خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم دسمبر۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:آنحضرتﷺ کے غزوات کے حوالے سے کچھ بیان کروں گا۔ آپؐ کی شخصیت کے پہلو اور آپؐ کا اسوہ ان حالات میں کس طرح ہمارے سامنے آتا ہے… آپﷺ کا اسوہ اس تعلیم کی روشنی میں ہر پہلو پر حاوی اور اس کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا تھا۔ جیساکہ میں نے کہا کہ آپؐ کے غزوات میں آپؐ کا طریق اور اسوہ کیا تھا۔ اس بارے میں جنگ بدر کے علاوہ باقی غزوات کے بارے میں بھی بیان کروں گا…آج احد کے حوالے سے کچھ بیان کروں گا۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ احدکےاسباب کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:سیرت خاتم النبیینؐ میں غزوۂ احد کی تاریخ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے پندرہ شوال تین ہجری ۳۱؍مارچ ۶۲۴عیسوی بروز ہفتہ بیان کی ہے۔ اس کی مزید تفصیل اس طرح ہے۔ اس غزوہ کا سبب یہ ہوا کہ جب غزوہ بدر میں قریش کو ایک عبرتناک شکست ہوئی تو قریش کے سرکردہ لوگوں میں سے جیسے عبداللہ بن ابی ربیعہ، عِکْرِمَہ بن ابوجہل اور صَفْوَان بن امیہ، اسود بن مُطَّلِب، جُبیر بن مُطْعَم، حارث بن ہشام، حُوَیطَبْ بن عبدالعُزّٰی اور قریش کے کچھ دوسرے سرکردہ ابوسفیان کے پاس آئے جن کا اس تجارتی قافلے میں مال تھا جو جنگ بدر کا سبب بنا تھا۔ یہ تجارتی مال مکہ میں لا کر حسب دستور دارالندوہ میں رکھ دیا گیا اور ان کے مال کوان تک نہیں پہنچایا گیا کیونکہ جب یہ مال ابوسفیان لے کر آیا تو مکہ کے لوگ جنگ بدر کے لیے گئے ہوئے تھے۔ جنگ بدر کے کچھ عرصہ بعد ان لوگوں نے آکر ابوسفیان سے کہا کہ محمد (ﷺ) نے ہمارے بےشمار آدمیوں کو قتل کر دیا ہے۔ اس لیے اس مال تجارت سے محمدﷺ کے ساتھ لڑنے کے لیے جنگ کی تیاری کریں۔ ممکن ہے ہم اپنے مقتولوں کا بدلہ لینے میں کامیاب ہو سکیں۔ پھر ان لوگوں نے مزید کہا۔ ہم خوشی سے اس بات پر تیار ہیں کہ اس مال تجارت کے نفع سے محمدﷺ کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ایک لشکر تیار کیا جائے۔یہ سن کر ابوسفیان نے کہا کہ میں اس تجویز کو منظور کرتا ہوں اور بنو عبدمناف میرے ساتھ ہیں۔اس کے بعد قریش نے مال میں سے نفع الگ کر کے جس کی مالیت پچاس ہزار دینار تھی اصل مال مالکوں کو دے دیا اور ایک قول یہ ہے کہ جو نفع علیحدہ کیا گیا وہ پچیس ہزار دینار تھا۔بہرحال جو نفع تھا وہ اس جنگ کے لیے دے دیا گیا۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی کہ اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ لِیَصُدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ فَسَیُنۡفِقُوۡنَہَا ثُمَّ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ حَسۡرَۃً ثُمَّ یُغۡلَبُوۡنَ ۬ؕ وَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی جَہَنَّمَ یُحۡشَرُوۡنَ (الانفال:۳۷) یقیناً وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا اپنے مال خرچ کرتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے روکیں۔ پس وہ ان کو اسی طرح خرچ کرتے رہیں گے۔ وہ مال ان پر حسرت بن جائیں گے پھر وہ مغلوب کر دیے جائیں گے اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا جہنم کی طرف اکٹھے کر کے لے جائے جائیں گے۔اس ایک اہم سبب کے علاوہ کچھ اَور امور بھی تھے جو کہ اس جنگ کے اسباب قرار دیے جا سکتے ہیں۔جیساکہ گذشتہ خطبہ میں بھی ذکر ہو چکا ہے کہ غزوۂ بدر کے بعد اہل مکہ کا شام جانا محال ہو چکا تھا کیونکہ مکہ اور شام کی تجارت کا رستہ مدینہ کے مضافات سے گزرتا تھا جسے مسلمانوں کی طرف سے بند کر دیا گیا تھا اور کفار کے سابقہ ظلم و ستم کے باعث ان کا وہاں سے قافلوں سمیت گزرنا دشوار ہوتا جا رہا تھا جس کی وجہ سے قریش کو اپنی معاشی موت نظر آ رہی تھی اور تجارتی راستے کی بندش غزوات اور سرایا میں شکست اور بدر میں سرداران قریش کا قتل اور ستر مشرکین کی گرفتاری جیسے امور ان کی شہرت اور معاشرتی حالت پر بدنما داغ تھے جنہیں دھونے کے لیے اور اپنی معاشرتی ساکھ بحال رکھنے کے لیے وہ انتقام لینا چاہتے تھے تا کہ قریش مکہ کی گرتی ہوئی سیاسی اور مذہبی ساکھ کو بحال کیا جا سکے۔دوسری طرف جنگ بدر کے بعدقریش مکہ کو دو مزید شرمناک ذِلّتوں کا سامنا کرنا پڑا جن کی وجہ سے ابوسفیان سمیت مکہ والوں کا غیض و غضب اَور بڑھ گیا اور انہوں نے مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے ایک باقاعدہ مسلح جنگ کرنے کا پختہ عزم کیا۔
سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ احدکےلیےمسلمانوں کےخلاف کفارمکہ کادیگرقبائل کو اکٹھا کرنے کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: قریش کی طرف سے ارد گرد کے قبائل کو بھی شمولیت کی دعوت دی گئی جس کی تفصیل یوں ملتی ہے کہ رسول اللہﷺ سے فیصلہ کن جنگ کے لیے جب سرمایہ جمع ہو گیا تب اگلے مرحلے کی تیاری شروع ہوئی۔ قریش تو برسر پیکار تھے ہی مگر انہوں نے گردو نواح کے مختلف قبائل کو اس جنگ میں شامل کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے۔ کسی کے پاس انفرادی طور پر اور کسی کے ہاں وفد کی صورت میں گئے۔ کسی کو لالچ دیا تو کسی کو مذہبی اور علاقائی غیرت و حمیت دلا کر ساتھ ملا لیا۔ اس کام کے لیے عمرو بن عاص، ھُبَیرَہ بن ابی وَہْب اور عبداللہ بن زِبَعْرٰی،مُسَافِحْ بن عَبد ِمَنَاف اور ابو عُزّہ جُمَحِی وغیرہ کو بھیجا گیا۔ یہ ابو عُزّہ جُمَحِی وہی تھا جسے رسول اللہﷺ نے بدر کے قیدیوں میں سے آزاد کیا تھا ۔اس وقت اس نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا تھا کہ اے محمد !ﷺ میری پانچ بیٹیاں ہیں جن کا میرے سوا کوئی سہارا نہیں۔ مجھے معاف فرما دیں۔ آپﷺ نے نہ صرف معاف کیا بلکہ اسے بغیر فدیہ کے آزاد بھی کر دیا۔ یہ آپؐ کا اسوہ تھا۔ اس وقت اس نے عہد و پیمان بھی کیا کہ آئندہ نہ میں آپﷺ کے خلاف لڑوں گا اور نہ آپﷺ کے خلاف کسی کی مدد کروں گا مگر غزوۂ احد کے موقع پر صفوان بن امیہ کی طرف سے انعام و اکرام کے لالچ میں اس نے اپنے اس عہد کو توڑ دیا اور اپنے اشعار سے اہل عرب کو جوش انتقام پر ابھارنے لگا۔ یہ شعراء جاکر قبائل کو اکساتے۔ ماضی یاد کروا کر ابھارتے اور ساتھ ملنے کی دعوت دیتے۔ قبائل کِنَانَہ اہل تَہَامَہ اور دوسرے قبائل میں سے بےشمار لوگوں نے ان کی ہاں میں ہاںملائی اور ریاست مدینہ پر شب خون مارنے کی ہر طرف سے یقین دہانی کروائی اور یقین دہانی ہی نہیں کروائی بلکہ شمولیت بھی کی۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے آنحضرتﷺکوجنگ کےلیےکفارمکہ کی تیاری کی اطلاع ملنے کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت عباس ؓکی اطلاع کا ذکر کرتے ہوئے اس طرح لکھا ہے کہ ’’جس تجارتی قافلہ کا ذکر جنگ بدر کے حالات میں گزر چکاہے اس کے منافع کاروپیہ جس کی مالیت پچاس ہزار دینار تھی رؤسائے مکہ کے فیصلہ کے مطابق ابھی تک دارالندوہ میں مسلمانوں کے خلاف حملہ کرنے کی تیاری کے واسطے محفوظ پڑا تھا۔ اب اس روپے کو نکالا گیا اوربڑے زورشور سے جنگ کی تیاری شروع ہوئی۔ مسلمانوں کواس تیاری کاعلم بھی نہ ہوتا اورلشکر کفار مسلمانوں کے دروازوں پرپہنچ جاتا مگر آنحضرتﷺ کی بیدار مغزی نے تمام ضروری احتیاطیں اختیار کررکھی تھیں یعنی آپؐ نے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلبؓ کوجو دل میں آپؐ کے ساتھ تھے مکہ میں ٹھہرے رہنے کی تاکید کررکھی تھی اوروہ قریش کی حرکات وسکنات سے آپؐ کو اطلاع دیتے رہتے تھے۔ چنانچہ عباس بن عبدالمطلبؓ نے اس موقعہ پر بھی قبیلہ بنوغفار کے ایک تیزروسوار کو بڑے انعام کا وعدہ دے کر مدینہ کی طرف روانہ کیا اور ایک خط کے ذریعہ آنحضرتﷺ کوقریش کے اس ارادے سے اطلاع دی اوراس قاصد کوسخت تاکید کی کہ تین دن کے اندر اندر آپؐ کو یہ خط پہنچا دے۔جب یہ قاصد مدینہ پہنچا تواتفاق سے اس وقت آنحضرتﷺ مدینہ کے حوالی قُباء‘‘ یعنی قریب کی جگہ ’’میں تشریف لے گئے ہوئے تھے۔ چنانچہ یہ قاصد آپؐ کے پیچھے وہیں قُباء میں پہنچا اور آپؐ کے سامنے یہ بندخط پیش کر دیا۔ آپؐ نے فوراً اپنے کاتب خاص اُبَی بن کعب انصاریؓ کویہ خط دیا اور فرمایا کہ اسے پڑھ کر سناؤ کہ کیا لکھا ہے۔ اُبَی نے خط پڑھ کر سنایا تواس میں یہ وحشت ناک خبردرج تھی کہ قریش کاایک جرار لشکر مکہ سے آرہا ہے۔ آنحضرتﷺ نے خط سن کر اُبَی بن کعب کوتاکید فرمائی کہ اس کے مضمون سے کسی کو اطلاع نہ ہو۔‘‘
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے غزوہ احدمیں کفارکےلشکرمیں عورتوں کےشامل ہونے کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: بہت سی عورتوں نے بھی جوش انتقام میں جنگ میں مردوں کے ہمراہ جانے کے لیے اصرار کیا۔اس پر ایک شخص نے مجلس مشاورت میں کہا کہ ہم سروں پر کفن باندھ کر جارہے ہیں۔ اگر اپنے مقتولوں کا بدلہ نہ لے سکے تو زندہ واپس نہیں آئیں گے۔ اس لیے عورتوں کا ساتھ ہمارے لیے مفید ثابت ہوگا۔ یہ ہمارے جوش کو ابھاریں گی اور ہمیں بدر کے واقعات یاد دلا کر آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کریں گی۔ نوفل بن معاویہ دِیلِی نے کہا یہ خواتین ہماری عزت و آبرو ہیں اگر ہمیں شکست ہو گئی تو ان کی بےحرمتی سے ہمارا وقار خاک میں مل جائے گا۔ مختلف رائیں سامنے آئیں۔ ابوسفیان کی بیوی ہند بھی اس موقع پر موجود تھی۔جب یہ دونوں طرح کی رائیں مردوں کی طرف سے آگئیں تو یہ عورت بولی کہ اے لوگو! اس بات سے نہ گھبراؤ کہ تم زندہ بچ کر نہیں آسکو گے۔ تم لوگ بدر سے بھی بحفاظت واپس آ گئے تھے اور تم نے اپنی خواتین کو بھی دیکھ لیا تھا۔ تم ہمیں اس جنگ میں ساتھ جانے سے منع نہیں کر سکتے۔ یہی غلطی تم نے بدر میں کی تھی جب تم لوگوں نے اپنی خواتین کو واپس لوٹا دیا تھا۔ اگر یہ خواتین معرکۂ بدر کے وقت تمہارے ساتھ موجود ہوتیں تو تم لوگوں کو غیرت دلا کر آگے بڑھاتیں۔ افسوس! بدر کے میدان میں ہمارے پیارے عزیز دشمنوں کے ہاتھوں مارے گئے۔بہرحال قریش کے سرداروں نے ہند کی بات سے اتفاق کیا اور وہ عورتوں کو لشکر کے ساتھ لے جانے پر راضی ہو گئے۔ فوج کے ساتھ جانے والی عورتوں کی تعداد پندرہ بیان کی گئی ہے ۔جن میں ابوسفیان نے اپنی بیوی ہند بنت عتبہ کو شامل کیا۔