اداریہ

’’حضورِ انور تشریف لا رہے ہیں‘‘

(مدیر)

اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ ہر نظام جو انسانی جسم میں کارفرما ہے بے مثال ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی کام ایک خاص موسم یا وقت میں کیا جاتا رہا ہو تو اس خاص موسم یا وقت میں انسان کو اُس کام کی ‘طلب’ سی ہونے لگتی ہے۔ اور اگر کسی سال اسے نہ کیا جاسکے تو جسم، ذہن اور دماغ اس کی کمی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اور اگر خدانخواستہ اس ‘عادت’سے زبردستی روک دیا جائے تو انسانی فطرت ہے کہ انسان اس کی کمی کو زیادہ محسوس کرتا اور کبھی کبھی ردِ عمل بھی دکھا دیتا ہے۔

دسمبر کا آخری ہفتہ عشرہ ،پاکستان اور ہندوستان میں رہنے والے احمدی مسلمانوں کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہ دن جلسہ سالانہ کے دن کہلاتے ہیں۔ اگرچہ امسال بوجوہ جلسہ سالانہ قادیان ملتوی ہو گیا ہے، قادیان میں ہر سال جلسہ سالانہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ہوتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں ملکی انتظامیہ کی طرف سے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے جلسہ سالانہ کے انعقاد کو آج 36؍ سال گزر چکے ہیں۔

سال 2005ء میں پاکستان والوں کے لیے یہ خبر عید سے کم نہ تھی کہ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ سالانہ کے ایام میں قادیان رونق افروز ہو رہے ہیں اور پاکستان سے بھی ایک مخصوص تعداد میں احمدیوں کو جلسے میں شمولیت کے لیے حکومتِ ہندوستان کی جانب سے ویزے جاری کیے جائیں گے۔ اس خبر سے ہی طبیعت لطف اندوز ہونے لگی، ایک عجب سیرگی کا عالم تھا۔ اور پھر اللہ کا فضل ہوا اور برکتوں کے یہ دن قریب آنے لگے۔ خوش نصیب جنہیں ویزے مل گئے جلسے کی تیاریاں کرنے لگے اور پورے ملک سے قافلے واہگہ بارڈر پہنچ کر سرحد پار قادیان دارالامان کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔ کوشش تو یہ تھی کہ 16؍ دسمبر کا جمعہ حضور پُر نور کی اقتدا میں مسجد اقصیٰ قادیان جا کر پڑھنے کی سعادت حاصل کی جائے لیکن بعض مجبوریوں کی بنا پر اکثریت کے لیے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔

قادیان دارالامان کی جانب سفر کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے۔ منارۃ المسیح کو دور سے دیکھ کر دل بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے۔ قافلے میں نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر!، قادیان دارالامان، زندہ باد! مرزا غلام احمد کی، جے! کے نعرے لگتے ہیں۔ اور اس سال تو ان سب باتوں سے بھی بڑھ کر ایک خاص بات تھی؛ اپنے پیارے امام، حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دیدار اور شرفِ ملاقات۔

قادیان پہنچے تو رونق ہی الگ تھی۔ دنیا کے متعدد ممالک سے آنے والے مختلف رنگ و نسل کے ہزاروں پروانے اس شمعِ مبارک کے دیدار اور اس سے فیض حاصل کرنے کے لیے یہاں موجود تھے۔ جن دنوں حضور مسجد مبارک میں نمازیں پڑھا رہے تھے مسجد کے مسقّف حصے میں جگہ مل جانا ایک بڑی خوش نصیبی شمار کی جاتی تھی اور پہلی صف میں جگہ حاصل کرنے کے لیے تو کئی گھنٹے پہلے وہاں پہنچنا پڑتا تھا۔ جلسے کی ڈیوٹی سے کچھ گھنٹوں کا وقفہ ملتا تو اس وقفے کے دوران تقریباً تمام ہی لوگ مسجد کا رخ کرتے۔

