حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

احمدی کو اپنے رشتوں کا پاس کرنا چاہئے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اعلیٰ اخلاق پر قائم رہنے کے طریقے بھی سکھا دئیے۔ یہ بھی بتا دیا کہ میرے سے تعلق رکھنا ہے تواُن اعلیٰ اخلاق کو اپناؤ جن کا اللہ اور اس کا رسول حکم دیتا ہے، ہمیں سوچنا چاہئے کہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد جبکہ ہمیں مخالفتوں کا سامنا اس لئے ہو رہا ہے کہ تم نے کیوں اس شخص کو مانا جو کہتا ہے کہ مَیں مسیح موعود نبی اللہ ہوں۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد بعض لوگوں کو اپنے رشتہ داروں سے بھی بڑی تکلیف اٹھانی پڑی۔ اپنوں نے بھی رشتے توڑ دیئے۔ باپوں نے اپنے بچوں پر سختیاں کیں اور گھروں سے نکال دیا۔ اس لئے نکال دیا کہ تم نے احمدیت کیوں قبول کی۔ تو اس صورتحال میں ایک احمدی کو کس قدر اپنے رشتوں کا پاس کرنا چاہئے۔ ہر ایک کو یہ سوچنا چاہئے کہ اُس شخص سے منسوب ہونے کے بعد جس کا نام خداتعالیٰ نے سلامتی کا شہزادہ رکھا ہے ہمیں کس قدر سلامتی پھیلانے والا اور رشتوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنے والا ہونا چاہئے۔

پس ہر احمدی کو اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہئے کہ ہم سلامتی کے شہزادے کے نام پر بٹہ لگانے والے نہ ہوں۔ اگر ہم اپنے رشتوں کا پاس کرنے والے، ان سے احسان کا سلوک کرنے والے، ان کو دعائیں دینے والے، اور ان سے دعائیں لینے والے نہ ہوں گے تو ان لوگوں سے کس طرح احسان کا سلوک کر سکتے ہیں، ان لوگوں سے کس طرح احسان کا تعلق بڑھا سکتے ہیں، ان لوگوں کا کس طرح خیال رکھ سکتے ہیں جن سے رحمی رشتے بھی نہیں ہیں۔ بعض عہدیداروں کے بارے میں بھی شکایات ہوتی ہیں کہ بیوی بچوں سے اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ پہلے بھی مَیں ذکر کر چکا ہوں، اس ظلم کی اطلاعیں بعض دفعہ اس کثرت سے آتی ہیں کہ طبیعت بے چین ہو جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کیا انقلاب پیدا کرنے آئے تھے اور بعض لوگ آپؑ کی طرف منسوب ہو کر بلکہ جماعتی خدمات ادا کرنے کے باوجود، بعض خدمات ادا کرنے میں بڑے پیش پیش ہوتے ہیں اس کے باوجود، کس کس طرح اپنے گھر والوں پر ظلم روا رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ رحم کرے اور ان لوگوں کو عقل دے۔ ایسے لوگ جب حد سے بڑھ جاتے ہیں اور خلیفۂوقت کے علم میں بات آتی ہے تو پھر انہیں خدمات سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ پھر شور مچاتے ہیں کہ ہمیں خدمات سے محروم کر دیا تو یہ پہلے سوچنا چاہئے کہ ایک عہدیدار کی حیثیت سے ہمیں احکامِ قرآنی پر کس قدر عمل کرنے والا ہونا چاہئے۔ سلامتی پھیلانے کے لئے ہمیں کس قدر کوشش کرنی چاہئے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون ۲۰۰۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۲؍جون ۲۰۰۷ء)

مزید پڑھیں: عہدہ ایک امانت ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button