اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابہ حضرت عتبہ بن غزوان اور حضرت سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہم کی سیرتِ مبارکہ کا دلنشیں تذکرہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍دسمبر2019ءبمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ،سرے،یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے20؍ دسمبر 2019ء کو مسجد مبارک اسلام آباد،یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیضان راجپوت صاحب کے حصہ میں آئی۔
تشہد،تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گذشتہ خطبے کے تسلسل میں حضرت عتبہ بن غزوانؓ کا ذکر جاری رکھتےہوئےمزید تفاصیل پیش فرمائیں۔
2ہجری میں آنحضورﷺ نے اپنے پھوپھی زاد بھائی حضرت عبداللہ بن حجشؓ کی قیادت میں ایک سریہ نخلہ کی طرف روانہ فرمایا۔ حضرت عتبہؓ بھی اس سریے میں شریک ہوئے۔ حضورِانور نے ‘سیرت خاتم النبیین’ کےحوالے سے اس سریے کی تفصیل بیان فرمائی۔ قریشِ مکّہ سے درپیش مستقل خطرے کےسبب اُن کی حرکات و سکنات سے باخبر رہنے کےلیے آپؐ نے ایک آٹھ رکنی پارٹی روانہ فرمائی۔ اس سریے کے امیر کو ایک سر بمہر خط اس ہدایت کے ساتھ عطا فرمایا کہ اسے مدینے سے دو دن کی مسافت طے کرنے کے بعد کھولا جائے۔اس خط میں یہ ارشاد درج تھا کہ طائف اور مکّے کےدرمیان وادئ نخلہ میں جاکر قریش کے حالات سے واقفیت حاصل کرو ۔ راستے میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور عتبہ بن غزوانؓ کا اونٹ کھوگیا اور وہ اُس کی تلاش میں اپنےساتھیوں سےبچھڑ گئے۔ایک مستشرق مارگولیس نے لکھا ہے کہ اِن دونوں نے جان بوجھ کر اپنا اونٹ چھوڑدیا تھااور اس بہانےسے پیچھے رہ گئے تھے۔ حضرت صاحب زادہ مرزا بشیراحمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ اِن دونوں جاں نثارانِ اسلام کی زندگی کا ایک ایک واقعہ اِن کی شجاعت اور فدائیت پر شاہد ہے۔ ان میں سے ایک بئرِمعونہ میں کفّار کے ہاتھوں شہید ہوا اور دوسرا کئی خطرناک معرکوں میں نمایاں حصّہ لےکربالآخر عراق کا فاتح بنا۔ ان کے بارےمیں ایسا شبہ کرنا مسٹر مارگولیس ہی کا حصّہ ہے۔
اِس پارٹی میں شامل اصحاب نے اِخفائے راز کی غرض سے سر کے بال منڈوا دیے تھےتاکہ راہ گیر انہیں عازمینِ عمرہ گمان کریں۔ مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی پارٹی نخلہ میں انفارمیشن اکٹھی کرنے میں مصروف تھی کہ ایک روز طائف سے مکّے کی جانب رواں قریش کے ایک قافلےسے اِن کا سامنا ہوگیا۔نخلہ کا علاقہ حرم کی سرحد پر واقع تھا اور بعض لوگوں کے نزدیک ابھی حرمت والا مہینہ ختم نہیں ہوا تھا۔لیکن افشائے راز سے خوف زدہ ہوکر مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ قافلے پر حملہ آور ہوکر یاتو انہیں قتل کردیا جائے یا قیدی بنالیا جائے۔ اس حملے کے نتیجے میں ایک کافر قتل جبکہ دو قیدہوگئے۔ ایک شخص فرار ہونے میں کامیاب رہا اور باوجود کوشش کے مسلمان اسے پکڑ نہ سکے۔ مسلمان سامانِ غنیمت لےکر جلد جلد مدینے کی طرف لوٹ آئے۔
اس موقعے پر مارگولیس صاحب نےاعتراض کیا ہے کہ محمد(ﷺ) نے یہ دستہ دیدہ دانستہ قافلے کو لوٹنے کےلیے شہرِ حرام بھیجا تھا۔ لیکن ہر عقل مند انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایسی مختصر پارٹی کو اتنے دور دراز علاقے میں ،دشمن کے ہیڈ کوارٹر کے نزدیک غارت گری کےلیے نہیں بھیجا جاسکتا۔ جب آپؐ کو صحابہ کےقریش کے قافلے پر حملے کا علم ہوا تو آپؐ سخت ناراض ہوئےاور مالِ غنیمت لینے سے انکار کردیا۔
