احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
سبحان اللہ دنیا میں ایسے بھی لوگ ابھی موجود ہیں کہ حمایت دین اسلام کے لئے محنت شاقہ اپنے پر گوارا کرتے ہیں دین حق کی غمخواری میں زحمتیں اٹھاتے اور مصیبتیں جھیلتے ہیں۔ یا وہ لوگ بھی ہیں جن کو دین سے سروکار نہیں۔ پاسداری دین کا آئین نہیں دن رات دنیا کمانے سے کام ہے
براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویوز
۲: مشہور مسلم اخبار ’’منشورِمحمدیؐ ‘‘ کا ریویو
ایسی بے نظیر کتاب ہے کہ جس کا ثانی نہیں
دوسرے نمبر پر ایک اورریویو پیش کیا جاتاہے۔یہ تبصرہ نگار مسلمانان ہند کے ایک دین دار اورتقویٰ شعار صحافی اورمشہور مسلم اخبار ’’منشورِمحمدیؐ‘‘کے ایڈیٹر جناب مولوی محمدشریف صاحب بنگلوریتھے۔انہوں نے براہین احمدیہ کے ریویو کا جو عنوان لگایا وہ عنوان خود ان کے دلی جذبات اوربراہین احمدیہ کی عظمت کی خوب خوب عکاسی کرتاہے۔عنوان تھا:جَاءَالْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا
براہین احمدیہ ملقب بہ البراہین الاحمدیہ علی حقیۃ کتاب اللہ القرآن والنبوۃ المحمدیہ
دامان نگہ تنگ گل حسن تو بسیار
گلچین بہار تو ز دامان گلہ دارد
’’سبحان اللہ دنیا میں ایسے بھی لوگ ابھی موجود ہیں کہ حمایت دین اسلام کے لئے محنت شاقہ اپنے پر گوارا کرتے ہیں دین حق کی غمخواری میں زحمتیں اٹھاتے اور مصیبتیں جھیلتے ہیں۔ یا وہ لوگ بھی ہیں جن کو دین سے سروکار نہیں۔ پاسداری دین کا آئین نہیں دن رات دنیا کمانے سے کام ہے۔ دین ان کے پاس برائے نام ہے۔ غفلت کے نشہ میں چُور ہیں۔ شراب نخوت سے معمور ہیں۔ دنیا کے کاموں میں ہزارہا روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ نام و ننگ پر مرتے ہیں۔ دین جائے ایمان جائے غم نہیں ہاں غم ہے تو یہی کہ جیب سے دمڑی نہ جائے۔ کوئی کیسا ہی دین کا کام ہو اگر اس میں کاس پیسے کا کچھ صرف نظر آتا ہو تو کچھ نہ کچھ حیلہ سے ٹال دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس کی کیا ضرورت ہے ضرورت ہے تو یہ ہے نہ وہ ہے۔ غرض جس امر میں صرف زر کا گمان ہوتا ہے ہر چند وہ سراسر دین ہے مگر یہ لوگ کچھ نہ کچھ کہہ کر اس کی معاونت و مشارکت سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں۔ ہنود کو دیکھو عیسائیوں کو دیکھو مجوسیوں کو دیکھو۔ مختصر یہ کہ مذاہب باطلہ کے پیروؤں کو دیکھو کہ وہ اپنے مذہب کی اشاعت میں کیا کچھ خرچ کرتے ہیں۔ دین کے پھیلانے میں کیسا بار اٹھاتے ہیں۔ صعوبت سفر ان کے پاس کوئی چیز نہیں۔ صرف زرکثیر کسی شمار میں نہیں۔ گالیاں دو مارو مگر ان کا ارادہ یہی ہوتا ہے کہ کسی طرح اور کسی پیرایہ میں اپنے دین کی اشاعت ہو۔ اقسام کے تکالیف گوارا کرتے ہیں۔ مذہب کے پھیلانے میں جان تک دیتے ہیں۔ جیتے ہیں تو اس شوق میں کہ مذہب پھیلایا جائے۔ مرتے ہیں تو اس میں کہ مذہب کی اشاعت ہو۔ یہ ان کی محنت اور یہ عرقریزی گو باطل پر سہی مگر اس کا نتیجہ ان کو ملتا رہتا ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی مقصد حاصل ہوتا ہے۔ کوئی زبان نہیں جس میں پادری لوگوں کے ٹراکٹ (چھوٹے چھوٹے رسالے) نہ چھپتے ہوں۔ راہ کی آمدورفت کرنے والوں کو مفت تقسیم نہ ہوتے ہوں دین و مذہب کا چرچا اور دین کی اشاعت کی کوشش اگر ہے تو مذاہب باطلہ میں ہے۔ مفت رسالجات اس لئے تقسیم ہوتے ہیں کہ آخر کوئی شخص تو ان کے مطلب کو دیکھے گا۔ کچھ نہ کچھ غور کرے گا ذرا تو اثر ہو گا بس یہی مقصد ہے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو پادریوں کا یہ آئین ایسا ہے کہ جس میں ان کا مطلب بوجہ احسن حاصل ہوتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ سنی سنائی بات کا کبھی نہ کبھی اثر ہوتا ہے۔ جاہل آدمی اپنے مذہب سے محض ناواقف جب ایسے رسالوں کو پڑھتا یا سنتا ہے تو ضرور اس کے عقائد میں خلل آتا ہے اگر فی الفور مذہب عیسوی میں نہ داخل ہوا تو اتنا تو ہوتا ہے کہ یا وہ لامذہب یا دہریہ بن جاتا ہے۔ پس مقصد جو ان رسالوں کی اشاعت اور تقسیم مفت سے تھا حاصل ہو گیا۔
یورپ و امریکہ میں ہزاروں بلکہ لاکھوں ایسے اشخاص ہیں جو دنیا کو ترک کئے ہوئے اشاعت مذہب میں سرگرم ہیں۔ صدہا سوسیٹیاں ہیں جن کا یہی کام ہے کہ مذہب پھیلایا جاوے۔ اخبار جاری ہیں رسالجات چھپتے ہیں۔ ٹراکٹ لاکھوں شائع ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ مذہب کی اشاعت ہو۔ پادری صاحبان ترک وطن کئے ہوئے ہندوستان کو آتے ہیں چین کو جاتے ہیں جاپان کو روانہ ہوتے ہیں کاہے کو اس لئے کہ جس دین کو وہ حق سمجھے ہوئے ہیں اور جس پر نجات ان کی زعم میں منحصر ہے اسی دین پر اور لوگوں کو دعوت کر کے لائیں۔ اتنا بڑا کام اور عام منادی کے خرچ کے لئے عقل یہی چاہتی ہے کہ لاکھوں روپیہ کا سرمایہ ہو ورنہ ممکن بھی ہے کہ دنیا بھر کے لوگوں کو دین کی دعوت کی جائے۔ کوئی جزیرہ ایسا نہ ہو جس میں پادری لوگ اپنا تھل بیزا جمائے نہ بیٹھیں ہوں۔ اور باوجود اس کے یہ سب کام کم خرچ میں ہو سکے ایسا نہیں سالانہ لاکھوں اس امر میں خرچ ہوتے ہیں۔ کروڑوں کی آمد بھی ہے۔ کوئی عیسائی یوروپ و امریکہ میں ایسا نہیں جو مذہب کی اشاعت کے لئے اپنے مقدور بھر روپیہ نہ دیتا ہو۔ گرجا گھروں میں ہر ہفتہ چندہ ہوتا ہے ماہانہ چندہ دینے والے موجود ہیں سالانہ چندہ دینے والے علیحدہ ہیں۔ اکثر دولت مند ایسے ہیں جنہوں نے اپنی جائیداد سے ایک حصہ اسی امر اشاعت مذہب کے لئے وقف کر دیا ہے۔ جو دولت مند لاوارث مرتے ہیں وہ وصیت کرتے ہیں کہ اپنی ساری ملک فلاں سوسائٹی اشاعت مذہب کے حوالہ ہو۔ ہزارہا روپیہ سود کا آتا ہے کہ پادریوں کے مصرف میں جاتا ہے۔ ادنیٰ و اعلیٰ مرنے کے وقت کچھ نہ کچھ بپاس مذہب وقفِ پوادر کرتے ہیں۔ پس یہ مذہب کی عام خیرات ہے کہ اشاعت مذہب میں کام آتی ہے۔ اسی کی بدولت لاکھوں بت پرست دہریہ و لامذہب مذہب عیسوی میں خیل در خیل آتے ہیں پادریوں کے فخر کا باعث ہوتے ہیں۔
ملکۂ محتشمہ کوئین وکٹوریہ پرنس آف ویلس وزرائے سلطنت انگلستان سے لے کر ادنیٰ مزدور تک مذہب کی تائید میں بقدر حوصلہ دیا کرتے ہیں امریکہ اور دیگر ممالک یورپ میں بادشاہ سے لے کر فقیر تک کا یہی دستور ہے کوئی گرجا گھر نہیں جس میں اتوار کا دن بقدر ضرورت چندہ نہ اٹھایا جاتا ہو۔ پس جہاں کہیں یہ وتیرہ ہو اور جس دین کے پیروؤں کا یہ حال ہو تو پھر لاکھوں کروڑوں روپیوں کا سرمایہ کس طرح بہم نہ آوے۔ لاکھوں کتب تائید مذہب کروڑوں رسالے ترغیب دین میں کیونکر تالیف و شائع نہ ہوں جس دین کے پیرو ایسے ہیں کہ اپنے مذہب کے پاس میں صرف کثیر گوارا کرتے ہیں اگر ان کا دین دنیا کے ہر ایک حصے میں پھیل جاوے اور دین حق کے مقابلہ میں اپنی کثرت کو وحدت پر غلبہ دے تو یہ کون سی تعجب کی بات ہے۔
