تقسیم ہندوستان کے بعدحضرت چودھری سرمحمدظفراللہ خان رضی اللہ عنہ کی قادیان تشریف آوری
حضرت چودھری صاحبؓ نے وَاعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ کا پنجابی میں ایسے مخصوص انداز میں ترجمہ و تفسیر بیان فرمائی کہ کیا مسلم اور کیا غیر مسلم سبھی اس برجستہ تفسیر کو سن کر وجد میں آگئے
عالمی عدالتِ انصاف کے سابق صدر اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی اور احمدیت کے فدائی حضرت چودھری سر محمد ظفرالله خان رضی اللہ عنہ مورخه یکم جنوری ۱۹۷۴ء کو زیارتِ مقاماتِ مقدسہ کی خاطر قادیان دارالامان تشریف لائے۔ آپ کے ہم راہ دیگر جماعتی معزز احباب کے علاوہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ہیگ کے رجسٹرار بھی تھے۔
عالمی شہرت یافتہ شخصیت کے بارے میں حکومتِ ہند اور حکومتِ پنجاب کو بھی خبر تھی۔ صوبائی اور مرکزی سطح پر وزرا اورحکام آپ کی پیشوائی کے لیے موجود تھے۔ معزز مہمان کے لیے سرکاری سواری اور سکواڈ کا انتظام تھا۔ ان کی نگرانی میں یہ قافلہ دو پہر محلہ احمد یہ قادیان میں پہنچا جہاں تمام احمدی احباب ایک ترتیب و تنظیم کے ساتھ قطار باندھے حضرت مولانا عبدالرحمٰن صاحب فاضل رضی اللہ عنہ ناظر اعلیٰ و امیر مقامی قادیان کی قیادت میں موجود تھے۔ جوں ہی آپ کی کار احمدیہ چوک میں پہنچ کر رُکی نعرہ ہائے تکبیر، اللہ اکبر، حضرت امیر المومنین زنده باد، حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان، زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج اُٹھی۔ پولیس گارڈ نے سلامی دی اور بینڈ پر قومی ترانہ کی دھن بجائی گئی۔ بعدازاں حضرت مولانا عبدالرحمٰن صاحب فاضل رضی اللہ عنہ نے جماعت کی طرف سے محترم چودھری صاحب موصوف کی گل پوشی کی اور آپ نے تمام احباب جماعت سے مصافحہ کیا۔ محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ساتھ کے ساتھ تمام افراد کا تعارف کراتے رہے۔
مسجد مبارک اور گلشن احمد سے حضرت چودھری صاحب موصوف پھر واپس احمدیہ چوک تشریف لے گئے جہاں پر میونسپل کمیٹی کے عہد یداران اور شہر کے غیر مسلم معززین آپ کو خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثر نے آپ کی گل پوشی کی اور مسرت کا اظہار کیا۔ چودھری صاحب موصوف نے تمام غیر مسلموں کو مخاطب ہو کر فرمایا:’’میرے دل میں آپ سب کے لیے محبت ہے اور میں انسانیت کا خادم ہوں۔‘‘
اس کے بعد آپ نے مسجد مبارک میں دو رکعت نفل نماز ادا کی بعدہٗ دارالمسیح میں تشریف لے گئے جہاں حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کے مکان پر آپ کی رہائش کا انتظام تھا۔
دوسرے دن دوپہر مدرسہ تعلیم الاسلام کے صحن میں حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان رضی اللہ عنہ کے اعزاز میں ایک شایانِ شان استقبالیہ تقریب کا انعقاد عمل میں آیا۔ تلاوت قرآن کریم و نظم خوانی کے بعد محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے سپاس نامہ پیش کرنے سے قبل فرمایا:اس وقت میں احباب کے سامنے وہ استقبالیہ ایڈریس پیش کرنے لگا ہوں جو یہاں کی جماعت قادیان کی طرف سے چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس سے قبل میں دو امور کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ایک تو یہ کہ حضرت چو ہدری صاحب موصوف تقسیم ملک کے ساڑھے چھبیس سال بعد پہلی مرتبہ اس مقدس بستی میں تشریف لائے ہیں۔ اس مبارک بستی کی زیارت کی توفیق پانے پر ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔ محترم چودھری صاحب کے ہمراہ عالمی عدالت انصاف کےرجسٹرارجناب STANISLAS AQUARONEبھی آپ کی دعوت پر تشریف لائے ہیں۔محترم رجسٹرارصاحب آ سٹریا کے باشندہ ہیں اور ایک عرصہ سے عالمی عدالت انصاف کے رجسٹرار کی حیثیت سے خدمات بجا لا رہے ہیں۔ یہ عرصہ سے اسلام کا مطالعہ کر رہے ہیں اور اسی سلسلہ میں پہلے یہ ربوہ کے جلسہ سالانہ پر پہنچے اور اب محترم چودھری صاحب موصوف کی دعوت پر قادیان تشریف لائے ہیں۔ محترم چودھری صاحب کے ہمراہ محترم بشیر احمد صاحب رفیق امام مسجد احمدیه لنڈن اور بعض دوسرے ممالک کے احمدی معززین بھی زیارتِ مقاماتِ مقدسہ کی غرض سے تشریف لائے ہیں۔ میں ان سب کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میں اپنی مرکزی حکومت کا شکر گزار ہوں جس نے محترم چودھری صاحب موصوف کو ویزہ جاری کرنے میں فرا خدلانہ کارروائی کی۔ اس کے بعد محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے سپاس نامہ پیش کیا جس میں آپ کے اوصافِ کریمانہ، دعوت الی اللہ اور عالمی سطح پر انسانیت کی خدمات کا تذکرہ تھا۔ حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے سپاس نامہ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد نے اپنی طرف سے اور جماعت کے احباب کی طرف سے اپنی محبت ، اخلاص، اور حسنِ ظن کو جن الفاظ میں بیان فرمایا ہے میں اس کے لیے نہایت ممنون ہوں اور میرا دل تشکر کے جذبات سے لبریز ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی میرا دل ندامت کے احساس سے بھی لبریز ہے کہ میں اپنے اندر کوئی خوبی نہیں پاتا۔ اس وقت میں صرف یہی عرض کروں گا کہ کاش ! میں وہی ہوتا جو انہوں نے بیان فرمایا ہے۔
آپؓ نے فرمایا میں نہایت عاجز انسان ہوں۔ اپنے عجز کو دیکھتا ہوں اور اس کے مقابلہ میں اس محبت کو دیکھتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں میرے لیے پیدا کی ہے تو میرا سر ندامت کے ساتھ الله تعالیٰ کے حضور جھک جاتا ہے۔ میرا یہ سفر قادیان کی مقدس بستی اور شعائر اللہ کی زیارت کی غرض سے میری بہت سی آرزوؤں کو پورا کرنے والا ہے جو عرصہ دراز سے میرے دل میں موجزن تھیں۔ لیکن چونکہ ہر کام کے لیے ایک وقت اللہ کی طرف سے مقدر ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے ساڑھے چھبیس سال کے بعد یہ موقع عطا فرمایا کہ میں اس مبارک و مقدس بستی کی زیارت کروں۔ الحمدلله
وقت کے تقاضا کے لحاظ سے میں مختصر اًہی کچھ گذارش کرسکوں گا اور اگر مجھے زیادہ وقت بھی مل جاتا تو میں اپنی طبیعت پر قابو نہ پا سکتا اور تفصیل کے ساتھ کچھ بیان نہ کر سکتا۔ اس مبارک بستی کی زیارت کے بعد جذبات کی رقت مجھے کچھ زیادہ عرض کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ میں نے واہگہ بارڈر کے اس طرف قدم رکھتے ہی اپنے جذبات میں ایک تلاطم محسوس کیا۔اور وہاں احباب جماعت کے پر خلوص استقبال کو دیکھ کر اور ساتھ ہی مرکزی اور پنجاب کی حکومتو ں کی طرف سے انتظامات کو دیکھ کر مجھے بے حد مسرت حاصل ہوئی۔ میں جس فرد سے بھی ملا اس نے اس قدر محبت اور تواضع کی کہ میں ان سب کا شکر گزار ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے۔
