قرآن کریم، احادیث نبویﷺ اور حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کی روشنی میں قرآن کریم کی اہمیت، عظمت اور برکات کا بصیرت افروز تذکرہ۔ خلاصہ خطبہ جمعہ فرمورہ ۱۴؍مارچ ۲۰۲۵ء
٭… ہماری مساجد میں قرآن کریم کے دروس کا انتظام ہوتا ہے، تراویح کا بھی اہتمام ہوتا ہے، قرآن کریم کی تلاوت پر زور دیا جاتا ہے، ایم ٹی اے پر بھی روز تلاوت آتی ہے، اُس کو بھی سننا چاہیے
٭… قرآن کریم کی حقیقی برکات تب ہی مل سکتی ہیں جب یہ سن کر اس پر عمل کی کوشش بھی کی جائے
٭…ہر ایک کورمضان میں قرآن کریم کا کم از کم ایک دَور مکمل کرنے کی ضرور کوشش کرنی چاہیے
اسی طرح قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کی طرف بھی توجہ ہونی چاہیے
٭… احمدیوں پر جتنی مرضی پابندی لگا لیں یہ قرآن کی تعلیم کو ہمارے دلوں سے نکال نہیں سکتے، یہ جتنا مرضی زور لگا لیں، اس کی محبت ہمارے دلوں سے نہیں نکال سکتے
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۴؍مارچ ۲۰۲۵ء بمطابق ۱۴؍ امان ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۱۴؍مارچ۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم رمضان کے دوسرے عشرےمیں سےگزر رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم کا رمضان سے ایک خاص تعلق بیان فرمایا ہے۔ فرمایایہ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لیے ایک عظیم ہدایت کےطور پر اتارا گیا اور ایسےکھلے نشان کے طورپرجن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کردینے والے اُمور ہیں۔ پس اس لیے
ہمیں اس مہینے میں قرآن کریم کو بکثرت پڑھنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے بھی توجہ دلائی ہے اور آنحضرتﷺ نے بھی اس طرف خاص طور پرتوجہ دلائی ہے کہ اس بابرکت مہینے میں تو بکثرت قرآن کریم پڑھنا چاہیے۔ حضرت جبرئیلؑ ہر سال جس قدر قرآن کریم نازل ہوا کرتا تھا اس کا ایک دَور آنحضرتﷺ کے ساتھ مکمل کیا کرتے تھے اورآنحضرتﷺ کی زندگی کے آخری سال میں تودو دفعہ مکمل ہوا۔
قرآن کریم کی اہمیت اور رمضان کے ساتھ اس کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ اس بات کو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور قرآن کریم کو پڑھنےاورسننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہماری مساجد میں قرآن کریم کے دروس کا انتظام ہوتا ہے، تراویح کا بھی اہتمام ہوتا ہے، قرآن کریم کی تلاوت پر زور دیا جاتا ہے، ایم ٹی اے پر بھی روز تلاوت آتی ہے، اُس کو بھی سننا چاہیے۔ لیکن
قرآن کریم کی حقیقی برکات تب ہی مل سکتی ہیں جب یہ سن کر اس پر عمل کی کوشش بھی کی جائے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے شروع میں ہی فرمادیا کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، متقیوں کو ہدایت دینےوالی ہے۔ پس تقویٰ پر چلنے کےلیے اور ایک حقیقی مومن بننےکےلیے اللہ تعالیٰ نے اِس کتاب پر عمل ضروری قرار دیاہے۔ رمضان میں تو حقیقی مومن بننےکی طرف خاص توجہ ہوتی ہے، تقویٰ کے حصول کی خاص کوشش ہورہی ہوتی ہے تو اُس کا طریق اللہ تعالیٰ نے سمجھادیا ہے کہ اگر یہ کوشش اور خواہش ہے تو قرآن کریم کو بکثرت پڑھو اور اس پر عمل کی کوشش کرو۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: اس(قرآن کریم) کے فیوض اور برکات کا در ہمیشہ جاری ہے اور وہ ہرزمانے میں اُسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جس طرح آنحضرتﷺ کےزمانے میں تھا۔
پس رمضان میں جہاں ہم قرآن کریم کے پڑھنے کی طرف خاص توجہ کرتے ہیں وہیں اس کی تعلیم پر عمل کی بھی کوشش ہونی چاہیے۔رمضان میں ہرکوئی اپنی اپنی طاقت کے مطابق قرآن کریم کو پڑھتا ہے، جو مکمل دَور نہیں بھی کرسکتے وہ بھی کچھ نہ کچھ حصہ رمضان کے ایّام میں ضرور پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ویسے تو
