ہم ایک ایسی نسل باقی چھوڑنے والے نہ ہوں جو ہمارے گناہوں کے ہولناک نتائج بھگت رہی ہو
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یوکے کی سالانہ پیس سمپوزیم 2017ء میں اپنے خطاب میںفرمایا:
جماعت احمدیہ مسلمہ کے بانی نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس زمانہ میںاسلام کے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل اتباع میں مبعوث کیا ہے تاکہ میں اسلامی تعلیمات میں سب سے اہم مقاصد کو پھیلاؤں۔ نمبر ایک یہ کہ انسانیت کو خدا تعالیٰ کے قریب لاؤں۔ اور نمبر دو یہ کہ انسانیت کی توجہ ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف مبذول کروں۔
میرا ایمان ہے کہ یہ دو مقاصد دنیا میں حقیقی اور دیر پا امن کے قیام کے لیے ٹھوس بنیاد ہیں ۔مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم خوش نصیب ہیں کہ قرآن کریم نے ہماری رہ نمائی کی ہے اور بتایا ہے کہ ہماری پیدائش کا بنیادی مقصد خدا تعالیٰ کی عبادت ہے۔ مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنا افضل ہے۔ مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اِن امن پسند مقاصد کی کلیۃً خلاف ورزی میں بعض مسلمان گروہوں اور بعض مسلمانوں نے انفرادی طور پر اپنی مساجد اور مَدرَسوں کو دہشت گردی کے مراکز بنا لیا ہے جن سے نفرت انگیزی کی تبلیغ کی جاتی ہے اور دوسروں کو دہشت گرد کارروائیوں کے لیے انگیخت کیا جاتا ہے۔ غیر مسلموں اور مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں دونوں کے خلاف یہ دہشت گرد کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ان حالات کی وجہ سےمغربی دنیا میں دُور دُور تک خوف پھیل گیا ہے اور لوگوں میں یہ تصوّر پیدا ہو گیا ہے کہ مساجد تنازعات اور فسادات کا منبع ہیں۔
ان وجوہات کی بنا پر مغرب میں بعض(سیاسی) پارٹیزاور بعض گروہوں میں مساجد کو بَین(ban)کرنےیا کم از کم مسلمانوں پر بعض پابندیاں عائد کرنے کی آوازیں بلند ہوئی ہیں۔ مثلاً یہ آواز بلند ہوئی ہے کہ حجاب کو بَین کردیا جائے، مناروں کو بَین کردیا جائے یا دوسرے اسلامی شعائر کو بَین کر دیا جائے۔افسوس کہ بعض مسلمانوں نے دوسروں کو اسلام کی تعلیمات پر الزامات لگانے کا موقع دیا ہے۔ ایک مسلمان کا صرف یہ فرض نہیں ہے کہ وہ اپنی نمازیں ادا کرے بلکہ اس پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ یتیموں کی دیکھ بھال کرے اور غریبوں کو کھانا کھلائے ورنہ ہماری نمازیں بے فائدہ ہوں گی۔اس بات کا ذکر قرآن کریم کی سورہ 107 (الماعون) آیت تین تا پانچ میں قطعی طور پر کیا گیا ہے۔
ان تعلیمات پر بنیاد رکھتے ہوئے جماعت احمدیہ مسلمہ اللہ تعالیٰ کے فضل سےبلا تفریق رنگ و نسل ہر قسم کے دکھ اور افلاس کے خاتمہ کے لیے کئی رفاہی کام کر رہی ہے۔ہم نےبعض ہسپتال ، سکولز اور کالجز قائم کیے ہیں جو لوگوں کی صحت کو برقرار رکھنے اور تعلیم حاصل کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔اور یہ کام بعض سب سے غریب اور دُور افتادہ علاقوں میں بھی ہو رہا ہے۔ ہمیں ان کاموں کے لیے کسی داد کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری واحد خواہش لوگوں کو خود مختار ہونے کے لیے مدد کرنا ہے تاکہ وہ اپنی امیدوں اور تمناؤں کو پورا کر سکیں اور خوشی خوشی وقار اور آزادی کے ساتھ اپنی زندگی جی سکیں۔
اس طرح مایوس اور انتہا پسندی کا شکار ہونے کی بجائےوہ ذمہ داری سے آگے بڑھیں گے اور اپنے ملکوں کے ایمان دار شہری بنیں گے۔ جہاں وہ ذاتی طور پر ترقی کریں گے وہاں وہ اپنے اپنے ملکوں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی مدد کر رہے ہوں گے اور دوسروں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے راغب کر رہے ہوں گے۔
