطالبہ نہیں۔ یہ غلط فہمی کا حادثہ ہو گیا مگر جو لوگ زندہ ہیں اور جو سازو سامان زید نے ہمارے قبیلہ سے پکڑا ہے وہ ہمیں واپس مل جانا چاہیے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں یہ بالکل درست ہے‘‘ اور وہ جو ہزاروں بھیڑیں اونٹ اور سامان وغیرہ تھا سو قیدی بھی تھے ’’آپؐ نے فوراً حضرت علی کو زید کی طرف روانہ فرمایا اور بطور نشانی کے انہیں اپنی تلوار عنایت فرمائی اور زید کو کہلا بھیجا کہ اس قبیلہ کے جو قیدی اور اموال پکڑے گئے ہیں وہ چھوڑ دئیے جائیں۔ زید نے یہ حکم پاتے ہی فوراً سارے قیدیوں کو چھوڑ دیا اور غنیمت کا مال بھی واپس لوٹا دیا۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 681-682)بےشمار مال تھا۔
یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مال غنیمت اکٹھا کرنے کے لیے حملے کرتے تھے۔ یہ ایسی مثال ہے جس سے اس معیار کا پتالگتا ہے جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔ آجکل تو مسلمان بھی دشمنی میں ایک دوسرے کو قتل کرتے رہتے ہیں کجا یہ کہ صرف معاہدے والے لوگوں سے اتنا حسن سلوک ہو رہا ہے۔
پھر زید بن حارثہؓ کے ایک اور سریہ کا بھی ذکر ملتا ہے۔ یہ
سریہ وادی القریٰ
میں رجب چھ ہجری میں ہوا۔(شرح زرقانی جلد 3 صفحہ133 دار الکتب العلمیۃ بیروت) سریہ حِسْمیٰ کے قریباً ایک ماہ بعد یہ ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر زید بن حَارِثَہ کو وادی القریٰ کی طرف روانہ فرمایا۔
وَادِی الْقُرٰی
کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ مدینہ کے شمال میں شام کی طرف تقریباً تین سو پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ (معجم المعالم الجغرافیہ فی السیرۃ النبویہ صفحہ 250۔ دار مكۃ للنشر والتوزيع 1982ء)ایک روایت میں ہے کہ اس جگہ قبیلہ مَذْحِجْ اور قُضَاعَہ کے لوگ جمع تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قبیلہ مُضَر کے کچھ خاندان وہاں جمع تھے مگر لڑائی کی نوبت نہیں آئی۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6صفحہ 93دارالکتب العلمیۃ بیروت)
لیکن ابن ہشام نے بیان کیا ہے کہ وَادِی القُرٰی میں بنو فَزَارَہ سے صحابہؓ کا مقابلہ ہوا اور کئی صحابہ شہید ہوئے اور زید بھی شدید زخمی ہوئے۔(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ875 دار الکتب العلمیۃ بیروت) مگر خدا تعالیٰ نے انہیں بچا لیا اور سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اسی کو بیان فرمایا ہے کہ یہ مقابلہ ہوا تھا۔
پھر
سریہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ
کا ذکر ملتا ہے۔ یہ سریہ شعبان چھ ہجری کو دُوْمَۃُ الْجَنْدَل کی جانب ہوا۔ دومۃ الجندل مدینہ کے شمال میں شامی سرحد کے قریب ترین مقام، مدینہ سے تقریباً 450 کلو میٹر کے فاصلہ پر تھا۔
(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد7 صفحہ249)
ابن اسحاق اور محمد بن عمر نے حضرت عبداللہ بن عمر بن خطابؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو بلایا اور فرمایا کہ تم تیاری کر لو میں تمہیں آج یا کل ان شاءاللہ تعالیٰ ایک سریہ میں بھیجنے والا ہوں۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6صفحہ 93 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اس کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھی ہے کہ ’’اس سریہ کی تیاری اور روانگی کے متعلق ابن اسحاق نے عبداللہ ابن عمر سے یہ دلچسپ روایت نقل کی ہے کہ ایک دفعہ جب ہم چند لوگ جن میں حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ اور عثمانؓ اور علیؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ بھی شامل تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے۔ ایک انصاری نوجوان نے حاضر ہو کر آپؐ سے دریافت کیا کہ ’’یارسول اللہ! مومنوں میں سے سب سے افضل کون ہے؟‘‘آپؐ نے فرمایا۔ ’’وہ جو اخلاق میں سب سے افضل ہے۔‘‘’’ مومن کی یہ نشانی ہے۔ اخلاق اعلیٰ ہیں وہ افضل ہے۔
اسی ضمن میں عام باتیں بھی ہو رہی ہوتی تھیں۔ گو سریوں کا ذکر ہے، جنگوں کا ذکرہے لیکن بعض نصائح بھی اس دوران ہوتی رہی ہیں جو ہمارے لیے بھی بڑی ضروری ہیں۔
