تقدیر الٰہی (قسط نمبر 13)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
کیا تقدیر کے ٹلنے سے کوئی نقص تو واقع نہیں ہوتا؟
(حصہ دوم)
تیسرے تقدیر خاص کے ماتحت جو خبریں دی جاتی ہیں اور انہی کے متعلق مخالفوں کو زیادہ شبہ پڑتا ہے یہ طبعی امور کے نتیجہ میں نہیں ہوتیں بلکہ روحانی امور کے نتیجہ میں ہوتی ہیں۔ مثلاً لیکھرام کے متعلق جو خبر دی گئی کہ رسول کریم ﷺ کی گستاخی کی سزا میں وہ قتل کیا جائے گا یا آتھم کی نسبت کہ وہ آپؐ کی گستاخی کی سزا میں ہاویہ میں گرایا جائے گا یا احمد بیگ اور اس کے داماد کے متعلق کہ وہ مرجائیں گے۔ تو یہ سزائیں کسی طبعی امر کے نتیجہ میں نہیں تھیں۔ اگر لیکھرام نے کوئی قتل کیا ہوا ہوتا اور کہا جاتا کہ وہ قتل کیا جائے گا تب اَور بات تھی۔ یا اسی طرح آتھم اور احمد بیگ کے متعلق کوئی ایسی سزا تجویز کی جاتی جو طبعی امور کا نتیجہ ہوتی تب اعتراض ہوسکتا تھا۔ مگر جن جرموں کے بدلہ میں سزائیں مقرر کی گئی ہیں وہ روحانی ہیں اور ایسی اخبار میں سے اگر بعض بھی پوری ہو جائیں تو وہ اس امر کا ثبوت ہیں کہ ان کے بتانے والا خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا تھا کیونکہ اگر یہ نہ ہوتا تو وہ ایسی باتیں کس طرح بتا سکتا تھا جن کا ثبوت طبعی امور میں نہیں ملتا۔ روحانی گناہوں کی سزا تو اللہ تعالیٰ ہی بتاسکتا ہے۔ دوسرا شخص ایک روحانی گناہ گار کو دیکھ کر کیا بتاسکتا ہے کہ اسے سزا کس رنگ میں ملے گی؟
اگر یہ کہا جائے کہ یہ جو تم نے بیان کیا ہے کہ بہت دفعہ ایک خبر جو دی جاتی ہے وہ موجودہ حالات کا نقشہ ہوتی ہے یعنی اس میں بتایا جاتا ہے کہ اس وقت جن حالات میں سے یہ گزر رہا ہے ان کا یہ نتیجہ ہوگا تو کیوں نہیں صاف صاف یہ بتا دیا جاتا کہ تمہاری یا فلاں شخص کی موجودہ حالت کا یہ نتیجہ ہے تاکہ لوگوں کو خوابوں اور الہاموں پر شبہ نہ پڑے۔ اگر اسی طرح صاف صاف بتا دیا جائے تو پھر لوگوں کو کوئی ابتلا نہ آئے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو جن لوگوں کے دل میں مرض ہوتی ہے ان کو ہر حالت میں شبہ پڑجاتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت صاحبؑ کی جن پیشگوئیوں میں صاف طور پر یہ شرط بتا دی گئی تھی ان پر بھی لوگ معترض ہیں۔ طاعون کی پیشگوئی میں صاف کہہ دیا گیا تھا کہ قادیان میں ایسی طاعون نہ پڑے گی کہ دوسرے گاؤں کی طرح اس میں تباہی آجائے مگر پھر بھی لوگ اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک کیس بھی یہاں نہ ہونا چاہیے تھا۔ دوسرے اس طریق کے اختیار کرنے میں ایک فائدہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس ذریعہ سے وہ اصل غرض جس کے لیے خواب یا الہام ہوتا ہے زیادہ اچھی طرح پوری ہوتی ہے۔ بات یہ ہے کہ وہ منذر خواب یا الہام جن میں آئندہ کی کوئی خبر بتائی جاتی ہے ان میں علاوہ اَور اغراض کے ایک غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بندہ جس کے متعلق اس خواب یا الہام میں کوئی خبر دی گئی ہے ہوشیار ہو جائے اور اپنی اصلاح کی فکر کرے اور اگر اصلاح نہ کرے تو اس پر حجت قائم ہو جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ (النساء:166)
یعنی ہم نے مذکورہ بالا رسولوں کو (جن کا اس آیت میں پہلے ذکر ہوا ہے)بھیجا بشارت دیتے ہوئے اور منکروں کو ڈراتے ہوئے تاکہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت نہ رہے۔
