جَرِیُ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَاءِ۔ خدا کا رسول نبیوں کے حُلّوں میں
مذہب کی تاریخ جتنی قدیم اورنظروں سے اوجھل ہے اتنی ہی جدید اورروشن بھی ہے۔ کیونکہ وہ تاریخ جو اس کرۂ ارض اورفلک پیر نے گزشتہ چھ ہزار سال میں دیکھی اورقصے اور کہانیاں بن گئی وہ اس زمانہ میں اسی طرح زندہ کردی گئی ہے جیسے صدیوں کے مٹے ہوئے کھنڈرات اور اجڑے ہوئے گلشن اپنے تمام گلوں اور خاروں کے ساتھ دوبارہ ہرے بھرے ہوجائیں۔ ماضی کے دبیز پردے چاک کر کے اسے زمانہ حال میں کھینچ لانیوالی اس ساری گردش دوری اور سلسلہ نمود کی کلید حضرت مہدی موعود علیہ السلام کایہ مذکورہ بالا الہام ہے جس میں درحقیقت تاریخ مذہب ہی نہیں ساری تاریخ انسانی سمودی گئی ہے۔ یہ الہام اپنے گہرے معانی اور اسرارو رموز کے اعتبار سے روحانی دنیا کے نوادرات میں دست قدرت کاایک حیر ت انگیزشاہکار ہے۔
الہام کامطلب
جری اللہ فی حلل الانبیاء کاترجمہ حضرت مسیح موعودؑنے یوں فرمایاہے ‘‘خداکا رسول نبیوں کے حلوں میں’’(اربعین، روحانی خزائن جلد17 ص354،366) اور‘‘رسول خدا تمام گزشتہ انبیاء علیہ السلام کے پیرایوں میں’’ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 ص 116) اور اس الہام کی وضاحت کر تے ہو ئے فرمایا: ‘‘اس وحی الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک جس قدر انبیاء علیہم السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آئے ہیں خواہ وہ اسرائیلی ہوں یاغیر اسرائیلی ان سب کے خاص واقعات یا خاص صفات میں سے اس عاجزکو کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ایک بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے خواص و واقعات میں سے اس عاجز کو حصہ نہیں دیا گیا۔ ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے… ہر ایک گزشتہ نبی کی عادت اورخاصیت اورواقعات میں سے کچھ مجھ میں ہے اورجو کچھ خداتعالیٰ نے گزشتہ نبیوں کے ساتھ رنگارنگ طریقوں میں نصرت اورتائید کے معاملات کیے ہیں ان معاملات کی نظیر بھی میرے ساتھ ظاہر کی گئی ہے اور کی جائے گی۔ اور یہ امر صرف اسرائیلی نبیوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ کل دنیا میں جو نبی گزرے ہیں ان کی مثالیں اور ان کے واقعات میرے ساتھ او رمیرے اندر موجود ہیں’’۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد21 ص116 ، 117)
قرآنی گواہی
حضرت مسیح موعودؑ کایہ دعویٰ اوریہ آسمانی خلعت قرآن و حدیث کی پیشگوئیوں کے عین مطابق ہے۔ قرآن کریم نے سورۃ المرسلات میں آخری زمانہ کے تحیر خیز انقلاب کا تذکرہ کرنے کے بعد وَاِذَاالرُّسُلُ اُقِّتَتْ (المرسلات:12) کہہ کر رسولوں کے وقت مقررہ لائے جانے کی بشارت دی۔ اور مراد یہ تھی کہ تمام انبیاء اور رسل کی صفات کا جامع وجود مبعوث کیا جائے گا۔ اس کی توضیح احادیث نبویہؐ سے ملتی ہے اور اہل بیت رسولؐ نے اس کو خوب سمجھا چنانچہ مہدی موعودؑ کے متعلق امام باقر فرماتے ہیں:
‘‘ہمار اسید مہدی کعبہ سے ٹیک لگاکر کہے گا (مراد اسلامی تعلیم کی رو سے باتیں کر ے گا کیونکہ کعبہ کی تعبیر اسلام ہے اورٹیک سے مراد اس پر قائم ہونا) اے لوگو سنو! جو چاہتا ہے کہ وہ آدم وشیث کو دیکھے سو دیکھے کہ وہ میں ہوں۔ سنو جو چاہتا ہے کہ نوح اور اس کے بیٹے سام کی طرف دیکھے سووہ میں ہوں۔ سنو جو چا ہتا ہے کہ ابراہیمؑ واسمٰعیلؑ کو دیکھے۔ پس میں ہی ابراہیم واسمٰعیل ہوں۔ سنو جو موسیٰؑ اوریوشعؑ کو دیکھنا چاہتا ہے پس میں ہی موسیٰ اور یوشع ہوں۔ سنو جو چاہتا ہے کہ عیسیٰؑ اور شمعون ؑکو دیکھے وہ مجھے دیکھے میں ہی عیسیٰ اور شمعون ہوں۔ سنو جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا چاہتا ہے سو میں ہی محمد ہوں اورامیر المومنین ہوں۔(بحارالانوار جلد13 ص 202 )
