شکر گزاری ترقی اور برکت کا ذریعہ
تمام ترقیات شکر کے ساتھ وابستہ ہیں۔(حضرت المصلح الموعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ)
روزمرہ زندگی میں دیکھا گیا ہے کہ لوگ بات بات پر شِکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کم آمدنی پر،کبھی دوسروں کی نسبت اپنی چھوٹی کار پر، کبھی مکان کے چھوٹے ہونے پر، کبھی رشتوں سے متعلق اور کبھی رشتہ داروں کے رویوں پر، کبھی عائلی معاملات پر، کبھی پڑوسیوں کے بارے میں، کبھی والدین سے متعلق، کبھی گرمی زیادہ ہونے کا شکوہ ہوتا ہے تو کبھی سردی زیادہ ہونے پر شکایت۔ کبھی ظاہری رنگت اور قدوقامت کے بارے میں شکوہ کیا جارہا ہوتا ہے تو کبھی دبلاہونے یا موٹاپے کی وجہ سے زبان پر حرفِ شکایت۔
غرضیکہ مختلف معاملات میں لوگ شکوہ و شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو ہم پر اللہ تعالیٰ کے اتنے ان گنت انعام و افضال ہیں کہ ہر لمحہ، ہر گھڑی، ہر دن، ہر ہفتہ، ہر مہینہ، ہر سال غرضیکہ ساری زندگی بھی شکر کے لیے کم ہے۔ انسان ساری زندگی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکرادا کرتا رہے تب بھی خداتعالیٰ کے شکر کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
ہمارے ایک دوست ہیں جب بھی ان سے بات ہوتی ہے تو اکثر وہ یہی کہتے ہیں کہ کاروبار کا کوئی حال نہیں۔ شاذو نادر ہی کبھی ان سے تشکر کے کلمات سننے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح مالٹا میں یہ عام طریق ہے کہ جب کسی کو پوچھیں کہ آپ کا کیا حال ہے؟ تو بجائے الحمدللہ کہنے کے یا یہ کہ ٹھیک ہوں وہ کہتے ہیں mhux hazin یعنی not bad۔ اور یہ ایک عام طریق ہے۔ جو دوست احباب ہوتے ہیں انہیں مناسب موقع پر اس طرف توجہ دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہمیں کسی بھی نیکی کو حقیر نہیں جاننا چاہیے اور نیکی کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے not badکہنے کی بجائے اگر ہم خداتعالیٰ کا شکر ادا کریں اور کہیں کہ الحمدللہ ٹھیک ہوں۔ اللہ کا فضل ہےتو اس سے ہمارے اندر قناعت، شکر گزاری اور قدر شناسی کے جذبات پیدا ہوں گے اور ہمیشہ توجہ خداتعالیٰ کی نعمتوں کی طرف مبذول رہے گی۔ اور خدا کا شکر ادا کرکے نیکیاں بھی کما رہے ہوں گے۔
جامعہ احمدیہ میں جہاں دینی تعلیم و تربیت کے حصول کا موقع ملا وہیں اپنے محترم اساتذہ کرام سے عملی زندگی کے بہت سے طور طریقے، آداب، سلیقے اور اقدار سیکھنے کی بھی سعادت ملی۔ اسی سفر میں ایک دن جامعہ احمدیہ کے ایک محترم استاد شکرگزاری کے موضوع پر بات کررہے تھے۔آپ نے ہماری راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہم پر بےشمار انعامات ہیں اور ان انعامات کا حق تبھی ادا ہوسکتا ہے جب ہم اپنی زبانوں کو کلماتِ شکر سے ہمیشہ تَر رکھیں اور اپنی زندگی کے ہر قدم اور ہر موڑ پر خداتعالیٰ کا شکر کرنے والے بنیں۔ آپ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی عطافرمائی ہے، ہمیں صحت و سلامتی عطا کی ہے، ہمیں ہاتھ، پاؤں، آنکھیں، کان، خوراک، کئی قسم کے موسم، روشنی، ہوا، والدین، بیوی بچے، عقل، علم اور بہت سی دوسری لازوال نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ ہمیں بے شمار مصیبتوں، بیماریوں، تکلیفوں اور چٹیوں سے محفوظ رکھتا ہے یہ سب اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنی زندگی کوخداتعالیٰ کے شکر سے سجائے رکھیں۔ آپ نے مزید بیان کیا کہ جو خدا والے ہوتے ہیں، جو خدا کے دین کی خدمت پر مامور ہوتے ہیں، جو متقی ہوتے ہیں خداتعالیٰ انہیں اپنی حفظ و امان میں رکھتا ہے اور دنیا کے آلام و مصائب سے انہیں محفوظ رکھتا ہے اس لیے ہمیشہ خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر شکوہ نہیں کرنا چاہیے اور کبھی کفرانِ نعمت نہیں کرنا چاہیے اور ہمیشہ خداتعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے اس کے حقیقی عبد بننے کے لیے سعی کرتے رہنا چاہیے۔
