حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ساؤتھ ویسٹ ریجن کےایک وفد کی ملاقات

یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مل جائے، جب اللہ تعالیٰ کی حکومت مل جائے گی تو روحانیت میں بھی ترقی ہوتی جائے گی۔ کوئی خوف اور ڈر کے مارے، جنّت اور دوزخ کے خوف کے مارے نیک عمل نہیں کرنے،
نیک کام اس لیے کرنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی اور خوش ہو جائے۔ کسی سے انسان کو محبّت ہو تو وہ اس کو خوش کرنا چاہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اس سے محبّت کرو پھر تمہارے اندر روحانیت بڑھتی جائے گی

مورخہ۱۲؍جنوری ۲۰۲۵ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کےساؤتھ ویسٹ ریجن کےایک بائیس(۲۲) رکنی وفد کو بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ خدام نےخصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےامریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔یہ ملاقات (ٹِلفورڈ)اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔

جب حضورِانور رونق افروز ہوئےتو آپ نے تمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ پیش فرمایا۔

دورانِ ملاقات حضورِانور نے ہر خادم سے انفرادی گفتگو فرمائی اور ان سے ان کے پیشہ جات اور خاندانی پس ِمنظر وغیرہ کے بارے میں دریافت فرمایا۔

بعدازاں خدام کو حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں سوالات پیش کرنے اور ان کی روشنی میں بیش قیمت راہنمائی حاصل کرنے کا موقع بھی ملا۔

ایک خادم نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ آجکل دنیا میں بہت سے مخالفین ہیں جو جماعتِ احمدیہ پر جھوٹے الزام لگاتے ہیں اور انبیاء اور خلفاء کی توہین کر کے ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں، نیز اس حوالے سےراہنمائی طلب کی کہ پیارے حضور! ہم کیسے اپنے صبر اور وقار کو برقرار رکھ سکتے ہیں ؟

حضورِانور نے اس سوال کے جواب میں مفصّل راہنمائی عطا فرماتے ہوئے صبر و تحمل کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ سب سے پہلے حضورِانور نے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ قرآنِ شریف پڑھا ہے؟ جس پر سائل نے اثبات میں جواب دیا تو حضورِانور نے مزید دریافت فرمایا کہ کوئی نبی ایسا قرآنِ شریف میں لکھا ہوا ہےجس پر مخالفین نے جھوٹے الزام نہ لگائے ہوں؟

سائل نے نفی میں جواب دیا تو حضورِانور نے فرمایا کہ کوئی بھی نبی ایسا نہیں۔ قرآنِ شریف تو اس سے بھرا پڑا ہے۔ پہلے ہی بتا دیا کہ ان لوگوں کا کام یہی ہے، جو انبیاء کے مخالف ہوتے ہیں، وہ جھوٹے الزام لگاتے ہیں۔ اور انہوں نے حضرت موسیٰؑ پرجھوٹے الزام لگائے، حضرت ابراہیمؑ پر لگائے، حضرت نوحؑ پر لگائے، حضرت یوسفؑ پر لگائے، حضرت شعیبؑ پر لگائے اور سب سے بڑھ کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لگائے۔ اورجن جن کا ذکر ہے، سب پرجھوٹے الزام ہی لگائے، کسی نے کہا یہ جادوہے، کسی نے کہا یہ جھوٹے ہیں۔ یہی کہتے رہے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو کبھی اس کی عبادت کرتے ہوئے نہیں دیکھا،تم ہمارے پاس کہاں سے یہ نئی نئی رسمیں لے آئے ہو، تم جھوٹے ہو، تم جادوگر ہو، تم فلاں ہو۔

جو الزامات آج ہم پر لگائے جا رہے ہیں، انہیں جماعتِ احمدیہ کی سچائی کی دلیل قرار دیتے ہوئے حضورِانور نے فرمایا کہ یہ تو ہماری سچائی کی دلیل ہے۔ اگر ہم پر الزام لگاتے ہیں، یہ تو اس سچائی کی دلیل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ وہی الزام جو تمام انبیاء پر لگے، وہ مجھ پر لگ رہے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے اور یہی بڑی دلیل ہے کہ مَیں سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوں۔ اور اگرمَیں جھوٹا ہوتا تو تمہارے الزاموں کی توضرورت ہی کوئی نہیں تھی، اللہ تعالیٰ مجھے ویسےہی ختم کر دیتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جو مجھ پر جھوٹی باتیں منسوب کرتا ہے،مَیں تو اس کو ویسے ہی ختم کردیتا ہوں۔