آپؐ نے فرمایا افضل وہ ہے جو اخلاق میں سب سے افضل ہے۔ ’’اس نے کہا ’’اور یارسول اللہ! سب سے زیادہ متقی کون ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا’’وہ جو موت کو زیادہ یاد رکھتا اور اس کے لیے وقت سے پہلے تیاری کرتا ہے۔‘‘تیاری کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہو اس کا حق ادا کیا جائے اور اس کے حکموں پر عمل کیا جائے۔ یہ ہے موت کی تیاری۔ ’’اس پر وہ انصاری نوجوان خاموش ہو گیا اور آپؐ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ’’فرمایا اے مہاجرین کے گروہ۔‘‘پھر آپؐ نے کچھ نصیحت فرمائی کہ
’’پانچ بدیاں ایسی ہیں جن کے متعلق میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں
اور وہ کبھی میری امت میں پیدا ہوں‘‘
یہ پناہ مانگتا ہوں کہ وہ کبھی پیدا نہ ہوں۔
’’کیونکہ وہ جس قوم میں رونما ہوتی ہیں اسے تباہ کرکے چھوڑتی ہیں۔
اول یہ کہ کبھی کسی قوم میں فحشاءاور بدکاری نہیں پھیلی اس حد تک کہ وہ اسے برملا کرنے لگ جائیں کہ اس کے نتیجہ میں ایسی بیماریاں اور وبائیں نہ ظاہر ہونی شروع ہوگئی ہوں جواُن سے پہلے لوگوں میں نہیں تھیں۔‘‘
یہ تو ہم آجکل دنیا میں عام دیکھتے ہیں۔ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی۔ مسلمانوں کو خاص طور پر اس پر غور کرنا چاہیے۔
’’دوم کبھی کسی قوم میں تول اور ناپ میں بددیانتی کرنے کی بدی نہیں پیدا ہوئی کہ اس کے نتیجہ میں اس قوم پر قحط اور محنت اور شدت اور حاکمِ وقت کے ظلم وستم کی مصیبت نازل نہ ہوئی ہو۔‘‘
اس پر بھی بہت غور کی ضرورت ہے۔ یہ بددیانتی تو مسلمانوں میں بھی بہت زیادہ پیدا ہو چکی ہے۔ کاش کہ اس کو سمجھیں اور احمدیوں کو خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
’’سوم کبھی کسی قوم نے زکوٰة اور صدقات کی ادائیگی میں سستی اورغفلت نہیں اختیار کی کہ اس کے نتیجہ میں ان پر بارشوں کی کمی نہ ہوگئی ہو۔ حتیٰ کہ اگر خدا کواپنے پیدا کردہ جانوروں اور مویشیوں کا خیال نہ ہو تو ایسی قوم پر بارشوں کاسلسلہ بالکل ہی بند ہوجائے۔‘‘
یہ بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب کی نشانی ہے اس سے بھی پناہ مانگنی چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پناہ مانگو۔ میں بھی مانگتا ہوں۔
’’چہارم کبھی کسی قوم نے خدا اور اس کے رسول کے عہد کو نہیں توڑا کہ ان پر کوئی غیرقوم ان کے دشمنوں میں سے مسلّط نہ کردی گئی ہو جو ان کے حقوق کوغصب کرنے لگ جائے۔‘‘
یہ بھی آجکل جو مسلمانوں کی حالت ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہ اپنے عہد کو توڑنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم کرے اور ان کو سمجھ دے۔
’’پنجم کبھی کسی قوم کے علماء اور ائمہ نے خلافِ شریعت فتوے دے دے کر شریعت کواپنے مطلب کے مطابق نہیں بگاڑنا چاہا کہ ان کے درمیان اندرونی لڑائی اور جھگڑوں کاسلسلہ شروع نہ ہوگیا ہو۔‘‘
یہ بھی مسلمانوں میں اب فرقہ بندی میں عام نظر آتا ہے۔ جن چیزوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی تھی وہی ہمیں آجکل مسلمانوں میں نظر آ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم کرے۔
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ زرّیں تقریر قوموں کی ترقی وتنزل کے اسباب پربہترین تبصرہ ہے اور اگر مسلمان چاہیں توان کے لیے موجودہ زمانہ میں بھی یہ ایک بہترین سبق ہے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 713-714)
کاش کہ مسلمان اس پر غور کریں!
سریہ کے حالات و واقعات
کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو حکم دیا کہ رات کو دُومۃ الجندل کی طرف روانہ ہوں۔ آپ کے لشکر کا پڑاؤ جُرْفْ مقام پر تھا اور وہ سات سو افراد تھے۔ جُرْف کے بارے میں لکھا ہے کہ مدینہ منورہ سے تین میل شمال کی جانب ایک جگہ تھی۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6صفحہ 94دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(فرہنگ سیرت صفحہ 114 زوار اکیڈمی کراچی)
