متفرق مضامین

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے زمانے میں فرانسیسی جرائد ورسائل میں احمدیت کا ذکر

(نصیر احمد شاہد۔ مبلغ سلسلہ فرانس)

حضور علیہ السلام کی زندگی میں ہی فرانس کے اخبارات و رسائل کوآپؑ کے مشن
اور آپؑ کےپیغام کو تفصیل سے شائع کرنے کا شرف حاصل ہوا

قرآن کریم اور احادیث نبویﷺ کے مطابق امتِ محمدیہ میں مبعوث ہونے والے امام مہدی ؑاور مسیح موعودؑ کے زمانے میں اشاعت اسلام کی عالمگیر مہم مقدّر تھی۔ان پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو امام مہدی ؑاور مسیح موعودؑ بنا کر بھیجا۔اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لیے جہاں بے شمار دلائل عطا فرمائے وہاں اس مشن میں یقینی کامیابی کے لیے حیرت انگیز پیشگوئیوں پر مشتمل الہامات سے بھی نوازا۔ان میں سے بعض الہامات ابتدائی زمانے کے تھے جبکہ ہر مذہب و ملت کے لیڈر مخالفانہ جوش کے ساتھ نہ صرف آپ کو ناکام دیکھنے کے خواہش مند تھے بلکہ اس کے لیے ہر حربہ بروئے کار لارہے تھے۔اسی مخالفانہ فضا میں آپؑ کو ایک الہام:’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ہوا۔ یاد رہے کہ یہ الہام پہلی دفعہ اخبار الحکم میں ۲۷؍مارچ ۱۸۹۸ء کو شائع ہوا۔

اس قادر و توانا خدا کی بھی عجیب شان ہے کہ ایک طرف دشمن قادیان جیسی چھوٹی سی بستی سے آپؑ کے نام و نشان کو مٹا دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا۔دوسری طرف آپؑ کا خدا نہ صرف آپؑ کی تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچانے کے وعدے کر رہا تھا بلکہ آپؑ کی حین حیات میں اس کو پورا کر کے دکھا بھی رہا تھا۔ اور ان میں سے دنیا کے بعض کنارے ایسے بھی تھے کہ آج بھی ان علاقوں کی زمین اسلام کی حقیقی تعلیم کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔بلکہ اسلام مخالف ہر رَو، ہر تصوّر اور ہر فلسفہ کے لیے خوب زرخیز ہے۔زمین کے ایسے ہی کناروں میں بحیرہ روم، بحیرہ شمال اوربحر اوقیانوس کے درمیان ایک خطۂ ارض پر واقع ایک ملک فرانس ہے۔

یا للعجب کہ حضور علیہ السلام کی زندگی میں ہی فرانس کے اخبارات و رسائل کوآپ کے مشن اور آپ کےپیغام کو تفصیل سے شائع کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ابھی ہمیں ان میں سے دو کے بارے میں علم ہوسکا ہے۔قارئین الفضل کی خدمت میں اس کا اردو ترجمہ پیش ہے۔امید ہےاس میں وہ اپنی روحانی اور علمی تشنگی کی تشفی کا سامان پائیں گے۔ یقیناً یہ ایک ایمان افروز واقعہ ہے کیونکہ شائع شدہ مضمون ’آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج‘کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ورنہ لکھنے والا ویسے کبھی نہ لکھتا جیسے اس کی قلم سے لکھا گیا۔

Journal Des Debats

Politiques Et Litteraires

مذکورہ اخبار نے ۱۷؍دسمبر ۱۸۹۹ء کی اپنی اشاعت میں درج ذیل مضمون شائع کیا:’’انسانوں میں یہ بات قدر مشترک ہے کہ مذاہب کی کثرت بہت سی نیک روحوں کے لیے تشویش کا موجب ہے۔ شاید یہ مسئلہ ہندوستان کے مقابلے میں کہیں اور زیادہ قابل فہم نہیں ہے، جہاں تمام فرقوں کے ہندو، قدامت پسند یا فرقہ پرست مسلمان، اور تمام فرقوں کے مبلغین ضمیر کی سلطنت سے اختلاف کرتے ہیں۔ لیکن مابعدالطبیعیاتی نظریات اور اخلاقیات کی یہ افسوسناک الجھن جلد ہی ختم ہو جائے گی، اگر وائسرائے ہند صرف اُس درخواست پر عمل کریں گے جوکہ قادیان کے مرزا غلام احمد نے گورداسپور (پنجاب) کے ضلع میں اس کو پیش کی ہے۔ آپ کی درخواست ہندوستان کے مذہبی اتحاد سے کم کچھ نہیں چاہتی۔ شکاگو میں [۱۸۹۳ء میں] یا کسی اور جگہ پر کانگریس کی طرف سے وضع کردہ فارمولے کے مطابق، وہ اُسے حاصل کرنے کی پرواہ نہیں کرتا، جس کی وجہ مختلف عقائد کا ایک علمی تناسب ہے۔ وہ جو چاہتا ہے وہ بہترین دین کی حتمی فتح ہے، یعنی اس کے اپنے دین کی، کیونکہ وہ ایک نیا مسیحا ہے، اور اس کے شاگرد بھی ہیں۔ ثبوت کے طور پر، وہ ہندوستانی اخبارات میں ان کے ناموں کی لسٹ شائع کرتے ہیں۔

