تقدیر الٰہی (قسط نمبر15)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
مسئلہ تقدیر کے غلط سمجھنے کے نقصان
اب میں نہایت افسوس سے ان نقصانات کا اظہار کرتا ہوں جو لوگ اس مسئلہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اٹھا رہے ہیں۔ تقدیر دراصل ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی چیز تھی کہ انسانوں کو زندہ کرنے والی تھی۔ مگر افسوس اس کی قدر نہیں جانی گئی اور اس سے وہی سلوک کیا گیا جو قرآن کریم سے کیا گیا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے قیامت کے دن رسول کریم ﷺ خدا تعالیٰ کے حضور کہیں گے۔
یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا۔ (الفرقان:31)
کہ خدایا اس قرآن کو میری قوم نے پیٹھ کے پیچھے ڈال دیا۔ اس کے مصداق رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے آپ کو نہ مانا۔ مگر مسلمان بھی ہیں اور اصل قوم رسول کریم ﷺ کی یہی ہیں۔ وہ قرآن جو ان کی ہدایت کے لیے آیا اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کو اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ پر پہنچانے کے لیے آیا ہے اس کو آج کل کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک تو اس طرح کہ زندگی بھر تو قرآن کا ایک لفظ ان کے کانوں میں نہیں پڑتا۔ لیکن جب کوئی مر جائے تو اس کو قرآن سنایا جاتا ہے۔ حالانکہ مرنے پر سوال تو یہ ہوتا ہے کہ بتاؤ تم نے اس پر عمل کیونکر کیا؟ نہ یہ کہ مرنے کے بعد تمہاری قبر پر کتنی دفعہ قرآن ختم کیا گیا ہے۔ پھر ایک استعمال اس کا یہ ہے کہ ضرورت پڑے تو آٹھ آنے لے کر اس کی جھوٹی قسم کھا لی جاتی ہے اور اس طرح اسے دوسروں کے حقوق دبانے کا آلہ بنایا جاتا ہے۔ تیسرے اس طرح کہ ملّانے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جب کوئی مر جاتا ہے تو اس کے وارث قرآن لاتے ہیں کہ اس کے ذریعہ سے اس کے گناہ بخشوائیں اور ملّا نے ایک حلقہ سا بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور قرآن ایک دوسرے کو پکڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے یہ تیری مِلک کی۔ وہ اس طرح سمجھتے ہیں کہ مردہ کے گناہوں کا اسقاط ہوگیا۔ مگر مردہ کے گناہوں کا کیا اسقاط ہونا تھا ان ملّانوں اور اس مردہ کے وارثوں کے ایمانوں کا اسقاط ہو جاتا ہے۔ ایک اس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں کہ ملّانے آٹھ آٹھ آنہ کے قرآن لے آتے ہیں۔ جب کسی کے ہاں کوئی مر جاتا ہے اور وہ قرآن لینے آتا ہے تو اسے بہت سی قیمت بتا دی جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ تو ایک روپے سے بھی کم قیمت کا ہے۔ ملّاں صاحب کہتے ہیں کہ کیا قرآن سستے داموں بک سکتا ہے؟ تھوڑی قیمت پر تو اس کا بیچنا منع ہے۔ خود قرآن میں آتا ہے
وَ لَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا(البقرۃ:42)
کہ تھوڑی قیمت پر قرآن نہ خریدو اس لیے کہ اس کی تھوڑی قیمت نہیں لی جاسکتی۔ مگر وہ نادان نہیں جانتے کہ قرآن نے تو یہ بھی فرمایا ہے کہ
مَتَاعُ الدُّنۡیَا قَلِیۡلٌ(النساء:78)
کہ دنیا کا سب مال و متاع قلیل ہے۔ اور ثَمَنًا قَلِیۡلًا کے یہ معنی ہیں کہ دنیا کے بدلے اسے نہ بیچو۔