انصاف کہاں ہے شیوہ دینداری کیا اسی کا نام ہے کہ ارباب مذاہب باطلہ تو اپنے مذاہب و ادیان کے پھیلاؤ میں اس طرح سرگرم ہوں اور مسلمان جن کا دین متین منجانب اللہ ہونے پر شہادت عقلی و نقلی ہے ایسے بے خبر پڑے ہیں کہ باوجود چوطرف کے ہنگامہ کے ہنوز ان کی آنکھ بھی نہ کھلی ہے اٹھ بیٹھنا تو درکنار۔ صاحبو یہ غفلت سراسر مذلت ہے۔ نہ یہ شیوۂ دین ہے اور نہ اسلام کا آئین ہے۔ خیال تو کیجئے گا کہ دین اسلام کی کیا حالت ہے ارتداد زمانہ نے اس حصن حصین وحدت کو کس طرح گھیر رکھا ہے۔ افواج مذاہب باطلہ کا کیا زور و شور سے دھاوا ہو رہا ہے۔ اعتراضات کی توپیں کیسی اس کی فصیلوں پر چلائی جاتی ہیں۔ اہل قلعہ سے وہ لوگ جو اپنے پاس دین کا علم نہیں رکھتے اور اس کی خوبی کا امتیاز نہیں کر سکتے کیسی ابتر حالت سے دشمن کے قید میں پھنس جاتے ہیں۔ سبحان اللہ حقیقت دین اسلام کا یہ کچھ اسباب مسلمانوں کے پاس موجود ہو اور وہ اپنے دین کے قلعہ کو دشمنوں کے سخت حملے سے نہ بچائیں اور غفلت میں بیٹھ رہیں۔ یہ نہایت تعجب کی بات ہے۔ جب تک اہل قلعہ یعنی دین اسلام کے پیرو بالاتفاق دشمنوں کے مستاصل کرنے پر آمادہ نہ ہوں اور جو اسباب قلعہ میں رکھا ہوا ہے اس کو برابر طور سے استعمال میں نہ لاویں یعنی خدا نے دین اسلام میں جو خوبی رکھی ہے اور اس دین کو جیسا استحکام بخشا ہے دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ سے دشمنوں پر غلبہ حاصل نہ کریں تو پھر مسلمان پر حیف ہے۔ اگر سردار قلعہ یہ حکم کر رہا ہے کہ اس امر میں کوشش کرو اور جانبازی سے تعاون ایکدیگر پر ہمت کرو تو مردی اور ثبات یہی ہے کہ سارے مسلمان ایک دم حملہ آوری کی تیاری کریں۔ اس متفق حملہ سے یقین واثق ہو گا کہ دشمنوں کی فوج پسپا ہو گی اور حصن حصین اسلام اعدا کے شر سے محفوظ رہے گا۔
منافقوں اور دشمنوں کے سارے حملے دین اسلام پر ہورہے ہیں۔ ادھر دہریہ پن کا زور اُدھر لامذہبی کا شور کہیں برہمو سماج والے اپنے مذہب کو فیلسو فانہ تقریروں سے دین اسلام پر غالب کیا چاہتے ہیں۔ ہمارے عیسوی بھائیوں کی ساری پوری ہمت تو اسلام کی استیصال پر مصروف ہے اور ان کو اس بات پر یقین ہے کہ جب تک آفتاب اسلام اپنی پرتاب شعاعیں دنیا میں ڈالتا رہے گا تب تک عیسوی دین کی ساری کوششیں بیکار اور تثلیث تین تیرہ رہے گی غرض سارے مذہب اور تمام دین والے یہی چاہتے ہیں کہ کسی طرح دین اسلام کا چراغ گل ہو اور صرصر حوادث کا ایسا زور ہے کہ فی الحقیقت اگر اس چراغ ہدایت کو تندباد دہریت اور کفر سے نہ بچایا جاوے تو کوئی عرصہ میں قیامت نمودار ہو گی اس محافظت کے لئے جو حقیقت میں خوشنودی خدا اور رسول ہے مسلمانوں کی شرکت درکار ہے۔ یہ ایسا کام ہے کہ ایک دو برگزیدہ اور منتخب اشخاص کی ہمت اور کوشش سے اس کا انجام ہو نہیں سکتا۔ قوم کی سعی، دینداروں کی ہمت، مالداروں کی جرأت، امیروں کی سخاوت غریبوں کی مشارکت فاضلوں کی تقریر علماء کی تحریر زاہدوں کی دعا کی ضرورت ہے۔ انجمنوں کی کارروائی اراکین دین کی باہمی کوشش چاہئے چونکہ یہ دین ہے اس لئے ہر دیندار کو تائید لازم ہے اور جو تائید سے پہلو تہی کرے وہ سب کے پاس بیدین ہے۔ جب اہل اسلام اس طرح کی تائید و تدبیر کریں تو ہم ذمہ لیتے ہیں کہ آج دین اسلام کا جھنڈا اُن ملکوں میں کھڑا ہو جہاں اب تک اس کا پرتو ہدایت پڑا ہی نہیں۔
مسلمانوں کی کم ہمتی کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہے کہ ان میں آج کوئی ایسا فنڈ نہیں یا کوئی ایسی سوسائٹی نہیں جس کا مقصد اشاعت دین اسلام ہو اور جس کے پاس مسلمانوں کے علماء و فضلا کا ایک ایسا گروہ ہو جو ان ملکوں میں جہاں تثلیث اور بت پرستی ہو رہی ہے جاوے اور اپنے وعظ اور منادی سے لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھلاوے اور ایسے گروہ کا خرچ سوسائٹی کے فنڈ سے دیا جاوے۔ جہاں مذاہب باطلہ کی ترویج میں ایسے صدہا سوسیٹیاں ہیں آیا کوئی مسلمانوں کی انجمن اشاعت مذہب بھی موجود ہے۔ اس سوال کے جواب دینے میں ہر اک مسلمان کو شرم لینی چاہئے کہ دین حق کا دعویٰ اور اعلان کلمۃ اللہ کے لئے کوئی انجمن مکتفی سرمایہ کی موجود نہیں۔ ابھی خدا کے فضل سے اسلامی سلطنتیں اور اسلامی ریاستیں موجود ہیں مگر کوئی مسلمان یہ بتلا نہیں سکتا کہ جیسی عیسویوں میں وزلین مشن سوسائٹی لندن مشن سوسائٹی چرچ مشن سوسیٹی امریکن مشن سوسائیٹی اور ایسے ہی صدہا سوسیٹیاں ہیں ایسا ہی مسلمانوں کی کوئی سوسائٹی ہے۔ اگر اس غیرت سے مسلمانوں کی قوم مرجائے تو بہتر ہے۔ اب جو مسلمان دعویٰ اسلام کر رہے ہیں ان کو لازم ہے کہ ذرا گریبان میں منہ ڈال کر جھانکیں کہ کس منہ سے مسلمان کہلاتے ہیں۔ نہ دنیا کے رہے نہ دین کے۔ پس جو مسلمان مسلمان کہلانے کے لائق ہیں اگر وہ بھی ہمت کو ہار دیں اور مذہب کی تائید میں سرگرمی نہ دکھلائیں تو پھر دین کا خاتمہ ہے۔ لو عیسوی ہو جاؤ۔ برہمو سماج بن جاؤ تاکہ جہان سے مسلمانوں کا نام ہی مٹ جائے۔ اگر یہ منظور نہیں تو پھر دین کی تائید کرو خدا کے مقبول ہو رسول کے انصار بنو۔
آفتاب دین محمدیؐ کی روشنی ایسی ہے کہ عرصہ تیرہ سو سال سے اپنی اصل پر قائم ہے۔ دین اسلام کی حقانیت کی بڑی دلیل یہی ہے کہ باوجود ساری دنیا کے ادیان والے اس روشنی کو زائل کرنے کی کوششیں اور تدبیریں کر رہے ہیں مگر اس کی حقانی روشنی ہرگز زوال پذیر نہیں۔ سلطنتیں اور دولتیں برباد ہو گئیں۔ ملک اور جزائر دست بدست منتقل ہو گئے۔ قوانین سیاست میں تغیر و تبدل ہو گیا مگر دین اسلام اپنی اصالت پر قائم رہا۔ نہ صرصر کفر کی کچھ پیش گئی اور نہ تند باد دہریت نے اس کو نقصان پہنچایا۔ یہ تواسلام کی اصلی حقیقت کی تعریف ہوئی۔ رہا یہ امر کہ اس ہدایت کا نور کفر کے تاریک گھروں میں پہنچایا جاوے البتہ یہ ضروری ہے۔ پس مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس کی کوشش کریں۔‘‘(باقی آئندہ ہفتہ کو ان شاء اللہ)
مزید پڑھیں: سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم