امتِ مسلمہ کا علمی انحطاط اور احمدی محققین کی ذمہ داریاں
سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا احمدیہ مسلم ریسرچ ایسو سی ایشن کی سالانہ کانفرنس میں بصیرت افروز خطاب
(ایوانِ مسرور اسلام آباد، 14؍ دسمبر 2019ء نمائندگان الفضل انٹرنیشنل لندن) سیّدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ الودود بنصرہ العزیزنمازِ عشاء کے بعد ایوانِ مسرور میں تشریف لا کر احمدیہ مسلم ریسرچ ایسوسی ایشن (AMRA) کی دسویں ایک روزہ کانفرنس کی اختتامی تقریب میں رونق افروز ہوئے اوربصیرت افروز خطاب فرمایا۔ اس کانفرنس میں نو ممالک سے اڑھائی سو سے زائد نمائندگان شامل ہوئے تھے جن میں ڈیڑھ سو سے زائد مرد اور ایک سوکے قریب خواتین تھیں جنہوں نے پردے کی رعایت کے ساتھ اس تقریب میں بھرپور شرکت کی۔ جبکہ ان میں سے انیس ممبران بیرونی ممالک سے کانفرنس میں شمولیت کے لیے یہاں پہنچے تھے۔
اس تنظیم کا بنیادی مقصد قرآن کریم سے رہ نمائی حاصل کر تےہوئے مختلف میدانوں میں تحقیق کر کے قرآنِ کریم اور اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنا ہے۔ مزید برآں اس کے زیرِ انتظام احمدی مسلمان محققین کو ان کے کیریر کے حوالے سے رہ نمائی بھی کی جاتی ہے۔
احمدیہ مسلم ریسرچ ایسوسی ایشن حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت منظوری سے مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے تحت 2009ء میں شروع ہوئی جب اس کا نام MKA RA (مجلس خدام الاحمدیہ ریسرچ ایسوسی ایشن) تھا۔ محترم ٹومی کالون (سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ) نے نمائندہ الفضل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حضورِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت صدارت میں اس کا پہلا اجلاس 04؍ مئی 2009ء کو محمود ہال مسجد فضل لندن میں ہوا تھا جس میں حضورِ انور نے فرمایا تھا کہ ہر سائنس کے طالب علم خادم کو اس ریسرچ ایسوسی ایشن کا ممبر ہونا چاہیے۔ بعد ازاں 2016ء میں حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس ریسرچ ایسوسی ایشن کو‘مجلس خدام الاحمدیہ ریسرچ ایسوسی ایشن’سے بڑھا کرمرد محققین کے لیے ‘احمدیہ مسلم ریسرچ ایسوسی ایشن (AMRA)’ (زیرِ انتظام مجلس خدام الاحمدیہ) اور خواتین ریسرچرز کے لیے AMRA Lajna (زیرِ انتظام لجنہ اماء اللہ) کے اجرا کی منظوری مرحمت فرمائی۔
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ ریسرچ ایسوسی ایشن کی پہلی ملاقات
ہرسال یہ ایسوسی ایشن اپنی سالانہ کانفرنس کا انعقاد کرتی ہے جس میں احمدی ریسرچرز اپنی اپنی ریسرچ پیش کرتے ہیں جو سب شاملین کے لیے علم میں اضافہ کا موجب ہوتی ہیں۔
امسال AMRA کے دس سال پورے ہونے پرپہلی انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں برطانیہ سمیت نو ممالک سے محققین نے شرکت کی۔
اس کانفرنس کا آغاز صبح ساڑھے نو بجے تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد مکرم ڈاکٹر حمّاد خان (چیئرمین AMRA سپروائزری بورڈ) نے استقبالیہ کلمات کہے۔ مکرمہ مدیحہ باری (صدر AMRA Lajna) نے سالانہ رپورٹ پیش کی جس کے بعد چیئرمین AMRA مکرم ڈاکٹر مدثر راشد نے AMRA کی دس سالہ تاریخ مختصربیان کی۔
اس کانفرنس کے دوسرے اجلاس میں ’پودے دن بھر کیسے behave کرتے ہیں‘ کے موضوع پر مکرم ذکی احمد صاحب نے پریزنٹیشن دی۔ بعد ازاں مکرم احمد نور الدین جہانگیر خان (مربی سلسلہ ریویو آف ریلیجنز) نے ’اسلام اور سائنس کے تناظر میں شکر کا تصور‘ کے موضوع پرتقریر کی۔
وقفے کے بعد تیسرے سیشن کا آغاز ہوا جس میں ڈاکٹر امۃ الشافی سمیع، سوہا مریم نے اپنے تحقیقی مقالہ جات اور پروفیسر امۃ الرزاق کارمائیکل Carmichael صاحبہ نے اپنی تقریر پیش کی۔
نمازِ ظہر و عصر کے بعد پروفیسر عاطف میاں (امریکہ) نے اقتصادیات سے متعلق معلوماتی لیکچر دیا اور حاضرین کے سوالات کے جوابات دیے۔
اس کے علاوہ طاہر احمد عبدالسلام، ڈاکٹر حکیم بکاری، پروفیسر سہیل حسین و دیگر نے بھی اپنی تحقیقات و تقاریر پیش کیں۔