پھر ایک استعمال اس کا یہ ہے کہ عمدہ غلاف میں لپیٹ کر دیوار سے لٹکا دیتے ہیں۔ پھر ایک یہ کہ جُزدان میں ڈال کر گلے میں لٹکا لیتے ہیں تاکہ عوم سمجھیں کہ بڑے بزرگ اور پارسا ہیں ہر وقت قرآن پاس رکھتے ہیں۔ پس جس طرح قرآن کریم کو مسلمان برے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے اسی طرح تقدیر کے مسئلہ کے متعلق کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک استعمال تو اس کا یہ ہوتا ہے کہ اپنی ندامت اور شرمندگی کے مٹانے کے لیے تقدیر کو آڑ بنالیتے ہیں۔ مثلاً کسی کام کے لیے گئے اور وہ نہ ہوا تو اپنی شرمندگی مٹانے کے لیے کہ لوگ کہیں گے تم تو بڑا دعویٰ کرتے تھے مگر فلاں کام نہ کرسکے۔ کہتے ہیں کہ قسمت ہی اسی طرح تھی ہم کیا کرتے؟ جہاں جہاں انہیں کوئی ذلت اور رسوائی پہنچتی ہے اسے قسمت اور تقدیر کے سرمنڈھ دیتے ہیں۔ حالانکہ تقدیر ندامت میں غرق کرنے کے لیے نہیں بلکہ ترقیات کے عطا کرنے کے لیے جاری کی گئی ہے۔ آگے جو شخص نقصان اٹھاتا ہے وہ تقدیر سے فائدہ نہ اٹھانے کے باعث ہوتا ہے۔
پھر اظہار مایوسی کے وقت بھی قسمت کو یاد کر لیتے ہیں۔ مثلاً کام کرتے کرتے جب ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اور یہ انسان کے لیے بدترین حالت ہے۔ کیونکہ مایوسی کا اظہار کرنا نہایت درجہ بزدلی اور دنائت پر دلالت کرتا ہے اور شریف انسان اس سے بچتا ہے۔ تو اس وقت اپنی مایوسی اور ناامیدی کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ یہ بات معلوم ہوتا ہے قسمت ہی میں نہیں ہے۔ یعنی ہم تو آسمان میں سوراخ کر آویں لیکن اللہ تعالیٰ نے راستہ روک دیا ہے اور چونکہ اس کا منشاء نہیں اس لیے ہم کوشش چھوڑ دیتے ہیں اس طرح اپنی کم ہمتی اور دنائت کو خدا تعالیٰ کی تقدیر کی آڑ میں چھپاتے ہیں۔ اور شرم نہیں کرتے کہ تقدیر کو کس رنگ میں استعمال کر رہے ہیں اور اتنا نہیں سوچتے کہ ان کو کیونکر معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر یوں ہی تھی۔ یہ اس کے ایسے مقرب کب ہوئے کہ وہ ان پر اپنی تقدیروں کا اظہار کرنے لگ گیا۔
پھر اپنی سستی کو چھپانے کے لیے اس مسئلہ کا استعمال کرتے ہیں۔ اس لومڑی نے تو پھر بھی اچھا کیا تھا جس نے گزرتے ہوئے دیکھا کہ انگور کی بیل کو انگو ر لگے ہوئے ہیں۔ وہ ان کو کھانے کے لیے اچھلی کُودی مگر وہ اتنے اونچے تھے کہ پہنچ نہ سکی اور یہ کہہ کر چل دی کہ تُھو۔ کھٹے ہیں۔ گویا وہ ان کو اس لیے نہیں چھوڑ رہی کہ ان کو پا نہیں سکتی بلکہ ان کے کھٹے ہونے کی وجہ سے چھوڑ رہی ہے مگر یہ اس سے بھی بدتر نمونہ دکھاتے ہیں۔ یہ بغیر کسی کام کے لیے کوشش کرنے کے یہ کہہ کر اپنی سستی پر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ اگر قسمت ہوئی تو مل کر رہے گا اور نادان نہیں سوچتے کہ تم کب اس قابل ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو بدل کر ایک خاص تقدیر جاری کرے گا اور تمہارے لیے رزق مہیا کرے گا۔ اور پھر بات تو تب تھی کہ سب کام چھوڑ دیتے۔ لیکن ایسا نہیں کرتے جس کام کے بغیر چارہ نہ ہو اسے کرنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔ یا جو کام زیادہ قربانی اور محنت نہ چاہتا ہو اس کے کرنے میں عذر نہیں کرتے۔ اگر قسمت پر ایسا ایمان تھا تو پھر چھوٹے چھوٹے کام کیوں کرتے ہو؟ درحقیقت ان لوگوں کا فعل اس لومڑی کے فعل سے بھی بدتر ہے نہ صرف اس لیے کہ اس نے کوشش کے بعد چھوڑا اور یہ بغیر کوشش کے چھوڑ دیتے ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ اس نے تو اپنے ترک عمل کو انگوروں کے کھٹے ہونے کی طرف منسوب کیا اور یہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ یہ لوگ خود سست ہوتے ہیں کام کرنے کو جی نہیں چاہتا محنت سے دل گھبراتا ہے اور اسے موت سے بدتر خیال کرتے ہیں لیکن جب ترقیات کے راستوں پر قدم زن ہونے کے لیے انہیں کہا جاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں اگر فلاں چیز نے ملنا ہوگا تو آپ ہی مل رہے گی ہمارے محنت کرنے سے کیا ملتا ہے اور اس طرح اپنی کمزوری تقدیر کی چادر میں چھپاتے ہیں۔
پھر گالی کے طور پر تقدیر کو استعمال کرتے ہیں۔ یعنی جس کو گالی دینی ہو اسے کہتے ہیں چل بدقسمت۔ گویا جس طرح اور برے الفاظ ہیں اسی طرح قسمت کا لفظ ہے۔ اور ان کے نزدیک خدا کی اس نعمت کا استعمال یہ ہے کہ اپنی زبانوں کو گندہ کریں۔ حالانکہ خدا تعالیٰ نے تقدیر اس لیے جاری کی تھی کہ انسان اس کے ذریعہ اپنے آپ کو پاک کریں۔
پھر اس کا ایک استعمال خدا کو گالیاں دینے کے لیے ہوتا ہے۔ خدا نے تو تقدیر اس لیے بنائی ہے کہ خدا سے انسان کا تعلق مضبوط ہو مگر وہ اس کا الٹا استعمال کرتے ہیں۔ اگر بعض لوگوں کے گھروں میں کوئی موت ہو جائے۔ مثلاً کوئی بچہ مرجاوے تو وہ کہتا ہے کہ ‘‘ربا تیرا پُتر مردا تے تینوں پتہ لگدا’’یعنی اے خدا تیرا لڑکا مرتا تو تجھے معلوم ہوتا کہ اس کا کس قدر صدمہ ہوتا ہے۔ نعوذ باللہ من ذالک گویا خدا نے ان پر بڑا ظلم کیا ہے۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ خدا پر بھی ایسا ہی ظلم ہو۔ یہاں ایک شخص تھے بعد میں وہ بہت مخلص احمدی ہوگئے اور حضرت صاحبؑ سے ان کا بڑا تعلق تھا۔ مگر احمدی ہونے سے قبل حضرت صاحبؑ ان سے بیس سال تک ناراض رہے۔ وجہ یہ کہ حضرت صاحبؑ کو ان کی ایک بات سے سخت انقباض ہوگیا۔ اور وہ اس طرح کہ ان کا ایک لڑکا مرگیا۔ حضرت صاحبؑ اپنے بھائی کے ساتھ ان کے ہاں ماتم پرستی کے لیے گئے۔ ان میں قاعدہ تھا کہ جب کوئی شخص آتا اور اس سے ان کے بہت دوستانہ تعلقات ہوتے تو اس سے بغل گیر ہو کر روتے اور چیخیں مارتے۔ اسی کے مطابق انہوں نے حضرت صاحبؑ کے بڑے بھائی سے بغل گیر ہو کر روتے ہوئے کہا کہ خدا نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے۔ یہ سن کر حضرت صاحبؑ کو ایسی نفرت ہوگئی کہ ان کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ بعد میں خدا نے انہیں توفیق دی اور وہ ان جہالتوں سے نکل آئے۔ غرض تقدیر کے مسئلہ کے غلط سمجھنے کا یہ نتیجہ ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے ہم پر یہ ظلم کیا وہ ستم کیا اور اس طرح خدا کو گندی سے گندی گالیاں دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے ان افعال کا الزام ان پر ہے جنہوں نے ان کے دلوں میں یہ خیال ڈال دیا ہے کہ سب کچھ خدا کرتا ہے۔ اس خیال کو رکھ کر جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں خدا نے ہم پر یہ ظلم کیا ہے۔