اس سریہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ ’’اب بڑی سرعت کے ساتھ اسلامی اثر کا دائرہ وسیع ہو رہا تھا اور عرب کے دوردراز کناروں میں بھی اسلام کی تبلیغ پہنچ رہی تھی مگر اس کے ساتھ دور کے علاقوں میں مخالفت بھی بڑھ رہی تھی اور جو لوگ اسلام کی طرف مائل ہوتے تھے انہیں اپنے ہم قبیلہ لوگوں کی طرف سے سخت مظالم سہنے پڑتے تھے اور ان مظالم سے ڈر کر بہت سے کمزور طبع لوگ اسلام کے اظہار سے رکے رہتے تھے۔ اس لیے اب جنگی مہموں کی اغراض میں اس غرض کا اضافہ ہوگیا کہ ایسے قبائل کی طرف فوجی دستے روانہ کیے جائیں جن میں بعض لوگ دل میں اسلام کی طرف مائل تھے مگر مظالم کے ڈر کی وجہ سے وہ اسلام کوقبول کرنے سے رکتے تھے۔ گویا ان دستوں کے بھجوانے کی غرض مذہبی آزادی کاقیام تھا جس پر اسلام خاص طور پرزور دیتاہے۔ اس غرض وغایت کے ماتحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ شعبان 6 ھ میں ایک فوجی دستہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی کمان میں دومۃ الجندل کے دوردراز مقام کی طرف روانہ فرمایا … اسی جگہ کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی 4 ھ میں قیامِ امن کی غرض سے تشریف لے گئے تھے اوراس طرح یہ علاقہ آج سے دو سال قبل اسلامی دائرہ اثر میں داخل ہوچکا تھا اور وہاں کے باشندے اسلامی تعلیم سے غیر مانوس نہیں رہے تھے بلکہ غالباً ان میں سے ایک حصہ اسلام کی طرف مائل تھا مگراپنے رؤوسا اور اہلِ قبیلہ کی مخالفت کی وجہ سے جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ بہرحال آپؐ نے ہجری کے چھٹے سال میں ایک بڑا فوجی دستہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی امارت میں جو کبار صحابہؓ میں سے تھے دومۃ الجندل کی طرف روانہ فرمایا …
آپؐ اپنے مقرب صحابی عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا۔ ’’ابن عوف! میں تمہیں ایک سریہ پر امیر بنا کر بھیجنا چاہتا ہوں تم تیار رہو۔‘‘ چنانچہ دوسرے دن صبح کے وقت عبدالرحمٰن بن عوفؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ نے اپنے ہاتھ سے ان کے سر پر انہی کا عمامہ لے کر باندھا اور بلالؓ کو حکم دیا کہ ایک جھنڈا ان کے سپرد کر دیا جائے۔ اور پھر آپؐ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے ماتحت صحابہؓ کا ایک دستہ متعین کر کے ان سے فرمایا : …
’’اے ابنِ عوف! اس جھنڈے کو لے لو اور پھر تم سب خدا کے رستہ میں جہاد کے لیے نکل جاؤ اور کفار کے ساتھ لڑو مگر دیکھنا کوئی بددیانتی نہ کرنا اور نہ کوئی عہدشکنی کرنا اور نہ دشمن کے مُردوں کے جسموں کو بگاڑنا اور نہ بچوں کو قتل کرنا۔ یہ خدا کا حکم ہے اور اس کے نبی کی سنت۔‘‘
اس روایت میں غالباً راوی نے سہواً عورتوں کا ذکر چھوڑ دیا ہے ورنہ دوسری جگہ صراحت آتی ہے کہ آپؐ جب کوئی دستہ روانہ فرماتے تھے تویہ بھی تاکید فرماتے تھے کہ عورتوں کوقتل نہ کرنا اور نہ بوڑھے پیر فرتوت لوگوں کو قتل کرنا اور نہ ایسے لوگوں کو قتل کرنا جن کی زندگی مذہبی خدمت کے لیے وقف ہو۔
اس کے بعد آپؐ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو ہدایت فرمائی کہ وہ دُومۃ الجندل کی طرف جائیں اور کوشش کریں کہ صلح صفائی سے فیصلہ ہو جائے کیونکہ اگر وہ لوگ جنگ وجدال سے دستکش ہو کر اطاعت قبول کر لیں تو یہ سب سے اچھی بات ہے اور آپؐ نے عبدالرحمٰن بن عوف سے فرمایا کہ اگر وہ قبول کر لیتے ہیں تو ’’ اس صورت میں مناسب ہوگا کہ تم ان لوگوں کے رئیس کی لڑکی سے شادی کر لو۔ اس کے بعد آپؐ نے اس سریہ کورخصت فرمایا اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف سات سو صحابیوں کوساتھ لے کر دومۃ الجندل کی طرف جو عرب کے شمال میں تبوک سے شمال مشرق کی طرف شام کی سرحد کے قریب واقع ہے، روانہ ہو گئے۔ جب یہ اسلامی لشکر دومہ میں پہنچا توشروع شروع میں تو دومہ کے لوگ جنگ کے لیے تیار نظر آتے تھے اور مسلمانوں کو تلوار کی دھمکی دیتے تھے مگر آہستہ آہستہ عبدالرحمٰن بن عوف کے سمجھانے پر وہ اس ارادے سے باز آگئے اور چند دن کے بعد ان کے رئیس اَصْبَغْ بن عُمَر کَلْبِی نے جو عیسائی تھا عبدالرحمٰن بن عوف کی تبلیغ سے بطیبِ خاطر اسلام قبول کر لیا اور اس کے ساتھ اس کی قوم میں سے بھی بہت سے لوگ جو غالباً پہلے سے دل میں اسلام کی طرف مائل ہو چکے تھے مسلمان ہو گئے اور جو لوگ اپنے دین پر قائم رہے انہوں نے بھی بشرحِ صدر اسلامی حکومت کے ماتحت آجانا منظور کر لیا۔‘‘ زبردستی نہیں منایا کسی کو۔ بہت سارے لوگ تھے جنہوں نے قبول نہیں کیا۔ لیکن حکومت کی فرمانبرداری کا عہد کر لیا۔