حضور انور نے دہشت گردوں کی باتوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:دہشت گرد جو مرضی دعویٰ کریں کسی صورت میں بھی بلاجواز کسی پر حملہ آور ہونا یا قتل کرنا ہر گز جائز نہیں۔ اسلام نے انسانی جان کی حرمت اور عظمت قائم کی ہے۔قرآن کریم کی سورۃ المائدۃ آیت 33 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے کسی کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔ اور جس نے اُسے زندہ رکھا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندہ کردیا۔
اسلام وہ مذہب ہے جس نے ہمیشہ کے لیے ایمان و عقائد کی آزادی کے عالم گیر اصول قائم کیے ہیں ۔ اس لیے اگر آج نام نہاد مسلمان گروہ یا فرقے انسانوں کا قتل کر رہے ہیں تو اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمّت کی جا سکتی ہے۔ ان کی سفّاکانہ کارروائیاں اسلام کی تعلیمات کی کلیۃً خلاف ورزی کرتی ہیںاور اسلام میں ان کارروائیوں کا کہیں بھی جواز موجود نہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید فرمایا: ہر ملک کا اوّلین فرض اپنے لوگوں کی بھلائی ہونا چاہیے لیکن افسوس ناک سچائی تو یہ ہے کہ تجارت میں نفع اور مال و دولت کے حصول کولوگوں کی بھلائی پر ترجیح دی جاتی ہے۔
حضور انور نے اس خیال کا ردّ فرمایا کہ اسلحہ کی فروخت امن کو فروغ دیتی ہےاور فرمایا کہ یہ کلیۃً عقل سے عاری بات ہے۔حضور انور نے فرمایا کہ ایسے جَوازوں نے دنیا کو اسلحہ کی تجارت کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے میں ڈال دیا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ کوئی ملک یہ نہ سمجھے کہ وہ خطرہ سے محفوظ ہے کیونکہ تاریخ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جنگیں سرعت سے اور اکثرخلاف توقع شروع ہوئی ہیں۔حضور انور نے ایٹمی جنگ کے خطرہ پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسی جنگ تباہی کے لحاظ سے تصوّر سے باہر ہے۔ حضور انور نے بنی نوع انسان کو سوچ و بچار سے کام لینے کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ انہیں اس بارہ میں سوچنا چاہیے کہ وہ آئندہ نسلوں کے لیے ترکہ میں کس قسم کی دنیا چھوڑنا چاہتے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک ممکنہ جنگ عظیم کے نتائج پر بات کرتےہوئے فرمایا:ہم اس بات کے قصور وار ہوں گے کہ آئندہ نسلوں کے لیے میراث میں خوشحالی چھوڑنے کی بجائے غَم اور یاس چھوڑ رہے ہوں گے ۔ دنیا کو ہم تحفہ کے طور پر اپاہج بچوں کی ایک نسل دے رہے ہوں گےجو خرابیوں اور ذہنی معذوریوں کے ساتھ پیدا ہوں گے۔ نہ جانے اُن کے والدین اُن کی پرورش اور دیکھ بھال کے لیے بچ بھی سکیں گے یا نہیں؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید فرمایا: ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر ہم نے ہر حال میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی توہم دوسروں کے حقوق غصب کر رہے ہوں گے۔اور یہ پھر تنازعات، جنگ و جدال اور مصائب پر ہی منتج ہو گا۔ ہم سب کو اپنا جائزہ لینا چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ ہم کِن تنزل کی بنیادوں پر کھڑے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مَیں دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ صرف حال کی طرف نظر نہ کریں بلکہ کَل کی طرف بھی دیکھیں ۔ ہمیں ایک ایسی نسل باقی چھوڑنی چاہیے جو پُر امید ہو اور اُسے کئی سہولیات فراہم ہوں۔ہم ایک ایسی نسل باقی چھوڑنے والے نہ ہوں جو ہمارے گناہوں کے ہولناک نتائج بھگت رہی ہو۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید فرمایا: مَیں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ دنیا کے لوگوں کو عقل دے اور جو گھنے بادل ہمارے اوپر چھائے ہوئے ہیں ہٹ جائیں تاکہ ہمارا مستقبل روشن اور خوشحال ہو جائے۔
٭…٭…٭