حضورِانور نے جذبات کو قابو میں رکھنے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ باقی رہ گئی یہ بات کہ جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہےتوباقی انبیاء کی قوموں کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچتی تھی، وہ غصّے میں بھی آتے تھے لیکن برداشت کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبر کرو۔ ایک حدیث میں ہے کہ یہ کوئی بڑی بہادری نہیں ہے کہ تم کسی کو لڑائی کر کے، punch مار کے،اس کا منہ توڑ دو یا دانت توڑ دو۔ بہادری یہ ہے کہ اپنے جذبات کو کنٹرول کرو اور غصّے کو قابو کرو، یہ بہادری ہے۔ تو یہ ہمیں دکھانی چاہیے۔ہمیں اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ ہمارے ساتھ وہ سلوک ہو رہا ہے جو نبیوں کی جماعتوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

آخر میں حضورِانور نے ذاتی علم کو بڑھانے اور مخالفین کے الزامات کا مدلل جواب دینے کی تلقین کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ جو الزام لگاتے ہیں، ان کا جواب دینے کے لیے ہمیں دلیل چاہیے اور دلیل کے لیےہمیں ہمارا لٹریچر پڑھنا چاہیے۔ اپنا لٹریچر پڑھیں، تیار ہوں، جواب تیار کریں اور ان کو دیں۔ کیونکہ جب مخالف کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا تو پھر وہ لڑائی کرتا ہے، گالیاں دیتا ہے، تو یہ تو ہمیشہ سےمخالفین کا شیوہ رہا ہے۔ اور جو صبر کرنے والے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تم صبر کرو تو اس کا پھل تمہیں مل جائے گا اوراللہ تعالیٰ نے دعا بھی سکھا دی ہے کہ صبر کرو۔

ایک خادم نے حضورِانور سے دریافت کیا کہ جماعتِ احمدیہ میں نظر لگنے اور حاسد کے متعلق کیا تعلیمات ہیں اور ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ بات یہ ہے کہ جو نظر لگانے والے ہیں، وہ یوں تو نہیں ہوتاکہ نظر لگی تو معاملہ ختم ہو گیا۔ نظر سے بچنے کے لیے، حاسدوں کے حسد سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حاسدوں کے شرّ سے بچائے۔ اصل میں جو حاسد ہے، وہ حسد کرتا ہے، اس کی وجہ سے وہ بعض ایسے طریقے اختیارکرتا ہے، وہ اس طرح نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے کہ جس سے اگلے کو نقصان پہنچے اور اس کے لیے پھر کوئی نہ کوئی طریقہ اختیار کرتا ہے۔

حضورِانور نے نظر اور حسد کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ صرف نظر لگنے سےتو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں! اگر نظر لگانے والے وہ لوگ ہیں، جو دل میں کسی چیز کے لیےحسد رکھتے ہیں، تو اِستغفار پڑھو، لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ پڑھو۔ باقی یہ کہنا کہ نظر سے کوئی نقصان ہو جاتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ فلاں کی نظر ضرورلگ جائے گی۔ نظر لگانے والا حسد کرتا ہے اور پھر وہ پریکٹیکلی(practically) نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، انسان کو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ باقی اس بات پر فکرمند نہ ہو کہ فلاں آدمی کی نظر لگ جائے گی توپتا نہیں کہ میرا چہرہ بگڑ جائے گا یا میرا قد چھوٹا رہ جائے گا یا میرا دماغ خراب ہو جائے گا یا مینٹلی (mentally)مَیں اَپ سیٹ(upset) ہو جاؤں گا۔ بعض لوگ سائیکلوجیکلی(psychologically)کسی کواتنا زیادہ مسمرائز (mesmerize)کر دیتے ہیں کہ پھر وہ اس کے انفلوئنس(influence) کے اندر آ جاتا ہے۔ اگر لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ پڑھو اور پتا ہو، اللہ پر یقین ہو، تو ٹھیک ہے۔ باقی جہاں تک حسد کا سوال ہےتو الله تعالیٰ نے قرآنِ شریف کی آخری سورتوں میں وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ کی دعا سکھا دی ہے۔