’’ اس طرح بڑی خیروخوبی کے ساتھ یہ مہم اختتام کو پہنچی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق عبدالرحمٰن بن عوف دومۃ الجندل کے رئیس اَصْبَغْ بن عمر کی لڑکی تُمَاضِر کے ساتھ شادی کرکے مدینہ میں واپس لوٹ آئے اور خدا کے فضل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ کی برکت سے عبدالرحمٰن بن عوف کے ہاں اسی تُمَاضِر کے بطن سے ایک ایسا لڑکا پیدا ہوا جو خاص فدائیان اسلام میں سے نکلا اور علم وفضل کے اس مرتبہ کو پہنچا کہ وہ اپنے وقت میں اسلام کے چوٹی کے علماء میں سے سمجھا جاتا تھا۔ اس کا نام ابوسلمہ زُہْرِی تھا۔ ‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 713تا716)
ابن سعد نے ابوسلمہ زہری کے بارے میں لکھا ہے کہ كَانَ ثِقَةً فَقِيهًا كَثِيرَ الْحَدِيثِ۔ یعنی ابو سلمہ ایک ثقہ فقیہ اور کثرت سے احادیث بیان کرنے والے ہیں۔
سعید بن عاص بن اُمَیَّہ جب پہلی مرتبہ معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے والی مدینہ ہوئے تو انہوں نے ابوسلمہ کو قاضی مدینہ بنایا۔ ابوسلمہ کی عمر 72سال تھی اور94ہجری میں ان کی وفات ہوئی۔
(طبقات الکبریٰ جلد5 صفحہ118، 120 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
پھر
سریہ حضرت علی ابن ابی طالبؓ جو فَدَکْ کی طرف گیا
اس کا ذکر ملتا ہے۔ یہ سریہ شعبان چھ ہجری کو ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓکو سو آدمیوں کے ساتھ فَدَک میں بنو سعد بن بَکر کی طرف بھیجا۔ فدک کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ مدینہ سے چھ رات کی مسافت پر خیبر کے قریب ایک بستی ہے۔ سات ہجری میں غزوۂ خیبر کے موقع پر یہ علاقہ جنگ کے بغیر فتح ہو ا تھا۔ اب یہ ایک بڑا شہر ہے جہاں کھجور اور زراعت کی کثرت ہے۔ آجکل اس کو الحائط کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ بات پہنچی کہ انہوں نے ایک لشکر جمع کر رکھا ہے، ان لوگوں نے، دشمنوں نے اور وہ خیبر کے یہود کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت علیؓ رات کو چلتے تھے اور دن کو چھپتے تھے۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6صفحہ 97دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(فرہنگ سیرت صفحہ 298 زوار اکیڈمی کراچی)
( معجم المعالم الجغرافیہ فی السیرۃ النبویۃ۔صفحہ 235۔ دار مكة للنشر والتوزيع 1982ء)
اس کی تفصیل میں سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا گیا ہے کہ ’’مدینہ میں یہودی قوم پر ان کی اپنی غداریوں اور فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے جو تباہی آئی تھی وہ تمام عرب کے یہودیوں کے دل میں ایک کانٹا بن کر کھٹک رہی تھی اور غزوۂ بنوقریظہ کے بعد سے جب کہ مدینہ میں یہود کا خاتمہ ہو گیا۔ خیبر کی بستی جو حجاز کے یہودیوں کاسب سے بڑا مرکز تھی اسلام کے خلاف خفیہ سازشوں کا اڈہ بن گئی اور اس جگہ کے یہودی جو عادتاً سخت کینہ ور اور حاسد وظالم واقع ہوئے تھے اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کونیست نابود کرنے کی کوشش میں سرگرم رہتے تھے۔
… شعبان 6ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کویہ اطلاع موصول ہوئی کہ قبیلہ بنوسعد بن بکر اور خیبر کے یہودیوں میں مسلمانوں کے خلاف باہم سرگوشیاں ہو رہی ہیں اور یہ کہ بنو سعد اہل خیبر کی اعانت میں اپنی طاقتوں کو جمع کر رہے ہیں۔ اس اطلاع کے ملتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کی کمان میں صحابہ کاایک دستہ روانہ فرمایا جو دن کو چھپتے اور رات کو سفر کرتے ہوئے فدک کے پاس پہنچ گئے جس کے قریب یہ لوگ جمع ہو رہے تھے۔ یہاں مسلمانوں کوایک بدوی شخص ملا جو بنو سعد کا جاسوس تھا۔ حضرت علیؓ نے اسے پکڑ کرقید کر لیا اور اس سے بنو سعد اور اہل خیبر کے حالات دریافت کیے۔ پہلے تو اس نے بالکل لاعلمی اور بے تعلقی کا اظہار کیا مگر آخر وعدہ معافی لے کر اس نے سارا راز کھول دیا اور پھر مسلمان لوگ اس شخص کواپنا گائیڈ بنا کر اس جگہ کی طرف بڑھے جہاں بنو سعد جمع ہورہے تھے اور اچانک حملہ کر دیا۔ اس اچانک حملہ کی وجہ سے بنو سعد گھبرا کر میدان سے بھاگ نکلے اور حضرت علیؓ مالِ غنیمت لے کر مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے اوراس طرح یہ خطرہ وقتی طورپر ٹل گیا۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 716)
پھر
سریہ حضرت ابوبکرؓ
کا ذکر ملتا ہے جو بنو فَزَارَہ کی طرف تھا۔ یہ سریہ چھ ہجری میں ہوا۔ بنو فزارہ نجد میں وادی القرٰی میں آباد تھے اور وادی القرٰی مدینہ کے شمال میں شام کی طرف تقریباً تین سو پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