غرض انذاری پیشگوئیاں حجت کے قیام کے لیے ہوتی ہیں اور ان کے ذریعہ سے اس شخص کو جس کے خلاف وہ پیشگوئیاں کی جاتی ہیں اصلاح کا آخری موقع دیا جاتا ہے اور بصورت دیگر اس پر حجت قائم کی جاتی ہے۔ اور یہ بات ثابت ہے کہ اگر کسی شخص کو مثلاً اس کی اپنی ذات کے متعلق یہ نظارہ دکھایا جائے کہ اس کو تپ چڑھا ہوا ہے اور وہ خواب میں تپ کی تکلیف کو دیکھے تو اس پر اَور ہی اثر ہوگا۔ بہ نسبت اس کے کہ اس کو کوئی شخص کہہ دے کہ تیرے حالات ایسے ہیں کہ تجھے تپ چڑھنے کا احتمال ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو یہ بتایا جائے کہ فلاں شخص کو اس کی بے دینی کی وجہ سے سزا کا احتمال ہے تو اس کا اور اثر ہوگا بہ نسبت اس کے کہ اس کو یہ بتایا جاوے کہ اس شخص کے لیے سزا مقدر ہوچکی ہے اور جب کہ اس کے اعمال کی وجہ سے سزا مقدر ہو بھی چکی ہو تو پھر حق بھی یہی ہوگا اور اسی رنگ میں بتایا جانا ضروری ہے۔
اگر یہ شبہ کیا جائے کہ کیوں خدا تعالیٰ وہی بات نہیں بتا دیتا جو آخر میں ہونی ہوتی ہے۔ درمیانی حالت بتاتا ہی کیوں ہے کہ لوگ شبہ میں پڑ جاویں۔ تو اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں پیشگوئیوں کی غرض اصلاح ہوتی ہے۔ پس اگر تقدیر کا وہ پہلو بتایا ہی نہ جاوے جس نے بدل جانا ہے تو لوگوں کو اصلاح کی تحریک کس طرح کی جائے؟ درحقیقت تقدیر کے اس قسم کے اظہار سے ہزاروں آدمیوں کی جان بچ جاتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کا رحم اس کا محرک ہے۔ دوسرے جیسا کہ میں پہلے بتا آیا ہوں اللہ تعالیٰ کی دو صفات ہیں ایک علیم ہونا اور ایک قادر ہونا۔ اگر تقدیر کا وہی حصہ بتایا جائے جو بدلتا ہی نہیں تو اس سے خدا تعالیٰ کا علیم ہونا تو ثابت ہو جاتا مگر قادر ہونا ثابت نہ ہوتا۔ پس ایسی تقدیر کا ظاہر کرنا جو موجودہ حالات کے مطابق ہے خدا تعالیٰ کی قدرت کے اظہار کے لیے ضروری ہے۔ اس کے بغیر انسان پر اس کی قدرت کا کامل اظہار نہیں ہوسکتا۔ یہی ایک ذریعہ انسان پر قدرت الٰہی کے اظہار کا ہے کہ اس کے روحانی حالات پر خدا تعالیٰ کا ایک حکم جاری ہو اور اگر وہ حالات قائم رہیں تو اس کے ساتھ اس اظہار کے مطابق معاملہ ہو اور اگر بدل جاویں تو اس کے ساتھ معاملہ بھی بدل جاوے۔
اگر یہ کہا جائے کہ چونکہ لوگوں کو ایسی پیشگوئیوں سے ابتلا آجاتا ہے یہی بہتر تھا کہ خدا تعالیٰ اس قسم کی اخبار نہ دیا کرتا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ شریر اور مفسد کی شرارت سے ڈر کر اللہ تعالیٰ حق کو نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ بات جس سے اللہ تعالیٰ کے رحم کا اظہار اور اس کی قدرت کا ثبوت ملتا ہے اور اس کے فاعل بالارادہ ہونے کی تصدیق ہوتی ہے وہ اس کو شریروں اور مفسدوں کے اغراض کی وجہ سے کیونکر چھوڑ سکتا تھا۔ اس قسم کی اخبار دینے میں سوائے ان لوگوں کے شور کے جن کی نیت مخالفت پر پختہ ہوچکی ہوتی ہے اور کیا چیز روک ہے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
مَامَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّآ اَنْ کَذَّبَ بِھَا الْاَوَّلُوْنَ۔ (بنی اسرائیل:60)
یعنی کیا ہم اس وجہ سے کہ پہلے زمانوں میں شریر لوگوں نے ہماری آیات کی تکذیب کر دی تھی آیات کا بھیجنا بند کر دیں گے؟