مصنف بحارالانوار یہ حدیث درج کر کے لکھتے ہیں: ‘‘امام مہدی کا یہ کہنا کہ میں ہی آدم ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھ میں آدم کا علم آدم کے اخلاق اور فضیلت موجود ہے جس کی تم تابعداری کرتے ہو۔ اور جسے تم فضیلت دیتے ہو’’
(بحارالانوار جلد13 ص 202 )
حضرت امام حسین ؓکا قول ہے:‘‘مہدی کے پاس ایک جامہ دان ہوگا جس میں تمام نبیوں کا ترکہ ہوگا۔ آدم اورنوح کی لاٹھی۔ ہود اور صالح کا ترکہ۔ ابراہیمی برکات، یوسف کا عصا، شعیب کا ہیکل اور میزان، موسیٰ کا عصا ہوگا۔ اور مہدی کے پاس ایک تابوت ہوگا جس میں موسیٰ اور آل ہارون کا بقیہ، داؤد کی زرہ، سلیمان کی انگوٹھی، عیسیٰ کا رحل اور تاج او رتمام انبیاء ومرسلین کی میراث اس کے پاس ہوگی’’۔
(بحارالانوار جلد13 ص 409 )
پیشگوئیوں کے مصداق کا دعویٰ
ان پیشگوئیوں کی روشنی میں مہدی دوراں کا بعینہٖ یہی دعویٰ ہے۔ فرماتے ہیں:‘‘جیسا کہ براہین احمدیہ میں خدا نے فرمایا ہے میں آدمؑ ہوں۔ میں نوح ؑہوں۔ میں ابراہیمؑ ہوں۔ میں اسحاقؑ ہوں۔ میں یعقوبؑ ہوں۔ میں اسمٰعیلؑ ہوں۔ میں موسیٰؑ ہوں۔ میں داؤد ؑہوں۔ میں عیسیٰ بن مریم ہوں میں محمدﷺ ہوں یعنی بروزی طور’’۔
(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد22 ص 521)
حضورؑ اپنے فارسی کلام میں فرماتے ہیں :
آدمم نیز احمدِ مختار
دربرم جامۂ ہمہ ابرار
آنچہ داداست ہر نبی راجام
دادآن جام را مرا بتمام
زندہ شد ہر نبی بآمدنم
ہر رسولے نہاں بہ پیرہنم
(نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 477،478)
یعنی میں آدم بھی ہوں اور احمد مختار بھی ہوں۔ مجھے تمام انبیاء کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ وہ جس نے تمام انبیاء کو پیالہ دیاہے اس نے یہ پوراپیالہ مجھے دے دیاہے۔ ہر نبی میرے آنے سے زندہ ہو گیااورہر رسول میرے پیراہن میں جلوہ گرہے ۔
یہ فنافی الرسول کی برکت ہے
حضرت مسیح موعو دؑکاقلب صافی گنجینہ انوار اور مخزنِ اسرارتھا۔آپؑ میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی سیرت وکردار کاظہور ہوا اور یہ تمام شان آپ کو حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی کامل غلامی اورفنافی الرسول کے نتیجہ میں عطا ہوئی جو تمام انبیاء کے تمام نوروں کے جامع تھے۔ بلکہ حق تویہ ہے کہ تمام انبیاء روحِ محمدی ہی کے جلوے تھے جو مختلف خطہ ہائے ارض اورمتفرق اقوام میں ظاہر ہوئے اور اپنی اپنی استعدادوں کےمطابق ضیائے مصطفیٰ سے منورہوئے ۔
وہ نو رمحمدؐ ہی تھاجو کبھی تین اور زیتون کی علامت بن کر نمودار ہوا۔ کبھی وہ سَیناسے آیااور کبھی شعیر سے طلوع ہوا۔ وہ رحمت کی گھٹا بن کر ہر قوم پر برسا اور پھر یہی پانی چھوٹی چھوٹی نہروں کی شکل اختیار کر کے بحر محمدیت میں واپس لوٹاتو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا کامل ظہور ہوا۔ اور خدا کی تقدیر نے تقاضا کیا کہ جس طرح آپؐ سے پہلے آپؐ کے ہزاروں جلوے گزرچکے ہیں اسی طرح آپؐ کے بعد بھی وہی جلوے قیامت کُبریٰ سے قبل مجموعی طورپر اہل عالم کو دکھائے جائیں۔ پس مہدی وہ وجود ہے جس نے تمام انبیاء کے رنگ براہ راست حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیے اورلو ح قلب کو شفاف کر کے سراج منیر سے کلی اکتساب فیض کیااس لیے آپ گوہر نبی کانام پانے والے ہیں مگر مجموعی لحاظ سے اول وآخر خاتم النبیین حضرت محمدؐہی ہیں ۔
اَلصِّرَاط السَّوِی فِیْ اَحْوَالِ الْمَہْدِی میںلکھاہے: ‘‘آنحضرتؐ جامع جمیع اوصاف انبیاء ہیں اورمہدی آخر الزماں وارث اوصاف محمد مصطفیٰؐ ہیں۔ لہذا وہ بھی جمیع اوصاف انبیاء پر حاوی اوران کاجامع ہے’’۔(ص439)