اب میں محترم صاحبزادہ صاحب کی تقریر کے جواب میں کچھ عرض کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں امت مسلمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے ’’کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ‘‘۔کہ تم ہی بہترین امت ہو کیونکہ تم لوگ ہی بنی نو انسان کی خدمت کرتے ہو اور برائیوں سے روکنے کی کوشش کرتے ہو۔ گویا اللہ تعالیٰ نے امت اسلامیہ کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ تم اپنی زندگیوں کو دو کاموں میں ہمیشہ لگائے رکھو۔ ایک تو نیکی کی تلقین کرتے رہو اور دوسرے برائیوں سے روکتے رہو۔ ایک انسان جب دوسروں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک صورت تو یہ ہوتی ہے کہ وہ عملی مظاہرہ کے ذریعہ دوسروں کے لیے ایک نمونہ بن جاتا ہے اور دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ اپنی زبان کو استعمال کرتا ہے اور یہ دونوں ہی صورتیں اختیار کرنے کے لیے مو منوں کو حکم دیا گیا ہے اور اس امر کو نہایت واضح رنگ میں بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سورہ حج کی آخری آیت میں فرماتا ہے: وَتَکُوۡنُوۡاشُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ ؕ ہُوَ مَوۡلٰٮکُمۡ ۚ فَنِعۡمَ الۡمَوۡلٰی وَنِعۡمَ النَّصِیۡرُاس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے اس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تمام انسانوں پر گواہ ٹھہرایا ہے اس طرح کہ وہ ایک تو اپنے عمل کے ذریعہ سے دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ایک نمونہ ہے اور اپنے کامل اسوہ کے ذریعہ سے بنی نوع انسان کو نیکی کی تلقین کرتا اور برائیوں سے روکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بڑے ہی لطیف پیرایہ میں لوگوں کو بتایا ہے کہ ہمارا رسول تمہاری طرح کا ہی ایک انسان ہے جو نیکی اور ہدایت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہے انسان ہونے کی حیثیت سے تم بھی اس کا نمونہ اختیار کرکے اور اس کی پیروی کرکے اپنے آپ کو نیکی کے مقام پر فائز کر سکتے ہو۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرما یا ہے’’ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ ‘‘اور اس طرح بنی نوع انسان پر ایک حجت قائم ہوئی ہے کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے محبوب بن سکتے ہیں تو ہر انسان آپ کا اسوہ اختیار کرکے کیوں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرسکتا۔ پس فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب انسانوں پر گواہ ہیں اپنے قول سے بھی اور اپنے عمل سے بھی۔ اس کے ساتھ بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم بھی اپنے اندر اسوہ رسول کو پیدا کر کے بنی نوع انسان کے لیےہدایت کا موجب بن سکتے ہو تم اپنے چراغوں کو رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے چراغ سے روشن کرو اور پھر اپنے چراغ سے دوسروں کے چراغوں کو روشن کرتے چلے جاؤ پھر دیکھو کہ کس طرح دنیا سے تاریکی اٹھ جاتی ہے اور ساری دنیا نیکی ، تقوی اور امن کی روشنی سے منور ہو سکتی ہے۔
آپؓ نے فرمایا میں اس آیت کو آپ کے سامنے پیش کرکے عرض کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے ماتحت ایک انقلاب تقسیم ملک کا برپا کیا۔ اور وہی اپنی حکمتوں کو سمجھنے والا ہے۔ اور پھر آپ اہل قادیان کو یعنی جماعت کے صرف ایک قلیل حصہ کو قادیان میں بٹھا دیا اور یہ سب کچھ خدائی تقدیروں کے ماتحت عمل میں آیا۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے الہامات میں بھی یہ انتباہ موجود تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ جماعت کے اکثر حصہ کو قادیان چھوڑنا پڑے گا اور ہجرت کا داغ اٹھانا ہو گا۔
سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک رؤیا بھی بہت واضح رنگ میں اس طرف اشارہ کر رہا تھا کہ جماعت کی اکثریت کو ایک وقت میں قادیان کو چھوڑنا ہوگا اور صرف ایک چھوٹا سا حصہ جماعت کے پاس رہ جائے گا۔ انقلاب کی اس مصیبت کے وقت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ایک نشان دکھایا اور آپ لوگ جو درویش کہلاتے ہیں یہیں قادیان میں رہنے اور اس کے مقدس مقامات کو آباد رکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ آپ رسول کریم صلی علیہ وسلم کے اسوہ پر چل کر اپناایسا نمونہ پیش کریں کہ ساری دنیا پکار اٹھے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے عمل اور نمونہ اور تلقین سے خدا تعالیٰ کی ہستی کو ثابت کر دیا ہے اور بنی نوع انسان کی ایسی خدمت کی ہے کہ انہوں نے اس کا حق ادا کر دیا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے یہ حق تبھی ادا ہوسکتا ہے کہ آپ میں سے ہر شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر قائم ہوجائے اور پھر اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ پر عمل کر کے نمازوں کو اس طرح قائم کرے کہ وہ محض خدا کا ہوجائے اور اٰتُوا الزَّکٰوۃَ کے ذریعہ اپنے اموال کو اس طرح خرچ کرے کہ اپنے اموال کو گویا اللہ تعالیٰ کے حوالے کردے اور سب سے زیادہ یہ کہ آپ میں سے ہر شخص وَاعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ پراس رنگ میں عمل کرے کہ اس کے شب و روز اللہ تعالیٰ کے قرب میں بسر ہوں اور یوں معلوم ہو کہ آپ میں سے ہر شخص خدا تعالیٰ سے لپٹا ہوا اور چمٹا ہوا ہے۔ اور جب انسان یہ رنگ اختیار کر لیتا ہے تو وہ بنی نوع انسان کا خادم بن جاتا ہے۔
اس موقع پر حضرت چودھری صاحب نے وَاعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ کا پنجابی میں ایسے مخصوص انداز میں ترجمہ و تفسیر بیان فرمائی کہ کیا مسلم اور کیا غیر مسلم سبھی اس برجستہ تفسیر کو سن کر وجد میں آگئے۔ آپ نے ایک بزرگ احمدی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت کریمہ کے پنجابی میں معنی یہ ہیں کہ تم خدا کو جپھا پالو یعنی اس سے اس طرح پر مضبوطی سے چمٹ جاؤ کہ بس وہ تمہاری دعاؤں کو قبول ہی کرے۔
آپ نے فرمایا میں اپنے درویش بھائیوں سے کہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ نے ہم میں سے یعنی ساری جماعت میں سے چن کر اس اعزاز کے مقام پر کھڑا کر دیا ہے اور یہ آپ کی بہت بڑی خوش قسمتی ہے اتنی بڑی کہ ہمارے لیے قابل رشک ہے اور آپ کو اس لیے یہ مقام بخشا گیا ہے کہ “وَتَکُوۡنُوۡاشُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ کہ آپ تمام لوگوں پر گواہ بن جائیں اور تمام لوگ آپ پربھی گواہ بن جائیں کہ انہوں نے آپ کا نیک نمونہ دیکھ کر خدا کی ذات کو پا لیا۔ آخر میں آپ نے فرمایا کہ وہ تمام احمدی اور غیر مسلم دوست جنہوں نے کسی بھی رنگ میں مجھ سے محبت اور تواضع کا سلوک فرمایا ہے میں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں بعد ازاں حضرت مولانا عبدالرحمٰن صاحب فاضل نے اجتماعی دعا فرمائی اور جلسہ برخاست هوا۔ (ماخوذ از ہفت روزہ بدرقادیان ۳؍جنوری۱۹۷۴ء)
راقم الحروف شروع سے آخر تک اس تقریب میں موجود تھا۔
(مرسلہ: علامہ محمد عمر تیما پوری۔ میسور انڈیا)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: حضرت سر چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کا ویڈیو پر ریکارڈ شدہ واحد انٹرویو