مکرم و محترم شیخ مبارک احمد صاحب ناظر دیوان صدر انجمن احمدیہ ربوہ پاکستان وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
احبابِ جماعت کوبہت دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ جماعت احمدیہ کے مخلص اور دیرینہ خادم اور واقفِ زندگی مکرم و محترم شیخ مبارک احمد صاحب ناظر دیوان صدر انجمن احمدیہ ربوہ پاکستان مورخہ ۱۱؍جنوری ۲۰۲۵ء بروز ہفتہ صبح تقریباً سوا سات بجے فضل عمر ہسپتال ربوہ میں بعمر ۷۸ سال وفات پاگئے۔ انا للہ و انا إلیہ راجعون
آپ نے معمول کے مطابق ۱۱؍جنوری کی صبح فجر کی نماز ادا کی اور تلاوتِ قرآن مجید سنی۔ عام طور پر آپ ناشتہ کر کے ۸، ۹ بجے تک اپنے دفتر تشریف لے جاتے تھے۔ آپ کے تلاوت سننے کے وقت کے بعد آپ کی اہلیہ صاحبہ کمرے میں گئیں تو آپ کا ہاتھ سینے پر تھا اور ہاتھ لگانے پر محسوس ہوا کہ ان کا جسم ٹھنڈا ہے، فوری طور پر آپ کو طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ لے جایا گیا، لیکن ڈاکٹرز نے کہا کہ ان کی وفات ہارٹ فیل ہونے کی وجہ سے فجر کے بعد گھر پر ہی ہو چکی تھی۔
آپ کی نماز جنازہ اگلے روز مورخہ ۱۲؍جنوری بروز اتوار صبح گیارہ بجے احاطہ دفاتر صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے سبزہ زار میں ادا کی گئی۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ تدفین بہشتی مقبرہ دارالفضل ربوہ کے قطعہ بزرگان میں کی گئی اور قبر تیار ہونے پر اجتماعی دعا ہوئی۔ اس موقع پر کثیر تعداد میں احباب تشریف لائے۔
محترم شیخ مبارک احمد صاحب کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے دادا مکرم شیخ محمد الدین صاحب کے ذریعے ہوا جنہوں نے ۱۹۳۸ء میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی۔ محترم شیخ مبارک صاحب کے والد صاحب نے ۱۹۴۰ء میں بیعت کی۔ اس طرح شیخ مبارک صاحب پیدائشی احمدی تھے۔ آپ کی والدہ مکرمہ امینہ بیگم صاحبہ (وفات: اگست ۲۰۱۱ء) نیک، خدمت دین کا جذبہ رکھنے والی مخلص اور فدائی خاتون تھیں۔ آپ کے والد کی وفات ۱۹؍جولائی ۱۹۹۱ء میں ہوئی۔ مکرم شیخ مبارک صاحب مورخہ ۲؍نومبر ۱۹۴۷ء کو مغلپورہ لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم ربوہ سے حاصل کی اور میٹرک کا امتحان بھی ربوہ سے پاس کیا۔ آپ نے ۱۹۶۹ء میں بی اے اور ۱۹۷۱ء میں ہی ایڈ کی ڈگری حاصل کی اور ۸؍جنوری ۱۹۶۶ء تا ۱۹۸۱ء تقریباً پندرہ سال تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے۔ ۱۹۶۷ء میں آپ کو وصیت کرنے کی توفیق ملی۔
۱۹۷۶ء میں آ پ کا تبادلہ کچھ وقت کے لیے ساہیوال میں ہوگیا۔ ان دنوں میں آپ مہتمم مال مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی خدمت بھی انجام دے رہے تھے۔ اس خدمت کو جاری رکھنے کے لیے آ پ ہر جمعے کی رات کو ربوہ آتے اور سوموار کی صبح کو واپس تشریف لے جاتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا نکاح مورخہ ۱۰؍مارچ ۱۹۷۶ء کو مکرمہ قدسیہ پروین صاحبہ بنت مکرم قریشی محمود صاحب والٹن لاہورکے ساتھ بعد نمازِ عصر پڑھایا اور ۱۹؍جون ۱۹۷۶ء کو شادی عمل میں آئی۔ ۱۹۸۱ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریک فرمائی تھی کہ گریجویٹ خدام اپنی زندگی وقف کریں۔ آپ نے اس تحریک پر عمل کرکے اپنی زندگی وقف کرنے کا فیصلہ کیا اور ملازمت سے فراغت اختیار کرلی۔ آپ نے جب سکول کی ملازمت سے استعفیٰ دیا تو اس وقت کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا کہ استعفیٰ نہ دو، میں آپ کو طبی بنیاد پر پنشن دلوا دیتا ہوں۔ آ پ نے ان کو کہا کہ مَیں جس نیک کام کے لیے استعفیٰ دے رہا ہوں اس کی بنیاد جھوٹ پر نہیں رکھی جاسکتی، اس لیے مجھے پنشن کی ضرورت نہیں ہے۔