پس یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے کہ وہ بات جو اس کے رحم اور اس کی قدرت کا اظہار سمجھدار لوگوں پر کرتی ہے اس کو اس لیے ترک کر دے کہ شریر کو اس پر ٹھوکر لگتی ہے۔ شریر کو ٹھوکر کیا لگنی ہے وہ تو پہلے ہی سےٹھوکر کھا رہا ہوتا ہے۔ پس اس کے خیال سے مومنوں کو فائدہ سے کیوں محروم رکھا جائے؟
میں اس جگہ ان لوگوں کی ہدایت کے لیے جو مسلمان کہلاتے ہوئے ایسی پیشگوئیوں پر معترض ہوتے ہیں خود اسلام میں سے بعض ایسی مثالیں بیان کر دیتا ہوں جن میں خدا تعالیٰ نے آخری امر کو بیان نہیں فرمایا بلکہ تدریجاً اپنے منشاء کا اظہار کیا ہے یا یہ کہ ہر ایک حالت کے مطابق اس کا انجام بتایا ہے۔ ایک مثال اس کی تو وہ عظیم الشان واقعہ ہے جو مسلمانوں میں معراج کے نام سے مشہور ہے اور جس کا تعلق اسلام کی بنیاد سے ایسا ہے کہ کوئی ذی علم مسلمان اسے نظر انداز نہیں کرسکتا۔ معراج کے ذکر میں رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ پہلے آپ کو پچاس نمازوں کا حکم ہوا۔ اور پھر حضرت موسیٰؑ کے مشورہ سے آپؐ نے بار بار عرض کر کے پانچ نمازوں کا حکم لیا۔ (مسلم کتاب الایمان باب الاسراء برسول اللّٰہ ﷺ الی السموت و فرض الصلوات) اب ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قبل از وقت معلوم تھا کہ اس طرح حضرت موسیٰؑ کہیں گے اور اس طرح ان کے مشورہ سے محمد رسول اللہ ﷺ مجھ سے تخفیف کی درخواست کریں گے۔ پس سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں خدا تعالیٰ نے پہلے پچاس نمازوں کا حکم دیا اور بعد میں ان کو پانچ سے بدل دیا۔ کیوں نہ شروع میں ہی پانچ کا حکم دیا۔ جو اس کا جواب ہے وہی ایسی پیشگوئیوں کے بدلنے کے متعلق ہمارا جواب ہے۔
دوسری مثال اس کی وہ مشہور حدیث ہے جس میں اس شخص کا ذکر کیا گیا ہے جو سب کے آخر میں دوزخ میں رہ جاوے گا اور پھر اسے اللہ تعالیٰ اس کی خواہش کے مطابق دوزخ سے نکال کر باہر کھڑا کر دے گا اور پھر وہ ایک درخت دیکھے گا اور اس کے نیچے کھڑا ہونے کی خواہش کرے گا اور خدا تعالیٰ اس سے یہ عہد لے کر کہ وہ پھر کچھ اَور طلب نہیں کرے گا اسے اس جگہ کھڑا کر دے گا۔ اور آخر ایک اور درخت کو دیکھ کر جو پہلے سے بھی زیادہ سرسبز ہوگا وہ پھر درخواست کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس کے عہد کو یاد دلا کر اور نیا عہد لے کر اس کے نیچے بھی کھڑا کر دے گا۔ آخر وہ جنت میں جانے کی خواہش کرے گا اور اللہ تعالیٰ ہنس پڑے گا اور اس کو جنت میں داخل کردے گا۔ (مسلم کتاب الایمان باب اٰخر اھل النار خروجا)اس واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ہر ایک موقع کے مطابق خبر دیتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے اس سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ آئندہ پھر اور خواہش نہیں کرے گا۔ اس سے یہی مفہوم سمجھا جاتا تھا کہ وہ اسے جنت میں داخل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرنا چاہتا تھا اور پھر اسے آہستہ آہستہ جنت کی طرف لے جانا اسی اعتراض کے نیچے آجاتا ہے کہ کیوں اس نے اسے ایک دفعہ ہی جنت میں داخل نہ کر دیا اور جو اس کا جواب ہوگا وہی اس قسم کی پیشگوئیوں کے بدلنے کا بھی جواب ہے۔