حضورِانور نے حسد اور رشک کے فرق کو واضح کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ بعض موقع کی جو حسد ہے،وہ جائز اس طرح ہو جاتی ہے کہ اگر تم نے نظر لگانی ہے تو وہ تم حسد کر کے نہ لگاؤ کہ نقصان پہنچاؤ، وہ رشک کی نظر ہو۔ اس کی تعریف کر رہے ہو۔ دماغ میں خیال آیا کہ اتنے اچھے کام یہ کر رہا ہے تو مَیں بھی وہ کروں۔ یہ حسد کی ایک دوسری قسم ہے کہ مَیں اس کے مقابلے پراتنے اچھے کام کروں کہ جس طرح یہ کر رہا ہے۔ گو اس کو دوسری زبان میں رشک کہتے ہیں۔ اپنے دل میں اس کی تعریف کرنا اور اپنے لیے اس کا نمونہ لے کے سمجھنا کہ مَیں بھی اس کے مقابلے پر آؤں، کمپٹیشن(competition)ہو جاتا ہے، تو اس کمپٹیشن کو بعض لوگ حسد کہہ دیتے ہیں۔وہ حسد نہیں ہے، وہ کمپٹیشن ہے اور نیک کام میں کمپٹیشن جائز ہے۔

ایک خادم نے حضورِ انورسے راہنمائی طلب کی کہ ہم یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بتائی ہوئی تین روحانی حالتوں میں سے ہم کس پر ہیں، آیا ہم نفسِ امّارہ یا نفسِ لوّامہ یا نفسِ مطمئنہ پر ہیں نیز یہ کیسے پتا چل سکتا ہے کہ ہماری روحانی حالتوں میں بہتری آ رہی ہے یا نہیں؟

حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ نفسِ امّارہ یہ ہےکہ جو برائیوں کی طرف لے کے جاتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے تبھی تو دعا کی تھی کہ میرا نفس تو امّارہ ہے، اگر اللہ تعالیٰ مجھے نہ بچائے تو مَیں ان برائیوں میں مبتلا ہو جاؤں۔ اس عورت(یعنی عزیزِ مصر کی بیوی) کے بھڑکانے پر اس کی طرف چلا جاتا۔ اس کا مطلب نفسِ امّارہ وہ ہے، جو دل میں یونہی برائیوں کی خواہش پیدا ہوتی ہے، اس کو جب آپ چھوڑ دیں تو آپ سمجھیں کہ نفسِ امّارہ کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

حضورِانور نے نفسِ لوّامہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ پھر نفسِ لوّامہ کیا ہے؟آپ کو دل ملامت کرتا ہے، آپ کو دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ مَیں نے یہ برے کام کیے اور اس سے نفرت آتی ہے۔ جب وہ خیال پیدا ہو جائے تو سمجھو کہ مَیں امّارہ سے گزر کے لوّامہ میں آ گیا اور لوّامہ میں اب میرا دل مجھے کہتا ہے کہ ان برائیوں کو چھوڑو اور ان برائیوں کو چھوڑنے کے لیےپھر کیا ہے؟ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہےکہ دل اور دماغ میں اس چیز کا پہلے تصوّر پیدا کروکہ یہ بیہودہ چیز ہے اور اس کے خلاف determination ہونی چاہیے کہ مَیں نے دوبارہ یہ کام نہیں کرنا۔ پھر اس پر قائم رہنے کے لیے دعا کرو اور پھر جو انوائرنمنٹ (environment) ہے، جس وجہ سے تمہارا یہ خیال پیدا ہو رہا ہے، اس کو چھوڑ دو۔ اس ماحول سے نکل جاؤ۔ تمہارے دوست ایسے ہیں، جو غلط کام کر رہے ہیں، تو ان دوستوں کو چھوڑ دو۔ ایسی کمپنی(صحبت)، جہاں سے تمہیں غلط مشورے مل رہے ہیں، اس کمپنی کو چھوڑ دو۔ان برائیوں سے بچنے کے لیے یہ طریقۂ کار ہے، جب یہ کر رہے ہو تو سمجھو کہ نفسِ لوّامہ، تمہیں دل ملامت کر رہا ہے کہ مَیں بُری بات کر رہا ہوں۔ دل میں برا خیال آتا ہے کہ مَیں نے یہ کام کیا، غلط کیا ہے، جب دل میں یہ خیال آ جائے تو وہی لوّامہ ہے۔