ہو فضل تیرا یا رب یا کوئی اِبتلا ہو
راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو
اُس وقت تک تو شاید اس بات کی اتنی سمجھ نہ آئی ہو لیکن جب عملی میدان میں قدم رکھا اور خداتعالیٰ کے بے انتہا اور لاتعداد فضلوں اور رحمتوں کی بارش برستی دیکھی تو شکر کا وہ مضمون نہایت واضح اور روشن دکھائی دینے لگا۔ اگر انسان اپنے شب و روز پر غور کرے تو بے انتہا ایسے مواقع میسر آتے ہیں جہاں خداتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر واجب ہوجاتا ہے۔
شکر گزاری سے متعلق قرآنی ارشاد
اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے۔ وَاِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکُمۡ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ وَلَئِنۡ کَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ اور جب تمہارے رب نے یہ اعلان کیا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔ (ابراہیم:۸)
شکرکے معانی
شکر کا مطلب ہے کہ کسی کے احسان کے باعث اس کی تعریف کی۔ گویا اقرارِ احسان اظہارِ قدر کے ساتھ شکر کہلاتا ہے۔ اور کثرت کے ساتھ اقرارِ احسان کرنے والے کو شکور(شکر گزار) کہتے ہیں۔(تفسیر کبیر جلد۳ صفحہ ۴۴۵۔ایڈیشن۲۰۰۴ء)
اسی طرح کفرانِ نعمت سے مرادہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار اور ان کی ناشکری کرنا اور ان کو ظاہر نہ کرنا،محسن کی نعمتوں کا انکار کرتے ہوئے ان پر پردہ ڈالنا اور ان کا اقرار نہ کرنا۔ کفر کا لفظ شُکر کے مقابل بولاجاتا ہے۔ (تفسیر کبیر جلد۳ صفحہ ۴۴۷)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ’’اس آیت میں ایک عظیم الشان قانون بتایا ہے۔ کہ تمام ترقیات شکر کے ساتھ وابستہ ہیں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد۳ صفحہ ۴۴۷۔ایڈیشن۲۰۰۴ء)
امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس مضمون کو اپنے منظوم کلام میں اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
کیونکر ہو شکر تیرا، تیرا ہے جو ہے میرا
تُو نے ہر اک کرم سے گھر بھر دیا ہے میرا
کیا ہی دل موہ لینے والا اندازِ شکر ہے کہ سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہی ہے۔ سب کچھ اسی کی عطاہے۔ جب یہ کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو پھر شکر کی توفیق بھی پہلے سے بڑھ کر ملتی چلی جاتی ہے اور شکوہ وشکایت کی بجائے زبان سے ہمیشہ کلماتِ شکر ہی ادا ہوتے ہیں۔
شکر گزاری سے متعلق احادیث میں راہنمائی
آنحضرتﷺنے اس معاملے میں ہماری راہنمائی اس طرح فرمائی ہے کہ نیکی کے معاملات میں اپنے سے بہتر کی طرف دیکھو اور فَاسْتَبِقُوْاالخَیْرَات کے حکم کی تعمیل میں نیکیوں میں مسابقت اختیار کرو۔ لیکن دنیاوی معاملات میں، مال و زر کے معاملات میں، مالی کشائش اور وسائل کے معاملات میں تم میں سے جو کم درجے والا یا کم وسائل والا ہے تم اس کی طرف دیکھو اور اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو تم میں سے مالی طور پر بہتر اور اچھی حالت میں ہے۔(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۲۵۴ مطبوعہ بیروت)
اسی طرح آنحضرت ﷺ نے ہمیں قناعت اور دنیا سے بے رغبتی کا درس دیا ہے جس سے زندگی آسان ہوجاتی ہے اور شکر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ حضرت سہلؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا۔
اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا کام بتائیے کہ جب میں اُسے کروں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت کرنے لگے اور باقی لوگ بھی مجھے چاہنے لگیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: دُنیا سے بےرغبت اور بے نیاز ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرنے لگے گا۔ جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس کی خواہش چھوڑدو۔ لوگ تجھ سے محبت کرنے لگ جائیں گے۔ (ابن ماجہ باب الزھد فی الدنیا بحوالہ حدیقۃالصالحین صفحہ ۷۵۳)
کیا خوب کلام ناصحانہ ہے کہ نعمتوں پر نظر رکھو، محرومیوں کو طیب ِ خاطر نہ لاؤ۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ اسی کشمکش میں رہتے ہیں (Is the glass half empty or half full) کہ کیا گلاس آدھا بھرا ہوا ہے یا ابھی آدھا خالی ہے۔ جو مثبت سوچ رکھتے ہیں وہ خالی کو نہیں دیکھتے، وہ محرومیوں کو نہیں دیکھتے بلکہ وہ فضلوں کو شمار کرتے ہیں اور ہمیشہ انہیں گلاس آدھا بھرا نظر آتا ہے۔
شکر گزاری ایک ایسا وصف ہے جس سے زندگی آسان ہوجاتی ہے، جس پر عمل کرنے سے زندگی خوشیوں سے بھر جاتی ہے۔ جن گھروں میں شکر گزار بندے بستے ہیں وہ گھر دائمی خوشیوں اور مسرتوں کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔ جن رشتوں میں شکر گزاری کے جذبات موجزن ہوتے ہیں ان کی بنیادیں مضبوط اور پائیدار ہوتی ہیں۔ جو دل شکر گزاری کے جذبات سے لبریز ہوتے ہیں وہ الٰہی نور سے منور کیے جاتے ہیں۔
جیسے جیسے انسان شکر کے مضمون پر غور کرتا چلا جاتا ہے ویسے ویسے خداتعالیٰ کی عظمت اور اس کے حکیمانہ کلام کا حسن نکھرتا چلا جاتا ہے۔ہمارا پیارا خدا کیسا قادرالکلام ہے کہ چند الفاظ میں کامیاب زندگی اور انجام بخیر کے حصول کا طریق سکھا دیا۔ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ۔ کیا خوب کلام ہے۔ کیا فصاحت و بلاغت اور گہرے عرفان سے لبریز کلام ہے۔ کہ اگر ترقی کرنا چاہتے ہو، اگر مال ونفوس میں برکتیں چاہتے ہو، اگر سکون قلب کی تلاش میں ہو توکلماتِ شکر بجالاؤ۔ شکوہ و شکایت کو اپنی زندگی سے نکال دو۔ پھر دیکھوخداتعالیٰ تمہیں کیسی ترقیات سے نوازتا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت شَکُوْر یعنی بہت قدر شناس اور بہت قدر دان بیان ہوئی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہمیں خداتعالیٰ کی اس صفت کا مظہر بنتے ہوئے قدرشناس اور قدر دان بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سیرت النبی ﷺ اور شکر گزاری
ہمارے آقا و مولیٰ، سرور کائنات، فخر موجودات، سردار ِدو جہاں، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺاس قرآنی تعلیم اور اپنے رب کی صفت شکور کے مظہر اتم تھے۔ آپ کی سرشت شکرگزاری کے خمیر سے گوندھی گئی تھی۔ ہر احسان کی قدر شناسی اور قدر دانی آپ کے وجود کا طرۂ امتیاز تھا۔ آپ کی سیرت و سوانح کا مطالعہ کرنے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ہر احسان کی قدر اور اس پر شکریہ کے جذبات آپؐ کی ذات مبارک کے نمایاں پہلو تھے۔ خداتعالیٰ کے انعام و احسان کے شکر میں آپ ﷺنے اس کی عبودیت اور بندگی کا حق ادا کردیا۔ وہ عبادت جو دوسروں کے لیے فرض کا رنگ رکھتی ہے آپ کے لیے بمنزلہ غذا کے تھی۔ آپ کا تو اوڑھنا بچھونا عبادت تھا۔ یقینا آپ عبادت کے معراج پر جلوہ افروز تھے۔ آپ نے زندگی کی تمام کیفیات کو عبادت اور ذکر الٰہی کے ساتھ باندھ دیا۔ آپ خداتعالیٰ کے ایسے شکر گزار وجود تھے کہ جب کچھ وقت عبادت میں گزارتے تو خیال کرتے کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے اِس کام کی توفیق دی ہے اس احسان کا شکر بجالانا ضروری ہے اس جذبۂ ادائیگی شکر سے بےاختیار ہو کر کچھ اور عبادت کرتے۔ پھر اسے بھی خداتعالیٰ کا احسان سمجھتے۔ پھر اور بھی زیادہ شوق کی جلوہ نمائی ہوتی اور پھر اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوجاتے اور یہ شکر خداوندی اور تحدیث ِنعمت کے لمحات اتنے طویل ہوجاتے کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے۔ صحابہؓ عرض کرتے کہ آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ آپؐ کی تو اگلی پچھلی سب کمزوریاں اللہ نے معاف کردی ہیں تو آپ ﷺ فرماتے افلا اکون عبدًا شکورًا۔ کہ کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ (صحیح بخاری کتاب التہجد۔ باب قیام النبی اللیل)
آپ ﷺنے ہمیں قدر شناسی او رشکر گزاری کے اسلوب بہت خوب سکھائے ہیں۔ جب بارش ہوتی تو اس پر خدا تعالیٰ کے شکر کے طور بارش کے قطرے زبان اور جسم پر لیتےتھے۔ آپ کا کھانا نہایت سادہ ہوتا تھامگر جب بھی کچھ کھانے کو میسر آتا توآپ یوں شکر ادا کیا کرتے تھے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَ سَقَانَا وَ جَعَلَنَا مِنَ المُسْلِمِیْنَ۔کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا۔ (ابوداؤد کتاب الاطعمۃ باب مایقول الرجل اذا طعم۔ حدیث نمبر ۳۸۴۶)
اسی طرح جب نیا لباس پہنتے تو شکرانہ بجالاتے۔ رات کو سوتے تو شکر کے جذبات کے ساتھ اور بیدار ہوتے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتے۔ جب غربت اورکمزوری کے حالات تھے تب بھی شکر آپؐ کی زندگی کا جزوِ ثانی تھا، کبھی کوئی شکوہ اور حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے اور جب خداتعالیٰ نے فتح و نصرت اور مال و ثروت عطافرمایا تو آپ کی قدر شناسی اور شکر گزاری اور بھی زیادہ بڑھ گئی۔
سیرت النبی ﷺ پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بھی شکوہ و شکایت کی بجائے خداتعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرنے اور اپنی زندگیوں کوشکر گزاری کے جذبات سے سجائے رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس سے یقیناً ہماری دنیا و آخر ت بہتر ہوگی اور بہت سے عائلی اور معاشرتی مسائل سے اپنے تئیں بچانے والے ہوں گے۔
عائلی زندگی میں شکر گزاری
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شکرگزاری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:’’پھر شکر کی عادت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور دے گا۔ تمہارے پر نعمتوں کو بڑھاتا چلا جائے گا۔ پس اپنی گھریلو زندگی میں بھی اس کا شکر ادا کریں۔ اپنے خاوندوں کی کمائی دیکھیں۔ اُن کے اندر خرچوں میں رہ کے گزارہ کریں، گھر چلائیں، اُس کا شکر ادا کریں۔ خاص طور پر بعض نئی شادی شدہ لڑکیوں کے بعض مسائل مجھے آجاتے ہیں۔ کہاں تک یہ صحیح ہے یا غلط ہے لیکن لڑکا لڑکی پر الزام لگارہا ہوتا ہے اور لڑکی لڑکے پر۔ لڑکے کا الزام یہ ہوتا ہے کہ اس کا مطالبہ بہت زیادہ ہے اور بعض دفعہ یہ صحیح ثابت ہوتا ہے کہ لڑکیاں کہتی ہیں کہ یہ ہماری ڈیمانڈ پوری نہیں کرتا…اپنی حدوں کے اندر رہ کر گزارہ کریں تو تبھی رشتے قائم رہ سکتے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم شکر کرو گے تو میں تمہیں بڑھاؤں گا۔ ہر نیا جوڑا جو اپنی نئی زندگی شروع کرتا ہے اُس کی ابتدا تھوڑے سے ہی ہوتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے اور آہستہ آہستہ جوں جوں زندگی گزرتی ہے تجربہ حاصل ہوتا ہے مردوں کی آمدنیاں بھی بڑھتی رہتی ہیں اور وسائل بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ پس یہ نوجوان لڑکیوں کو خاص طور پر میں کہتا ہوں کہ صبر اور حوصلے اور شکر کی عادت ڈالیں گی تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے رشتے بھی قائم رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بھی وارث بنتی چلی جائیں گی اور اُن لوگوں میں شمار ہوں گی جن کو پھر اللہ تعالیٰ پیار کی نظر سے دیکھتا ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۱۶ نومبر ۲۰۲۱ء صفحہ ۲، ۱۰)
اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہے
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ ’’تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ ۶۶)
شکر گزار بندے بنیں
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جماعت کو شکر گزار ی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:’’میں اکثر جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں اور حقیقی شکر گزاری اسی صورت میں ادا ہوسکتی ہے جب ہمارے دل میں تقویٰ ہو، جب ہم اپنے مقصد ِپیدائش کو سمجھتے ہوئے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں…عبد شکوربنیں۔ شکر گزار بنیں…اللہ تعالیٰ نے شکر گزاری کے مضمون کو قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ(ابراہیم: ۸) اور جب تمہارے رب نے یہ اعلان کیا کہ لوگو! اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا۔
پس یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں کی شکر گزاری کی طرف توجہ دلائی ہے یا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اظہار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شکرگزاری اور اس کا اظہار کیا ہے؟ اس کی شکر گزاری کا اظہار اس کی کامل فرمانبرداری ہے۔ اس کے حکموں کی پابندی ہے۔ جن باتوں کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہے انہیں پوری توجہ سے سرانجام دینا ہے اور جن باتوں سے اس نے روکا ہے ان کا کامل فرمانبرداری کا نمونہ دکھاتے ہوئے رُک جانا ہے۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہے تو ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ اپنی زندگی عبد شکور بن کر گزارے اور عبد ِشکور بننے کے لیے اپنے دل ودماغ میں اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد رکھے۔ اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو یاد رکھتے ہوئے اس کے ذکر سے تَر رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے جن انعامات سے نوازا ہے انہیں یاد رکھے اور انہیں یاد رکھتے ہوئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حمد کا اظہار ہو۔ اللہ تعالیٰ کی حمد زبان پر جاری رہے اور صرف زبان پر نہ جاری ہو بلکہ ایک حقیقی مومن کا اظہار اس کے ہر عضو سے ہوتا ہو، اس کی ہر حرکت و سکون سے ہوتا ہو۔
اللہ تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ بننے کی کوشش ہو۔ یہ عاجزی اس وقت ہو سکتی ہے جب حقیقت میں تمام نعمتوں کا دینے والاخدا کی ذات کو سمجھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا پیار دل میں ہو۔ جو نعمتیں اس نے دی ہیں ان کا استعمال اس کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ہو۔ صحت مند جسم دیا ہے تو عبادت اور اس کے راستے میں اس کے دین کی خدمت کرکے اس کا شکر ادا کریں۔ اگر کشائش عطافرمائی ہے تو کسی قسم کی رعونت، تکبر اور فخر کے بغیر اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرف توجہ کریں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں اور استعدادوں اور مال اور اولاد کے صحیح مصارف خداتعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ہیں تو طبعی شکر گزاری بھی ہے اور پھر خداتعالیٰ جو اپنے بندے پر بہت رحم کرنے والا ہے اور ایک کے بدلے کئی گنا دینے والا ہے۔ وہ استعدادیں بھی بڑھاتا ہے، صحت بھی دیتا ہے، کشائش بھی دیتا ہے، ایک عابد بندے کو اپنے قرب سے بھی نوازتا ہے۔ اس کا جو مقصد ِپیدائش ہے اس کے حصول کی بھی توفیق دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر انسان اپنے زورِبازو سے عبادت یعنی مقبول عبادت بھی نہیں کرسکتا۔ اگر عبادت کرتا بھی ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر وہ قابل قبول نہیں تو ایسی عبادت بھی بے فائدہ ہے۔
پس یہ شکر گزاری کا مضمون ہے جو نیکیوں میں بڑھنے کی بھی توفیق دیتا ہے۔ تقویٰ میں بڑھنے کی توفیق دیتا ہے۔ کیونکہ انسان اپنے ہر قول و فعل کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا نتیجہ قرار دے کر اس کی طرف جھکتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے شکر گزار بندوں کی طرف توجہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ وَمَا یَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ یُّکْفَرُوْہُ۔ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالْمُتَّقِیْنَ (آل عمران:۱۱۶) اور جو نیکی بھی وہ کریں اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔
پس تقویٰ بھی شکر گزاری سے بڑھتا ہے کیونکہ شکرگزاری بھی ایک نیکی ہے۔ اور حقیقی نیکیوں کی توفیق بھی اپنے تمام تر وجود، مال، صلاحیتوں اور نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی طرف منسوب کرنے سے ملتی ہے اور ایسے نیکیوں میں بڑھنے والے اور شکر گزار مومنوں کے لیے خداتعالیٰ خود کس طرح اپنے شکور ہونے کا ثبوت دیتا ہے، اس کی مزید وضاحت کے لیے اس طرح بیان فرمایا کہ لِیُوَفِّیَھُمْ اُجُوْرَھُمْ وَ یَزِیْدَ ھُمْ مِّنْ فَضْلِہ۔ اِنَّہٗ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌا۔ (فاطر: ۳۱) یعنی تاکہ وہ انہیں ان کے اعمال کے پورے پورے اجر دے اور ان کو اپنے فضل سے اور بھی زیادہ بڑھادے یقیناً وہ بہت بخشنے والا اور بہت قدردان ہے۔‘‘(خطبات مسرور جلد ہشتم صفحہ۱۸۸تا۱۹۰)
پس ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں، برکتوں اور فضلوں کو یاد کرتے رہنا چاہیے، زبان پر شکوہ و شکایات لانے کی بجائے خدا تعالیٰ کے ان گنت فضلوں اور احسانوں کو یاد کرتے رہنا چاہیے۔ جب ہم شکر گزاری کے ساتھ اپنے شب و روز گزاریں گے تو یہ ہمیں حقیقی احمدی اور حقیقی عبد ِ شکور بنائے گی اور پھر ہم خداتعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر اترتا دیکھیں گے۔ جب انسان حقیقی عبدِشکور بننے کی کوشش کرتا ہے تو اسے دنیا بھی ملتی ہے اور اس کو نیکیوں کے اجر بھی ملتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی عبد ِشکور بننے کی توفیق عطافرمائے اور اپنے وعدہ لَاَزِیْدَنَّکُمکے مطابق ہماری دنیا و آخرت کو سنوارتا اور بڑھاتا چلا جائے۔ آمین۔ اللّٰہم آمین
اَے خدا اَے کارساز و عیب پوش و کردگار
اےمرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار
کِس طرح تیرا کروں اے ذوالمِنَن شکر و سپاس
وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار
اِس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات و کرم
جن کا مشکل ہے کہ تا روزِ قیامت ہو شمار
مزید پڑھیں: معدنی وسائل کی کثرت کے بارے میں قرآن مجید کی پیشگوئی