ربوہ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نے بتایاکہ قادیان میں گہما گہمی کا عالم تھا، محلہ احمدیہ میں ایک دکان سے کچھ خریدنے کے لیے باہر کھڑے انتظار کر رہے تھے کہ ان کے کانوں نے ایک ایسا جملہ سنا جو اگرچہ ان کے لیے نیا تھا لیکن اس کی چاشنی آج تک ان کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔ ‘حضورِ انور تشریف لا رہے ہیں، حضور آ رہے ہیں!’پہلے تو انہیں اپنے کانوں پر یقین نہ آیا لیکن پھر دیکھا کہ واقعی حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دارالمسیح کے دروازے سے باہر رونق افروز ہوئے اور ممبرانِ قافلہ کے ہم راہ حفاظتی حصار میں بہشتی مقبرے کی طرف چلنے لگے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس نظارے سے خوب برکتیں سمیٹیں اور پھر یہ سوچ کر اداس بھی ہو گیا کہ یہ مبارک لمحات کبھی سرزمینِ ربوہ کا بھی نصیب تھے۔ ربوہ کے لوگوں کے لیے یہ جملہ ‘اجنبی’ نہیں ہوتا ہو گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح جب بھی کہیں تشریف لے جاتے ہوں گے تو اسی طرح لوگ خوشی خوشی ایک دوسرے کو اطلاع دیتے ہوں گے کہ ‘حضورِ انور تشریف لا رہے ہیں’، خلیفۂ وقت کا دیدار کرتے ہوں گےاپنی آنکھوں کی پیاس بجھاتے ہوں گے۔

قادیان میں حضور جب بھی مزار مبارک پر دعا کرنے کے لیے تشریف لے جاتے تو ایسا ہی ہوتا۔ حضور بھرے بازار سے گزرتے۔ عشاق حضور کو ‘‘السلام علیکم پیارے حضور’’ عرض کرتے، جس کی نظر خوش قسمتی سے حضور کی نظروں سے ملتی وہ ہاتھ اٹھا کر سلام کرتا یا بعض اوقات ہاتھ اپنے دل پر رکھ کر اپنے پیارے آقا کو اپنے جذبات سے آگاہ کرتا۔ حضور پُر نور زیرِ لب دعائیں کرتے ایک خاص بشاشت بھری مسکراہٹ لیے سب میں رونقیں بانٹتے، سلام کا جواب دیتے مزار مبارک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف تشریف لے جاتے۔ جب حضور مزار مبارک پر دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو تمام لوگ جو احاطہ خاص سے باہر جمع ہوتے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلیفہ کی معیت میں دعا میں شامل ہوجاتے۔

پھران ایام میں حضورِ انورسے ملاقات بھی ایک خاص رنگ اپنے اندر رکھتی تھی۔ ابتدا میں حضورِ انور کے دفتر میں ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا، یہ دفتر مکان حضرت امِ طاہر میں قائم تھا۔ ملاقات کرنے والوں کی تعداد بڑھی تو انفرادی ملاقات کرنے والے ایک قطار بنا کر حضور کے دفتر میں ایک طرف سے داخل ہوتے، حضورِ انور سے ملاقات کی سعادت پاتے، تصویر ہوتی اور پھر دوسری جانب سے قطار میں باہر چلے جاتے۔ جب رش مزید بڑھ گیا تو یہ ملاقات مسجد اقصیٰ میں ہونے لگی۔ ان اجتماعی ملاقاتوں کے دوران بلاشبہ پیارے حضور گھنٹوں کھڑے رہتے اور ہزاروں لوگ ایک سیشن میں ملاقات کی سعادت پاتے۔

پاکستان سے یہاں پہنچنے والوں سے حضور اکثر یہ سوال بھی فرماتے، یہ آپ کی پہلی ملاقات ہے؟ اکثر جواب میں ‘جی حضور’عرض کیا جاتا۔ بعض دوستوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ حضور جب پاکستان میں تھے تو انہیں حضور(میاں صاحب)سے ملاقات کرنے کا موقع ملا تھایہ عرض کیا کہ نہیں حضور پہلے ملاقات ہو چکی ہے۔ اس پر حضورِ انور مسکراتے ہوئے فرماتے کہ ‘یہ آپ کی خلیفۂ وقت سے پہلی ملاقات ہے’۔اور وہ دوست اس سوال اور پھر اس کے جواب کی حکمت کو نہ صرف سمجھ جاتے بلکہ پھر اس کی گہرائی سے بھی حظ اٹھاتے۔

