انسان کے ایمان کا بھی کمال یہی ہے کہ تخلّق باخلاقِ اللہ کرے
اگر اسلام کی عزّت کے لئے دل میں محبت نہیں ہے تو عبادت بھی بے سُود ہے کیونکہ عبادت محبت ہی کا نام ہے۔ وہ تمام لوگ جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی ایسی چیز کی عبادت کرتے ہیں جس پر کوئی سلطان نازل نہیں ہوا وہ سب مشرک ہیں۔ سلطان تسلّط سے لیا گیا ہے جو دل پر تسلّط کرے۔ اس لیے یہاں دلیل کا لفظ نہیں لکھا ہے۔ عبادت کیا ہے۔ جب انتہا درجہ کی محبت کرتا ہے۔ جب انتہا درجہ کی اُمید ہو۔ انتہا درجہ کا خوف ہو۔ یہ سب عبادت میں داخل ہے۔ غیراللہ کی عبادت کا اتنا ہی مفہوم نہیں ہے کہ سجدہ نہ کیا جاوے۔ نہیں۔ بلکہ اُس کے مختلف مدارج ہیں۔ اگر کوئی مال سے انتہا درجہ کی محبت کرتا ہے تو وہ اس کا بندہ ہوتا ہے۔ خدا کا بندہ وہ ہے جو خدا کے سوا اور چیزوں کی حدِ اعتدال تک رعایت کرتا ہے۔ اسلام میں محبت، اُمید منع نہیں ہے مگر ایک حد تک۔ اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ جو خدا سے محبت کرتے ہیں اُسی سے ڈرتے اُسی سے اُمید رکھتے ہیں، وہ ایک سلطان رکھتے ہیں لیکن جو نفس کے تابع ہوتے ہیں ان کے پاس کوئی سلطان نہیں ہے جو محکم طور پر دل کو پکڑے۔ غرض انسان کا کوئی فعل اور قول ہو، جب تک وہ خدا کی سلطان کا پیرو نہ ہو، شرک کرتا ہے۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۱۳۱-۱۳۲، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
انسان کے ایمان کا بھی کمال یہی ہے کہ تخلّق باخلاق اللہ کرے۔یعنی جو جو اخلاق فاضلہ خدا میں ہیں اور صفات ہیں ان کی حتی المقدور اتباع کرے اور اپنے آپ کو خدا کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرے مثلاً خدا میں عفو ہے۔انسان بھی عفو کرے۔ رحم ہے حلم ہے کرم ہے انسان بھی رحم کرے۔حلم کرے۔لوگوں سے کرم کرے۔ خدا ستار ہے۔انسان کو بھی ستّاری کی شان سے حصہ لینا چاہیے اور اپنے بھائیوں کے عیوب اور معاصی کی پردہ پوشی کرنی چاہیے۔
(ملفوظات جلد ۱۰صفحہ ۲۹۴، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
مزید پڑھیں: برادری سے نیک سلوک کرنا چاہیے