غلبۂ اسلام کی ایک عظیم پیشگوئی
’’اور ایسا ہی دوسرا معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جوشقّ القمر ہے اسی الٰہی طاقت سے ظہور میں آیا تھا کہ کوئی دعا اس کے ساتھ شامل نہ تھی کیونکہ وہ صرف انگلی کے اشارہ سے جو الٰہی طاقت سے بھری ہوئی تھی وقوع میں آگیا تھا،اور اس قسم کے اور بھی بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعانہ تھی‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)
خانہ کعبہ کے صحن میں رؤ سائے قریش کی مجلس جمی ہوئی تھی اور وہ بڑے زور و شور سےیہ گفتگو کر رہے تھے کہ آخر محمد(ﷺ) کو اس کے نئے دین کی اشاعت سے کیسے روکا جائے؟ یہ نیا دین تو روز بروز ترقی کرتا چلا جارہا ہےاور ہمیں باوجود مسلسل کوشش کے ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔اس گفتگو کے دوران آخر یہ تجویز طے کی گئی کہ کیوں نہ محمدؐ کے ساتھ مل بیٹھ کر اس بارے میں بات کی جائے اور پھر جیسے بھی ہو اس معاملے کو ختم کیا جاۓ۔چنانچہ رسول کریمﷺ کو یہ پیغام بھجوایا گیا کہ آپ کی قوم کے سردار آپ سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔جب یہ پیغام حضور اکرمﷺ کو پہنچا تو اس موقع کو غنیمت جان کراپنے سچے پیغام کی ترویج و اشاعت کے خیال سے آپﷺ وہاں تشریف لے گئے۔قریش نے آپﷺ کے ساتھ گفتگو شروع کی اور کہا کہ دیکھو !اب یہ معاملہ بہت طول پکڑ گیا ہے اس لیے اگر تو تمہاری غرض اس نئے سلسلہ کے ذریعہ سےمال جمع کرنا ہے تو ہم تمہیں مکہ کا دولت مند ترین شخص بنا دیتے ہیں۔ اگر عزت کی خواہش ہے تو ہم تمہیں اپنا سردار بنانے پربھی آمادہ ہیں اور تمہیں ریاست دینے کے لیے بھی تیار ہیں، اور اگر مکہ کی کسی خوبصورت اور معززخاتون سے شادی کرنا چاہو تو اس کا بھی انتظام کیا جاسکتا ہے ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دو۔رسول اللہﷺ نے ان کی ان تمام باتوں کو سنا اور فرمایا: اے گروہ ِقریش! مجھے ان سب میں سے کسی کی بھی خواہش نہیں ہے۔ میں تو خدا کا ایک پیغمبر ہوں اور اسی کا پیغام تم تک پہنچا رہا ہوں۔ تمہارا فائدہ اسی میں ہے کہ اس پیغام کو قبول کرلو۔ قریش نے کہا اچھا جو ہم نے تجویز پیش کی اگر اسے تم قبول نہیں کرتے تو پھر ہمیں کچھ ایسی علامات اور نشانات تو دکھاؤ جن کو دیکھ کر ہم ایمان لے آئیں۔تم یہ تو جانتے ہی ہوکہ ہمارا یہ شہر اتنا زرخیز نہیں ہے،اگر تم واقعی خدا کے پیغمبر ہوتو اس علاقہ میں نہریں جاری کردو اور اس میدان کو سرسبز و شاداب بنادو۔آپﷺ نے دوبارہ وہی جواب دہرایا کہ میں محض خدا کا ایک رسول ہوں اور اس کے احکامات کو تم تک پہنچا رہا ہوں۔ قریش نے کہا کہ اچھا یہ بھی نہیں تو اگر تمہارا واقعی خدا سے تعلق ہے تو اس سے کسی فرشتے کے اترنے کی درخواست کرو، یا یہ استدعا کرو کہ تمہارے پاس باغات ہوں اور سونا چاندی کے خزانے ہوں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ تم تو ہماری طرح ہی کام کرتے ہواور بازاروں میں گھومتے پھرتے ہو۔آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ میں ایسا مدعی نہیں ہوں جس کی تم تلاش کرتے پھر رہے ہو۔لیکن ہاں میں تمہیں پھر یہ بتاتا ہوں کہ مجھے قبول کرنے کے نتیجہ میں تمہیں ضرور دین و دنیا کی ترقیات نصیب ہوں گی۔قریش نے یہ سنتے ہی بڑے غصے میں کہا کہ یہ بھی نہیں تو خدا کا عذاب ہی ہم پر نازل کردوجس کا تم دعویٰ کرتے پھرتے ہو۔خدا کی قسم !ہمیں تو بس اب یہی نظر آرہا ہے کہ یا تو تم زندہ رہو گے یا ہم، اور اس کے ساتھ ہی یہ مجلس بغیر کسی نتیجے کے برخاست ہوگئی اور آنحضرتﷺ قریش مکہ پر افسوس کرتے ہوئے واپس گھرتشریف لے گئے۔ (تلخیص از سیرت ابن ہشام جزء ۱ طبعہ ثانیہ مصر ۱۹۵۵ءصفحات ۲۹۵تا ۲۹۹، سیرت خاتم النبیینؐ حضرت مرزا بشیر احمدؓ ایم اے صفحات۱۸۰تا ۱۸۲)