یہ صرف پریس کے اس ذہین استعمال میں ہی نہیں ہے کہ وہ خود کو مکمل طور پر جدید مسیحا ظاہر کرتا ہے۔ ماضی میں نہ صرف مسلمان بلکہ بہت سے سچے ایمان والوں کو اپنے ذاتی عقیدے کی تکمیل کے لیے جبر واکراہ اور تشددسے بہتر کوئی دلیل نہیں ملتی تھی۔صاحبِ ایمان مرزا کی روح ان متشددانہ اور پرانے طریقوں کی منافی کرتی ہے۔انہوں نے جو تجویز پیش کی ہے وہ ہمارے آداب سے کہیں زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔ یہ ایک حقیقی مقابلہ ہے جو علمی طور پر مختلف فرقوں کے منتخب نمائندوں، پنڈتوں، مولویوں اور دینیات کے ڈاکٹروں(ماہرین) کو اکٹھا کرے گا۔ مقابلہ دو حصوں پر مشتمل ہوگا، ایک (علمی ) مضمون نویسی اور دوسرا (اس کا)عملی مظاہرہ۔ مقالے کا موضوع فطری طور پر ہر امیدوار کے اپنے بنیادی عقائد کی برتری سے متعلق ہوگا۔ جب سے سادھو اس پر بحث کرتے رہے ہیں، اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ امتحان قطعی طور پر حتمی نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ مرزا اپنے پروگرام کے دوسرے حصے میں سب سے بڑھ کر اُن شرائط پر انحصار کرتا ہے جن کے تحت ہر حریف کو دعوت دی جائے گی کہ وہ آسمانی نشان کے ذریعے واضح طور پر یہ ثابت کرے کہ خدائی حمایت اس کے حق میں ہے۔ نئے نبی کا کہنا ہے کہ ایک معجزہ ہی ہے جواَب بھی اس معاملے میں لوگوں کوقائل کرنے کی سب سے زیادہ طاقت رکھتا ہے، اور یوں اس نے اپنے مخالفین، برہمنوں، مولویوں، انگلیکن بشپس، یا جیسوٹ فادرز کو گھیر لیا ہے۔ وہ ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ ممکنہ دھوکادہی سے بچنے کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ جس کے بعد کونسل میں گورنر جنرل فاتح کے ساتھ فاتح مذہب کا اعلان کرے گا۔ غلام احمد یقین دلاتے ہیں کہ یوں ہر کوئی ان کا شکر گزار ہوگا۔ اِس سے بہتر اور کیا چیز ان کی معصومیت اور جوش و جذبہ کا پتا دے سکتی ہے، جو صدیوں کی پدرانہ طرز حکمرانی کے نتیجے میں ہندوستانیوں پر مسلط کردی گئی ہے، کہ ایک سادہ حکومتی فرمان تمام اختلافات کو حل کر سکتا ہے۔

یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ اس قسم کے مقابلوں میں، خواہ یہ ایک عام باکسنگ کا مقابلہ ہی کیوں نہ ہو، اکثر دیکھا جاتا ہے کہ چیلنج جو اپنے مخالف کو کِیاجاتا ہے اس کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیےکچھ داؤ پر لگایا جاتا ہے ۔جو میرے خیال میں صحیح بھی ہے اور کون ہے جو پھر یہ کہنے کی جرأت کرے گا کہ یہ چیلنج کرنے والا سنجیدہ نہیں ہے بلکہ مذاق کر رہا ہے۔

فاضل مرزا نے ہر چیز کے بارے میں سوچا ہے، اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اقرار کرتاہے کہ اگر وہ فتح حاصل نہیں کرتا تو اُسے صلیب پر چڑھا دیا جائے! میرے خیال میں یہ بات سنجیدہ ہے […] تاہم، زمین کے طاقتور لوگوں کے دلوں میں ایسی سختی ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ حکومت ہند اِن کی درخواست پر کوئی توجہ نہیں دے گی۔ شاید آپ میرے شکر گزار ہوں گے کہ میں نے آپ سب کو اس کی نشاندہی کی۔ کیونکہ ایمان ہمیشہ ایک خوبصورت چیز ہے.۔‘‘

(Journal des débats : politiques et Littéraires, 17 Décembre 1899, p 2)

Le Petit Journal

اس اخبار کے نامہ نگار نے بمبئی سے مراسلہ بھیجا۔ ڈاکٹر الیگزینڈر ڈووی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چیلنج کے حوالے سے مذکورہ اخبارنے ’’ایک دعائیہ جنگ‘‘ کے عنوان سے اپنی ۱۸؍جولائی ۱۹۰۳ء کی اشاعت کے صفحہ نمبر۶ پر لکھا ہے :’’شکاگو کے ایک نئے فرقہ کے سربراہ ڈاکٹر ڈووی، جو دعا سے تمام بیماریوں کا علاج کرنے کا مدعی ہے،کی شہرت ہندوستان تک پہنچ گئی۔تاہم ایک ایسا شخص پیدا ہوا ہے جو اس شہرت میں رکاوٹ بن گیا ہے۔یہ ہیں حضرت مرزا غلام احمد جو کہ برطانوی ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں، ’’نبیوں کی پیشگوئیوں کے مطابق موعود مسیحا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘‘ اور ’’امریکی حریف کو ایک چیلنج بھیجا ہے۔ وہ ایک خصوصی پیغام کے ذریعے ڈاکٹر ڈووی پر زور دیتے ہیں کہ وہ [دعائیہ جنگ کے] میدان میں ان کا مقابلہ کریں۔‘‘

(Le Petit Journal, 18 Juillet 1903, p 6)

مزید پڑھیں: مومن اور کھجور کے درخت کی مثال

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button