نمازِ مغرب کے بعد ایک پینل سیشن ہوا جس کے ممبران نے گفتگو کے بعد حاضرین کے متفرق سوالوں کے جوابات دیے۔ ان تحقیقی مقالہ جات کے علاوہ اس کانفرنس کے دوران تین نمائشیں بھی لگائی گئیں جن میں ہیومینٹی فرسٹ، انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ مسلم آرکیٹکٹس اینڈ انجینئرز اور ریویو آف ریلیجنز کی نمائشیں شامل تھیں۔ مزید برآں طب، طبیعیات، تاریخ، کیمیا اور سوشل سائنسز وغیرہ کے موضوع پر پندرہ تحقیقی پوسٹرز بھی کانفرنس ہال میں آویزاں کیے گئے۔
حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تشریف آوری
اس کانفرنس کا خِتام حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی تشریف آوری اور پر معارف خطاب تھا۔ حضور پُر نور نمازِ عشاء کے بعد آٹھ بج کراکتیس منٹ پرایوانِ مسرور میں رونق افروز ہوئے۔ محترم صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ نے حضورِ انور کا استقبال کیا۔ حضورِ انور نے ایسوسی ایشن کی طرف سے پیش کردہ کیک کو کاٹا اور اسٹیج پر رونق افروز ہوئے۔
اختتامی تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآنِ کریم سے ہوا جو مکرم احمد نورالدین جہانگیر خان نے کی۔ تلاوت کی جانے والی سورۃ الانبیاء کی آیات 31، 32 کا ترجمہ انس احمد رانا نے انگریزی میں پیش کیا۔ بعد ازاں مکرم عبدالقدوس عارف صدر مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ نے حضورِ انور کے ارشاد پر رپورٹ پیش کی۔
حضورِ انور کا بصیرت افروز خطاب
بعد ازاں 08؍ بج کر 39؍ منٹ پر حضورِ انور منبر پر رونق افروز ہوئے اور اپنے خطاب بزبانِ انگریزی کا آغاز تشھد، تعوذ اور تسمیہ سے فرمایا جس کے بعد سورۃ آل عمران کی آیات 191 اور 192 کی تلاوت کی اور ان کا انگریزی ترجمہ پیش فرمایا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں صاحبِ عقل لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بل بھی اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتے رہتے ہیں۔ (اور بے ساختہ کہتے ہیں) اے ہمارے ربّ! تُو نے ہرگز یہ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ پاک ہے تُو۔ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج آپ پہلی بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کر رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کی کانفرنس بہت مفید ثابت ہوئی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جن کی تلاوت میں نے ابھی کی ہے آسمان اور زمین کی تخلیق کے حوالہ سے ذکر فرمایا ہے اور ہمیں ترغیب دلائی ہے کہ ہم آسمان اور زمین کی تخلیق کے بارے میں سوچیں اورغور کریں۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں عطا کی ہیں اورجو کچھ ہمارے لیے بنایا ہے ہماری بہتری کے لیے پیدا کیا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کائنات کے حوالہ سے جو بھی باتیں بیان کی ہیں انسان جب ان کے بارہ میں سوچتا ہے تو انسان اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرتا ہے ۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جب کائنات پر غور اور فکر کے بعد انسان اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ خدا تعالیٰ موجود ہے۔ جب انسان رات اور دن کے آگے پیچھے آنے پر غور کرتا ہے تو اسے یہ بات ماننی پڑے گی کہ خدا تعالیٰ ہی اس نظام کا خالق ہے۔
حضور انور نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ سے کائنات کی تخلیق کو سمجھنے کے حوالہ سے مدد مانگی جاتی ہے اور اس کے حضور جھکا جاتا ہے تاکہ کائنات کی باریکیاں معلوم ہوں تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے راز کھولتا ہے اور لوگوں کی رہ نمائی فرماتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی تخلیق کے بارے میں مسلسل سوچنے کے بعد انسان خدا تعالیٰ کو پہچاننے لگ جاتا ہے۔