معجزہ دکھانے کا مطالبہ
قریش کا یہ انداز اور یہ مطالبہ کوئی نیا مطالبہ نہیں تھا بلکہ انبیاء کی تاریخ میں دشمنانِ دین کی طرف سے ہمیشہ اسی طرز کے مطالبات پیش کیے جاتے رہےہیں۔ گو خدا تعالیٰ ان کے ان مطالبات کو پورا کرنے کا پابندنہیں ہے کیونکہ نبی کی لائی ہوئی تعلیمات اور ان کے اپنے اخلاق ہی ان کی سچائی کے لیے کافی گواہ اور ثبوت ہوا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود خدا تعالیٰ قانون قدرت کے تحت بعض معجزانہ نشانات بھی اپنے رسولوں کی صداقت میں ظاہر کردیتا ہے تا دین کی خوبصورتی ظاہر ہو اور مخالفین کے نزدیک خدا کے حضور کوئی عذر باقی نہ رہے۔لیکن جن کے دل پتھر کی طرح سخت ہو چکے ہوں وہ ان روشن نشانات کو دیکھنے کےباوجود بھی ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوتےاور اپنی انانیت کے زعم میں انکار کرتے چلے جاتے ہیں۔قریشِ مکہ کی طرف سے بھی متعدد بار معجزہ طلب کرنے پرآپﷺ نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر شق القمر یعنی چاند کے دو ٹکڑے ہوجانے کا معجزہ دکھایا اور یہ نشان ہجرت مدینہ سے پانچ سال قبل ۹؍نبوی میں جبکہ مسلمان ابھی شعب ابی طالب میں محصور تھے ظہور میں آیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’تصرفات خارجیہ کے اعجاز بھی قرآن شریف میں بکثرت درج ہیں اور اس قسم کے معجزات جمالِ قرآنی کے لیے بطور اس زیور کے ہیں جو خوبوں کو پہنایا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ نفس خوبصورتی ٔزیور کے محتاج نہیں گو اس سے حسن کی آب و تاب کسی قدر اور بڑھ جاتی ہے۔ اس جگہ واضح رہے کہ تصرفات خارجیہ کے معجزات قرآن شریف میں کئی نوع پرمندرج ہیں۔ ایک نوع تو یہی کہ جو دعائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خدائے تعالیٰ نے آسمان پر اپنا قادرانہ تصرف دکھلایا اور چاند کو دو ٹکڑے کردیا۔دوسرے وہ تصرف جو خدائے تعالیٰ نے جناب ممدوح کی دعا سے زمین پر کیا اور ایک سخت قحط سات برس تک ڈالا۔یہاں تک کہ لوگوں نے ہڈیوں کو پیس کر کھایا۔‘‘(سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد ۲صفحہ۶۳ اور ۶۴ حاشیہ)
چاند دو ٹکڑے ہوگیا
اس عظیم نشان کے ظاہر ہونے کے باوجود مخالفین نے اس کے ماننے سے انکار کردیا اورکہا کہ یہ تومحض ایک جادو ہے۔ قرآن کریم اس واقعہ کا یوں ذکر کرتا ہے:اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانۡشَقَّ الۡقَمَرُ۔وَاِنۡ یَّرَوۡا اٰیَۃً یُّعۡرِضُوۡا وَیَقُوۡلُوۡا سِحۡرٌ مُّسۡتَمِرٌّ ۔ (سورۃالقمر آیت ۲۔۳) ساعت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔اور اگر وہ کوئی نشان دیکھیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ہمیشہ کی طرح کیا جانے والا جادو ہے۔