شان محمدیتؐ
آپؑ کی شان محمدیت ہردوسرے نبی کے کمال کو مکمل اورمتمم کر تی ہے۔ ہر کمی کاازالہ کر تی اور ہر کمال کو بلند کر تی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گیت جو پہلوں نے دھیمے سروں میں گائے تھے وہ راگ مہدی نے بہت بلند آہنگی سے گائے اورشمع توحید جس کی لَو بہت مدھم تھی اسے اتنی روشنی ملی کہ اس کے سا منے تمام ستاروں کی مجموعی روشنی بھی ماند پڑگئی۔ اس پہلو سے یہ مضمون آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام خاتم النبیین کا شیریں ثمر ہے جو تُؤْتِیْ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رِبِّھَا کا مصداق بن کر ماضی اور مستقبل دونوں میں جاری ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم صاحب خاتَم ہیں اورآپؐ کی روحانی توجہ نبی تراش ہے۔ آپؐ سے پہلے انبیاء بھی آپؐ ہی کے دربار سے سند یافتہ تھے اوربعد میں بھی آپؐ ہی کی پیروی کمالات نبوت بخشنے کاواحد ذریعہ ہے۔ رسول اللہؐ کے ایک غلام کی ذات میں تمام انبیا ء کا اجتماع اس دعویٰ کی سچائی کا ایک بہت درخشاں اور ناقابل تردید ثبوت ہے کہ تمام انبیاء فی الواقع آپؐ ہی کی قوت قدسیہ کی تخلیق تھے اورآپؐ کی اطاعت اورغلامی ان کا حاصل حیات تھی۔ جیساکہ آیت میثاق النبیین میں ذکر ہے کہ خداتعالیٰ نے ہر نبی سے رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اورآپ کی حمایت و نصرت میں سرگرم عمل رہنے کاوعدہ لیا تھا۔(آل عمران :20)
بے شک انہوں نے اپنی قوموں تک یہ پیغام پہنچا دیا تھا مگر جَرِیُ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَ نْبِیَاءِ کے ذریعہ اس وعدہ کاعظیم الشان ایفاء آخری زمانہ میں بھی مقدر تھا۔ تفسیر قمی میں لکھاہے کہ آیت میثاق میں یہ پیشگوئی ہے کہ مہدی موعودؑ کے زمانہ میں آدم سے لے کر عیسیٰؑ تک تمام انبیاء و مرسلین دوبارہ زندہ کیے جائیں گے تااس کی مدد کر کے نصرت رسول کاوعدہ پوراکریں ۔(تفسیر قمی ص610)
غورفرمائیے ،فرمودہ رسولؐ کس شان کے ساتھ پورا ہواہے کہ اگر موسیٰ ؑو عیسیٰؑ بھی زندہ ہو تے توانہیں میری پیروی کے سواکو ئی چارہ نہ ہوتا۔ اورکس طرح خدانے یسوع مسیح کی جھوٹی خدائی اور محمدمصطفیٰ ﷺپر بے بنیاد فضیلت کے بت کو پاش پاش کر دیا کہ محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں ایک کو مسیح بنا دیا۔
فیصلہ کن دلیل
میں سوچتاہوں کہ بارگاہ احدیت کا وہ صدر نشین جس نے ہزاروں نبیوں کے نام پائے۔ ان کی صفات و اخلاق کامرجع بنا اور خدا نے اسے اس قد ر نشانات اورمعجزات عطا کیے کہ ہزار نبی کی نبوت ان سے ثابت ہوسکتی ہے کیاوہ خود نبی کہلانے کامستحق نہیں ۔یقیناً خدا اور اس کے رسولؐ نے بجا طور پر اسے نبی قرار دیا ہے۔ پس حضر ت مسیح موعوؑدکا یہ الہام جماعت احمدیہ مبائعین اورغیر مبائعین کے درمیان ایک فیصلہ کن دلیل کی حیثیت رکھتاہے اوروہ جھگڑا جو 1914ء میں خلافت ثانیہ میں اٹھا اس کاحل خدا نے مسیح موعود ؑکی بعثت سے بھی قبل کر دیا تھا۔ جب حضور سے فرمایا کہ تو تمام نبیوں کے لبادوں میں آیاہے۔
موعود اقوام عالم
مسیح موعودؑ کے وجود میں انبیاء کی یہ رجعت عامہ اتفاقی یایکطرفہ نہ تھی بلکہ ہزاروں سالوں سے قومیں اپنے اپنے موعودوں کابڑی شدت کے ساتھ انتظار کر رہی تھیں۔ اوران کے ذریعے مقصود کائنات کا پو را کر نا تقدیر کا ایک بہت اہم حصہ ہے یعنی ساراعالم انسانیت امت واحدہ بن کر محبت الٰہی کا مورد ہوجائے اور شیطانی طاقتوں کو ہمیشہ کے لیے جلاوطن کر دیاجائے۔ اس آخری موعود کی تیاری تاریخ مذہب کے پہلے دن ہی سے شروع ہوگئی تھی۔ ہرنبی نے اپنی قوم کو آخری زمانہ کے دجالی فتنوں سے متنبہ کیا اور پھر اس کی نجات اور رہنمائی کے لیے قوم کو اپنے مثیل کی بجائے اپنی دوبارہ آمدکی بشارت دی تاوہ محبت اورپیار کے ساتھ دیدہ ودل اس کے لیے فرش راہ رکھیں۔ اس کافلسفہ یہ تھاکہ آخری دور میں تمام شیطانی طاقتوں کو اپنی سار ی حسرتیں پوری کر نے کا موقع دیاجائے اوردوسری طرف تمام انبیاء کی دوبارہ آمد کے ذریعہ روحانی برکتوں کی ارزانی ہو۔ یہ پیشگوئیاں اوربشارتیں مدتوں تک مخفی جواہرات کی طرح دبی رہیں اورآدم کے فرزند مختلف امصار و دیار میں انتشار پاتے رہے۔ یہاں تک کہ حضرت محمدﷺکے ظہور کے ساتھ اس وحدت اقوام کی تقدیر جاری ہو ئی جس نے آپ کی دوسری بعثت میں کمال کو پہنچنا تھا۔ آپؐ کاپہلا دور تکمیل شریعت کا دور تھا اور آخری دور تکمیل اشاعت کا دور ہے۔ جس میں مادی وسائل کے لحاظ سے دنیا کو ایک پلیٹ فارم سے مخاطب کیا جاسکے اور وہ ایک ہاتھ پر جمع ہو سکے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب تمام انبیاء اور ان کے مخالفین اپنے پو رے کر دار کے ساتھ دوبارہ ظاہر ہو گئے ہیں۔
دَوری گردش
سیدناحضرت مسیح موعود ؑیہ مضمون بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
‘‘زمانہ اپنے اند رایک گردش دَوری رکھتا ہے اور نیک ہوں یا بد ہوں بار بار دنیا میں ان کے امثال پیدا ہوتے رہتے ہیں اور اس زمانہ میں خدا نے چاہا کہ جس قدر نیک اور راستباز مقدس نبی گزر چکے ہیں ایک ہی شخص کے وجود میں ان کے نمونے ظاہر کیے جائیں۔ سو وہ میں ہوں۔ اسی طرح اس زمانہ میں تمام بدوں کے نمونے بھی ظاہر ہوئے۔ فرعون ہوں یا وہ یہود ہوں جنہوں نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھایا یا ابوجہل ہو سب کی مثالیں اس وقت موجود ہیں’’۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 ص117)
پس حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے مفاسد کی اصلاح کے لیے مبعوث فرمایا۔ آپؑ ہر ایک قوم کے موعود نبی تھے اورسب دنیاکو ایک مذہب پر جمع کر نے کے لیے مبعوث ہوئے تھے۔ آپؑ کے وجود میں اللہ تعالیٰ نے سب قوموں کی امیدوں اور آرزوؤں کو جمع کردیا۔ آپؑ وہ صلح کا گنبد تھے جس میں ہر ایک قوم آکر اپنے پیدا کرنے والے کے آگے جھکی اور وہ کھڑکی تھے جس میں سب قوموں نے خدا کو دیکھا اور وہ نقطہ مرکزی تھے جس پر دائرہ کے سب خط آکر جمع ہوئے۔ آپ کے ذریعے سے دنیا کی صلح وآشتی مقدر ہے۔ آپؑ ایرانی النسل ہونے کے سبب سے زرتشتیوں کے موعود تھے۔ ہندوستانی ہونے کے سبب سے ہندوستانیوں کے موعود تھے۔ مسلمان ہو نے کے سبب سے مسلمانوں کے موعود تھے اورخَلق وخُلق سے مسیح سے شدید مناسبت کی وجہ سے عیسائیوں کے موعود تھے۔ انہی پر بس نہیں آپ دنیاکی ہر ایک قوم کی قدیم پیشگوئیوں کو پو راکرنے والے اور ساری دنیا کی امیدوں کو برلانے والے تھے۔ آپؑ تمام نبیوں کے لبادے لے کر آئے۔ اللہ کایہ پہلوان کبھی ایک لباس میں ظاہر ہو تاہے کبھی دوسرے لباس میں اورجس کے لباس میں آتاہے اس کاتصور پھر دلوں میں زندہ کر دیتاہے ۔فرماتے ہیں:
میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
اک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے
میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار
ابن مریم ہوں مگر اترا نہیں میں چرخ سے
نیز مہدی ہوں مگر بے تیغ اور بے کار زار
پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب
گر نہ ہوتا نام احمد جس پہ میرا سب مدار
پھر اپنے عربی کلام میں فرماتے ہیں :
روحی بروح الانبیاء مضمخ
جاءت علیّ الجود من فیضانھم
انا نرجّع صوتنا بغناءھم
انا سقینا من کئوس دنانھم
(نورالحق ،روحانی خزائن جلد8 ص128 )