ہر ایک کورمضان میں قرآن کریم کا کم از کم ایک دَور مکمل کرنے کی ضرور کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کی طرف بھی توجہ ہونی چاہیے۔ اس طرح ہمیں اچھائی اور برائی کا صحیح علم ہو۔
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ قرآن کریم بہت مشکل کتاب ہے، حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنایا ہے، پس کیا کوئی ہےنصیحت پکڑنےوالا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا دعویٰ ہے، وہ فرماتا ہے کہ مَیں نے قرآن کریم میں آسان تعلیم دی ہے، تمہیں نصیحت یہ ہے کہ اس تعلیم پر عمل کرنے کی پوری پوری کوشش کرو۔ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کوسمجھنےکے لیے ہر زمانے میں استاد بھی پیدا کیے اور اس زمانے میں اُس نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو بھیجا جنہوں نے ہمیں سب کچھ بتادیا۔ پس یہ ہماری بدقسمتی ہوگی اگر اب بھی ہم اس پر عمل کرنے والے نہ بنیں۔
اسی طرح خلفاءنے بھی تفاسیر کی ہیں، حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیرِ کبیر لکھی ہے، جس میں نصف قرآن کی تفسیر تو بیان ہوگئی ہے، اس کے علاوہ اور ترجمے اور تفاسیر ہیں۔ تفسیرِ صغیر ہے، اس میں بھی بہت سی باتیں ہیں۔ پھر جماعت میں مختلف زبانوں میں تراجم بھی ہورہے ہیں، پس
رمضان میں جہاں ہم قرآن کریم کو پڑھنے کی کوشش کر تے ہیں وہاں تراجم اور تفاسیر کے ساتھ اس کے معانی اور احکامات کو بھی سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔
حضورِانورنے فرمایا کہ بچوں کی آمین کے لیے لوگ میرے پاس آتے ہیں انہیں بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بچوں کو قرآن پڑھاکر آپ نے اپنا ایک فرض تو ادا کردیا لیکن بچوں میں قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر عمل کا شوق اور محبت پیدا کرنا بھی آپ کا فرض ہے۔
ہر احمدی کو اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ وہ خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت اور ترجمے کی طرف توجہ دیں۔
حضرت مسیح موعودؑ نے ایک جگہ فرمایا کہ یہ سچ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا ہے لیکن پھر بھی اس کے انوار و برکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ زندہ و تازہ بتازہ ہیں۔ چنانچہ مَیں اس وقت ثبوت کےلیے بھیجا گیا ہوں۔ فرمایا کہ قرآن کریم کوچھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو مومن قرآن پڑھتا اور اس پر عمل کرتا ہے، اس کی مثال ایک ایسے پھل کی طرح ہے جس کا مزہ بھی اچھا ہے اور خوشبو بھی، اور وہ مومن جو قرآن نہیں پڑھتا مگر اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال کھجور کی طرح ہے جس کا ذائقہ تو اچھا ہے مگر خوشبو کوئی نہیں۔ ایسا منافق جو قرآن کریم پڑھتا ہے اس کی مثال ایسے پودےکی طرح ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہے مگر مزہ کڑوا ہے اور ایسے منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا ایسے کڑوے پھل کی طرح ہے جس کا مزہ بھی کڑوا ہے اور جس کی خوشبو بھی کڑوی ہے۔
ایک اَور روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں میں سے کچھ اہل اللہ ہوتے ہیں، راوی کہتے ہیں کہ ہم نے آپؐ سے دریافت کیا کہ خدا کے اہل کون ہوتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ قرآن والے اہل اللہ اور خدا کے خاص بندے ہوتے ہیں۔ یعنی قرآن کو پڑھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کے مطابق چلتے ہیں۔
مسلمانوں کے جو اس وقت حالات ہیں ، ہر طرف فساد برپا ہے، حکومتیں عوام سے لڑ رہی ہیں اور عوام حکومتوں پر حملہ آور ہیں، یہ سب قرآن کریم کو چھوڑنے کا نتیجہ ہے۔ کہنے کو دونوں کے ہاتھ میں قرآن ہے مگر دونوں ہی قرآن کی تعلیم سے دُور ہیں۔ اگر قرآن کریم پر عمل کرنے والے ہوں تو ہرگز یہ باتیں نہ ہوں۔ اس زمانے میں خدا نے جو اپنا نمائندہ بھیجا ہے اُس کا انکار کیے بیٹھے ہیں، اس کو ماننے کو تیار نہیں،تو ایسی صورت میں یہ قرآن سے فائدہ ہرگز نہیں اٹھا سکتے۔