مزید برآں حضورِانور نے نفس مطمئنّہ کی حالت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اور مطمئنّہ تو اس وقت ہوتا ہے جب سارے کام تم چھوڑ دو اور صرف اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رہ جائے۔ یہ اپنے آپ سے پوچھو کہ تمہارے اندر صرف اللہ کا خوف ہے یا لوگوں کا بھی خوف ہے؟ کیا پانچ وقت کی نمازیں آپ اللہ کے خوف اور اللہ کی محبّت میں پڑھتے ہیں یا صرف اپنی ضرورت کے لیے پڑھتے ہیں کہ آج مجھے یہ ضرورت ہے،مَیں نے یہ دعا کرنی ہے کہ اللہ میاں مجھے پاس کر دے، اللہ تعالیٰ میرا فلاں پروجیکٹ ہے اور میرے کام میں برکت ڈال دے اور مجھے اتنا فائدہ ہو جائے یا مجھے اچھی جاب مل جائے۔ اس کے لیے آپ دعائیں کرتے ہیں۔ کبھی یہ دعا نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ اپنا پیار مجھے دے دے۔ جب اللہ تعالیٰ کا پیار مل جاتا ہے تو وہ مطمئنّہ کی حالت میں آ جاتا ہے۔ انسان اپنے آپ کو خود assessکرے کہ آپ کو وہ مل گیا کہ نہیں اور پھر اسی پر وہ قائم رہے۔

حضورِانور نے مزید فرمایا کہ باقی جب یہ کریں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بڑا explain کیا ہوا ہے کہ جب تم اللہ تعالیٰ کی تلاش میں رہو گے اور اس سے محبّت کر لو گے تو باقی تمہارے دنیا کے کام آگے خود بخود ہوتے چلےجائیں گے اور جب انسان دنیا کی حالتوں سے ختم ہو جائے اور صرف اللہ سے تعلق پیدا کر لے، دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے کام بھی کرے اور محبّت اللہ سے ہو تو وہاں دل کو اطمینان ہوتا ہے اورپھر برائیوں کی طرف نظر ہی نہیں جاتی۔ اس وقت نہ نفسِ امّارہ رہتا ہے، نہ نفس لوّامہ رہتا ہے۔

حضورِانور نے ذاتی محاسبہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے تاکید فرمائی کہ اپنے آپ کو خوددیکھو۔ کوئی دوسرا نہیں بتا سکتا کہ آپ نے کس طرح اپنے آپ کو خود assess کرنا ہے کہ مجھے یہ نفس مل گیا کہ نہیں ملا اور یہ ایسی stage ہے، جو بڑی مشکل سے ملتی ہے۔

آخر میں حضورِانور نے روحانی ترقی کی حالت کو ایک دلچسپ مثال سے بیان کیا۔جس میں انسان کے روحانی سفر کو سنیک(سانپ) اور لیڈر(سیڑھی) کی بورڈ گیم سے تشبیہ دی۔ اس گیم میں کھلاڑی کبھی سیڑھی سے اوپر چڑھتا ہے اور کبھی سانپ کے ساتھ نیچے آتا ہے، بعینہٖ اسی طرح انسان کا روحانی سفر بھی نشیب و فراز سے گزر رہا ہوتا ہے، اسی تناظر میں حضورِانور نے فرمایا کہ ups and downs(نشیب و فراز) آتے رہتے ہیں، انسان اوپر چڑھتا ہے، پھر گرتا ہے، پھر چڑھتا ہے، پھر نیچے آتا ہے۔ ایک سنیک اور لیڈرکی گیم ہوتی ہے، اوپر جاتے ہیں، پھر نیچے آتے ہیں۔ انسان کے ساتھ بھی وہی گیم چل رہی ہوتی ہے۔ اس میں اگر جیت گئے اور اوپر پوائنٹ پر پہنچ گئے توتب نفس مطمئنّہ ہو گئے۔ کتنے نمبر آتے ہیں؟ بعض دفعہ dice (ڈائس)کے اوپر چھ، آٹھ یا نو نمبر آتے ہیں، انسان اوپرچڑھتا جاتا ہے، آگے جا کے ایک جگہ پھر سنیک کے منہ میں جا کے نیچے آگیا۔ تو انسان بس! قسمت سے ہی اوپر جا کے پہنچتا ہے۔ بس! یہ ہے نفسِ مطمئنّہ۔

ایک شریکِ مجلس نے حضور انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ جماعت میں بعض بڑی عمر کے لوگ ہمیں کام کرنے سے روکتے ہیں اور کہتے ہیں تم ابھی چھوٹے ہو، نیز راہنمائی طلب کی کہ ہم اس بارے میں کیا کر سکتے ہیں؟