۲؍نومبر ۱۹۸۱ء کو آپ نے وقف زندگی کے لیے درخواست دی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جنوری ۱۹۸۲ء میں آپ کا وقف منظور فرمایا۔ بعد ازاں ۱۹۸۲ء ہی میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نائب سیکرٹری دفتر صد سالہ جوبلی مقرر فرمایا، اس خدمت پر آپ ستمبر ۱۹۸۹ء (ساڑھے سات سال) تک فائز رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے ۱۹۸۵ء میں آپ کو نائب ناظر کا گریڈ ملا۔ اکتوبر ۱۹۸۹ء میں آپ کا تقرر بطور نائب وکیل المال اول تحریک جدید ہوا، یہاں ساڑھے چار سال تک خدمت کا موقع ملا اور ۱۹؍مارچ ۱۹۹۴ء میں آپ ایڈیشنل ناظر بیت المال آمدصدر انجمن احمدیہ مقرر ہوئے، اس حیثیت سے آپ نے آٹھ سال تک خدمت کی توفیق پائی۔ فروری ۲۰۰۲ء تا اگست ۲۰۱۷ء آپ کوبطور ناظر بیت المال آمد خدمت کی توفیق ملی۔ ۱۹؍اگست ۲۰۱۷ء سے فروری ۲۰۲۲ء تک ناظر اصلاح و ارشاد، رشتہ ناطہ کام کرتے رہے، ۱۰؍فروری ۲۰۲۲ء تا وفات آپ کو بطور ناظر دیوان صدر انجمن احمدیہ ربوہ پاکستان خدمت کی سعادت ملی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آخری دم تک خدماتِ سلسلہ انجام دینے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس طرح آپ کو جنوری ۱۹۸۲ء تا جنوری ۲۰۲۵ء (پورے۴۳سال تک) مسلسل خدمت کی توفیق ملی۔ جب آپ ناظر بیت المال آمد تھے اس دوران آپ نے اپنے شعبہ کے تحت پاکستان بھر کےخوب دورہ جات کیے اور مختلف اضلاع، شہروں اور جماعتوں میں تحریص و ترغیب چندہ جات اور ٹارگٹ کے حصول کےلیے سینکڑوں جلسے اور پروگرام منعقد کروائے۔ ایک مرتبہ آپ لاہور دورے پر تشریف لے جارہے تھے، بہت اہم جلسہ تھا اور وہاں اطلاع بھی دی جاچکی تھی کہ آپ آئیں گے۔ راستے میں سکھیکی شہر کے پاس آپ کو ہارٹ اٹیک ہوگیا، لیکن آپ نے دینی کام کے لیے سفر جاری رکھا اور لاہور جلسے اوربعد میں ہونے والی میٹنگ میں شرکت کی، سب کام نپٹا کے ربوہ تشریف لے آئے۔ واپس آکر طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو علاج کے لیے ہسپتال گئے جہاں آپ کو داخل کرلیا گیا۔ اس دوران آپ کے دل کی آرٹریز بند ہونے کی وجہ سے تین سٹنٹ ڈالے گئے۔ ڈاکٹرز حیران تھے کہ اس حالت میں اتنا لمبا سفر کیسے کیا! سچ ہے کہ جو خدمتِ دین کے لیے نکلے، اللہ تعالیٰ اس کی خود حفاظت فرماتا ہے۔
کسی نے آپ سے سوال پوچھا کہ کیا کوئی شخص محنت سے ترقی کرسکتا ہے؟ تو آپ نے جواب میں کہا کہ ذاتی محنت کوئی حیثیت نہیں رکھتی، سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو مذکورہ بالا خدمات کے علاوہ کئی شعبوں میں خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ آپ لمبے عرصے تک ناظم سپلائی جلسہ سالانہ کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی عاملہ کے مختلف شعبہ جات میں ۱۹۷۲ء تا ۱۹۸۷ء (۱۵سال تک ) خدمات سر انجام دینے کی توفیق ملی، ان کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے: مہتمم صنعت و تجارت (ایک سال)، محاسب(ایک سال)، مہتمم مال (تین سال)، مہتمم تحریک جدید (ایک سال)، مہتمم تجنید (ایک سال)، مہتمم امور طلبہ (ایک سال)، مہتمم تحریک جدید (تین سال)اور محاسب (چار سال)۔
آپ نے مجلس انصاراللہ پاکستان میں بطور قائد وقف جدید ۱۹۸۹ء تا ۱۹۹۱ء (تین سال) اور قائد تجنید ۱۹۹۲ء۔ ۱۹۹۳ء خدمات انجام دیں۔