حضورؑ فرماتے ہیں یاد رکھو!قرآن کریم حقیقی برکات کا سرچشمہ اور نجات کاسچا ذریعہ ہے، یہ اُن لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن پر عمل نہیں کرتے… اب بھی اُن کے لیے یہی ضروری ہے کہ وہ اس چشمے کوعظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں ۔ اس کی قدر یہی ہے کہ اس پر عمل کریں اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح ان کی مصیبتوں اور مشکلات کو دُور کردیتا ہے۔
مسلمانوں کی تو یہ حالت ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم سے دُور جاپڑے ہیں، قرآن کریم کو انہوں نے چھوڑا ہوا ہے، اس پر عمل نہیں کرتے اور قرآن کریم سے محبت کا محض دعویٰ کرتے ہیں۔ احمدیوں کے لیے قرآن کریم کو پڑھنے پر پابندی لگا دی ہے۔ پاکستان میں انہوں نے احمدیوں کےقرآن کو پڑھنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے اور خود انہوں نےاس پر عمل نہیں کرنا،
احمدیوں پر جتنی مرضی پابندی لگا لیں یہ قرآن کی تعلیم کو ہمارے دلوں سے نکال نہیں سکتے، یہ جتنا مرضی زور لگا لیں، اس کی محبت ہمارے دلوں سے نہیں نکال سکتے۔
پس اس زمانے میں سب سے بڑا فرض احمدیوں کا ہے، احمدی مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ قرآن پر عمل کریں تاکہ غیر اسلامی دنیا اِن کا عمل دیکھ کر سمجھ سکے کہ حقیقی اسلامی تعلیم کیا ہے ، اور قرآن کریم کے احکامات کیا ہیں۔ یہ امن، سلامتی، محبت اور پیار کے احکامات ہیں ، یہ معاشرے میں بھائی چارے کو پھیلانے کے احکامات ہیں۔ یہ حقوق العباد ادا کرنے کے احکامات ہیں۔ پس اس طرف احمدیوں کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ جبرئیل آنحضرتﷺ کے پاس آئے اور فرمایا کہ عنقریب بہت سارے فتنے پیدا ہوں گے۔ دریافت کیا گیا کہ ان فتنوں سے خلاصی کی کیا صورت ہوگی؟ جبرئیل نےکہا کہ ان فتنوں سے خلاصی کی صورت کتاب اللہ ہے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ
ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی اولادوں کو بچانے کے لیے کتاب اللہ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تب ہی ہم ہدایت بھی پاسکیں گے اور فتنہ و فساد سے بچ بھی سکیں گے اور اُن احکامات کو سمجھ بھی سکیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے نازل فرمائے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قرآن کو ظاہر کرکے پڑھنے والا ظاہر کرکے صدقہ دینے والے کی طرح ہےاورقرآن کریم کو چھپا کر پڑھنے والا چھپا کر صدقہ دینے والے کی طرح ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بھی روایات میں مذکور ہے کہ صدقہ بلاؤں، خطرات اور فتنوں کو دُور کرتا ہے۔ پس
قرآن کریم کو پڑھنا اور اس طرح پڑھنا کہ سمجھ بھی آرہا ہو یہ صدقے کی طرح قبول ہوگا اور اس کی برکات سے انسان ہر فتنے سے بچا رہے گا۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ دل کی اگر سختی ہوتو اس کو نرم کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ قرآن کریم کو باربار پڑھے، جہاں جہاں دعا ہوتی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمتِ الٰہی میرے بھی شاملِ حال ہو۔ قرآن کریم کی مثال ایک باغ کی ہے، ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھل چنتا ہے، پھر آگے چل کر ایک اور قسم کا پھل چنتا ہے۔ پس! چاہیےکہ ہر ایک مقام کے مناسبِ حال فائدہ اٹھائے۔
خطبے کے آخر میں حضورِانور نے فرمایاکہ رمضان کے دنوں میں جہاں ہم خاص طور پر قرآن کریم کی طرف توجہ دے رہے ہیں وہاں چاہیے کہ ہم یہ بھی عہد کریں کہ یہ توجہ ہم ہمیشہ قائم رکھیں گے اور اس پر عمل کرنے کی طرف بھی ہم توجہ رکھیں گے اور اپنے بچوں کو بھی قرآن پڑھنے کی تلقین کریں گے۔جب یہ ہوگا تو ہماری زندگیاں ہمیشہ کامیاب رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین
٭…٭…٭