حضورِانور نے اس کے جواب میں مسکراتے ہوئے تبصرہ فرمایا کہ اگر تو وہ لوگ shave (شیو)کرنے والے ہیں، تو ان سے کہو کہ میری داڑھی آپ سے بڑی ہے، مَیں چھوٹا نہیں ہوں۔اس پر تمام شاملینِ مجلس بھی کھل کر مسکرا دیے اور انہوں نے خوب حظّ اُٹھایا۔

حضورِانور نےوضاحت فرمائی کہ بات یہ ہے، چھوٹوں کو تو سکھانا ہے، سیکنڈ لائن تبھی تیار ہو گی۔ کام کرنے سے کیوں روکتے ہیں؟ ان سے کہو ہم تو اس لیے آ رہے ہیں تاکہ سیکنڈ لائن تیار ہو۔ قوم وہی ترقی کرتی ہے جس کی سیکنڈ لائن تیار ہو رہی ہوتی ہے اور سیکنڈ لائن اس وقت تیار ہو گی جب کام کرنے میں چھوٹے آگے آئیں گے۔

اس لیے اسی چیز کو دیکھ کے میرا خیال ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساری auxiliary organisations(ذیلی تنظیمیں) بنائی تھیں۔ خدام الاحمدیہ، لجنہ، انصار اور خدام میں پھر اطفال الاحمدیہ اور لجنہ میں ناصرات بنا دی تاکہ چھوٹی عمر سے ان کو کام کرنے کی عادت پڑے۔

حضورِانور نے اپنی ذاتی مثال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے یاد ہے کہ مَیں تو دس سال کا تھا، خود اطفال الاحمدیہ میں کام کرتا تھا۔ پھر بارہ؍تیرہ سال کا ہوا تو محلے کے چھوٹے لیول پر زعیم کے under(ماتحت)اطفال الاحمدیہ کا سیکرٹری بن گیا۔ پھر زعیم بن گیا۔ تو ٹریننگ ہوتے ہوتے اس لیول پر تبھی انسان آتا ہے کہ جب ٹریننگ ہو رہی ہوتی ہے۔اگر چھوٹے ہوتے ہوئے ٹریننگ نہیں لیں گے، کام نہیں کریں گے اور بڑے ان کو encourage (حوصلہ افزائی )نہیں کریں گے تو پھر کس طرح وہ سیکھیں گے، سیکنڈ لائن کس طرح تیار ہو گی، کل کو بڑے فوت ہو گئے تو جو چھوٹے ہیں وہ کس طرح سنبھالیں گے؟ حضرت مصلح موعودؓ نے اس لیے فرمایا ہے کہ

ہم تو جس طرح بنےکام کیے جاتے ہیں
آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو

اس لیے کام کرنا ہے، ان سے کہومَیں چھوٹا نہیں ہوں، میرا دل بڑا ہے، میرے جذبات بڑے ہیں، میرے خیالات بڑے ہیں۔ میرے اندر ambitions ہیں، جن کو مَیں نے حاصل کرنا ہے، میرا ایک passion ہے وہ مَیں نے حاصل کرنا ہے۔ تو جب اس طرح کرو گے تو وہ بڑے چپ کر جائیں گے۔

ایک خادم نے حضورِانور سے دریافت کیا کہ ہم ایسے لوگوں کو کیا جواب دیں، جو جماعت کے خلاف دبے لفظوں میں اور چھپ کر اعتراض کرتے ہیں؟

حضورِانور نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ان سے کہو کہ مخالفت کرنی ہے تو کھل کے کرو۔ بعض لوگوں کو کسی عہدے دار سے کوئی grievances (شکوہ جات) ہیں یا کسی کو کسی وجہ سے تکلیف ہو گئی ہوگی، سچی تکلیف ہوئی ہوگی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جماعت کو بدنام کرو یا سسٹم ہی سارا خراب ہے۔ وہ اس کی پرسنل(ذاتی) برائی ہے جس کی وجہ سے اس کو نقصان پہنچا تو جو ہمارا سسٹم ہے اس کو اطلاع دو۔

حضورِانور نے قرآنِ پاک اور حدیث کی روشنی میں توجہ دلائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں نے جماعت کی اطاعت کرنی ہے، ایک قوم رہنا ہے، ایک رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں بھی فرمایا ہے کہ ایک رہو، اگر تم ٹوٹ گئے تو بکھر جاؤ گے اور پھر تمہارے پاس کچھ نہیں رہے گا۔“unity is strength”، اس لیےunite ہو کے رہنا ہے۔