اسی طرح احادیث میں بھی یہ ذکر موجود ہے کہ جب مکہ والوں نے رسول کریمﷺ سےکوئی معجزہ طلب کیا تو انہیں شق القمر کا معجزہ دکھایا گیا۔(صحیح بخاری کتاب المناقب بَابُ سُؤَالِ الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُرِيَهُمُ النَّبِيُّ صَلّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ آيَةً فَأَرَاهُمُ انْشِقَاقَ الْقَمَرِ حدیث نمبر ۳۶۳۷)
نیزایک اور حدیث اس حوالے سے یوں آتی ہے:عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ رضى اللّٰه عنه قَالَ انْشَقَّ الْقَمَرُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ صلى اللّٰه عليه وسلم بِمِنًى فَقَالَ اشْهَدُوا وَذَهَبَتْ فِرْقَةٌ نَحْوَ الْجَبَلِ۔ (صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار باب انشقاق القمر حدیث نمبر۳۸۶۹) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جس وقت چاند کے دو ٹکڑے ہوئے تو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ کے میدان میں موجودتھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ لوگو ! گواہ رہنا، اور چاند کا ایک ٹکڑا دوسرے سے الگ ہو کر پہاڑ کی طرف چلا گیا تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’یہ وہ معجزہ ہے کہ جو عرب کے ہزاروں کافروں کے روبرو بیان کیا گیا ہے پس اگر یہ امرخلاف واقعہ ہوتا تو یہ اُن لوگوں کا حق تھا کہ وہ اعتراض پیش کرتے کہ یہ معجزہ ظہور میں نہیں آیا خاص کر اس حالت میں کہ شقُّ القمر کی آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کافروں نے یہ معجزہ دیکھا اور کہا کہ یہ پکا جادوہے ‘‘۔(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۳۲)
نیز ایک اور مقام پر آپؑ نے یہ تحریر فرمایا:’’اور ایسا ہی دوسرا معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جوشقّ القمر ہے اسی الٰہی طاقت سے ظہور میں آیا تھا کہ کوئی دعا اس کے ساتھ شامل نہ تھی کیونکہ وہ صرف انگلی کے اشارہ سے جو الٰہی طاقت سے بھری ہوئی تھی وقوع میں آگیا تھا،اور اس قسم کے اور بھی بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعانہ تھی‘‘۔(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۶۶)
معجزہ شق القمر کی حقیقت
قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں اب یہ تو واضح ہے کہ یہ عظیم الشان معجزہ ضرور واقع ہوا۔لیکن کیا چاند واقعی دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا تھا یا اس واقعہ کی حقیقت کچھ اور ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔ہماری موجودہ علمی معلومات کی روشنی میں عقل عام طور پر تو اس بات کوتسلیم نہیں کرتی کہ ظاہری طور پر چاند درمیان سے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہو کیونکہ ایسا واقعہ رونما ہونے پر تو دنیا کا نظام ہی درہم برہم ہوجاتا۔ ہم جانتے ہیں کہ شمس و قمر کا یہ توازن دنیا کے نظام کے لیے ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔پھر اسی طرح سائنسی تاریخ میں بظاہر ہمیں کوئی ایسا ریکارڈ نہیں ملتا جس سے یہ پتا لگتا ہو کہ واقعی کبھی چاند دو حصوں میں پھٹا ہو۔لیکن پھر بھی اکثر مسلمان مفسرین اور علماء اس معجزہ کو ظاہری طور پر لیتے ہیں۔اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ’’یہ خیال کہ فی الواقع چاند دو ٹکڑے ہو گیا تھا۔ صحیح نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو علم نجوم والے جو رصد گاہوں میں بیٹھے تھے۔ وہ ضرور دیکھتے۔ لیکن انہوں نے اس کو ریکارڈنہیں کیا‘‘۔(الفضل مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۲۲ء صفحہ۷)