دوسری جانب قریش نے مسلمانوں کی طرف سے شہرِ حرام کی حرمت کو توڑنے پر بڑا شور مچایا۔ قتل ہونے والا شخص عمرو بن الحضرمی ایک مال دار آدمی اور عتبہ بن ربیعہ ،رئیسِ مکّہ کا حلیف تھا ۔ سو اس واقعے نے قریش کی آتشِ غضب کو خوب بھڑکایا۔ اس موقعے پر سورۃ البقرہ کی آیت 218نازل ہوئی جس میں کفّارکی جانب سے مسلمانوں کو شہرِ حرام سے روکنے، اور وہاں آباد لوگوں کے شہر بدرکیے جانےکو، حرم میں لڑنے سے زیادہ برا قرار دیا گیا۔
رؤسائے قریش اسلام کےخلاف اپنےخونی پراپیگنڈے حرمت والے مہینوں میں بھی جاری رکھتےتھے۔ ان مہینوں میں ان کی مفسدانہ کارروائیوں میں مزید شدت آجاتی۔ یہاں تک کہ کمال ڈھٹائی اور بےحیائی سے اپنے دل کو جھوٹی تسلّی دینےکےلیے وہ عزت والے مہینوں کو آگے پیچھے بھی کردیا کرتے تھے جسے وہ نسیءکےنام سے پکارتے تھے۔
جب قریش اپنے دونوں آدمیوں کو مسلمانوں کی قید سے آزاد کرانے کےلیے آئے تو چونکہ اس وقت تک سعد بن ابی وقاصؓ اور عتبہ بن غزوانؓ واپس نہیں پہنچے تھے، اور خدشہ تھا کہ اگروہ قریش کے ہاتھ لگ گئے تو قریش انہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ اس لیے آنحضورﷺ نے ان دونوں کی واپسی تک قیدیوں کو چھوڑنے سے انکار کردیا۔ جب سعد اور عتبہ دونوں مدینہ پہنچ گئے تو آپؐ نے قریش کے دونوں قیدیوں کو آزاد کردیا۔ ان میں سے ایک شخص پر آپؐ کے اخلاقِ فاضلہ کا ایسا اثر ہوا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا اور واپس جانے سے منکر ہوگیا۔
حضرت عتبہ بن غزوان کو جنگِ بدر اور بعد کے تمام غزوات میں شریک ہونے کی سعادت ملی۔ آپؓ رسول اللہﷺ کےماہر تیراندازوں میں سے تھے۔
حضرت عمرؓ نے عتبہؓ کو آٹھ سو آدمیوں کے ہم راہ بصرہ کی طرف روانہ فرمایا تاکہ وہ اُبُلّہمقام کے لوگوں سے لڑیں۔ روانگی کے وقت حضرت عمرؓ نے حضرت عتبہؓ کو اسلامی آدابِ جہاد پر مبنی زرّیں ہدایات سے نوازا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عتبہؓ کو فتح عطا فرمائی۔ آپؓ نے اُبُلّہمقام پر بصرہ شہر کی حد بندی کی۔ آپؓ پہلے شخص تھے جس نے بصرہ کو شہر بنایا اور آباد کیا۔
حضرت عمرؓ نے جب عتبہؓ کوبصرے کا گورنر مقرر فرمایا تو وہ فارس کے قدیم شہر خریبہ میں مقیم ہوئے۔ یہ وہی شہر ہے جس کےنزدیک بعد میں جنگِ جمل بھی ہوئی تھی۔
14ہجری میں مسلمانوں کے موسمِ سرما گزارنے کےلیے حضرت عتبہؓ کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے حضرت عمرؓ نے پانی اور چراگاہوں والی سرزمین تلاش کرنے کی ہدایت فرمائی۔ اس پر حضرت عتبہؓ نے مسلمانوں کو بصرہ میں آباد کیا۔ یہاں بانس سے مکان بنائے گئےاور مسجد تعمیر کی گئی۔
حج کے موقعے پر حضرت عتبہؓ اپنی جگہ قائم مقام مقرر فرما کر خود مکّہ تشریف لےگئے۔حضرت عمرؓ سے ملاقات میں آپؓ نے استعفیٰ پیش کرنا چاہا جسے حضرت امیرالمومنین نے منظور نہ فرمایا۔روایت میں آتا ہے کہ اس پر حضرت عتبہؓ نے خداسے دعا کی کہ اے اللہ! اب مجھے اس شہر کی طرف دوبارہ نہ لوٹانا۔ چنانچہ آپؓ اپنی سواری سے گر پڑے اور 17 ہجری میں انتقال فرماگئے۔
دوسرے صحابی حضرت سعدبن عبادہؓ کا حضورِانور نے آج کے خطبےمیں ذکر فرمایا۔ آپؓ کا تعلق انصار کے قبیلے خزرج کی شاخ بنوساعدہ سے تھا۔ سعدؓ کی کنیت ابو ثابت یا ابو قیس بیان کی جاتی ہے۔ آپؓ قبیلہ خزرج کے نقیب اور سخی سردار تھے۔ تمام غزوات میں انصار کا پرچم ان کے پاس رہتا۔ حضرت سعد زمانۂ جاہلیت میں عربی لکھنا جانتے تھے۔ تیراکی اور تیراندازی میں مہارت رکھنے والے صاحبِ وجاہت و ریاست شخصیت تھے۔ آپؓ اور ان کے آباؤاجداد اپنے قلعے میں جانوروں کو ذبح کرواکے ان کا گوشت تقسیم کیا کرتےتھے۔
حضرت سعد بن عبادہؓ نے بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقعے پر اسلام قبول کیا تھا۔ حضورِانور نے ‘سیرت خاتم النبیین’ کے حوالے سے بیعتِ عقبہ ثانیہ کی مزید تفاصیل بیان فرمائیں۔
13نبوی میں حج کے موقعے پر اوس اور خزرج کے آدمی مکّہ آئے۔ان میں ستّر افراد ایسے شامل تھے جو یا تو مسلمان ہوچکے تھے یا مسلمان ہونا چاہتے تھے۔ مصعب بن عمیرؓ بھی ان افراد میں شامل تھے۔ آپؓ کی ماں پکّی مشرکہ تھی جسے مصعبؓ حضورِاکرمﷺ سے ملاقات کے بعد ملنے گئے۔ جب آپؓ نے اپنی ماں کو بت پرستی ترک کرکے قبولِ اسلام کی دعوت دی تو اس نے شور مچادیا اور قسم کھاکر اعلان کیا کہ وہ کبھی اسلام قبول نہ کرے گی اور اپنے رشتے داروں کو اشارہ کیا کہ وہ مصعبؓ کو پکڑ کر قید کر لیں مگر وہ ہوشیار تھے جلدی سے بھاگ کر نکل گئے۔
آنحضرتﷺ کو حضرت مصعبؓ کے ذریعے انصار کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی۔ایک اجتماعی ملاقات کی ضرورت کے باعث مراسمِ حج کے بعد ایک تاریخ مقرر کی گئی اور طے پایا کہ نصف شب کے قریب سب لوگ گذشتہ سال والی گھاٹی میں حضورِ اکرمﷺ سے آکر ملیں۔ آپؐ اپنے چچا عباس کے ساتھ وہاں پہنچے۔ عباس گو ابھی مشرک تھے لیکن حضورﷺ سے محبت رکھتے تھے اور خاندان بنو ہاشم کے رئیس تھے۔سب سے پہلے حضرت عباس نےہی گفتگو کا آغاز کیا اور انصار کو حضورﷺ کے ارادۂ ہجرت سےآگاہ کیا۔ انصار کی جانب سےایک معمّر بااثر بزرگ البراء بن معرور نے جواباً کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ رسولِ خداﷺبھی اپنی زبانِ مبارک سے کچھ فرمائیں اور جو ذمہ داری ہم پر ڈالنا چاہتے ہیں وہ بیان فرمائیں۔اس پر آنحضرتﷺ نے قرآن شریف کی بعض آیات تلاوت فرمائیں اور ایک مختصر تقریر میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ مَیں بس اتنا چاہتا ہوں کہ جیسے تم اپنے رشتہ داروں کی حفاظت کرتےہو اسی طرح مجھ سے معاملہ کرو۔ اس موقعے پر ان ستّرباوفا اصحاب نے حضورﷺ کے دستِ مبارک پربیعت کی۔ آپؐ نےحضرت موسیٰؑ کی سنّت کے مطابق انصار میں سے 12نقیب مقرر فرمائے۔
قریشِ مکّہ کو اپنے جاسوسوں کے طفیل اس معاہدے اور بیعت کی بھنک پڑ گئی چنانچہ وہ صبح ہوتے ہی اہلِ یثرب کی قیام گاہوں پر آئے اور بازپُرس کرنے لگے۔اوس اور خزرج میں سے بت پرست افراد کو چونکہ اس بارے میں کوئی خبر نہیں تھی سو انہوں نے قریش کو یقین دلایا کہ ایسا کچھ نہیں۔ کچھ دیر بعد کسی ذریعے سے قریش کو اطلاع ہوگئی کہ واقعی اہلِ یثرب نے آنحضرتﷺ سے کوئی عہدو پیمان کیا ہے۔ جس پر بعض لوگوں نے اہلِ یثرب کا پیچھا بھی کیا، قافلہ تو نکل گیا لیکن سعد بن عبادہؓ کسی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے ۔ ان کو قریش پکڑ لائے اور خوب زدو کوب کیا۔ آخر کار جبیربن مطعم اور حارث بن حرب نے انہیں ظالم قریش کے ہاتھ سے چھڑایا۔
خطبے کے اختتام پر حضورِ انور نےفرمایا کہ حضرت سعدبن عبادہؓ کے تعلق میں ابھی کچھ اَور ذکر ان شاء اللہ آئندہ خطبے میں بیان ہوگا۔
٭…٭…٭