( معجم المعالم الجغرافیہ فی السیرۃ النبویۃؐ۔صفحہ 250۔ دار مكة للنشر والتوزيع 1982ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ 300زوار اکیڈمی کراچی)
طبقات الکبریٰ میں اور سیرت ابنِ ہشام میں لکھا ہے کہ یہ سریہ حضرت زید بن حارثہ ؓکی کمان میں بھیجا گیا تھا۔(ماخوذ از الطبقات الکبریٰ جزء 2 صفحہ 69 دار الکتب العلمیۃ بیروت)( ماخوذ از ابن ہشام صفحہ875 دار الکتب العلمیۃ بیروت) لیکن صحیح مسلم اور سنن ابی داؤد سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواس سریہ کا امیر مقرر فرمایا تھا۔ چنانچہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ اِیَاسْ بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد حضرت سَلمہ بن اَکْوَعؓ نے بیان کیا۔ ہم نے فَزَارَہ قبیلہ سے جنگ کی اور ہمارے امیر حضرت ابوبکرؓ تھے۔ آپؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر امیر بنایا تھا۔ جب ہمارے اور پانی کے درمیان، وہاں جو کنواں تھا، جو بھی پانی کی جگہ تھی ایک گھنٹے کا فاصلہ رہ گیا تو حضرت ابوبکرؓ نے حکم دیا تو ہم نے رات کے پچھلے پہر پڑاؤ کیا۔ وہاں پانی سے ایک گھنٹہ پہلے حکم دیا تو ہم نے وہاں پڑاؤ کر لیا۔ پھر ہم اور وہ پانی پر پہنچے اور انہوں نے یعنی حضرت ابوبکرؓ نے ہر طرف سے حملہ کیا اور اس پر جن کو قتل کیا ان کو قتل کیا اور قیدی بنائے اور میں لوگوں کی جماعت کو جس میں بچے اور عورتیںتھیں دیکھتا تھا۔ میں ڈرا کہ وہ مجھ سے پہلے پہاڑ پر نہ چڑھ جائیں، ان کے ساتھ جو صحابی تھے وہ ذکر کر رہے ہیں کہ ڈر تھا کہ یہ لوگ دوڑ کے پہاڑ پر نہ چڑھ جائیں اور غائب نہ ہو جائیں۔ کہتے ہیں تو مَیں نے ان کے اور پہاڑ کے درمیان تیر چلایا۔ تیر اندازی شروع کی تا کہ وہ ڈر کے پیچھے رہیں۔ جب انہوں نے تیر دیکھا تو ٹھہر گئے۔ میں انہیں ہانکتے ہوئے لایا ان میں بنی فَزَارہ کی ایک عورت تھی جس پر پرانی پوستین تھی اور اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی جو بہت خوبصورت تھی۔ میں انہیں گھیر کر لایا یہاں تک کہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس لے آیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس کی بیٹی مجھے عطیہ کے طور پر دے دی۔ ہم مدینہ آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لڑکی لے کر اسے مکہ والوں کی طرف بھجوا دیا۔ حضرت ابوبکر نے تو ان کو دی تھی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لے لی اور مکہ بھجوا دیا اور اس لیے بھجوایا کہ اس کے بدلے میں مسلمانوں کے بہت سے لوگ آزاد کروائے جائیں جو مکہ میں قید ہو گئے تھے۔ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الجھاد باب التنفیل و فداء المسلمین بالاساری۔ حدیث 4573)
اس سَرِیّہ میں مسلمانوں کا شعار اَمِتْ اَمِتْ تھا۔ حضرت سَلَمہ بن اکوع بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس دن اپنے ہاتھ سے سات آدمیوں کو قتل کیا۔ ایک روایت کے مطابق نو آدمیوں کو قتل کیا۔ (سبل الھدیٰ والرشاد جلد6صفحہ 92دارالکتب العلمیۃ بیروت)باقی انشاء اللہ آئندہ۔
اس وقت میں کچھ
مرحومین کا ذکر
کرنا چاہتا ہوں۔ پہلا ذکر ہے
مکرم طیب علی صاحب بنگالی جو درویش قادیان تھے۔
11؍ دسمبر کو ستانوے سال کی عمر میں انہوں نے وفات پائی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ بنگلہ دیش میں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ 1942ء میں آپ کو ڈھاکہ میں باقاعدہ بیعت فارم پُر کر کے احمدیت میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ 1945ء میں پہلی بار جلسہ قادیان میں شامل ہوئے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ قادیان سے اتنی محبت دل میں پیدا ہو گئی کہ پھر واپس اپنے وطن نہیں گئے۔ آپ نے وہاں قادیان میں رہ کے دو سال دیہاتی مبلغین کی خصوصی کلاس میں تعلیم حاصل کی۔ اس دوران 1947ء میں تقسیمِ ملک کا واقعہ ہوا اور آپ نے قادیان میں مقیم رہنے کے لیےدرخواست کی جو کہ منظور کر لی گئی۔
زمانہ درویشی میں ان کو مختلف مقامات پر حفاظتی ڈیوٹیاں دینے کا موقع ملا۔ صدر انجمن احمدیہ کے مختلف دفاتر میں ان کو مختلف خدمات کی توفیق ملی۔ 55ء، 56ء میں جماعت کے مالی حالات کمزور تھے۔ صدر انجمن احمدیہ قادیان نے یہ اعلان کیا کہ جو درویشان کوئی کام کر کے اپنی آمد پیدا کر سکتے ہیں انہیں اپنا کوئی روزگار تلاش کرنا چاہیے کیونکہ جماعت الاؤنس نہیں دے سکتی اور ان کا مالی بوجھ فی الحال برداشت نہیں کر سکتی۔ اس ہدایت کی روشنی میں انہوں نے دارالمسیح کے باہر بازار میں ایک چائے کی دکان کھول لی اور اکثر اوقات یہ ہوتا تھا کہ مہمانوں اور غریب لوگوں کو مفت چائے پلایا کرتے تھے۔
ان کی شادی کیرالہ کی ایک مطلقہ خاتون آمنہ صاحبہ سے ہوئی تھی۔ ان کی پہلے سے ایک بیٹی تھی۔ اس بیٹی کو انہوں نے پالا۔
کچھ عرصہ قبل ان کو گھٹنوں کی شدید تکلیف ہو گئی اور چلنا پھرنا مشکل ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے ان کو آپریشن کا مشورہ دیا لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا بلکہ دعا کی۔ بڑی گریہ و زاری سے اور بہت رِقّت اور درد سے دعا کرتے تھے۔ ایک رات یہ کہتے ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور بہشتی مقبرہ کی چند جڑی بوٹیاں کھلائی ہیں۔ اس کے بعد کہتے ہیں آہستہ آہستہ گھٹنوں کی تکلیف ختم ہو گئی اور اپنی خواہش کے مطابق یہ دوبارہ باقاعدہ نماز میں مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک میں آنا شروع ہو گئے۔ خلافت سے بےانتہا تعلق اور محبت تھی ان کو۔ کھیلوں سے دلچسپی تھی۔ اس لیے نوجوانوں کو بھی ان سے خاص تعلق تھا۔ ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔کھیل کے میدانوں میں آجاتے تھے۔ اس لحاظ سے بچوں کی تربیت بھی ہو جاتی تھی۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کے مطابق تقسیم ملک کے وقت تین سو تیرہ درویش قادیان میں مقیم رہے۔ آپ ان درویشان میں سے آخری تھے جن کی وفات ہو گئی۔ اب قادیان میں مزید کوئی درویش نہیں رہا۔ اور قادیان کا یہ جلسہ پہلا جلسہ ہے جو کسی بھی درویش کے بغیر ہو رہا ہے، آج سے شروع ہے۔ اب قادیان میں رہنے والی نئی نسل کا کام ہے کہ اپنے ان قربانی کرنے والے بزرگوں کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے وفا اور اخلاص سے قادیان میں اپنی زندگیاں گزارے۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق بھی دے۔
اگلا ذکر جو ہے وہ
مرزا محمد الدین ناز صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ ربوہ پاکستان
کا ہے۔ مرزا احمد دین صاحب کے بیٹے تھے۔ گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد صاحب کے ذریعہ سے ہوا جو ایک احمدی پٹواری حشمت اللہ صاحب کی تبلیغ سے 1942ء میں احمدی ہوئے تھے۔ محمد الدین صاحب کا نکاح سیدہ نصرت جہاں صاحبہ بنت سید عبدالہادی صاحب سے ہوا۔ ان کا ایک بیٹا تھا جو جوانی میں فوت ہو گیا۔ پھر انہوں نے ایک بھانجا اور ایک بھانجی لے کر پالے اور بچوں کی طرح ان کو رکھا۔ بھانجا بھی بیمار ہے اللہ تعالیٰ اسے شفا دے۔
1965ء میں انہوں نے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔بی اے کیا ۔کچھ عرصہ باہر نوکری بھی کرتے رہے۔ پھر جامعہ میں داخل ہوئے اور جامعہ میں داخلہ لے کر 1971ء میں جامعہ پاس کرنے کے بعد ان کی پہلی تقرری وہیں فیلڈ میں ہوئی۔ پھر ان کو استاد جامعہ مقرر کیا گیا۔ صرف و نحو پڑھاتے تھے۔ ادب اور فقہ اور تاریخ اور تصوّف بھی پڑھایا۔ جامعہ میں نائب پرنسپل کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ سینتیس سال آپ نے جامعہ میں خدمت کی توفیق پائی۔ پھر ان کا تقرر ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد تعلیم القرآن اور وقف عارضی کے طور پر ہوا۔ پھر 2018ء میں ان کو مَیں نے صدر صدر انجمن احمدیہ مقرر کیا اور آخری سانس تک اسی عہدے پر یہ قائم رہے۔
خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ میں بھی ان کو مرکزی طور پر کافی خدمات کی توفیق ملی۔ انصار اللہ میں صف دوم کے نائب صدر بھی رہے۔ ماہنامہ خالد اور ماہنامہ انصار اللہ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ 1994ء میں قریباً ایک مہینہ سے زیادہ سوا مہینہ ان کو اسیر راہ مولیٰ ہونے کی بھی سعادت ملی۔ دارالقضاء میں بطور ممبر قضا بورڈ خدمات بجا لاتے تھے۔ مجلس افتاء کے ممبر تھے۔ تدوین فقہ کمیٹی کے ممبر تھے۔ بیوت الحمد کے سیکرٹری تھے۔ عربی بورڈ کے صدر بھی رہے۔ عربی ان کی بڑی اچھی تھی۔
ان کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ ان کی ساری زندگی کا نچوڑ یہ تھا اور میں گواہ ہوں اس بات پر کہ وہ نچوڑ یہ تھا کہ محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں۔