محترم شیخ مبارک احمد صاحب بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک تھے۔ آپ تقریر اور تحریر کے ماہر تھے۔ آپ نےچند کتب تصنیف و تالیف کیں جن میں ’’مالی نظام‘‘ (چہار حصص) اور ’’العصر ڈائری‘‘ نمایاں ہیں۔ آپ نے اپنے اور اپنے خاندان کے تعارف پر مشتمل کتاب ”میری یادداشتیں“ بھی تحریر کی۔
آپ شروع ہی سے نماز تہجد کی پابندی کرتے تھے۔ جب تک صحت رہی پنجوقتہ نماز باجماعت مسجد مبارک میں ادا کرنے تشریف لے جاتے۔ آپ حسنِ اخلاق کا مجسمہ تھے۔ خاموش طبیعت کے مالک، ناپ تول کر بات کیا کرتے تھے، کوئی زائد بات آپ کی زبان پر کبھی نہ آتی۔ ہمدردی مخلوق میں ہمہ تن مصروف رہتے۔ کوشش ہوتی کہ کوئی خالی ہاتھ نہ جائے۔ واقفینِ زندگی اور مربیان کے ساتھ بہت پیار کا سلوک تھا۔ ہر ایک کی بات مان لیتے۔ وقت اور اصول کی پابندی آپ کی شخصیت کا لازمی جزو تھا۔ جماعتی خدمات میں ہمہ وقت مستعد رہتے تھے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا ایک نمونہ تھے۔ پہلے جماعتی کام پھر اپنے گھر کے ذاتی کام انجام دیتے۔ آپ نے اپنی والدہ کی بہت خدمت کی اور دعائیں لیں، ان کا ہر حکم ماننا اپنا فرض سمجھتے تھے۔
خلافت کی کامل وفاداری اور اطاعت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ طبیعت میں متانت، نرم مزاجی اور ٹھہراؤ پایا جاتا تھا۔ اگر کسی جگہ بلا ضرورت باتیں اور بحثیں ہوتیں تو وہاں نہ بیٹھتے اور نہ فضولیات میں حصہ لیتے۔ کسی بات کو بھی کج بحثی اور لڑائی جھگڑے کی طرف نہ جانے دیتے۔ کوشش کرکے صلح صفائی سے کام چلاتے۔ تدریس کے زمانے میں غریب بچوں کا خیال رکھنا اور ان کی امداد کرنا آپ کی عادات میں شامل تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں کسی طالبعلم کو ٹیوشن نہیں پڑھاتے تھے بلکہ رخصتوں میں جماعتی کاموں کو ترجیح دیتے۔جلسہ سالانہ کے لیے مختلف نوعیت کے سامان کی خریداری کے لیے سخت گرمی میں سفر کرکے دوسرے شہروں میں جایا کرتے تھے۔ آپ کے زمانے کے سکول میں کولیگ اور ساتھی مکرم ماسٹر محمد حسین صاحب آف ناصر آباد ربوہ نے بتایا کہ آپ بہت لائق اورمتعدد خوبیوں کے مالک استاد تھے۔ آپ ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملتے۔ ان کے ساتھ اس دور میں پیار کا تعلق رہا، ان کو کبھی لڑائی جھگڑا کرتے یا اونچی آواز میں بولتے نہیں دیکھا۔ تعلیمی امور میں اکثر میری راہنمائی کرتے رہتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کو آپ پر بہت اعتماد تھا۔ جب سکول کو قومیایا گیا تو حضورؒ نے آپ کو اس زمانے میں پچاس ہزار روپے عنایت فرمائے اور فرمایا کہ اس رقم کو سکول کے بچوں کی بہبود پر خرچ کریں۔ آپ نے عرض کیا کہ حضور! سکول تو اب نیشنلائز ہوگیا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ سکول بے شک نیشنلائز ہوگیا ہے لیکن جو بچے وہاں پڑھ رہے ہیں وہ تو ہمارے ہیں۔
لواحقین میں آپ کی اہلیہ، ایک بیٹا مکرم محبوب عالم خالد صاحب (انچارج شعبہ آئی ٹی)، چھ بیٹیاں مکرمہ فریحہ دردانہ صاحبہ اہلیہ ظفر احمد صاحب جرمنی، مکرمہ ریحانہ صاحبہ، مکرمہ عالیہ رفعت صاحبہ اہلیہ مکرم شیخ قدرت اللہ سہیل صاحب، مکرمہ عمرانہ احمد صاحبہ کینیڈا، مکرمہ آمنہ ایمن صاحبہ اہلیہ شیخ حسان محمود صاحب (مربی سلسلہ) اور مکرمہ نائلہ مبارک صاحبہ اہلیہ عطاء الرؤف خان صاحب ناروے شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کے اس مخلص خادم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل کی توفق بخشے۔ آمین