ایمان بالقدر کی ضرورت
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ ایمان بالقدر کی ضرورت کیا ہے؟ میں نے بتایا ہے قدر نام ہے صفات الٰہیہ کے ظہور کا۔ اور جب تک کوئی انسان اس پر ایمان نہیں لاتا اس کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ پس تقدیر ایمان کی تقویت اور تکمیل کا ذریعہ ہے۔ اگر یہ مسئلہ نہ ہوتا تو پہلا نقص یہ ہوتا کہ ایمان نامکمل رہ جاتا۔
اگر تقدیر الٰہی جاری نہ ہوتی تو کیا نقصان ہوتا
اگر تقدیر نہ ہوتی تو پہلا نقصان یہ ہوتا کہ انسان نہ دین میں سُکھ پاسکتا نہ دنیا میں۔ میں نے بتایا ہے کہ ایک تقدیر یہ ہے کہ آگ جلائے۔ پانی پیاس بجھائے یعنی وہ احکام جن کے ذریعہ سے خواص الاشیاء مقرر کیے گئے ہیں۔ اسی قاعدہ سے فائدہ اٹھا کر دنیا اپنا کاروبار کر رہی ہے۔ ایک زمیندار گھر سے دانہ لے جا کر زمین میں ڈالتا ہے۔ گویا بظاہر اس کو ضائع کرتا ہے۔ مگر کیوں؟ اس لیے کہ اسے امید ہے کہ اُگ کر ایک دانہ کے کئی کئی دانے بن جائیں گے۔ لیکن اسے یہ امید اور یہ یقین کیوں ہے؟ اس لیے کہ اس کا باپ، اس کا دادا، اس کا پڑدادا جب جب اس طرح کرتا رہا ہے ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اور خدا نے یہ قانون مقرر کر دیا ہے کہ جب دانہ زمین میں ڈالا جائے تو اس کے اُگنے سے کئی دانے پیدا ہو جائیں۔ لیکن اگر یہ قاعدہ مقرر نہ ہوتا بلکہ اس طرح ہوتا کہ زمیندار کوکنک(گندم) کی ضرورت ہوتی اور وہ کنک بوتا تو کبھی کنک اگ آتی کبھی کیکر اُگ آتا کبھی انگور کی بیل نکل آتی وغیرہ۔ تو کچھ مدت کے بعد زمیندار اس بونے کے فعل کو لغو سمجھ کر بالکل چھوڑ دیتا اور اپنی محنت کو ضائع خیال کرتا۔ اسی طرح اب تو سنار کو یقین ہے کہ سونا جب آگ میں ڈالوں گا تو پگھل جائے گا اور پھر جس طرح اس سے چاہوں گا زیور بنا لوں گا۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوتا بلکہ یہ ہوتا کہ سنار کو کوئی کڑے بنانے کے لیے سونا دیتا اور وہ جب اسے پگھلاتا تو وہ چاندی نکل آتی یا کوئی چاندی دیتا تو وہ پیتل نکل آتی۔ کیونکہ کوئی قاعدہ مقرر نہ ہوتا تو کیا حالت ہوتی یہی کہ بیچارے سنار کو مار مار کر اس کی ایسی گت بنائی جاتی کہ وہ اس کام کے کرنے سے توبہ کر لیتا۔ اسی طرح لوہار جب لوہے کو گرم کر کے اس پر ہتھوڑا مارتا کہ اسے لمبا کرے۔ لیکن وہ کبھی خَود بنتا جاتا، کبھی ہارن کی شکل اختیار کر لیتا، یا وہ کدال بناتا تو آگے تلوار بن جاتی اور اسے پولیس پکڑ لیتی کہ ہتھیار بنانے کی اجازت تم کو کس نے دی ہے۔ یا اسی طرح ڈاکٹر تپ کے اترنے کی دوائی دیتا لیکن اس سے کھانسی بھی ہو جاتی تو ڈاکٹروں کی کون سنتا۔ اب تو اگر کسی کو کھانسی ہو تو ایک زمیندار بھی کہتا ہے کہ اسے بنفشہ پلاؤ۔ کیونکہ تجربے نے بتا دیا ہے کہ ا س سے کھانسی کو فائدہ ہوتا ہے لیکن اگر یہ قانون مقرر نہ ہوتا بلکہ یہ ہوتا کہ کبھی بنفشہ پلانے سے کھانسی ہو جاتی اور کبھی بخار بڑھ جاتا۔ کبھی قبض ہو جاتی اور کبھی دست آجاتے۔ کبھی بھوک بند ہو جاتی اور کبھی زیادہ ہو جاتی تو کون بنفشہ پلاتا۔ بنفشہ تب ہی پلایا جاتا ہے کہ خدا نے مقرر کر دیا ہوا ہے کہ اس سے خاص قسم کی کھانسی کو فائدہ ہو۔ اسی طرح زمیندار تب ہی غلہ گھر سے نکال کر زمین میں ڈالتا ہے کہ اسے یقین ہے کہ گیہوں سے گیہوں پیدا ہوتا ہے۔ اگر اسے یقین نہ ہوتا تو کبھی نہ نکالتا وہ کہتا نہ معلوم کیا پیدا ہو جائے گا میں کیوں اس غلہ کو بھی ضائع کروں لیکن اب وہ اس لیے مٹی کے نیچے گندم کے دانوں کو دباتا ہے کہ خدا نے تقدیر مقرر کی ہوئی ہے کہ گندم سے گندم پیدا ہو۔ اسی طرح روٹی کھانے سے پیٹ بھرتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہوتا کہ کبھی ایک لقمہ سے پیٹ بھر جاتا اور کبھی کوئی سارا دن روٹی کھاتا رہتا اور پیٹ نہ بھرتا تو پھر کس کو ضرورت تھی کہ کھانا کھاتا اور کیوں پیسے ضائع کرتا یا گھر میں آگ جلانے سے کھانا پکایا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ ہوتا کہ کبھی سارا دن پُھلکہ توے پر پڑا رہتا اور آگ جلتی رہتی لیکن وہ گیلے کا گیلا ہی رہتا اور کبھی آٹا ڈالتے ہی جل جاتا اور کبھی سینک لگنے سے پھلکا پکنے لگتا اور کبھی موٹا ہو کر ڈبل روٹی بن جاتا تو کون پھلکے پکانے کی جرأت کرتا۔ اسی طرح کبھی ساگ کچا رہتا اور کبھی پک جاتا تو کون پکاتا۔ یا اب معلوم ہے کہ مصری ڈالنے سے چیز میٹھی ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ایسا ہوتا کہ کبھی مصری ڈالنے سے میٹھی ہو جاتی، کبھی کڑوی، کبھی نمکین اور کبھی کھٹی، کبھی کسیلی اور کبھی کسی اَور مزے کی تو کیا کوئی مصری یا کھانڈ کو استعمال کر سکتا۔ یہ جس قدر کارخانہ عالم چل رہا ہے اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ مسئلہ تقدیر ہے۔ خدا تعالیٰ نے مقرر کر دیا ہے کہ میٹھا میٹھے کا مزا دے۔ کھٹا کھٹے کا مزا دے۔ آگ سے کھانا پکے۔ روٹی سے پیٹ بھرے وغیرہ وغیرہ۔ اور لوگوں نے اس کا تجربہ کر لیا ہے۔ پس وہ ان باتوں کے لیے روپیہ صرف کرتے ہیں۔ محنت برداشت کرتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ دنیا کا جتنا کاروبار اور جتنی ترقیاں ہیں وہ سب تقدیر کے مقرر ہونے کی وجہ سے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتی تو دنیا ہی نہ ہوتی۔ اور اس کا کارخانہ نہ چل سکتا پس انسان کی زندگی تقدیر کے ساتھ قائم ہے کیونکہ انسان کھانے پینے اور دوسری ضروریات کے پورا ہونے سے زندہ رہ سکتا ہے اور ان ضروریات کے پورا کرنے کے لیے وہ تبھی محنت کرتا ہے جب وہ جانتا ہے کہ میری کوشش کا کوئی مفید نتیجہ نکلے گا۔ اگر کوئی قاعدہ مقرر نہ ہوتا تو وہ محنت بھی نہ کرتا اور زندہ بھی نہ رہتا۔
یہ تو عام تقدیر کے نہ ہونے کا نقصان تھا۔ اب تقدیر خاص کے نہ ہونے کے متعلق بتاتا ہوں۔
…………………………………………………………(باقی آئندہ)
ماشاء اللہ۔ اللہ تعالی بہت بہت مبارک کرے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کے دست مبارک سے الفضل آن لائن کے افتتاح سے اسلام احمدیت کی تبلیغ و اشاعت کے نئے نئے ابواب کھلیں گے۔ اللہ تعالی حضور انور کی قیادت اور سربراہی میں اسلام احمدیت کوا پیغام ساری دنیا میں پھیلانے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین یا رب العلمین۔