ان کے ایک بھانجے نے بتایا کہ مجھے یاد ہے کہ ان کو مرزا ناز صاحب نے کہا کہ دس یا بارہ سال کی عمر سے میں نے تہجد شروع کی تھی اور آج تک سوائے اس کے کہ کوئی بیماری آ گئی ہو مستقل تہجد ادا کرتا چلا آ رہا ہوں۔ اسی طرح دس یا گیارہ سال کی عمر ہی میں باجماعت نماز ادا کرنی شروع کی تھی اور اس عادت پر سوائے اس کے کہ ڈاکٹروں نے منع کیا ہو یا کوئی بیماری ہو گئی ہو باجماعت نماز مسجد میں جا کے ادا کرتا تھا۔ بلکہ ان کے ایک دوسرے عزیز نے کہا کہ میں نے ان کے ساتھ ایک دفعہ رات گزاری۔ سردیوں کی راتیں تھیں، رات لمبی تھی تو میں نے دیکھا رات کو یہ اٹھ گئے اور تقریباً چار گھنٹے تک باقاعدہ لگاتار یہ تہجد پڑھتے رہے اور کہتے تھے سردیوں کی لمبی راتوں میں تو لمبی تہجد پڑھنی چاہیے۔ مرزا صاحب ان کے ماموں تھے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ دو نوافل کی بابت انہوں نے بتایا کہ خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور سے شروع کیا ہے اور پھر اس پر مستقل مزاجی سے ابھی تک عمل کر رہا ہوں۔
یہاں جلسہ پہ آتے تھے۔ بڑے اخلاص اور وفا کا اظہار کرتے تھے۔ یہاں ملتے تھے تو ہمیشہ میں نے ان کی آنکھوں میں محبت اور پیار دیکھا ہے اور اطاعت کا عمدہ معیار دیکھا ہے۔ یہاں بھی آ کے اگر کوئی ان کو بلاتا تو شرط یہ ہوتی تھی کہ میں نے نمازیں یہاں خلیفہ وقت کے پیچھے باجماعت پڑھنی ہیں۔ اگر اس سے پہلے پہلے تم مجھے پہنچا سکتے ہو تو تمہارے ساتھ جا سکتا ہوں۔ نہیں تو نہیں۔
ان کے بھائی مشتاق بیگ صاحب یہاں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ والد کی خواہش پر میرے بھائی نے اپنی زندگی جماعت کے لیے وقف کی اور آخر دم تک اس وقف کو خوب نبھایا۔ انہوں نے بی اے کی تعلیم مکمل کی کیونکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتے تھے۔ جامعہ سے فارغ ہونے کے بعد مصر کی ایک یونیورسٹی نے ان کو اعلیٰ نوکری کی پیشکش کی اور بڑی اچھی تنخواہ دینے کا اظہار کیا لیکن انہوں نے اسے ردّ کر دیا اور فرمایا کہ میں نے اپنی زندگی اللہ کی راہ میں وقف کر دی ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ ان کا جو الاؤنس تھا مربی کو صرف چالیس روپے ملا کرتا تھا۔ مشکل سے گزارہ ہوتا تھا۔
مبشر ایاز صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ ان کے کام کو ذمہ داری سے ادا کرنے کا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہتے ہیں مجھے یاد ہے کہ ہم ثانیہ یا ثالثہ میں پڑھتے تھے۔ ناز صاحب ہمیں عربی پڑھاتے تھے۔ ان دنوں ان کی ایک ہمشیرہ شاید بلڈ کینسر سے بیمار تھیں۔ ڈاکٹر نے جواب دے دیا تھا۔ جامعہ کے اندر ہی وہ ان کے پاس رہ رہی تھیں۔ خون کی بوتل ایک دن لگی۔ تووہ لگوا کے جامعہ ہماری کلاس لینے کے لیے آ گئے، کلاس مِس نہیں کی۔ ان کی اس وقت کافی حالت خراب تھی۔ وہ کہتے ہیں کلاس پڑھا رہے تھے کہ ان کا ایک عزیز آیا۔ کلاس روم کے باہر کھڑا ہوا اور انہیں بلایا۔ ناز صاحب نے اس کی بات سنی اور پھر واپس آ کے ہمیں پڑھانا شروع کر دیا اور کہتے ہیں کہ اس دن جب ہمیں پڑھا رہے تھے تو وہ عربی کی ایک نظم تھی جس میں غمگین اشعار بھی تھے۔ وہ شعر پڑھاتے ہوئے ناز صاحب کی آواز بھرا گئی اور آنکھوں سے آنسو آئے۔ اور کہتے ہیں ہمیں اس وقت بڑی حیرت ہوئی کہ ناز صاحب بڑے حوصلہ مند آدمی ہیں۔ ان کی یہ کیفیت کیوں پیدا ہوئی ہے۔ بہرحال کہتے ہیں بڑے وقار سے پوراپیریڈ پڑھایا اور پیریڈ ختم ہونے کے بعد تیزی سے کلاس سے باہر نکلے اور سیدھے اپنے گھر کی طرف چلے گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ آدمی جو ان کو کلاس کے باہر ملنے آیا، بات کرنے آیا تھا ان کا عزیز تھا جو ان کی ہمشیرہ کی انتہائی خراب حالت کے بارے میں اطلاع دینے آیا تھا لیکن ناز صاحب نے اپنے فرض کی ادائیگی کو مقدم کیا اور تدریس کے بعد گئے اور شاید تھوڑی دیر بعد ہی ان کی اس بہن کی وفات ہو گئی۔
بہت خوبیوں کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنا وقف نبھانے کا حق ادا کیا۔ خلافت سے بےانتہا اخلاص و وفا کا تعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت و رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔
تیسرا ذکر ہے ۔
مکرم اَک مرات خاکیئیف (Akmurat Khakiev) صاحب۔
یہ نیشنل صدر جماعت ترکمانستان تھے۔ ان کی گذشتہ دنوں میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