حضورِانور نے نظامِ جماعت کے تقدس کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اگر تمہارےپاس کسی کے لیے personal grievances(ذاتی شکوہ جات) ہیں تو اس کو دُور کرنے کے لیے جو بڑے عہدے دار ہیں، ان سے بات کرو اور یا پھر ان سے زیادہ تعلق رکھو۔ لیکن جماعت کے خلاف بولنا، یہ غلط بات ہے، کیونکہ جماعت کا ایک سسٹم ہے اور یہ سسٹم نیچے سے چلتا ہے، پھر خلیفۂ وقت تک آتا ہے، پھر مسیح موعودؑ اور پھر آخر تک جاتا ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا کہ تم ایک جماعت بن کے رہو، تبھی تو اسunity میں تمہاری برکت ہے، اس لیے ان کو سمجھانا چاہیے۔

سوال کے نفسِ مضمون کی روشنی میں غیر از جماعت مخالفین کو جواب دینے کےحوالے سے حضورِانور نے راہنمائی فرمائی کہ اگر وہ مخالف ہیں، احمدی نہیں ہیں، تو پھر ان کا کام ہے، ان کو کہنے دو۔ مخالفت کرتے رہیں۔ ہمارا کام ان کو سمجھانا ہے کہ ہم صحیح ہیں۔ اگر ہمارے عمل ٹھیک ہیں، ہم اگر صحیح اسلامی حکموں پر پریکٹس کر رہے ہیں، پانچ نمازیں پڑھ رہے ہیں، دعائیں صحیح طرح کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ پر یقین ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر یقین ہے، قرآنِ کریم پڑھ رہے ہیں، اس کے حکموں کوسمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو ہمیں لٹریچر دیا ہے، اس کو پڑھ کے، اس کو سمجھ رہے ہیں تو پھر ہمیں کسی کی پروا نہیں، ہم ان کے جواب دے سکتے ہیں۔

ایک شریکِ مجلس نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ آج کل مغربی ممالک میں atheism کے خیالات کا رجحان بہت بڑھ رہا ہے اور نوجوان مذہب سے دُور ہوتے جا رہے ہیں، نیز راہنمائی طلب کی کہ مجلس خدام الاحمدیہ انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب لانے میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟

حضورِانور نے اس پر فرمایا کہ نوجوان جس ماحول میں رہ رہے ہیں، وہاں جب سارے ہی ایسے لوگ ہوں گے، تو اس کا اثر تو ہوتا ہے۔ وہ سکول اور کالج جاتے ہیں اور ان کے دوست اور سٹوڈنٹ بھی ایسے ہوتے ہیں۔

حضورِانور نے یاددہانی کرائی کہ ابھی مَیں نے کہا کہ اچھے سٹوڈنٹ جو دوست ہیں، ان سے رابطہ رکھو، جو برے ہیں ان کو چھوڑ دو۔ وہی بات ہے۔یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے یہی ہے۔ آپؑ نے بھی ایک جگہ فرمایا، مَیں پہلے بھی کئی جگہ مثال دے چکا ہوں کہ ایک سکھ تھا، وہ اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتا تھا، وہ آپؑ کے پاس گائیڈنس لینے کے لیے آیا کہ میرے اللہ تعالیٰ کے متعلق جو خیالات ہیں، مَیں ان سے پیچھے ہٹ رہا ہوں، انہوں نے کہا کہ تمہارے ساتھ جو کلاس میں بیٹھتا ہے، یونیورسٹی میں یا کالج میں وہ لڑکا atheist لگتا ہے۔ اس سے اپنی سیٹ بدل لو۔ تو اس نے اپنی سیٹ چینج کر لی۔ دو،تین مہینے کے بعد آیا تو کہتا ہے کہ ٹھیک ہے،مَیں نے سیٹ بدلی وہ واقعی atheist تھا اورمَیں ٹھیک ہو گیا۔

