جماعت کے مبلغین کی صفات
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’میرا دل گوار ا نہیں کرتا کہ اب دیر کی جاوے۔ چاہیے کہ ایسے آدمی منتخب ہوں جو تلخ زندگی کو گوار ا کرنے کے لئے تیار ہوں اور اُن کو باہر متفرق جگہوں میں بھیجا جاوے۔ بشرطیکہ ان کی اخلاقی حالت اچھی ہو۔ تقویٰ اور طہارت میں نمونہ بننے کے لائق ہوں۔ مستقل، راست القدم اور بردبار ہوں اور ساتھ ہی قانع بھی ہوں اور ہماری باتوں کو فصاحت سے بیان کر سکتے ہوں۔ مسائل سے واقف اور متقی ہوں کیونکہ متقی میں ایک قوت جذب ہوتی ہے۔ وہ آپ جاذب ہوتا ہے۔ وہ اکیلا رہتا ہی نہیں۔
جس نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔ اس نے پہلے ازل سے ہی ایسے آدمی رکھے ہیں جو بکلّی صحابہؓ کے رنگ میں رنگین اور انہیں کے نمونہ پر چلنے والے ہوں گے اور خدا کی راہ میں ہر طرح کے مصائب کو برداشت کرنے والے ہوں گے اور جو اس راہ میں مر جائیں گے وہ شہادت کا درجہ پائیں گے۔‘‘
(ملفوظات جلد ۹صفحہ۲۸۶، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
آپؑ مزید فرماتے ہیں: ’’میں واعظین کے متعلق دیگر لوازمات کے سوچنے میں مصروف ہوں۔بالفعل بارہ آدمی منتخب کر کے روانہ کئے جائیں اور یہاں قریب کے اضلاع میں بھیجے جائیں۔بعد میں رفتہ رفتہ دوسری جگہوں میں جا سکتے ہیں۔ان کا اختیار ہوگا کہ مثلاً ایک دو ماہ باہر گذاریں اور پھر دس پندرہ روز کے واسطے قادیان آجائیں۔
اس کام کے واسطے وہ آدمی موزوں ہوں گے جو کہ مَنْ يَّتَّقِ وَ يَصْبِرْ (یوسف:۹۱) کے مصداق ہوں۔ان میں تقویٰ کی خوبی بھی ہو اور صبر بھی ہو۔پاک دامن ہوں۔فسق و فجور سے بچنے والے ہوں۔معاصی سے دور رہنے والے ہوں، لیکن ساتھ ہی مشکلات پر صبر کرنے والے ہوں۔لوگوں کی دشنام دہی پر جوش میں نہ آئیں۔ہر طرح کی تکلیف اور دکھ کو برداشت کر کے صبر کریں۔ کوئی مارے تو بھی مقابلہ نہ کریں جس سے فتنہ و فساد ہوجائے۔‘‘
(ملفوظات جلد ۹صفحہ۲۹۵-۲۹۶، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
مزید پڑھیں: ایک صدی قبل ۱۹۲۵ء میں تاریخ احمدیت میں رُونما ہونے والے بعض واقعات