آخر میں مَیں پھر یہی بات کہوں گا کہ پیشگوئی محض اظہار تقدیر کا نام ہے اور یہ سب مسلمانوں کا مسلّمہ مسئلہ ہے کہ تقدیر ٹل جاتی ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ تقدیر کو چونکہ ظاہر کر دیا گیا ہے اس لیے تقدیر کے ٹلنے سے جو فائدہ انسان بصورت دیگر اٹھا سکتا ہے اس سے اسے محروم کر دیا جائے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ تقدیر اور اکتساب ایک ہی وقت جاری ہوتے ہیں۔ مگر تقدیر علیحدہ علیحدہ رنگ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوتی ہے اس کے ساتھ بندہ کی تدبیر مل کر انسانی اعمال مکمل ہوتے ہیں۔ اور ایک تقدیر وہ ہوتی ہے جس میں بندہ کے اعمال کا بالکل دخل نہیں ہوتا۔ لیکن یہ تقدیر اعمال کی جزا کے متعلق جاری ہوتی ہے اور اگر کبھی اعمال کے متعلق جاری ہو تو ایسے اعمال کے متعلق انسان کو کسی قسم کی پُرسش نہیں ہوتی بشرطیکہ وہ اعمال بعض دوسرے اعمال کا نتیجہ اور جزا نہ ہوں۔ حج، نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ اور جھوٹ، زنا، ڈاکہ وغیرہ سب انسان کے کام ہیں جن میں اکتساب کے طور پر اپنی مرضی کے ماتحت انسان عمل کرتا ہے اس لیے ان کے متعلق جزا و سزا کا مستحق ہے۔
باوجود اس کے ایک نادان اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھ سے خدا چوری یا زنا کراتا ہے اور نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر بدیوں کے لیے جاری نہیں ہوتی۔ وہ پاک ہے اس لیے وہ پاک ہی کام کرائے گا۔ اگر خدا کی تقدیر جاری ہوئی ہوتی تو ہر انسان سے نیک ہی کام کراتی جیسا کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ھُدٰھَا۔ (السجدۃ:14)
کہ اگر ہم جبر کرتے تو سب کو مسلمان بناتے کافر کیوں بناتے۔
پس اگر خدا کا انسان پر جبر تھا تو چاہیے تھا کہ ہر ایک سے نیک ہی اعمال کراتا۔ مگر تعجب ہے کہ انسان ناپاک فعل خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا نے مجھ سے چوری کرائی میرا اس میں کیا دخل تھا؟ حالانکہ وہ ناپاک تقدیر اپنے اوپر خود جاری کرتا ہے۔ پس یہ غلط ہے کہ خدا بھی گندی تقدیر جاری کرتا ہے تاکہ انسان برے فعل کرے۔ ہاں ایک گندی تقدیر ہے ضرور جو شیطان جاری کرتا ہے اور اس کے ماتحت اپنے چیلوں سے کام لیتا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ شیطان کا تسلط ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اس سے دوستی رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ چونکہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کے پیرو بن جاتے ہیں اس لیے خدا بھی ان کو چھوڑ دیتا ہے اور شیطان ان پر اپنی تقدیر جاری کرنا شروع کر دیتا ہے۔ پس وہ شخص جو برے فعل کر کے کہتا ہے کہ یہ کام مجھ سے خدا کراتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی سخت گستاخی کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں تو محاورہ ہے کہ جب کسی سے برا فعل سرزد ہو جاتا ہے تو کہتا ہے تقدیری امر تھا میرا کیا بس تھا۔ یہ خدا تعالیٰ کی بے ادبی اور گستاخی ہے۔ کیونکہ یہ غلط ہے کہ برے کاموں کے متعلق خدا تعالیٰ کی تقدیر جاری ہوتی ہے۔ ہاں بری تقدیر شیطان کی طرف سے ان لوگوں پر جاری ہوتی ہے جو اس کے بندے بن جاتے ہیں اور ایک وقت ان پر ایسا آتا ہے کہ اگر اس وقت چاہیں بھی کہ شیطان کے پنجے سے نکل جائیں تو آسانی سے نہیں نکل سکتے۔ یعنی وہ ایک گناہ کو چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن اس کا چھوڑنا ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر ان کی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ شیطان کے پنجہ سے چھوٹنا نہیں چاہتے اور اس کے ساتھ مل جاتے ہیں۔
…………………(باقی آئندہ)
٭…٭…٭