حضور انور نےسورۃ آل عمران کی تلاوت کردہ آیات کے حوالے سے فرمایا کہ ان میں ایک سچے مومن کی علامات ہیں اوریہی ان کے لیے کامیابی اورعزت کا موجب ہیں۔
حضور انور نے تمام احمدی سائنسدانوں اور محققین کو متوجہ فرمایا کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کی ہستی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی تحقیقات اور علمی کام بجا لائیں۔ اگر اس طرح وہ کام کریں گے تو خدا تعالیٰ قدم قدم پر ان کی تائید اور نصرت فرمائے گا۔ دنیا دار لوگ سائنسی تحقیقات صرف دنیاوی فوائد کے لیے بجالاتےہیں جبکہ اس کے مقابلہ پر ایک مومن کی تحقیق نہ صرف دنیاوی ترقی کا باعث بنتی ہے بلکہ دنیاکے سامنے خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت بھی مہیا کرنےوالی ہوتی ہے۔اس طریقے سے کام کرنے کے بارے حضور انور نے مکرم ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی مثال بیان فرمائی کہ انہوں نے اس نہج پر کام کیا اور اعلیٰ کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔
احمدی سائنسدانوں کو نصیحت فرماتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے اپنے علمی کام سر انجام دیں۔
حضورانور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت او ر عظمت آپ کے دل و دماغ میں اچھی طرح راسخ ہونے چاہئیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ آپ کو اعلیٰ کامیابی عطا فرمائے گا۔
حضور انور نے ایک تاریخی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک مرتبہ ایک سیّاح، ڈاکٹر کلیمنٹ Wragge قادیان تشریف لائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے سائنس کے حوالے سے گفتگو فرمائی۔ اس دوران حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ سائنس جتنی مرضی ترقی کر لے وہ کبھی بھی خدا تعالیٰ کی ہستی اور قرآن کریم کی تعلیم کو جھٹلا نہیں سکے گی بلکہ ہر ترقی اس کی صداقت کو مزید روشن تر کرے گی۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ قرآن کریم اپنے متبعین کو علم کے حصول سے نہیں روکتا بلکہ اس کی ترغیب دلاتا ہے۔ صرف مخلوق خدا کی تغیریاغیر فطرتی عمل بجا لانے سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے جس سے انسان اپنی حدود سے نکل کر خدا کے دائرہ کار میں آجاتا ہے۔ اس کا نتیجہ نہ صرف اگلے جہان میں جہنم ہو گا بلکہ اس دنیا کو بھی جہنم بنانے کا موجب ہوتا ہے۔ پس اس اصل کو احمدی سائنسدانوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور صرف ایسے تحقیقاتی کام کرنے چاہئیں جن سے انسانیت کو فائدہ ہو۔ یہ ایک احمدی سائنسدان کا طرہ امتیاز ہونا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی تحقیقات بجا لائے۔
حضور انور نے فرمایا کہ کئی مسلمان سائنسدانوں نے اسلام کے ابتدائی دَور میں سائنس کے بہت سے میدانوں میں غیرمعمولی کردار ادا کیا ۔
حضور انور نے ایک آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلام کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمان سائنسدان آغازمیں سائنس کے میدان میں بہت ترقی یافتہ تھے۔ اور کئی ایجادات جو اُس وقت کی گئیں وہ آج بھی مختلف شعبوں میں فائدہ مند ثابت ہو رہی ہیں۔ ابن سینا کے حوالہ سے حضور انور نے فرمایا کہ گزشتہ صدیوں میں طب کے میدان میں ان کی تحقیقات پڑھی جاتی تھیں اور ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل بھی کیا جاتا تھا۔
ایک اور آرٹیکل کاحوالہ دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ عیسائیت اور اسلام اگر سائنس میں آپس میں ہم آہنگی سے کام کریں تو بہت ترقی ہو سکتی ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سی سائنسی کتب اور صحیفوں کا ترجمہ عربی زبان سے ہوا ہے۔
اس کے بعد حضور انور نے فرمایا: جب مسلمان خدا تعالیٰ سے دور ہوتے گئے تو اُن کی سوچیں اورعلمی صلاحیتیں بھی زوال کا شکار ہوتی گئیں۔ اُن کا انحصار اپنے جدید آلات پر رہ گیا ۔ دنیا اب بھی اس اسلام کے اُس دور کی تعریف کرتی ہے کہ سائنس کے میدان میں مسلمان اس وقت بہت آگے تھے۔