اسی طرح عکرمہ بن ابی جہل نے اپنی بیوی ام حکیم بنت حارث بن ہشام کو ساتھ لیا۔اورحارث بن ہشام نے اپنی بیوی فاطمہ بنت ولید کو ساتھ لیا۔اور صفوان بن امیہ نے اپنی بیوی بَرْزَہ بنت مسعود کو ساتھ لیا جو عبداللہ بن صفوان کی ماں تھیں۔ ابن اسحاق نے کہا ہے کہ عمرو بن عاص اپنی بیوی رَیطَہ بنت مُنَبِّہ کے ساتھ نکلا اور طلحہ بن ابی طلحہ نے اپنی بیوی سُلَافَہ بنت سعد کو ساتھ لیا۔ یہ طلحہ کے بیٹوں مُسَافِعْ اور جُلَاس اور کِلَاب کی ماں تھی اور یہ سب اُحد کے دن قتل ہوئے تھے۔اور خُنَاس بنت مالک جو قبیلہ بنو مالک میں سے تھی اپنے بیٹے ابی عزیز بن عُمَیر کے ساتھ ہوئی۔ یہ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی ماں تھیں ۔اور عَمْرَہ بنت عَلْقَمَہ جو قبیلہ بنوحارث میں سے تھی وہ بھی لشکر کے ساتھ ہوئی۔
سوال نمبر۶:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے لشکرقریش کی آنحضرتﷺکواطلاع اورکفارکی گھبراہٹ کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:جنگ کی تفصیلات کے بارے میں مزید لکھا ہے کہ حضرت عباسؓ نے رسول اللہﷺ کو لشکر قریش کے متعلق معلومات فراہم کیں اور عمرو بن سالم نے رسول اللہﷺ کو مشرکین مکہ کی روانگی کی اطلاع پہنچائی۔ اس پر ابوسفیان حواس باختہ ہوگیا،اس کو پتہ لگ گیا۔ ہوا یوں کہ عمرو بن سالم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مقام ذی طُوٰی سے لشکر قریش سے علیحدہ ہو کر جلدی جلدی مدینہ پہنچا اور آپﷺ کو لشکر کفار کی چڑھائی کی خبر دی۔ عمرو بن سالم کا یہ دستہ مدینہ سے واپسی پر ابواءکے مقام پر ابوسفیان کے لشکر سے رات کے وقت آگے نکل گیا ۔یعنی وہ وہاں تھے تو ان کو کراس کر گیا۔ صبح ہوئی تو ابوسفیان مکہ کی طرف واپس چلا گیا۔ ابوسفیان کو رستے میں بتایا گیا کہ عمرو بن سالم اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ وقت شب مکہ کی طرف نکل گیا ہے۔ ابوسفیان گھبراتے ہوئے بولا: میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ ضرور محمدﷺ کے ہاں جا کر اسے ہماری پیش قدمی کی اطلاع دے کر آیا ہے۔ اس نے اسے یعنی آنحضرتﷺ کو ہمارے متعلق تمام معلومات فراہم کر دی ہیں اور اسے پہلے سے ہی چوکنا کر دیا ہے۔ اب ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی مسلمان خود کو قلعوں میں محفوظ کر چکے ہوں گے۔ اس طرح تو ہم ان کا کوئی نقصان نہیں کر سکیں گے اور نہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔ صفوان بن امیہ فوری بولا کہ اگر وہ قلعوں سے باہر میدان میں ہمارے ساتھ مقابلے کے لیے نہ نکلیں گے تو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اوس اور خزرج کی کھجوروں کے باغ کاٹ لیں گے جس کا وہ کبھی ازالہ نہیں کر سکیں گے اور وہ اپنے مال و غلہ سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور اگر وہ صحرا میں لڑائی کے لیے قلعوں سے باہر آ نکلے تو بھی پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہماری تعداد ان کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ہمارے اسلحے سے بھی ان کے اسلحہ کا کوئی جوڑ نہیں۔ ان کے پاس گھوڑے نہیں ہمارے پاس تو بہت گھوڑے ہیں۔ ہم جنگ میں ان کا جانی اور مالی نقصان کرنے کی طاقت رکھتے ہیں جبکہ وہ ہم سے یوں نہیں لڑ سکتے۔
مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍ دسمبر2024ء