حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھنا ضروری ہے

ایک واقعہ حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں جو خواجہ کمال الدین صاحب سے متعلق ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی تھی لیکن پھر خلافت ثانیہ کے انتخاب کے وقت فتنہ میں مبتلا ہو گئے اور غیرمبائعین کے لیڈروں میں سے ہو گئے۔ بہرحال ان کو لیڈری چاہئے تھی وہ ان کو وہاں مل گئی۔ ان کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے کہ انہوں نے اپنے علم کو کس طرح بڑھایا تھا اور ان کے اچھے لیکچروں اور تقریروں کا راز کیا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’خواجہ کمال الدین صاحب کی کامیابی کی بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کر کے ایک لیکچر تیار کرتے تھے۔ پھر قادیان آ کر کچھ حضرت خلیفہ اولؓ سے پوچھتے اور کچھ دوسرے لوگوں سے اور اس طرح ایک لیکچر مکمل کر لیتے۔ پھر اسے لے کر ہندوستان کے مختلف شہروں کا دورہ کرتے اور خوب کامیاب ہوتے۔‘‘حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’خواجہ صاحب کہا کرتے تھے کہ اگر بارہ لیکچر آدمی کے پاس تیار ہو جائیں تو اس کی غیر معمولی شہرت ہو سکتی ہے۔‘‘آپ فرماتے ہیں کہ ’’خواجہ صاحب نے ابھی سات لیکچر تیار کئے تھے کہ ولایت چلے گئے۔ (یہاں انگلستان آ گئے۔) لیکن وہ ان سات لیکچروں سے ہی بہت مقبول ہو چکے تھے۔‘‘حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک لیکچر بھی اچھی طرح تیار کر لیا جائے تو چونکہ وہ خوب یاد ہوتا ہے اس لئے لوگوں پر اس کا اچھا اثر ہو سکتا ہے۔‘‘پس پہلی چیز تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب ہیں جن کوپڑھنا ضروری ہے۔ پھر اس کو سمجھنا اور آگے اس سے لے کر لیکچر تیار کرنا۔ حضرت مصلح موعودؓ پھر تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’پہلے زمانے میں اسی طرح ہوتا تھا کہ ’’صَرف میر‘‘کا الگ استاد ہوتا تھا۔ ’’نحو میر‘‘کا الگ استاد ہوتا تھا۔ ’’پکی روٹی‘‘ کا الگ استاد ہوتا تھا اور ’’کچی روٹی‘‘کا الگ استاد ہوتا تھا۔ (اب ایک زمانہ دوبارہ آ گیا ہے جہاں سائنس نے ترقی کی ہے تو پھر یہ تخصّص، specialities اور specialisationکا زمانہ شروع ہو چکا ہے۔) آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’چاہئے بھی اسی طرح کہ جو لیکچرار ہوں ان کو مضامین خوب تیار کر کے دئیے جائیں اور وہ باہر جا کر وہی لیکچر دیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سلسلے کے مقصد کے مطابق تقریریں ہوں گی اور ہمیں یہاں بیٹھے بیٹھے پتا ہو گا کہ انہوں نے کیا بولنا ہے۔ اصل لیکچر وہی ہوں گے اس کے علاوہ اگر مقامی طور پر ضرورت ہو تو تائیدی لیکچروں کے طور پر اور وہ کچھ کسی مضمون پر بھی بول سکتے ہیں۔‘‘(الفضل مورخہ ۷؍نومبر ۱۹۴۵ء جلد ۳۳نمبر ۲۶۱صفحہ ۳)

پس یہ رہنما اصول مبلغین کے لئے بھی ہے اور داعیین الی اللہ کے لئے بھی اور ان لوگوں کے لئے بھی جو علمی نشستوں میں جاتے ہیں۔ اگر لیکچر اس طرح تیار کیا گیا ہو تو بڑے بڑے پروفیسر اور بعض نام نہاد دین کے عالم اور بعض ایسے لوگ جو دین پر اعتراض بھی کرتے ہیں وہ بھی متأثر ہوتے ہیں۔

(خطبہ جمعہ ۸؍جولائی ۲۰۱۶ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۹؍جولائی ۲۰۱۶ء)

مزید پڑھیں: دعا کے لئے صبر سے مانگتے چلے جانے کی شرط ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button