حضور انور نے فرمایا کہ اب مسلمانوں میں علم کی طلب نظر نہیں آتی۔ ایک اور آرٹیکل کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اس آرٹیکل میں لکھا ہے کہ سولہویں صدی میں مسلمانوں کی سائنسی پراگریس زوال پذیر ہو چکی تھی۔ اسی آرٹیکل میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ مسلمان ملکوں میں صرف دو سائنسدان ایسے ہیں جنہیں نوبیل انعام ملا ہے۔ 1989ء میں امریکہ نے دس ہزارسائنسی پرچے شائع کیے تھے جن میں سے صرف 4 عرب ممالک کے تھے۔ غرض اس آرٹیکل میں تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کے سائنسی زوال کا ذکر تھا۔
حضور انور نے فرمایا کہ اس دور میں یہ احمدی سائنسدانوں کا کام ہے کہ وہ آگے آئیں اور اس چیلنج کو قبول کریں کہ سائنسی میدان میں ترقی کرنی ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ احمدی مسلمانوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ ایسے زمانے میں اسلام کی عزت کو دوبارہ بحال کریں اور اس کھوئی ہوئی شان کو دوبارہ حاصل کریں۔
جماعت کی روایت کہ جلسہ سالانہ کے موقع پرتعلیمی میدان میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والوں کو گولڈ میڈل دیا جاتا ہے۔ یہ روایت حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نےڈاکٹر عبد السلام صاحب کا نوبیل انعام حاصل کرنے کے کچھ عرصہ بعد قائم فرمائی تھی اور اس حوالے سے فرمایا کہ سائنس میں غیر معمولی ترقی کرنے والوں کو یہ انعام دیا جائے۔ ساتھ ہی آپ ؒ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ احمدیت کی اگلی صدی میں ایک سوعبد السلام جماعت کو عطا ہوں۔ حضور انور نے فرمایا کہ احمدیت کی دوسری صدی کو بھی تین دہائیاں گزر چکی ہیں مگر اب تک ہم اس معیار کے سائنسدان نہیں پیدا کر سکے۔
حضور انور نے فرمایا کہ میں نے مختلف سائنسدانوں کو براہ راست یا خدام الاحمدیہ کے ذریعہ ہدایت کی ہے کہ وہ اعلیٰ سائنسی تحقیقات کریں مگر اس حوالے سے زیادہ کام نہیں ہوا۔ امریکہ میں AMRAکی قائم تنظیم نے کچھ حد تک کام کیا ہے مگر وہ بھی اس اعلیٰ معیار تک نہیں پہنچتا جہاں تک ہمیں پہنچنا چاہیے۔
حضور انور نے فرمایا کہ آج آپ لوگوں کو یہاں سے جاتے ہوئے مصمم ارادہ کرنا چاہیے کہ ہم نے ڈاکٹرعبدالسلام صاحب کے نقش قدم پر چلنا ہے اور پرانے مسلمانوں کے نام کو روشن کرنا ہے اور سائنس کے میدان میں اعلیٰ کردار ادا کرنا ہے۔ اس کے لیے شوق اور جذبے سے کام کرناہو گااور ہمیشہ خدا تعالیٰ کےآگے جھکتے ہوئے اس کی عظمت کو یاد رکھ کے کام کرنا ہو گا۔
آخر پر حضور انور نے دعا کی کہ اللہ کرے کہ ہم وہ دن طلوع ہوتا دیکھیں جس میں احمدی سائنس دان اور محققین سائنس کے میدان میں اعلیٰ کردار ادا کرنے والے ہوں۔ آمین۔
حضورِ انور کا معرکہ آرا اور بصیرت افروز خطاب نو بج کر 18 منٹ پر اختتام پذیر ہوا جس کے بعد حضورِ انور نے اجتماعی دعا کروائی۔ بعد ازاں شرکائے تقریب کی خدمت میں عشائیہ پیش کیا گیا۔ حضور پُر نور نے عشائیے میں شرکت فرمائی۔
تقریباً پونے دس بجے حضورِ انور اسٹیج سے نیچے تشریف لائے اور AMRA کی انتظامیہ کی تصاویر ہوئیں۔ بعد ازاں حضورِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہال سے تشریف لے گئے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضور پُرنور کا معرکہ آرا اور بصیرت افروز تاریخی خطاب سائنسی میدان میں علم کی متلاشی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ اور مسلمانوں کی علمی و تحقیقی میدانوں میں ترقیات کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ آمین ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو خلافتِ احمدیہ کی برکات سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(رپورٹ: فرّخ راحیل، احسن مقصود اور سیّد احسان احمد، الفضل انٹرنیشنل لندن)
بہت اچھی اور بر وقت رپورٹنگ کا شکریہ . عرفان از جرمنی