ایک دوست نے بتایا کہ یہ ان کی کسی بھی خلیفۃ المسیح سے پہلی ملاقات تھی۔ ملاقات کے لیے قطار میں کمرے میں داخل ہونے سے پہلے انہوں نے سَو باتیں سوچیں کہ یہ عرض کروں گا، ایسے اپنے جذبات کا اظہار کروں گا وغیرہ۔کمرے میں داخل ہونے پر دیکھا کہ حضورِ انور اپنی کرسی کے ساتھ ہی کھڑے تھے۔ حضورِ انور اور ملاقات کرنے والوں کی قطار کے درمیان حضور کے میز کا سائیڈ والا کچھ حصہ بھی حائل تھا۔ جیسے ہی حضورِ انور کی نظر خاکسار پر پڑی، میں تو گویا گم سُم ہو گیا۔ مصافحہ ہوا تو غیر ارادی طور پر آدابِ خلافت کو ملحوظِ خاطر نہ رکھ پاتے ہوئے بلا اجازت روایتی انداز میں جیسے ہم اپنے عزیزوں ، دوستوں کو ملتے ہیں، لیکن ادب کے ساتھ معانقے کے لیے آگے بڑھنے لگا۔ خیال ہی نہ رہا کہ بغیر اجازت ایسا کرنا قطعاً مناسب نہیں، اور ویسے بھی درمیان میں میز حائل تھا۔ جب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو بہت شرمندہ ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے اگلے ہی سال 2006ء میں جلسہ سالانہ برطانیہ میں شمولیت کی توفیق عطا فرمائی۔ حضورِ انور کے دفتر میں ملاقات کے لیے حاضر ہونے سے پہلے خاص ذہن میں رکھ کر گیا کہ اپنے جذبات پر قابو رکھنا ہے اور ایسی ‘بے ادبی ’نہیں کرنی۔ حضورِ انور نے مسکراتے چہرے سے استقبال فرمایا۔ خاکسار نے شرفِ مصافحہ حاصل کیا تو پیارے آقا نے ازراہِ ہزار شفقت ہاتھ پکڑے رکھا اور کچھ دیر کھڑے رہے۔ پل بھر کے لیے مجھے ایسے لگا کہ شاید حضور اشارۃً فرما رہے ہیں کہ قادیان میں تو تم معانقہ نہ کر سکے تھے، اب برکت حاصل کر لو۔ چنانچہ میں نے اپنے پیارے حضورسے معانقے کی سعادت حاصل کی۔ قربان جاؤں اس وجود پر جس نے گزشتہ چھ، آٹھ ماہ کے دوران ہزاروں لوگوں سے ملاقات کی ہو گی لیکن اس عاجز غلام کی شرمندگی کو سعادت میں بدلنے کے لیے اس قدر باریکی سے خیال رکھا۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ جب قادیان میں اپنی رہائش گاہ سے باہر رونق افروز ہوتے تو دیگر احبابِ جماعت کے ساتھ پاکستان والے بھی اپنے پیارے آقا کے ارد گرد چلتے پھرتے پھولے نہ سماتے تھے۔ یہ سعادتیں کبھی ربوہ کو بھی نصیب تھیں۔ خاکسار کی والدہ بتاتی ہیں کہ جب جون 1970ء میںحضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی دورۂ یورپ سے کامیاب و کامران ربوہ مراجعت ہوئی تو ابّا جان (حکیم فیروز دین صاحب مرحوم)حضور کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ ملاقات میں انہوں نے حضورِ انور کے کامیاب دورۂ یورپ کی مبارک باد پیش کی اور پھر بھائی حمید احمد صاحب (جو معذور ہونے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر تھے اور اگست 1988ء میں اللہ کو پیارے ہو گئے )کی طرف سے سلام پہنچایا اور عرض کیا کہ میرا بیٹا معذوری کی وجہ سے حضورِ انور سے ملاقات کی شدید تڑپ کے باوجود حاضر نہیں ہو سکا۔ ابّا جان کا مقصد حضور کی خدمت میں بھائی کے لیے دعا کی درخواست پیش کرنا تھا لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ خلیفۂ وقت کی شفقتوں بھری شخصیت میرے معذور بھائی کو کس عظیم الشان سعادت سے فیض یاب فرمانے والی ہے۔

گرمیوں کے دن تھے، نمازِ عصر کے بعد جب گرمی کا زور ٹوٹ جاتا ہے دارالصدر میں واقع ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکا۔ کسی نے بآوازِ بلند تصدیق کی کہ یہ حکیم فیروز دین صاحب کا گھر ہے؟ اور پھر کہا ‘حضورِ انور تشریف لا رہے ہیں۔’ اور کچھ دیر بعد حضوررحمہ اللہ بنفسِ نفیس ہمارے گھر میں رونق افروز تھے۔ گھر والوں نے جیسے تیسے گھر کو سمیٹا، حضرت خلیفۃ المسیح کے شایانِ شان تو نہیں لیکن جس طرح ممکن ہوسکا عاجزانہ استقبال کیا۔ حضورؒ کچھ دیر برآمدے میں حمید احمد کی چارپائی کے قریب بچھائی گئی چارپائی پر تشریف فرما رہے اور مرحوم بھائی کو چند لمحات میں بے شمار برکات اور خوشیوں سے فیض یاب فرما کر تشریف لے گئے۔ اس دن علیم صاحب کا یہ شعر لفظ بلفظ پورا ہوا:

یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے

چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس

‘‘حضورِ انور تشریف لا رہے ہیں’’ شاید یوکے، جرمنی، کینیڈا، امریکہ وغیرہ میں بسنے والے احمدیوں کے لیے کوئی نیا جملہ نہ ہو کیونکہ ان ممالک میں رہنے والے احمدیوں کے دربارِ خلافت میں پہنچنے کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔کبھی جلسے پر،کبھی دورہ جات کے دوران اور کبھی لندن میں قیام کے دوران یہ جملہ انہوں نے سنا ہی ہو گا، حضورِ انور کا دیدار، حضور پُر نور کی اقتدا میں نمازوں کی ادائیگی کا موقع انہیں ملتا ہی رہتا ہے۔ جب بھی حضور احبابِ جماعت میں رونق افروز ہوتے ہیں بچے اکثر اپنی لَے میں

خلیفہ کے ہم ہیں خلیفہ ہمارا

وہ دل ہے ہمارا آقا ہمارا

ترانہ پڑھتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں رہنے والے احمدی جن کی ایک نسل خلافت سے براہِ راست اکتساب ِ فیض سے محروم ہے وہ اس جملے پر بھی اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ایک دوست جو اسلام آباد، ٹلفورڈ کے caretaker کے طور پر خدمات بجا لانے کی سعادت پا رہے ہیں بتاتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں پر ڈیوٹی وغیرہ کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ وہ کچھ عرصہ پہلے پاکستان گئے۔ احمد نگر میں ان کی ایک بزرگ مالی سے ملاقات ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی طرح اندازہ لگا لیا اور پوچھا کہ آپ لندن سے آئے ہیں؟ میرے اثبات میں جواب دینے پر انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور حال احوال پوچھنے کے بعد کہنے لگے کہ بیٹا، حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ روزانہ اپنی زمینوں پر تشریف لاتے تھے اور ہم روزانہ ان کی خدمت میں مصروف رہتے۔ ایک دن اللہ تعالیٰ نے انہیں خلافت کے منصب پر فائز فرما دیا۔ حضور کو خلافت کے نور سے معمور ہوئے ایک سال گزرا تھا کہ حضور لندن تشریف لے گئے، یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھرانے لگی، اور پھر اُنیس، بیس سال ہم ان سے ملاقات نہیں کر سکے اور ترستے رہے۔ پھر حضرت صاحب (موجودہ حضور)کو بھی ہمیں دیکھنے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ وہ بھی یہاں سے تشریف لے گئے اور خلیفہ ہو گئے۔ بیٹا ہم لوگ خلافت کے وجود کو ترس گئے ہیں۔ خلافت آپ لوگوں کے پاس ایک امانت ہے۔ اس کی حفاظت کرنا، اس کی قدر کرنا! یہ بات انہوں نے انتہائی جذباتی انداز میں سسکیاں لیتے ہوئے کہی۔

آئیے ! ہم سب جو آج خلافتِ احمدیہ کی بے مثال نعمت سے مالامال ہیں اس بات کا عہد کریں کہ ہم خلافتِ احمدیہ کی قدر کریں گے اور اس کی حفاظت کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار رہیں گے۔ اور اس الٰہی انعام کی اصل قدر اور اس کی حفاظت یہی ہے کہ ہم خلیفۂ وقت کے ارشادات کو سنیں اور ان پر عمل کرتے ہوئے اپنی عملی اصلاح کرنے کی کوشش کریں۔

جلسہ سالانہ ربوہ جس کا ایک مقصد خلیفۂ وقت کا دیدار اور ان کی صحبت سے فیض یاب ہونا اور ان کی تقاریر براہِ راست سننا بھی ہوا کرتا تھا ، آج جماعت احمدیہ پاکستان کو اسے منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ دسمبر کے سرد دنوں میں پاکستان کے احمدی اس جلسے کی حدّت سے محرومی کو شدّت سے محسوس کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ خلافت کی برکتیں اور رونقیں پھر سے پاکستان میں لوٹ آئیں اور وہاں کے ماحول کو، بچے بچے کو یہ جملہ پھر کبھی اجنبی محسوس نہ ہو کہ

’حضورِ انور تشریف لا رہے ہیں۔‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

تبصرے 2

  1. یہ مضمون پڑھ کر دل بھر آیا اور اکتوبر میں حضور انور سے اپنی زندگی کی پہلی ملاقات یاد آ گئ. اللہ تعالی جلد میے ملک پاکستان کے حلات بدلے اور جلد میرے ملک کے باسیوں اور اس مٹی کی تشگئ دور ہو اور خلافت کی برکات پھر سے اس سر زمین پہ نازل ہوں. اور اللہ تعالی خلافت اور خلیفہ کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے اور روح القدس سے مدد فرماتا جاۓ.

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button