ڈاکٹر عبدالعلیم صاحب کے ذریعہ ان کو تعارف ہوا۔ راویل بخاریو صاحب اور عبدالعلیم صاحب کی مشترکہ تبلیغ سے انہوں نے بیعت کی کیونکہ ان کی تبلیغ سے دل میں وہ احمدی ہو چکے تھے لیکن بیعت نہیں کی تھی۔ 2010ء میں پہلی مرتبہ جلسہ میں شامل ہوئے اور یہاں مجھے ملے اور اس کے بعد عالمی بیعت میں حصہ لیا اور اس بات پر خوش تھے کہ میں خلیفہ وقت کے ہاتھ پر بیعت کر رہا ہوں۔
لکھنے والے کہتے ہیں کہ جب بیعت کے الفاظ دہرائے جا رہے تھے تو اخلاص و وفا اور ایمان کی مضبوطی کی وجہ سے ان کے چہرے کے آثار ایسے متغیر ہوتے جاتے تھے کہ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی اَک مرات صاحب ہیں جو کچھ دیر پہلے ہم سے ہنس ہنس کے باتیں کر رہے تھے۔ چند سال قبل ترکمانی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کا کام انہوں نے شروع کیا اور گذشتہ سال مکمل کر لیا تھا۔ گذشتہ سال جلسہ سالانہ یوکے میں شرکت کے بعد انہوں نے مجھ سے اجازت لی کہ یہاں میں زیادہ قیام کر لوں اور پھر میری اجازت کے بعد انہوں نے یہاں قیام کیا۔ نمازوں کی طرف انہوں نے ان دنوں میں خاص پابندی رکھی اس کے علاوہ قرآن کریم کے ترجمہ کو مرکزی رشین ڈیسک کی مدد سے کتابی شکل میں تیار کیا۔
اَک مرات صاحب نہ صرف ترکمانستان سے پہلے احمدی تھے بلکہ اپنی وفات تک بطور صدر جماعت احمدیہ ترکمانستان خدمت کی توفیق پانے والے بھی تھے۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں لکھا کہ میں پیدائشی مسلمان ہوں لیکن میں ایک روایتی مسلمان تھا۔ یہ سوویت یونین کا زمانہ تھا اور کمیونزم کا حامی بھی تھالیکن مخصوص اسلامی اقدار اس وقت بھی ہمارے اندر محفوظ تھیں۔ میں نے ریاضی میں تعلیم حاصل کی لیکن بنیادی طور پر میں ہمیشہ خدا کو ڈھونڈا کرتا تھا۔ کون سا خدا؟ اللہ تعالیٰ یا کوئی اَور۔ یہ الگ سوال ہے لیکن میں خدا کو ڈھونڈا کرتا تھا۔ کہتے ہیں میں بنیادی طور پر قرآن کریم کی کچھ آیات عربی میں بھی جانتا تھا۔ اپنے والد صاحب کی وفات کے بعد کہتے ہیں میں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک بزرگ آئے ہیں جو انتہائی سفید لباس میں تھے۔ وہ لباس شدید سفید تھا اتنا کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ کہتے ہیں وہی بزرگ جو آئے تھے انہوں نے ایک ہاتھ سے مجھے اشارہ کرکے اپنی طرف بلایا اور انہوں نے کچھ نہیں کہا بس مجھے اپنی طرف آنے کی دعوت دی۔ میری طرف آ جاؤ۔ کہتے ہیں یہ 2001ء کی بات ہے۔ اس کے بعد راویل صاحب اور ڈاکٹر علیم صاحب کی تبلیغ سے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا پتہ لگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی گئی تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے ہی مجھے اپنی طرف بلایا تھا۔ اس طرح انہوں نے احمدیت کو تسلیم کیا اور پھر جس طرح انہوں نے بتایا ہے 2010ء میں آکے باقاعدہ بیعت بھی کر لی۔ کہتے ہیں جو جذبات میرے اندر موجزن ہیں میری زبان ان کو ادا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ وہ روشنی جو احمدیت نے مجھے دی ہے میرا دل اسے ان تمام الفاظ سے بہت زیادہ محسوس کر رہا ہے جو اَب میں اپنی زبان میں ادا کر سکتا ہوں۔
بہت اخلاص و وفا دکھانے والے شخص تھے یہ۔ کہتے ہیں ہر خطبہ اور ہر خطاب کو اپنے دل اور اپنی روح میں سے گزارتا ہوں۔ اتنے غور سے سنتا ہوں کہ زبانی یاد ہو جاتا ہے اور پھر کہتے تھے میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کی بقا اور دنیا میں مساوی حقوق کی فراہمی جماعت احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہے۔
یہاں گذشتہ سال جلسہ سالانہ یوکے میں رکنا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ترکمانستان میں گھر میں ایک شادی ہے جس میں تمام رشتہ دار موجود ہیں۔ گھر کے سربراہ کی حیثیت سے مجھے وہاں ہونا چاہیے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت قرآن کریم کے اس ترکمانی ترجمہ کے کام سے زیادہ ضروری میرے لیے اَور کوئی کام نہیں ہے۔سب سے زیادہ یہی ہے کہ میں قرآن کریم کی خدمت کروں۔ اللہ تعالیٰ ان پر مغفرت اور رحم فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان کے بچوں کو بھی احمدیت قبول کرنے اور عمل کرنے کی توفیق دے اگر انہوں نے بیعت نہیں کی۔
نمازوں کے بعد ان کا غائبانہ جنازہ پڑھاؤں گا۔
٭…٭…٭