اس بارےمیں یاد رکھنا ضروری ہے کہ معجزات ہمیشہ ہی انسانی عقل سے بالا ہوا کرتے ہیں جس کا سمجھنا انسان کے محدود شعور کے لیے بہت مشکل ہوا کرتا ہے۔لیکن جوں جوں انسان علم میں ترقی کرتا ہے تو ان سوالوں کو حل کرنا آسان ہوتا چلا جاتا ہے۔چنانچہ اس واقعہ کے حوالے سے معلوم قانون قدرت کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی کئی امکانات مراد لیے جاسکتے ہیں۔
حضرت ابن عباسؓ اس بارےمیں اپنی رائے دیتے ہوئے اس شق قمر کو گرہن قرار دیتے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں آپ کی ایک روایت یوں ملتی ہے:عن ابنِ عباس، قال: كَسَفَ القمَرُ على عهد رسولِ اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقالوا: سحر القمر۔ فنزلَتْ: اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ۔(تفسیر ابن کثیر جزء۷ دار الکتب العلمیۃ طبعہ اولیٰ ۱۴۱۹ھ صفحہ ۴۳۸ )یعنی حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول کریمﷺ کے زمانے میں چاند کو گرہن لگا جس پر قریش مکہ نے یہ کہا کہ چاند پر تو کوئی جادو ہوگیا ہےتب سورۃ قمر کی ابتدائی آیات کا نزول ہوا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بھی اس سے اتفاق فرماتے ہیں،آپؑ فرماتے ہیں:’’ بڑا عظیم الشان معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شق القمر تھا اور شق القمر دراصل ایک قسم کا خسوف ہی تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے سے ہوا۔ ‘‘(الحکم جلد ۷ نمبر ۲۰ مورخہ۳۱؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲)
ہم یہ جانتے ہیں کہ چاند کی سطح پر شہاب ثاقب یعنی Meteor کا گرنا بھی ایک عام سی بات ہے۔ان بڑے بڑے اجرام کے چاند کی سطح پر گرنے کی وجہ سے کئی گڑھے چاند میں دیکھنے کو ملتے ہیں جو کئی سو کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ان کے گرنے پرچٹان کی مانند کئی کئی میٹر اونچی اور لمبی غبار کی تہ اٹھتی ہے جو اس سارے خطہ کو اپنے احاطہ میں لے لیتی ہے۔ عین ممکن معلوم ہوتا ہے کہ آج سے ۱۴۰۰؍سال قبل بھی کچھ ایسا ہی واقعہ الٰہی طاقت نے اپنے نبی کی صداقت کے لیے ظاہر کردیا ہو اوراس واقعہ کے رونما ہونے سے پہلے آپﷺ کو اس کا علم دے دیا گیا ہو۔چنانچہ جب آپﷺ نے انگلی کے اشارہ سے لوگوں کو چاند کی طرف دیکھنے کو کہا تو وہاں پر موجود سب نے چاند کو بظاہر دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔
ایک کشفی نظارہ
ایک اور امکان جس کا حضرت امام غزالی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ ایک کشفی نظارہ تھا جو اس وقت موجود لوگوں کو دکھایا گیا۔علامہ سید سلیمان ندوی اپنی کتاب سیرت النبیﷺمیں لکھتے ہیں:’’بعض متکلمین نے جن میں ایک شاہ ولی اللہ صاحب بھی ہیں لکھا ہے اور امام غزالی کا بھی ادھر ہی رجحان معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت چاند میں شگاف نہیں ہوا تھا بلکہ لوگوں کو ایسا نظر آیا۔‘‘(سیرت النبیؐ حصہ سوم اسد نئیر پرنٹر ز لاہورصفحہ ۳۳۲)
اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’یہ بھی ممکن ہے کہ نبی کی قوت قدسیہ کے اثر سے دیکھنے والوں کو کشفی آنکھیں عطا کی گئی ہوں اور جو انشقاق قرب قیامت میں پیش آنے والا ہے اس کی صورت ان کی آنکھوں کے سامنے لائی گئی ہو کیونکہ یہ بات محقق ہے کہ مقربین کی کشفی قوتیں اپنی شدت حدت کی وجہ سے دوسروں پر بھی اثر ڈال دیتے ہیں اس کے نمونے ارباب مکاشفات کے قصوں میں بہت پائے جاتے ہیں بعض اکابر نے اپنے وجود کو ایک وقت اور ایک آن میں مختلف ملکوں اور مکانوں میں دکھلا دیا ہے باذن اللہ تعالیٰ‘‘(سرمہ چشم آریہ،روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۷۷)
نیز حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:’’چاند فی الواقع دو ٹکڑے نہیں ہوا تھا۔ بلکہ کشف میں ایسا دکھایا گیا تھا۔ اور کشف ایسے ہو سکتے ہیں کہ دوسرے بھی ان میں شامل ہوں۔ چنانچہ اُس مجلس والوں نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا۔ اور ہندوستان کے ایک راجہ نے بھی اس کو دیکھا۔ تاکہ آئندہ کے لیے گواہی ہو‘‘۔(الفضل مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۲۲ء صفحہ۷)
چاند کی تعبیر کیا ہے؟
جیسا کہ ذکر ہوا کہ یہ معجزہ قریش کے متعدد مطالبات کے بعد اللہ تعالیٰ کے سچے نبی کی صداقت کے لیے ظاہر ہوا تھا۔لیکن اس سے بھی بڑھ کر اس نشان کے ذریعہ سے ایک عظیم الشان پیشگوئی بھی کردی گئی تھی جو آئندہ زمانے میں پوری ہونے والی تھی۔چاند عرب کا ایک نشان تھا۔خواب یا کشف میں اگر کوئی چاند دیکھے تو اس سے مراد وہ حکومت اور بادشاہت لیتے تھے اور یہی تعبیر الرؤیامیں بھی درج ہے۔چنانچہ ایک مرتبہ خیبر کے رئیس حیی بن اخطب کی بیٹی حضرت صفیہ ؓنے خواب میں دیکھاکہ چاند ان کی گود میں آکرگراہے۔جب آپؓ نے یہ خواب اپنے والد کو سنایا تو وہ سخت غصہ میں آگئے اور کہا کہ کیا تم مسلمانوں کے آقا محمدکے عقد میں جانا چاہتی ہو لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ بالآخر ایسا ہی ہوا اور فتح خیبر کے بعد حضرت صفیہ ؓاس خواب کی تعبیر کے عین مطابق نبی کریمﷺ کے عقد میں آگئیں۔اس لحاظ سے جب ہم اس نشان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ چاند کو دو ٹکڑے ہوتا ہوا دکھانے سے اللہ تعالیٰ کا منشا صرف کوئی وقتی تماشہ دکھانا نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے یہ گہری حکمت اور فلسفہ موجود تھا کہ اب عرب کی موجودہ حکومت کا خاتمہ ہونے کو ہےاور اسلام اب اپنا غلبہ حاصل کرے گا اور یہ معاملہ ایسا یقینی اور قطعی ہے کہ کوئی اسے روک نہیں سکتا کیونکہ جیسے آسمان پر ظاہر ہونے والے نشانوں کو روکنا انسانی طاقت سے بالا ہے ویسے ہی آسمان پر لکھے ہوئے فیصلوں کو بھی انسانی کوششیں ہرگز بدل نہیں سکتیں۔ اور اقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ سے مراد یہ ہے کہ یہ زمانہ بہت دُور نہیں ہے بلکہ بہت جلد قریش پر وہ گھڑی قیامت اور تباہی کی آنے والی ہے اور ان معنوں کی رُو سے اس نشان کی اصل حکمت بھی واضح ہوجاتی ہے جبکہ وقتی طور پر بھی یہ نشان ایک عظیم الشان معجزہ سے کم نہ تھا جو کہ ایسے وقت میں رونما ہوا جب مکہ میں مسلمان قریش کے ظالمانہ قوانین کے باعث سخت ترین حالات میں اپنی زندگیاں بسر کررہے تھے۔
اس نشان کی عظیم الشان حکمت اور پیشگوئی
حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں:’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی شق قمر کی یہی حکمت تھی کہ جن کو پہلی کتابوں کے علم کا نور ملا تھا وہ لوگ اس نور پر قائم نہ رہے اور ان کی دیانت اور امانت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔سو اس وقت بھی آسمان کے شق القمر نے ظاہر کردیا کہ زمین میں جو لوگ نور کے وارث تھے انہوں نے تاریکی سے پیار کیا ہے اور اس جگہ یہ بات قابل افسوس ہے کہ مدت ہوئی کہ آسمان کا خسوف کسوف جو رمضان میں ہوا وہ جاتا رہا اور چاند اور سورج دونوں صاف اور روشن ہو گئے مگر ہمارے وہ علماء اور فقراء جو شمس العلماء اور بدر العرفاء کہلاتے ہیں وہ آج تک اپنے کسوف خسوف میں گرفتار ہیں۔‘‘(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۹۵)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’پس چاند کے پھٹنے کے یہ معنے تھے کہ عرب کی حکومت تباہ ہوجائے گی۔ اُس وقت جب آپؐ کے صحابہؓ چاروں طرف دنیا میں جان بچائے دوڑے پھرتے تھے جب رسول اللہﷺ کا گلا گھونٹا جا تا اور آپؐ کی گردن میں پٹکے ڈالے جاتے تھے۔ جب خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے کی بھی آپؐ کو اجازت نہیں تھی اور جب سارا مکہ آپؐ کی مخالفت کی آوازوں سے گونج رہا تھا، اُس وقت محمد رسول اللہﷺ نے مکہ والوں کو یہ خبر دی کہ عرب کی حکومت کی تباہی کا خدا نے فیصلہ کردیا ہے اور اسلام کے غلبہ کا وقت آگیا ہے۔ پھر کس طرح قیامت آگئی اور ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین بنادی گئی چند سال کے بعد ہی یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ قیدار کی ساری حشمت توڑ دی گئی۔ اسلام کا جھنڈا بلند کردیا گیا۔ چاند پھٹ گیا۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ ۲۸۳)
پس آج بھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مزعومہ مسلمان علماء واضح انشقاق اور اختلاف کا شکار ہیں۔ یہ گھڑی وہی ہے جس کی پیشگوئی رسول کریمﷺ نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر آج سے چودہ سو سال پہلے فرمائی تھی۔یہ وہی ساعت ہے جس کی طرف قرآن کریم روشنی ڈالتا ہے۔اوریہ وہی آخری زمانہ ہے جس کی خبر گذشتہ تمام انبیاء دے چکے تھے۔ایسے مشکل وقت میں الٰہی نوشتوں میں لکھی پیشگوئیوں کے مطابق اس عاشقِ صادق کا آنا مقدر تھا جس کے ذریعہ سے زمین و آسمان کو از سر نو ایک نئی زندگی ملنی تھی۔ اس پیشگوئی کی سچائی کے طور پر حضرت مسیح موعود ؑکے زمانے میں بھی ایک قسم کا انشقاقِ قمر وقوع میں آیا جب چاند اور سورج کودو مرتبہ آپ کی زندگی میں گرہن لگا۔ اور اس میں یہی اشارہ تھا کہ اب تمام دیگر سلسلوں پر زوال کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، اور دنیا میں بہت سی عظیم الشان تبدیلیاں اور تغیر و تبدل ہونے والا ہے جو بہت سے لوگوں کو اپنی زَد میں لے لے گالیکن خدا تعالیٰ کا ان لوگوں سے جو ذو العجائب رب سے پیار کرتے ہیں وعدہ بھی ہے کہ خدا انہیں ضرور تباہی اور بربادی سے بچائے گا اور یہ وہی جماعت ہوگی جو رسول کریمﷺ کی کامل پیروی کے ذریعہ سے ایک مضبوط آہنی قلعہ اور عافیت کےحصار میں محفوظ ہوجائے گی اور اس خوش قسمت گروہ کی وساطت سے اسلام کو ایک مرتبہ پھر ترقیات نصیب ہوں گی اور وہ دن اب دور نہیں جب اسلام پوری دنیامیں اپنا روحانی غلبہ حاصل کرلے گا انشاء اللہ۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: شکر گزاری ترقی اور برکت کا ذریعہ