یعنی میری روح انبیاء کی روح سے معطر کی گئی ہے اور ان کے فیضان کا ایک بڑا مینہ میرے پر برسا۔ ہم انہی کے گیت کو سروں کے ساتھ گاتے ہیں۔ ہم انہی کے پیالوں میں سے پلائے گئے ہیں۔
آدمؑ کاجلوہ
پس وہ جو آدمؑ ابوالبشر کو دیکھنا چاہتا ہے اسے بشارت ہوکہ غلام احمد قادیانیؑ کی ذات میں وہ آدم مبعوث ہو چکا ہے۔ جسے خدا نے کلی تاریکی کے زمانہ میں پیدا کیا اور نئی روحانی زندگی کے سلسلہ کاآغاز اس سے کیا مگر پہلے آدم کو تو شیطان نے جنت ارضی سے نکلوادیا تھا۔ اور اس نے ہند میں پناہ لی تھی یہ آدم ثانی اس لیے سرزمین ہند سے طلوع ہوا ہے کہ شیطان کو اس جنت ارضی سے ابدالاباد تک کے لیے نکال دیا جائے۔ آدم کے ساتھ ایک مؤنث یعنی حوّا پیدا کی گئی تھی جو نسل انسانی کے آغاز کی طرف اشارہ تھا۔ آدم آخر کی پیدائش بھی توام تھی مگروہ لڑکی اس سے پہلے پیدا ہوئی تانسل انسانی کے خاتمہ پر دلالت کرے۔ آدم اول نسل انسانی کاپہلا کامل فرزند ہے جو چھٹے دن جمعہ کی آخری ساعت میں پیدا ہوا۔ یہ آدم آخر نسل انسانی کا آخری کامل فرزند ہے جو چھٹے ہزار سال کے آخر میں پیدا ہوا۔ آدم کی طرح آپ کی روحانی نسل بھی تمام برکتوں کے ساتھ ساری کائنات میں پھیلنی مقدر ہے۔
نوح ؑکاجلوہ
اور وہ لوگ جو نوحؑ اوراس کے زمانہ کے واقعات کو تعجب کے ساتھ پڑھتے ہیں اورانہیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے متمنی ہیں وہ اس زمانہ کے نوح کو دیکھ لیں جس نے اسرار و اعلان کے ساتھ تبلیغ کاحق اداکر دیا۔ مگر جس طرح نوح کے مخالفین پر مسرت اور خوشحال زندگی بسر کرتے تھے مہدی اور مسیح موعودؑ کے مادہ پرست اور صاحب جاہ و حشم مخالفین نے بھی کان بند کر لیے ہیں اور اباء اورتکبر میں بڑھتے جارہے ہیں جس کے نتیجہ میں دنیا بارہا طوفان نوح کانظارہ کر چکی ہے۔ الہام الٰہی نے مہدی موعودؑ کی بیعت اس کی تعلیم اور جماعت کو کشتی نوح قرار دیا ہے۔ حضورؑ فرماتے تھے کہ قادیان کی بیت مبارک ظاہری شکل میں کشتی کی طرح ہے۔ یعنی لمبائی زیادہ اور چوڑائی کم ہے۔ (سیرۃ المہدی جلد3 ص217) اس کشتی کے سواروں کو زندگی کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ اس کشتی کو غرق کرنے کی بارہا کوشش کی گئی مگر یہ وہ کشتی نوح ہے جو طوفانوں کے بلند ہونے کے ساتھ بلند ہو تی ہے اور طوفان تھمتے ہیں توعزت اورشرف کے جودی پہاڑوں پر بسیرا کرتی ہے اور کوئی نہیں جواسے غرق کر سکے۔
ابراہیمؑ کاجلوہ
اورابوالانبیاء ابراہیمؑ بھی پورے جاہ و جلال کے ساتھ احمد ہندی کی ذات میں جلوہ گر ہیں۔ جس کی جسمانی اور روحانی اولاد مسلسل ایک سے ہزاروں میں تبدیل ہو رہی ہے اور عنقریب گنتیوں سے بالاتر ہوجائیگی۔ آپ ابراہیمؑ کی طرح عاجز اور منکسر المزاج مگر مخالفین کو مسکت اور مبہوت کردینے والے تھے۔ بڑے متواضع اور مہمان نواز مگر باطل شکن تھے۔ حد درجہ اواہ و منیب مگر خدا کی خاطر بڑے شجاع اور ہر قسم کی آگ میں ڈالے جانے کے لیے تیار تھے۔ جب بھی اور جہاں بھی آپ اور آپ کی جماعت کے لیے آگ بھڑکائی جاتی ہے اسے خدائی تقدیر گلزار ابراہیمؑ بنادیتی ہے۔ ابراہیم ثانی کے آباؤ اجداد کاذکر بھی منقطع کردیا گیا اور خاندان کی ابتدا آپؑ سے کی گئی ہے۔ اللہ نے آپؑ کی جسمانی اولاد میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ رکھ دی۔ اور مبشر اولاد کے ساتھ نافلہ کی خبر بھی دی۔ ابراہیمؑ نے تواسماعیلؑ اوراسحاقؑ پیداکیے تھے۔ مگر محمد مصطفیٰؐ کے اس فرزند ِابراہیم نے ابراہیم پیداکر دیا چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ کو خدانے الہاماً ابراہیم قرار دیا۔ ابراہیم ؑکے ذریعہ خدا نے مکہ کو مرکز عالم بنا کر یَاْ تُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ کی بشارت دی تھی۔ اس ابراہیم کے ذریعہ خدانے قادیان اور ربوہ کو مقدس بنا کر انہی بشارتوں کاوارث قرار دیا ہے۔
یوسفؑ کاجلوہ
اور اس دور کے یوسف کو بھی دیکھو جس کے چہرے کی کشش نے سینکڑوں کو گرفتار کیا اور آج بھی اس کی تصویر سعید روحوں کو فتح کر رہی ہے۔ وہ بھی شریر لوگوں کی بدگمانیوں سے بچ نہیں سکا اور اس پر زلیخا صفت الزام لگاتے رہتے ہیں۔ اس امت کا یوسف پہلے یوسف ؑسے بڑھ کر ہے کیونکہ وہ قید کی دعا کر کے بھی قید سے بچایا گیا۔ پہلے یوسفؑ کی پاکیزگی کے لیے ایک انسان نے گواہی دی مگر اس یوسف کے لیے خود خدا نے گواہی دی جس طرح یوسفؑ نے مخالفین کے لیے لاتثریب کہا تھا اس یوسف نے بھی دشمنوں کو ہمیشہ لا تثریب ہی کہا اور عفو کا مظاہرہ کیا۔
یوسف ؑ کے مخالفین پر غلہ کا قحط آیا اور اس محمدی یوسف کے دشمنوں پر علم و عرفان اور تعلیم و حکمت کا قحط آیا اور یہ نعمت انہیں یوسف کے در سے ہی ملتی ہے اس کو جھوٹا بھی کہتے ہیں اور اس کے کلام سے سرقہ بھی کرتے ہیں وہ جس کو قوم نے گہرے کنوئیں میں ڈال کر ہلاک کرنا چاہا خدا نے اسے یوسفؑ کی طرح اقبال مندی اور عصمت کا زیور عطا کر دیا۔
موسیٰ ؑ کاجلوہ
عصر حاضر کی چشم بصیرت ایک موسیٰ ؑکو بھی دیکھ رہی ہے۔ جو روحانی نشانات اور علمی عجائبات کے ساتھ سحر فرنگ کو کافور کر رہا ہے۔ موسیٰ کی جلالی تجلی کاایک نظارہ جلسہ مذاہب عالم کے درودیوار نے بھی کیا۔ جب تمام مذاہب باطلہ کے چنیدہ علماء نے فرعونی ساحروں کی طرح اپنی اپنی لاٹھیوں کے خیالی سا نپ بنائے تھے۔ مگر جب اس دور کے موسیٰ نے اسلامی رسی کا عصا ایک پاک اور پر معارف تقریر کے پیرایہ میں ان کے مقابلہ پر چھوڑا تو وہ اژدھا بن کر سب کونگل گیا۔ حضرت شاہ نعمت اللہ ولی نے مسیح موعودؑ کے قلم کو ید بیضاء سے تشبیہ دی ہے فرماتے ہیں :
ید بیضاء کہ با او تابندہ
باز با ذوالفقار مے بینم
(نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد4 ص375)
یعنی اس کاروشن ہاتھ اتمام حجت کی روسے تلوار کی طرح چمکتا ہے اور میں اسے ذوالفقار کے ساتھ دیکھتا ہوں۔ یہ صاحب تلوار سلطان القلم کی شکل میں ظاہر ہوا اور دشمن کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا۔
موسیٰ نے توایک فرعون کو ہلاک کیا تھا۔ مگر اس زمانہ کے موسیٰ نے بیسیوں فرعونوں، قارونوں اورہامانوں کو صفحہ ہستی سے نیست ونابود کردیا ہے۔ لیکھرام گوسالہ سامری کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلادیا گیا۔ امریکہ کے ڈوئی کی کیفیت لامِسَاس کے قائل کے مشابہ تھی۔ ابنائے عالم نے اس نذیر کورد کیا مگر خدا زور آور حملوں اور قہری نشانات کے ساتھ اس کلیم وقت کی صداقت ثابت کر رہا ہے۔ موسیٰ کی طرح اس کا تعاقب کیا گیا مگر خدا نے اسے دشمن کےہاتھوں سے بچایا۔ آج بھی ماضی کے تمام فراعنہ اپنے اپنے اسلحہ اور رتھوں کے ساتھ ایک دفعہ پھر موسیٰ کے تعاقب میں ہیں اور قریب ہے کہ وہ گہرے سمندروں میں غرق کیے جائیں اور موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کا بول بالاہو۔
اس زمانہ کے موسیٰ پر بھی قتل کا الزام لگا کر اسے قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ موسیٰ کو خدا نے سمندر کے ذریعے نجات دی اور فرعون کو اسی سمندر میں غرق کیا۔ اس موسیٰ کے جانشین کو خدا نے جہاز کے ذریعے دشمن سے محفوظ کیا اور اسکے دشمن کو فضا میں ریزہ ریزہ کردیا۔
مسیح ؑ کاجلوہ
اور آج وہ جو بے چینی کے ساتھ مسیح کے آسمان سے اترنے کے منتظر ہیں انہیں بشارت ہو کہ انتظار کے دن لدگئے اور وہ مسیح قادیان میں آچکا ہے۔ جس کا اہل زمانہ میں سے کو ئی بھی روحانی باپ نہ تھا۔ بلکہ خدا نے آسمان سے اپنے ہاتھوں اس کی تربیت کی۔ وہ چودہویں صدی کے سرپر حکم عدل بن کر آیاجب امت یہود کی طرح بہتر فرقوں میں بٹ چکی تھی اور قیصر روم کی غلام تھی۔ اس نے نرمی اور محبت کے ساتھ لوگوں کو خداکی طر ف بلایا۔ مگر زمانہ کے فقیہوں اور فریسیوں کے ہاتھوں بہت دکھ اٹھائے۔ مسیح موسوی کے جسم کو صلیب نے زخموں سے چورکر دیاتھا مگر مسیح محمدیؐ اس لیے آیاہے کہ اس صلیب کو پاش پاش کر دے مسیح کی طرح طویل اور صبر آزما سفر بھی جری اللہ اور اس کے خلفاء کاطرہ امتیاز ہیں۔ آج دنیامیں دو ہی نبی ہیں جن کی تصاویر موجود ہیں اور قیافہ شناس ان کے مشابہ ہونے کا اقرار کر تے ہیں اور ان دونوں کے ماننے والے اپنے علاقوں کی نسبت سے یاد کیے جاتے ہیں۔ یعنی ناصرہ سے نصاریٰ اورقادیان سے قادیانی۔ پس ہمیں قادیانی کہنے والے اپنے مونہوں سے مسیح ثانی کی صداقت کا اقرار کرتے ہیں۔ مسیح دوراں دنیا میں آیا اور مردوں کونئی زندگی بخشی۔ روحانی پرندے تخلیق کیے۔ مسیحی نفس وجود پیدا کیے۔ اندھوں کو آنکھیں اور بہروں کو کان عطا کیے اور انہیں دکھوں کی صلیب اٹھاکر راہ مولیٰ میں قربانیوں کا عزم اور ولولہ بخشا۔ انشاءاللہ العزیز وہ اصحاب کہف کے اس دورسے بھی کامران گزریں گے ۔پہلے مسیح کا غلبہ300 سال گزرنے کے بعد شروع ہوا تھا مگر مسیح محمدی کاغلبہ 300 سال میں مکمل ہوچکا ہوگا۔ جیساکہ حضور نے فرمایا: ‘‘اگر کوئی مرکر واپس آسکتا تو وہ دو تین صدیوں کے بعد آکر دیکھ لیتا کہ دنیا احمدی قوم سے اس طر ح پر ہے جس طرح سمند رقطرات سے پر ہوتاہے’’۔
متفرق انبیاء کے جلوے
اور دیکھو کہ صبر یعقوبی کا کیسا عظیم الشان دور ہے کہ دل ہلا دینے والے مظالم اور مصائب میں کوئی شکوہ زبان پر نہیں آتا۔ بادشاہ اس کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈ کر داؤد اور سیلمان کی جاہ وحشمت اور شوکت و سطوت کی یادیں زندہ کرنے والے ہیں۔ آنے والے نے کرشن کی طرح وہ آسمانی راگ گائے کہ ساری کائنات کے ان نغموں سے گونجنے کاوقت آرہا ہے۔ وہ کرشن رودر گوپال بن کر گناہوں کو مٹانے والا اور غریبوں کاہمدرد ہے۔ اسے ہارون کی طرح فصاحت و بلاغت بخشی گئی ہے۔ خدا نے اسے آسمان سے عربی زبان کاعلم عطا فرمایا اور اس کی انعامی کتابیں آج بھی دعوت مبازرہ دے رہی ہیں۔ وہ اسحاق کی طرح غلام حلیم تھا۔ اس کی روح میں اسمٰعیلی خمیر تھا جس نے قربانیوں کے ایک لامتناہی سلسلہ کو جنم دیا ہے۔ لوط ؑکی طرح اس کی ایک بیوی غابرین میں سے ہوئی اور شدید زلازل کے ذریعہ زمین کا زیروزبر کیا جانا تو لوط کے زمانہ کی یاد دلاتا ہے۔ یونس کی قوم کی طرح اس کے کئی مخالفین بھی رجوع کرکے غضب الہٰی سے بچ گئے وہ ذوالقرنین بھی ہے کیونکہ اس نے ہر قوم کی دو صدیاں پائی ہیں۔
غرض یہ سارے انبیاء زندہ ہیں تواس خدا نما اور زندگی بخش وجود سے فیض پاکر جس کانام نامی محمدﷺہے۔
بدی کی قوتیں اور اجتماعی عذاب
نیکی کی ان قوتوں کے مقابل پر ضروری تھا کہ بدی کی قوتیں بھی یکجا ہوجائیں۔ چشم فلک یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے کہ خدا کی قدرت نے تمام نبیوں کے مخالفین کو بھی اس زمانہ میں اکٹھا کر دیا ہے اور ان پر خدا کے عذاب بھی ویسے ہی آرہے ہیں اور اس کی گواہی بھی ان کے لوگ خود دے رہے ہیں۔
1925-1926ء میں دنیا بھر میں متعدد آفات ظہور پذیر ہوئیں۔ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے مولوی ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں:
غور کیا جائے توجتنے عذاب نزول قرآن مجید سے پہلی قوموں پر آئے تھے۔ متفرق طور پر آج مختلف اقطاع عالم پر وہی عذاب آرہے ہیں۔
(اخبار اہلحدیث 15 جنوری 1926ء بحوالہ الفضل 5 فروری 1926ء)
روزنامہ جنگ کے کالم نگار عبدالقادر حسن لکھتے ہیں:
آپ مجھے بے شک انتہا پسند کہہ لیں اور میں ہوں بھی کہ جن قوموں پر خدا کا عذاب نازل ہوا ہے ان کی تمام خرابیاں ہم میں آج موجود ہیں۔