الله تعالیٰ کے احسانات کو یاد کرنے کی بابت توجہ دلاتے ہوئےحضورِانور نے فرمایا کہ توخدام میں یہ روح پیدا کرنی ہے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کو ماننا ہے اور خدا تعالیٰ نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ اس لیے تلاش کرو کہ خدا تعالیٰ کے ہم پر کیا کیا احسانات ہیں کہ ہم کہاں تھے، ہمیں اللہ تعالیٰ کہاں لے کر آیا، ہمیں کیا کیا مواقع دیے؟ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تم پیدا ہوئے تو کیا چیز تھے، کچھ بھی نہیں تھے، تمہاری ماں کے دل میں ڈالا کہ تمہاری پرورش کرے، تمہیں دودھ پلائے، تمہیں سنبھالے، تمہارےnappies (نیپیز )چینج کرے، تمہیں فیڈ کرے اور اس کے بعد بڑے ہوئے تو پھر ماں باپ دونوں نے تمہارے یونیفارم، clothing، کھانے پینے، سب کا خیال رکھا، ایجوکیشن کا خیال رکھا، تعلیم دلوائی۔ تو یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں، ان کو ہمیں یاد کرنا چاہیے۔ یہ کہنا کہ اتفاق سے ہوگیا، اتفاق سے یہ چیزیں نہیں ہوئیں، اللہ تعالیٰ نے ہر ایک میں پیدا کی ہوئی ہیں۔چاہے وہatheist ہے یا مذہب کو ماننے والا یا نہیں ماننے والا، اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے لیےیہ مواقع پیدا کر دیے تاکہ یہ بتائے کہ کوئی طاقت ہے جو دنیا کایہ سارا سسٹم چلا رہی ہے۔لیکن جو ایک مسلمان ہے،ایک احمدی ہے، حقیقی اللہ تعالیٰ کو ماننے والا ہے، اس کو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں اس دنیا کے reward کے بعد اگلے جہان کا بھی reward دیتا ہوں۔ تو اس لیے ہمیں صرف اس دنیا کی تلاش نہیں کرتے رہنا چاہیے بلکہ اگلا جہان بھی ہے جہاں دوسروں کو سزا ملے گی، یہاں تو ان کی محنت کا پھل ان کو مل جائے گا، لیکن اگلے جہان میں جا کے ان کو اللہ تعالیٰ پھر سزا بھی دے سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس سے بچنے کےلیے اللہ تعالیٰ کے قریب آنا چاہیے اور یہی ہمارا مقصد ہے۔ اسی لیے ہمارے ماں باپ نے بڑا سوچ سمجھ کے اسلام اور احمدیت کو قبول کیا تھا اور اسی کو ہمیں آگے چلانا چاہیے۔اور پھر دوسرے یہ ہے کہ خود اپنے نمونے دکھاؤ۔ اب عہدے دار ہیں، اگر قائد یا ناظم اور منتظم کااپنا نمونہ نہیں ہے، پانچ وقت نماز نہیں پڑھ رہا یا نمازیں پڑھتا ہے تو جلدی جلدی یا اپنے لوگوں کے لیےدعائیں نہیں کر رہا۔ مربی صاحب ہیں، وہ دعائیں نہیں کر رہے، دو نفل نہیں پڑھ رہے تو لوگوں کے سامنے ان کا نمونہ نہیں ہوگا۔ جب نمونہ قائم ہوگا تو وہ پھر کہیں گے ہاں! یہ چیزہے۔

اسی تناظر میں حضورِانور نے تاکید فرمائی کہ پھر خدام کو اپنے قریب لاؤ، مجلسیں ہوں، سوال جواب ہوں، interaction (باہم تبادلہ خیالات) ہونا چاہیے، سیمینارز ہونے چاہئیں، جس سے ان کے سوالوں کے جواب ملیں۔ صرف یہ کہہ دینا کہ تم جلسے پر آ جاؤ، تم نے نمازیں پڑھنی ہیں، تم بتاؤ پانچ نمازیں پڑھیں کہ نہیں پڑھیں، قرآن پڑھا کہ نہیں پڑھا، تمہاری حاضری کتنی تھی۔ اس سے نہیں کام ہو گا۔ ہاں! میٹنگ کریں، اس میں بجائے اس کے کہ تقریر کر دیں، دھواںدار تقریریں تو سارے کر لیتے ہیں، جلسوں پر بہت ساری تقریریں کر دیتے ہیں، سن لیتے ہو کافی ہے، یوں ہونا چاہیے کہ اب ان تقریروں کے اوپر ایک پروگرام بناؤ اور ڈسکشن پروگرام ہو، آپس میں انٹریکشن ہو، سوال جواب ہوں۔ مربی صاحب، قائد صاحب ان کے جواب دیں۔ تو پھر لوگوں کو تسلی بھی ہوگی کہ خدا ہے، کیوں ہے، کس لیے ہمیں اس کی عبادت کرنی چاہیے، خدا کی عبادت کرنے کا کیا فائدہ ہے؟اللہ تعالیٰ قرآنِ شریف میں کہتا ہے کہ مجھے تمہارے عبادت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ باوجود اس کےاللہ کہتا ہے کہ عبادت کرنے کےلیے تمہیں پیدا کیا ہے اور پھر کہتا ہے کہ مجھے کوئی فائدہ نہیں، تم لوگ چیز کیا ہو، میرے سامنے تو ایک معمولی سے کیڑے کی طرح ہو۔ تو اللہ تعالیٰ کو ضرورت نہیں ہے، لیکن ہمیں اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی ضرورت ہے اور یہ جو سوال جواب ہوتے ہیں تواس طرح پھر بہت سارے لوگوں کے شکوک دُور ہوتے ہیں۔

