کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

نوعِ انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی بہت بڑی عبادت ہے(حصہ دوم)

خوب یاد رکھو کہ امیری کیا ہے؟ امیری ایک زہر کھانا ہے۔ اس کے اثر سے وہی بچ سکتا ہے جو شفقت علیٰ خلق اللہ کے تریاق کو استعمال کرے اور تکبّر نہ کرے لیکن اگر وہ اس کی شیخی اور گھمنڈ میں آتا ہے تو نتیجہ ہلاکت ہے۔ ایک پیاسا ہو اور ساتھ کنواں بھی ہو لیکن کمزور ہو اور غریب ہو اور پاس ایک متموّل انسان ہو تو وہ محض اس خیال سے کہ اس کو پانی پلانے سے میری عزّت جاتی رہے گی اس نیکی سے محروم رہ جائے گا۔ اس نخوت کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہی کہ نیکی سے محروم رہا اور خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے آیا۔ پھر اس سے کیا فائدہ پہنچا۔ یہ زہر ہوا یا کیا؟ وہ نادان ہے سمجھتا نہیں کہ اس نے زہر کھائی ہے۔ لیکن تھوڑے دنوں کے بعد معلوم ہو جائے گا کہ اس نے اپنا اثر کر لیا ہے اور وہ ہلاک کر دے گی۔

یہ بالکل سچی بات ہے کہ بہت سی سعادت غرباء کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے انہیں امیروں کی امیری اور تمول پر رشک نہیں کرنا چاہیے اس لیےکہ انہیں وہ دولت ملی ہے جو ان کے پاس نہیں۔ ایک غریب آدمی بے جا ظلم ،تکبّر، خود پسندی، دوسروں کو ایذا پہنچانے، اتلاف حقوق وغیرہ بہت سی بُرائیوں سے مُفت میں بچ جائے گا۔ کیونکہ وہ جھوٹی شیخی اور خود پسندی جو ان باتوں پر اسے مجبور کرتی ہے، اس میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی مامور اور مرسل آتا ہے تو سب سے پہلے اس کی جماعت میں غرباء داخل ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ان میں تکبّر نہیں ہوتا۔ دولت مندوں کو یہی خیال اور فکر رہتا ہے کہ اگر ہم اس کے خادم ہو گئے تو لوگ کہیں گے کہ اتنا بڑا آدمی ہو کر فُلاں شخص کا مُرید ہو گیا ہے اور اگر ہو بھی جاوے تب بھی وہ بہت سی سعادتوں سے محروم رہ جاتا ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ کیونکہ غریب تو اپنے مرشد اور آقا کی کسی خدمت سے عار نہیں کرے گا مگر یہ عار کرے گا۔ ہاں اگر خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے اور دولت مند آدمی اپنے مال و دولت پر ناز نہ کرے اور اس کو بندگانِ خدا کی خدمت میں صرف کرنے اور ان کی ہمدردی میں لگانے کے لیے موقع پائے اور اپنا فرض سمجھے تو پھر وہ ایک خیر کثیر کا وارث ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ سب سے مشکل اور نازک مرحلہ حقوق العباد ہی کا ہے کیونکہ ہر وقت اس کا معاملہ پڑتا ہے اور ہر آن یہ ابتلا سامنے رہتا ہے۔ پس اس مرحلہ پر بہت ہی ہوشیاری سے قدم اُٹھانا چاہیے۔ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ ہو۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے اس کی تخریب اور بربادی کے لیے سعی کی جاوے پھر وہ اس فکر میں پڑ کر جائز اور نا جائز امور کی بھی پروا نہیں کرتے۔ اس کو بدنام کرنے کے واسطے جھوٹی تہمت اس پر لگاتے، افترا کرتے اور اس کی غیبت کرتے اور دوسروں کو اس کے خلاف اُکساتے ہیں۔ اب بتاؤ کہ معمولی دشمنی سے کس قدر برائیوں اور بدیوں کا وارث بنا اور پھر یہ بدیاں جب اپنے بچّے دیں گی تو کہاں تک نوبت پہنچے گی۔

میں سچ کہتا ہوں کہ تم کسی کو اپنا ذاتی دشمن نہ سمجھو اور اس کینہ توزی کی عادت کو بالکل ترک کر دو۔ اگر خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے اور تم خدا تعالیٰ کے ہو جاؤ تو وہ دشمنوں کو بھی تمہارے خادموں میں داخل کر سکتا ہے۔ لیکن اگر تم خدا ہی سے قطع تعلق کیے بیٹھے ہو اور اس کے ساتھ ہی کوئی رشتہ دوستی کا باقی نہیں، اس کی خلاف مرضی تمہارا چال چلن ہے ۔پھر خدا سے بڑھ کر تمہارا دشمن کون ہو گا؟ مخلوق کی دشمنی سے انسان بچ سکتا ہے لیکن جب خدا دشمن ہو تو پھر اگر ساری مخلوق دوست ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے تمہارا طریق انبیاء علیہم السلام کا سا طریق ہو۔ خدا تعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ ذاتی اعداءکوئی نہ ہوں۔

خوب یاد رکھو کہ انسان کو شرف اور سعادت تب ملتی ہے جب وہ ذاتی طور پر کسی کا دشمن نہ ہو۔ ہاں اللہ اور اس کے رسول کی عزت کے لیے الگ امر ہے۔ یعنی جو شخص خدا اور اس کےرسُول کی عزت نہیں کرتا بلکہ ان کا دشمن ہے اسے تم اپنا دشمن سمجھو۔ اس دشمنی سمجھنے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ تم اس پر افتراء کرو اور بلا وجہ اس کو دکھ دینے کے منصوبے کرو۔ نہیں۔ بلکہ اس سے الگ ہو جاؤ اور خدا تعالیٰ کے سپرد کرو۔ ممکن ہو تو اس کی اصلاح کے لیے دعا کرو۔ اپنی طرف سے کوئی نئی بھاجی اس کے ساتھ شروع نہ کرو۔

یہ امور ہیں جو تزکیہ نفس سے متعلق ہیں۔ کہتے ہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک دشمن سے لڑتے تھے اور محض خدا کے لیے لڑتے تھے۔ آخر حضرت علیؓ نے اس کو اپنے نیچے گِرا لیا اور اس کے سینہ پر چڑھ بیٹھے۔ اُس نے جھٹ حضرت علیؓ کے منہ پر تھوک دیا۔ آپ فوراً اس کی چھاتی پر سے اُتر آئے اور اسے چھوڑ دیا۔ اس لیے کہ اب تک تو میں محض خدا تعالیٰ کے لیے تیرے ساتھ لڑتا تھا لیکن اب جبکہ تو نے میرے منہ پر تھوک دیا ہے۔ تو میرے اپنے نفس کا بھی کچھ حصہ اس میں شریک ہو جاتا ہے۔ پس میں نہیں چاہتا کہ اپنے نفس کے لیے تمہیں قتل کروں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے نفس کے دشمن کو دشمن نہیں سمجھا۔ ایسی فطرت اور عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے۔ اگر نفسانی لالچ اور اغراض کے لیے کسی کو دُکھ دیتے اور عداوت کے سلسلوں کو وسیع کرتے ہیں تو اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والی کیا بات ہو گی؟

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 103تا105۔ ایڈیشن 1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

تبصرے 2

  1. السلام عليكم ورحمۃاللہ وبرکاتہ ۔۔۔پیارے حضورانورایدہ اللہ تعالی بنصرہالعزیز کی خدمت اقدس میں السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اور الفضل اور واقفین کی ایپ کی بے انتہا مبارکباد، خداتعالیٰ ہمیشہ جماعت کو ادی طرح اپنے فضلوں سے نوازتا چلا جائے ۔آمین ہم پاکستانیوں کے لیےبتو یہ خدا کا انمول تحفہ ہے اللہ کرے ہم اس سے بےپناہ فائدہ اٹھانے والے ہیں اور اپنے نفسوں کی اصلاح کرنے والے ہوں یہاں ہمیں سب روحانی خزائن ملیں گے الحمد للہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button