(روزنامہ جنگ 23؍اپریل 2006ء)
عفت علوی مضمون موجو دہ مسائل کا حل قرآن پاک کی روشنی میںلکھتی ہیں:
اگر ہم اپنی موجودہ حالت اور زندگی پر نظر ڈالیں تو آج ہم میں وہ تمام خرابیاں جو گزشتہ تمام اقوام یعنی قوم ھود، قوم ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب کے علاوہ متعدد اقوام میں ایک ایک غلطی کی صورت میں موجود تھیں وہ تمام کی تمام ہم میں مشترکہ طور پر در آئی ہیں۔(نوائے وقت یکم فروری 2008ء)
علامہ احسان الہٰی ظہیر اپنے کالم میں لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان اقوام کا بھی ذکر کیا جو اپنے گناہوں کی وجہ سے تباہ ہوگئیں۔ قوم نوح، قوم عاد و ثمود اپنی بداعتقادی کی وجہ سے سیلاب، طوفان چنگھاڑ کی زد میں آگئیں۔ قوم لوط پر جنسی بے راہ روی کی وجہ سے آسمان سے پتھروں کی بارش ہوئی اور قوم مدین پر کاروباری خیانت کی وجہ سے اللہ کا عذاب آیا۔
آج اگر ہم اپنے گردوپیش کو دیکھیں تو ہمارے معاشرے میں اقوام سابق والی تمام برائیاں موجود ہیں۔
(روزنامہ دنیا 14؍ستمبر 2014ء)
محمدی ؐجلوے
پس اے نوع انسانی آج تجھے بشارت ہو کہ آج پھر خاتم الانبیاء محمدعربی ﷺخاتم الاولیاء بن کر شان احمدیت میں جلوہ گرہو ئے ہیں۔ پہلا دور نزول قرآن کا دور تھا اور یہ زمانہ اشاعت قرآن کا دور ہے۔ وہی نور مصطفویؐ ہے اور وہی نار بولہبی ہے وہی اندھیری راتوں کی دعاؤں اور نزول جبریل کا منظر ہے۔ وہی بلال کی صدائے لاالہ اورخباب اورخبیب کی اسیری کی داستانیں ہیں۔ ایک طرف وہی مکی زندگی کی شعب ابی طالب میں بلکتے بچوں کی دل گدازچیخیں ہیں اور دوسری طرف وہی ظلم وستم کے مکروہ شادیانے ہیں۔ وہی اذانوں کی بندش اور نماز سے روکنے کی کہانیاں ہیں۔
ایک طرف وہی کلمہ طیبہ کو سینوں سے نوچنے اور دلوں سے کھرچنے کی نفرت انگیز داستانیں ہیں اور دوسری طرف وہی صبر وتحمل اورپائے ثبات کے بلند اور ناقابل تسخیر مینار ہیں۔ ایک طرف وہی ابوجہل کے لشکر ہیں اور دوسری طرف وہی ملائکہ کی قطاریں ہیں بدر و احد اور طائف اور حنین کی کہانیاں دوسری زندگی کاجام پی رہی ہیں۔ اللّٰہ اکبراور خربت خیبر کے نظارے ہیں۔ وہی ظالموں کے گروہ اور شہیدوں کاخون ہے۔ وہی رات کی تاریکی میں ہجرت اور بیکسی کا سماں ہے اور فتح مکہ کی وہی لازوال تاریخ پھر افق پردکھائی دے رہی ہے۔
پس اے قوم احمد تمہیں مبارک ہو تم نے اس موعود اقوام کو پہچان لیا۔ ہر دوسری قوم نے خدا کے ایک یا چند نبیوں کو دیکھا تھا تم نے آغاز بشریت سے آج تک آنے والے تمام برگزیدوں کو دیکھا اور ان کی عظمتوں کا مشاہدہ کیا۔ وہ برکتیں جن کی مختلف قومیں وارث بنیں تم ان تمام برکتوں کے وارث بنائے گئے ہو۔ اور ہاں اے مشرق و مغرب کی سرزمینوں کے بسنے والو!سب خوش ہوجاؤ اور افسردگی کو دلوں سے نکال دو کہ آخر وہ دولہا جس کی تم کو قرنوں سے انتظار تھی ہر قوم کا ذوالقرنین بن کر آگیا ہے۔ تم ایک موعود کو ڈھونڈتے تھے وہ سینکڑوں موعودوں کی شانیں لے کر آیا ہے۔ وہ تم میں سے ہے۔ وہ تمہارا ہے۔ پس تقدیس کے سنگھار سے اپنے آپ کو زینت دو اور پاکیزگی کے زیوروں سے اپنے آپ کو سجاؤ کہ تمہاری دیرینہ آرزوئیں برآئیں اور صدیوں کی خواہش پوری ہوئی اور خدا کی محبت کا سورج قادیان کی گمنام سرزمین سے چڑھا ہے۔ آؤ کہ بتان رنگ و بو کو توڑ کر نسل و قوم کے امتیاز کو مٹا کر اس جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء کے ہاتھ پر جمع ہو جائیں۔ اور اس خدا کی حمد کے ترانے گائیں۔ جس نے ہم سب کو انتشار کے بعد اکٹھا کردیا وہ توحید جو آسمانوں پر رہتی تھی وہ اب ہمیشہ کے لیے زمین پر اتر آئی ہے اور رہتی دنیا تک رہے گی۔