ایک سوال یہ پیش کیا گیا کہ وہ لوگ جو روحانیت کی تلاش کر رہے ہیں یا دین کے معاملے میں جدوجہد کر رہے ہیں ان کے لیے حضور کی کیا راہنمائی ہے؟

حضور ِانور نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو قرآنِ شریف میں کہتا ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا یعنی جو ہمارے راستے میں جہاد کرتے ہیں،ہم ان کو اپنا راستہ دکھاتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ اورروحانیت کی اگر صحیح طرح تلاش کر رہے ہو، تو اس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے۔ اس لیے اللہ میاں کہتا ہے کہ دعا کرو، نمازوں اورسجدے میں دعا کرو۔

اختتاماً حضورِانور نے اپنی اوّل الذکر فرمودہ نصیحت کا اعادہ کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ مَیں نے پہلے بتایا تھا کہ یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مل جائے، جب اللہ تعالیٰ کی حکومت مل جائے گی تو روحانیت میں بھی ترقی ہوتی جائے گی۔ کوئی خوف اور ڈر کے مارے، جنّت اور دوزخ کے خوف کے مارے نیک عمل نہیں کرنے، نیک کام اس لیے کرنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی اور خوش ہو جائے۔ کسی سے انسان کو محبّت ہو تو وہ اس کو خوش کرنا چاہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اس سے محبّت کرو پھر تمہارے اندر روحانیت بڑھتی جائے گی۔

ملاقات کے اختتام پر تمام حاضرینِ مجلس کو از راہِ شفقت حضورِانور کے ہمراہ گروپ تصویربنوانے اور بطورِ تبرک قلم حاصل کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔

بعد ازاں حضورِانور نے شاملینِ مجلس کی اردو کے عمدہ معیار پر بھی خوشی کا اظہار کرتے ہوئےتلقین فرمائی کہ اردو سیکھنے کا فائدہ تب ہوگا جب، جو حضرت مسیح موعودؑ کا اوریجنل لٹریچر ہے، اس کو بھی اردو میں سمجھنے کی کوشش کرو توتب سمجھ آئے گی۔ نہیں تو انگلش میں جو translationکرتے ہیں، آج کل تو ویسے ہی آسان ہوا ہے کہ artificial Intelligence کے ذریعےtranslationکر دیتے ہیں، وہ بڑی غلط ہو جاتی ہے۔اب ایک مربی صاحب کل ہی مجھے بتا رہے تھے کہ ہمارے لٹریچر کی کتاب میں چھپا ہوا ہے، وہاں صحیح بخاری کا ترجمہ انہوں نے correct Bukhari کر دیا ہے۔ تو یہ صحیح نہیں ہے۔

آخر پر حضورِانور نے لاس اینجلس میں حالیہ لگنے والی آگ کی بابت دریافت فرماتے ہوئے معلوم کیا کہ کیااس کے نتیجے میں کوئی احمدی بھی متاثر ہوئے ہیں؟نیز استفسار فرمایا کہ پیچھے خبر لے رہے ہو، گھر اور رشتہ دارسب کے ٹھیک ٹھاک ہیں؟ نیز ذکر کیاکہ دو، تین احمدیوں کو تو وہاں سے انہوں نےevacuate کیاہے۔

جس پر شاملینِ مجلس کی جانب سے اثبات میں تصدیق کی گئی تو حضور انور نے الوداعی دعائیہ کلمات ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ چلو، پھر اللہ حافظ!

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ساؤتھ ایسٹ ریجن کےایک وفد کی ملاقات

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button