آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی کہ جب کسی سفر سے مدینہ واپس تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں پہنچ کر دو رکعت نماز ادا کرتے
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍دسمبر2019ء بمطابق 13؍فتح 1398 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یو کے
اخلاص و وفا کے پیکر بدری اصحاب النبی حضرت ھِلَال بن امیہ واقفی، حضرت مرارہ بن ربیع عمری اور حضرت عُتْبَہ بن غَزْوَان رضی اللہ عنہم کی سیرت مبارکہ کا بیان
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ٪﴿۷﴾
گذشتہ خطبے میں مَیں حضرت ھِلَال بن امیہؓ کا ذکر کر رہا تھا اور اس ذکر میں غزوۂ تبوک کا بھی ذکر آگیا۔ حضرت ھِلَالؓ ان تین پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھے جو اس غزوے میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوے سے واپسی پر ان لوگوں سے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور کچھ سزا دی جس پر یہ تینوں بڑے بے چین تھے اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے استغفار اور توبہ کرتے رہے یہاں تک کہ ان تین صحابہ کی گریہ و زاری جن میں حضرت ھِلَالؓ بھی شامل تھے اللہ تعالیٰ کے حضور قبول ہوئی اور ان کی معافی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی۔ بہرحال اس بارے میں یہ بھی بیان ہوا تھا کہ صحابہؓ نے اس غزوے کی تیاری کے لیے کس قدر قربانیاں دی تھیں اور یہ بھی ذکر تھا کہ بعض اَور لوگ جن کے دلوں میں نِفاق تھا اس میں شامل نہیں ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جھوٹے عذر پیش کیے۔ بعض نے شروع میں جانے سے انکار کیا اور آپؐ نے ایسے منافقوں کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑا۔ اس تسلسل میں کچھ اَور باتیں ہیں جو مَیں اس وقت پیش کروں گا۔
وہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ جانے کو ترجیح دے رہے تھے ان میں ایک شخص جدّ بن قیس تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تم رومیوں سے جنگ کے لیے ہمارے ساتھ نہیں چلو گے؟ اس نے یہ بہانہ بنایا کہ وہ عورتوں کی وجہ سے فتنے میں پڑ سکتا ہے اس لیے اسے آزمائش میں نہ ڈالا جائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کیا اور اسے اجازت دے دی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی کہ
وَمِنْهُمْ مَنْ يَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّيْ وَلَا تَفْتِنِّيْ أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيْطَةٌ بِالْكَافِرِيْنَ۔ (التوبۃ: 49)
اور ان میں سے وہ بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے رخصت دے اور مجھے فتنہ میں نہ ڈال۔ خبردار وہ فتنہ میں پڑ چکے ہیں اور یقیناً جہنم کافروں کو ہر طرف سے گھیر لینے والی ہے۔
مدینے کے ایک یہودی کا نام سُوَیْلَمْ تھا۔ وہ مدینہ کے علاقے جَاسُومْ میں مقیم تھا جس کو بِئرِ جَاسِمْ بھی کہتے ہیں ۔ یہ مدینے میں شام کی سمت اَبُوالْہَیْثَم بن تَیِّھَان کا کنواں تھا۔ اس کا پانی بہت عمدہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پانی کو پیا اور پسند فرمایا۔
اس یہودی کا گھر منافقوں کا گڑھ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ منافقین وہاں اکٹھے ہو رہے ہیں اور وہ لوگوں کو غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جانے سے روک رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار بن یاسرؓ کو فرمایا کہ ان لوگوں کے پاس جاؤ اور ان سے جا کر ان باتوں کے بارے میں پوچھو جو انہوں نے کہی ہیں۔ اگر وہ ان سے انکار کریں تو انہیں بتا دینا کہ مجھے خبر پہنچی ہےتم نے یہ یہ کہا ہے۔ جب حضرت عَمّارؓ وہاں پہنچے اور انہوں نے وہ سب کہا تو وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر معذرتیں کرنے لگے۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 597 غزوۃ تبوک، دار ابن حزم بیروت 2009ء)
( السیرۃ الحلبیۃجلد3صفحہ 186، ذکر مغازیہ ﷺ ، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 1 صفحہ 390 ذکر البئار التی شرب منھا رسول اللہﷺ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ84 مطبوعہ زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)
ان کی اس حالت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ
یَحۡذَرُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ اَنۡ تُنَزَّلَ عَلَیۡہِمۡ سُوۡرَۃٌ تُنَبِّئُہُمۡ بِمَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ قُلِ اسۡتَہۡزِءُوۡا ۚ اِنَّ اللّٰہَ مُخۡرِجٌ مَّا تَحۡذَرُوۡنَ ۔ وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوۡضُ وَ نَلۡعَبُ ؕ قُلۡ اَ بِاللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ وَ رَسُوۡلِہٖ کُنۡتُمۡ تَسۡتَہۡزِءُوۡنَ۔ لَا تَعۡتَذِرُوۡا قَدۡ کَفَرۡتُمۡ بَعۡدَ اِیۡمَانِکُمۡ ؕ اِنۡ نَّعۡفُ عَنۡ طَآئِفَۃٍ مِّنۡکُمۡ نُعَذِّبۡ طَآئِفَۃًۢ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا مُجۡرِمِیۡنَ۔ (التوبہ:64تا66)
کہ منافق ڈرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی سورت نازل نہ کر دی جائے جو ان کو اس سے مطلع کر دے جو ان کے دلوں میں ہے۔ تُو کہہ دے کہ بے شک تمسخر کرتے رہو۔ یہ ڈرنے کا ذکر بھی تمسخرانہ انداز میں کرتے ہیں۔ اللہ تو یقیناً ظاہر کر کے رہے گا جس کا تمہیں خوف ہے اور اگر تُو ان سے پوچھے تو ضرور کہیں گے کہ ہم تو محض گپ شپ میں محو تھے اور کھیلیں کھیل رہے تھے۔ تُو پوچھ کیا اللہ اور اس کے نشانات اور اس کے رسول سے تم استہزا کر رہے تھے؟ کوئی عذر پیش نہ کرو یقیناً تم اپنے ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔ اگر ہم تم میں سے کسی ایک گروہ سے درگزر کریں تو کسی دوسرے گروہ کو عذاب بھی دے سکتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ یقینا ًمجرم ہیں۔
بہرحال اس وقت یہ حالات تھے۔ کچھ جانے سے پہلے منصوبے بن رہے تھے کہ نہ جایا جائے۔ منافقین ان میں شامل تھے یہودی ان کو ابھار رہے تھے۔ کچھ ویسے بہانے بناتے رہے اور بعد میں واپسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بہانے بنائے۔ بہرحال آپؐ نے ان کا معاملہ اللہ پہ چھوڑا۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک سے واپس لوٹے اور مدینے کے قریب پہنچے تو آپؐ نے فرمایا مدینے میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ وہ ہر سفر اور ہر وادی میں تمہارے ساتھ تھے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! جبکہ وہ مدینے میں ہیں تو پھر کس طرح ساتھ ہو گئے ؟ آپؐ نے فرمایا ہاں وہ مدینہ میں ہی ہیں مگر انہیں کسی عذر نے یا کسی مرض نے روک لیا تھا۔(مسند الامام احمد بن حنبل جلد4صفحہ263 مسند انس بن مالکؓ حدیث 12032 مطبوعہ عالم الکتب بیروت لبنان1998ء)(مسند الامام احمد بن حنبل جلد5صفحہ132 مسندجابر بن عبد اللّٰہؓ حدیث 14731 مطبوعہ عالم الکتب بیروت لبنان1998ء)یہ لوگ ایسے تھے جن کا عذر بھی جائز تھا اور ان کا مرض تھا یا کوئی وجہ بن گئی جس کی وجہ سے باوجود خواہش کے وہ نہیں جا سکے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ساتھ ہی رکھا۔
تبوک سے واپسی کے سفر میں ایک موقعےپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جلدی جارہا ہوں۔ پس تم میں سے جو چاہے میرے ساتھ جلدی چلے اور جو چاہے ٹھہر جائے یعنی آرام سےپیچھے آتا رہے۔ راوی کہتے ہیں پھر ہم روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہمیں مدینہ دکھائی دیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ طَابَہْ ہے یعنی پاکیزہ اور خوشگوار اور یہ احد ہے یہ ایسا پہاڑ ہے کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انصار کے گھروں میں بہترین گھر بَنُو نَجَّار ْکا گھر ہے۔ پھر بَنُو عَبْدُ الْاَشْہَلْ کا گھر ہے پھر بنو عبدالحارث بن خَزْرَجْ کا گھر ہے۔ پھر بنو سَاعِدَہ کا گھر اور آپؐ نے انصار کے سب گھروں کو اچھا قرار دیا۔ حضرت سَعد بن عُبادہؓ ہم سے آ ملے۔ راوی بیان کر رہے ہیں تو ابواُسَید نے کہا کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے گھروں کی فضیلت بیان کی ہے اورہمیں آخر پر رکھا ہے۔ حضرت سعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! آپؐ نے انصار کے گھروں کی فضیلت بیان کی ہے اور ہمیں آخر پر رکھا ہے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے لیے کافی نہیں کہ تم خیر والوں میں سے ہو؟ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فی معجزات النبی ﷺ(1392))
واپسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے مدینہ کے لوگ کیا مرد اور کیا عورتیں اور کیا بچے مدینے سے باہر ثَنِیَّةُ الْوَدَاع کے پاس آئے، وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ ثَنِیَّةُ الْوَدَاع مدینہ کے قریب ایک مقام ہے اور مدینہ سے مکہ جانے والوں کو اس مقام تک آ کر الوداع کہا جاتا تھا۔ اس لیے اس کو ثَنِیَّةُ الْوَدَاع کہتے تھے۔ مؤرخین، سیرت نگاروں کے نزدیک جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے سے ہجرت کر کے جب آپؐ قبا کی طرف سے مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے اس جانب بھی ثَنِیَّةُ الْوَدَاع تھی۔ حضرت عائشہؓ کی روایت کے مطابق وہاں مدینہ کے بچوں نے آپ کا استقبال کیا اور لڑکیاں یہ گا رہی تھیں کہ
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا
مِنْ ثَنِيَّاتِِ الْوَدَاعِ
وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا
مَا دَعٰی لِلّٰهِ دَاعِ
کہ چودھویں کی رات کا چاند ہم پر ثنیۃ الوداع کی جانب سےطلوع ہوا۔ ہم پر اللہ کا شکر واجب ہو گیا ہے جب تک کہ اللہ کا کوئی نہ کوئی پکارنے والا رہے گا۔ کچھ شارحینِ حدیث جیسے علامہ ابن حجر عسقلانی شارح بخاری ہیں۔ بخاری کی شرح لکھی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عین ممکن ہے کہ جن اشعار کا ذکر حضرت عائشہؓ سے بیان کردہ روایت میں ہے، جو میں نے پڑھی ہے۔ ان کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوۂ تبوک سے واپسی کے وقت سے ہو کیونکہ اس وقت ثَنِیَّةُ الْوَدَاع مقام پر لوگوں اور بچوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا تھا کیونکہ ملک شام کی جانب سے آنے والوں کا استقبال اسی جگہ سے کیا جاتا تھا۔ جب اہل مدینہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوۂ تبوک سے واپسی کا علم ہوا تو وہ خوشی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرنے کے لیے مدینے سے باہر اس مقام پر نکلے جیسا کہ حضرت سَائِبْ بن یَزید بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ میں بھی دوسرے بچوں کے ساتھ اس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرنے ثَنِیَّةُ الْوَدَاع گیا تھا جب آپ غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لا رہے تھے۔ امام بیہقی نے بھی یہ بیان کیا ہے کہ بچوں نے نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان اشعار کے ذریعہ استقبال کیا تھا جب نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک سے مدینہ واپس تشریف لائے تھے۔(معجم البلدان الجزء 2 صفحہ 100 ثَنِیَّةُ الْوَدَاع مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)(ماخوذ از جستجوئے مدینہ صفحہ403-404 مطبوعہ اورینٹل پبلی کیشنز لاہور 2007ء)(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 267)بہرحال مؤرخین اور سیرت نگاروں کی دونوں قسم کی آرا موجود ہیں یعنی بعض کے نزدیک یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے وقت اور بعض کے نزدیک غزوۂ تبوک سے واپسی پر یہ اشعار پڑھے گئے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی کہ جب کسی سفر سے مدینہ واپس تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں پہنچ کر دو رکعت نماز ادا کرتے۔ چنانچہ جب آپؐ تبوک سے واپس تشریف لائے تو مدینہ میں چاشت کے وقت داخل ہوئے اور پہلے مسجد میں دو رکعت نماز ادا کی۔
( مسند الامام احمدبن حنبل جلد5صفحہ414 مسند کعب بن مالکؓ حدیث 15865 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1988ء)
نماز کے بعد آپؐ لوگوں کے لیے مسجد میں تشریف فرما ہوئے اس کے بعد دو نفل پڑھنے کے بعد وہیں بیٹھ گئے اور اس وقت وہ لوگ بھی آپؐ سے ملنے کے لیے آئے جو عمداً پیچھے رہ گئے تھے۔ وہ جو بغیر کسی عذر کے جان بوجھ کے پیچھے رہنے والے تھے وہ آپؐ کے سامنے اپنا کوئی نہ کوئی عذر پیش کرتے۔ ایسے لوگوں کی تعداد جو تھی اسّی کے قریب تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے عذروں کی حقیقت جانتے ہوئے بھی یہ جانتے تھے کہ یہ غلط عذر کر رہے ہیں اس کے باوجود ان کے ظاہری بیانات کو قبول فرماتے اور ان سے درگذر فرماتے رہے اور ان کی بیعت بھی لیتے رہے اور ان کے لیے استغفار بھی کرتے رہے۔
(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک حدیث4418)
لیکن جیسا کہ پہلے تفصیلی ذکر ہو چکا ہے حضرت ھِلَال بن امیہؓ حضرت مُرارہ بن ربیعؓ اور حضرت کعب بن مالکؓ نے کوئی جھوٹا عذر نہیں کیا اور اس کی وجہ سے کچھ عرصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کو برداشت کیا۔ بڑے روتے رہے، گڑگڑاتے رہے، اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتے ہوئے جھکے رہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کی توبہ قبول کرنے کا اعلان بھی فرما دیا۔
دوسرے صحابی جن کا ذکر ہو گا وہ حضرت مُرارہ بن ربیع عَمْرِیؓ ہیں۔حضرت مُرارہؓ کے والد کا نام رَبیع بن عَدِی تھا۔ ان کے والد کا نام رِبْعِیّ اور رَبِیْعَہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت مُرارہ بن ربیع عَمریؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ اَوس کے خاندان بنو عمرو بن عوف سے تھا جبکہ ایک روایت کے مطابق ان کا تعلق بنو عمرو بن عوف کے اتحادی قبیلہ قُضَاعَہ سے تھا۔ قُضَاعَہ عرب کا ایک مشہور قبیلہ ہے جو مدینے سے دس منزل پر وادی القریٰ سے آگے واقع ہے اور مدائنِ صالح کے مغرب میں آباد ہے۔
(اُسدالغابة فی تمییز الصحابة جلد5 صفحہ129 مُرَارَہْ بِنْ رَبِیْع دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
(الاصابہ فی معرفة الصحابة جلد6صفحہ52 مُرَارَہْ بِنْ رَبِیْع دارالکتب العلمیہ بیروت1995ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ237 مطبوعہ زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)
حضرت مُرارہؓ کو غزوۂ بدر میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ امام بخاریؒ اور صحابہؓ کے حالات پر مشتمل کتب میں ان کے غزوۂ بدر میں شامل ہونے کا تذکرہ ملتا ہے جبکہ ابن ہشام نے بدری صحابہ کی فہرست میں ان کا نام درج نہیں کیا۔ یہ ان تین انصار صحابہ میں سے تھے جو غزوۂ تبوک میں شامل نہ ہو سکے تھے جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے اور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی یہ آیت بھی نازل فرمائی تھی کہ
وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا حَتّٰى اِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوْا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّا اِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوْبُوْا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ (التوبہ:118)
اور ان تینوں پر بھی اللہ توبہ قبول کرتے ہوئے جھکا جو پیچھے چھوڑ دیے گئے یہاں تک کہ جب زمین ان پر باوجود فراخی کے تنگ ہو گئی اور ان کی جانیں تنگی محسوس کرنے لگیں اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے پناہ کی کوئی جگہ نہیں مگر اسی کی طرف پھر وہ ان پر قبولیت کی طرف مائل ہوتے ہوئے جھک گیا تا کہ وہ توبہ کر سکیں۔ یقیناً اللہ ہی بار بار توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
جیساکہ پہلے یہ ذکر ہو چکا ہے کہ یہ تینوں پیچھے رہ جانے والے صحابہ حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت مرارہ بن ربیعؓ اور حضرت ھِلَال بن امیہؓ تھے اور یہ تینوں انصار سے تھے۔
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک حدیث4418)
(اُسدالغابة فی تمییز الصحابة جلد5 صفحہ129 مُرَارَہْ بِنْ رَبِیْع دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
اس حوالے سے حضرت مُرارہؓ کا علیحدہ کوئی بیان نہیں ہے حضرت کعب بن مالکؓ کا ہی تفصیلی بیان ہے جو حضرت ھِلَال بن امیہؓ کے تعلق میں گذشتہ خطبے میں بیان کر چکا ہوں اس لیے دوبارہ یہاں بیان کی ضرورت نہیں ہے۔
اگلے صحابی جن کا ذکر ہے ان کا نام ہےحضرت عُتْبَہ بن غَزْوَانؓ۔ ان کی کنیت ابو عبداللہ اور ابو غَزْوَان تھی۔ حضرت عُتْبَہؓ قبیلہ بَنُو نَوفَل بن عَبْدِ مَنَاف کے حلیف تھے۔ حضرت عُتْبَہؓ کے والد کا نام غَزْوَان بن جابر تھا۔ حضرت عُتْبَہؓ کی کنیت ابوعبداللہ کے علاوہ ابوغَزْوَان بھی بیان کی جاتی ہے جیسا کہ بیان ہوا۔ حضرت عُتْبَہؓ نے اَرْدَہ بنتِ حَارِث سے شادی کی تھی۔ حضرت عُتْبَہؓ خود بیان کرتے ہیں کہ میں ان افراد میں سے ساتواں تھا جو سب سے پہلے اسلام قبول کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئے تھے۔ ابن اثیر کے مطابق حضرت عُتْبَہؓ نے جب حبشہ کی طرف ہجرت کی تو اس وقت ان کی عمر چالیس سال تھی جبکہ ابن سعد کے مطابق ہجرت مدینہ کے وقت وہ چالیس سال کے تھے۔ بہرحال وہ حبشہ سے مکہ واپس آئے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکے میں ہی مقیم تھے۔ حضرت عُتْبَہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقیم رہے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت مِقْدَادؓ کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت کی اور یہ دونوں ابتدائی اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھے۔
(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3 صفحہ 558-559دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 72 من حلفاء بنی نوفل بن عبد مناف دار الکتب العلمیۃ بیروت ، 1990ء)
(امتاع الاسماع جزء 6 صفحہ 331 فصل فی ذکر موالی رسول اللہﷺبیروت 1999ء)
حضرت عُتْبَہ بن غَزْوَانؓ اور حضرت مِقْدَاد بن اَسْوَدؓ دونوں کی مدینہ کی طرف ہجرت کا واقعہ اس طرح ہے کہ مکے سے وہ دونوں مشرکین قریش کے لشکر کے ساتھ نکلے تا کہ مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو سکیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُبَیْدہ بن حارِثؓ کی قیادت میں مسلمانوں کا ایک لشکر ثَنِيَّةُ الْمَرَهْ ، یہ رَابِغْشہر کے شمال مشرق میں تقریباً 55 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور مدینہ منورہ سے اس کا فاصلہ تقریباً دو سو کلو میٹر ہے۔ یہ اس کی طرف روانہ ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ لشکر روانہ فرمایا۔ قریش کے لشکر کی قیادت عکرمہ بن ابوجہل کر رہا تھا۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان لڑائی نہ ہوئی سوائے ایک تیر کے جو حضرت سَعد بن ابی وَقَّاصؓ نے چلایا تھا اور وہ خدا کی راہ میں پہلا تیر تھا جو چلایا گیا۔ اس روز عُتْبَہ بِن غَزْوَانؓ اور حضرت مِقْدَادؓ بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ جا ملے۔(اٹلس سیرتِ نبوی،سریہ عبیدہ بن حارث صفحہ196 مکتبہ دارالسلام )(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد4 صفحہ1480-1481 مِقْدَاد بن اسود دار الجیل بیروت)یہ اس قافلے میں آئے تو کافروں کے ساتھ تھے لیکن جیسا کہ پہلے حضرت مِقْدَادؓ کے بارے میں ذکر ہو چکا ہے یہ ادھر آ گئے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیین میں تاریخی کتب سے لے کے جہاد بالسیف کا آغاز اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدافعانہ کارروائیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جہاد بالسیف کی اجازت میں پہلی قرآنی آیت بارہ صفر2ہجری کو نازل ہوئی۔ یعنی دفاعی جنگ کے اعلان کا جو خدائی اشارہ ہجرت میں کیا گیا تھا اس کا باضابطہ اعلان صفر 2ہجری کو کیاگیا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قیام مدینہ کی ابتدائی کارروائیوں سے فارغ ہوچکے تھے اوراس طرح جہاد کا آغاز ہوگیا۔ تاریخ سے پتا لگتا ہے کہ کفار کے شرسے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداءً چار تدابیراختیار کی تھیں جوآپؐ کی اعلیٰ سیاسی قابلیت اورجنگی دُوربینی کی ایک دلیل ہے، بڑی کھلی دلیل ہے اور وہ تدابیر یہ تھیں:
پہلی یہ کہ آپؐ نے خود سفر کرکے آس پاس کے قبائل کے ساتھ باہمی امن وامان کے معاہدے کرنے شروع کیے تاکہ مدینے کے اردگرد کاعلاقہ خطرےسے محفوظ ہوجائے۔ اس امر میں آپؐ نے خصوصیت کے ساتھ ان قبائل کومدنظر رکھا جو قریش کے شامی رستے کے قرب وجوار میں آباد تھے کیونکہ جیسا کہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے یہی وہ قبائل تھے جن سے قریشِ مکہ مسلمانوں کے خلاف زیادہ مدد لے سکتے تھے اور جن کی دشمنی مسلمانوں کے واسطے سخت خطرات پیدا کرسکتی تھی۔
دوم: دوسرا قدم آپؐ نے یہ اٹھایا کہ آپؐ نے چھوٹی چھوٹی خبر رساں پارٹیاں مدینے کے مختلف جہات میں روانہ کرنی شروع فرمائیں تا کہ آپؐ کوقریش اوران کے حلیفوں کی حرکات وسکنات کاعلم ہوتا رہے اورقریش کو بھی یہ خیال رہے کہ مسلمان بے خبر نہیں ہیں اوراس طرح مدینہ اچانک حملوں کے خطرات سے محفوظ ہوجائے۔
مدینہ پہنچنے کے بعد تیسرا قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت یہ اٹھایا کہ ان پارٹیوں کے بھجوانے میں آپؐ کی ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ اس کے ذریعہ سے مکہ اوراس کے گردونواح کے کمزور اور غریب مسلمانوں کو مدینہ کے مسلمانوں میں آملنے کاموقع مل جائے کیونکہ ابھی تک مکے کے علاقے میں کئی لوگ ایسے موجود تھے جودل سے مسلمان تھے مگرقریش کے مظالم کی وجہ سے اپنے اسلام کابرملا اظہار نہیں کرسکتے تھے اورنہ اپنی غربت اورکمزوری کی وجہ سے ان میں ہجرت کی طاقت تھی کیونکہ قریش ایسے لوگوں کوہجرت سے جبراً روکتے تھے۔ چنانچہ قرآن شریف میں خداتعالی فرماتا ہے
وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا۔(النساء:76)
یعنی اے مومنو کوئی وجہ نہیں کہ تم لڑائی نہ کرو اللہ کے دین کی حفاظت کے لیے اوران مردوں اورعورتوں اوربچوں کی خاطر جو کمزوری کی حالت میں پڑے ہیں اوردعائیں کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب! نکال ہم کو اس شہر سے جس کے باشندے ظالم ہیں اورہم ناتوانوں کے لیے اپنی طرف سے کوئی دوست اور مددگار عطا فرما۔
پس ان پارٹیوں کے بھجوانے میں ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ تا ایسے لوگوں کو ظالم قوم سے چھٹکاراپانے کاموقع مل جاوے۔ یعنی ایسے لوگ قریش کے قافلوں کے ساتھ ملے ملائے مدینہ کے قریب پہنچ جائیں اور پھر مسلمانوں کے دستے کی طرف بھاگ کرمسلمانوں میں آ ملیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلا دستہ ہی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عُبَیدہ بن الحارِث کی سرداری میں روانہ فرمایا تھا اورجس کا عکرمہ بن ابوجہل کے ایک گروہ سے سامنا ہوگیا تھا اس میں مکے کے دو کمزور مسلمان جوقریش کے ساتھ ملے ملائے آگئے تھے قریش کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آملے۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ اس مہم میں جب مسلمانوں کی پارٹی لشکرِ قریش کے سامنے آئی تودو شخص مِقداد بن عمرو اور عُتبہ بن غَزْوَان جو بنوزُہرہ اور بنو نوفَل کے حلیف تھے مشرکین میں سے بھاگ کر مسلمانوں میں آملے اوریہ دونوں شخص مسلمان تھے اورصرف کفار کی آڑ لے کر مسلمانوں میں آملنے کے لیے نکلے تھے۔ پس ان پارٹیوں کے بھجوانے میں ایک غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بھی تھی کہ تاایسے لوگوں کو ظالم قریش سے چھٹکارا پانے اور مسلمانوں میں آملنے کا موقع ملتا رہے۔
چوتھی جو تدبیر تھی وہ آپؐ نے یہ اختیار فرمائی کہ آپ نے قریش کے ان تجارتی قافلوں کی روک تھام شروع فرما دی جو مکے سے شام کی طرف آتے جاتے ہوئے مدینے کے پاس سے گزرتے تھے۔ کیونکہ پہلی بات تو یہ کہ یہ قافلے جہاں جہاںسے گزرتے تھے مسلمانوں کے خلاف عداوت کی آگ لگاتے جاتے تھے اورظاہر ہے کہ مدینے کے گردونواح میں اسلام کی عداوت کا تخم بویا جانا مسلمانوں کے لیے نہایت خطرناک تھا۔
دوسرے یہ کہ یہ قافلے ہمیشہ مسلّح ہوتے تھے اورہرشخص سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کے قافلوں کا مدینے سے اس قدر قریب ہو کر گزرنا ہرگز خطرے سے خالی نہیں تھا۔ اور تیسری بات یہ کہ قریش کا گزارہ زیادہ تر تجارت پر تھا اور ان حالات میں قریش کو زیرکرنے اور ان کو ان کی ظالمانہ کارروائیوں سے روکنے اور صلح پرمجبور کرنے کا یہ سب سے زیادہ یقینی اور سریع الاثر ذریعہ تھا کہ ان کی تجارت کا راستہ بندکردیا جاوے۔ چنانچہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جن باتوں نے بالآخر قریش کو صلح کی طرف مائل ہونے پر مجبور کیا ان میں ان کے تجارتی قافلوں کی روک تھام کابہت بڑا دخل تھا۔ پس یہ ایک نہایت دانشمندانہ تدبیر تھی جواپنے وقت پر کامیابی کا پھل لائی۔
پھر یہ بھی کہ قریش کے ان قافلوں کا نفع بسااوقات اسلام کو مٹانے کی کوشش میں صرف ہوتا تھا بلکہ بعض قافلے توخصوصیت کے ساتھ اسی غرض سے بھیجے جاتے تھے کہ ان کا سارا نفع مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ اس صورت میں ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان قافلوں کی روک تھام خود اپنی ذات میں بھی ایک بالکل جائز مقصود تھی۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 323-324)
سَرِیَّہ عُبَیدَہ بِنْ حَارِثؓ جس میں حضرت عُتبہ قریش کے لشکر سے نکل کر مسلمان سے جا ملے تھے اس کا مزید ذکر اس طرح ہے۔ کچھ حصہ تو مَیں گذشتہ کسی خطبے میں بیان کر چکا ہوں۔ بہرحال مختصر یہاں بیان کر دیتا ہوں کہ ماہ ربیع الاول دو ہجری کے شروع میں آپ ﷺ نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار عبیدہ بن الحارث مُطَّلَبِیِ کی امارت میں ساٹھ شترسوار مہاجرین کاایک دستہ روانہ فرمایا۔ اس مہم کی غرض بھی قریش مکہ کے حملوں کی پیش بندی تھی۔ مَیں سیرت خاتم النبیینؓ کا ہی یہ حوالہ دے رہا ہوں۔چنانچہ جب عُبیدہ بن الحارثؓ اوران کے ساتھی کچھ مسافت طے کرکے ثَنِیَّةُ الْمَرَہ کے پاس پہنچے تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ قریش کے دوسو مسلح نوجوان عکرمہ بن ابوجہل کی کمان میں ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں۔ فریقین ایک دوسرے کے سامنے ہوئے اورایک دوسرے کے مقابلہ میں کچھ تیراندازی بھی ہوئی لیکن پھر مشرکین کاگروہ یہ خوف کھا کر کہ مسلمانوں کے پیچھے کچھ کمک مخفی ہو گی ان کے مقابلے سے پیچھے ہٹ گیا اور مسلمانوں نے ان کا پیچھا نہیں کیا۔ البتہ مشرکین کے لشکر میں سے دو شخص مِقْدَاد بن عمرو اور عُتْبَہ بن غَزْوَان، عکرمہ بن ابوجہل کی کمان سے خود بخود بھاگ کر مسلمانوں کے ساتھ آملے اور لکھا ہے کہ وہ اسی غرض سے قریش کے ساتھ نکلے تھے کہ موقع پاکر مسلمانوں میں آملیں کیونکہ وہ دل سے مسلمان تھے مگر بوجہ اپنی کمزوری کے قریش سے ڈرتے ہوئے ہجرت نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے تجزیہ کیا ہے کہ اور ممکن ہے کہ اسی واقعہ نے قریش کوبددل کردیا ہو اور انہوں نے اسے بدفال سمجھ کر پیچھے ہٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ تاریخ میں یہ مذکور نہیں ہے کہ قریش کایہ لشکر جویقیناً کوئی تجارتی قافلہ نہیں تھااورجس کے متعلق ابن اسحاق نے جمع عظیم یعنی ایک بہت بڑا لشکر کے الفاظ استعمال کیے ہیں، کسی خاص ارادے سے اس طرف آیا تھا لیکن یہ یقینی ہے کہ ان کی نیت بخیر نہیں تھی اور یہ خدا کا فضل تھا کہ مسلمانوں کو چوکس پا کر اوراپنے آدمیوں میں سے بعض کو مسلمانوں کی طرف جاتا دیکھ کر ان کو ہمت نہیں ہوئی اوروہ واپس لوٹ گئے اور صحابہ کواس مہم کایہ عملی فائدہ ہوگیاکہ دو مسلمان روحیں قریش کے ظلم سے نجات پا گئیں۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 328-329)
حضرت عُتْبَہ بن غَزْوَانؓ اور ان کے آزاد کردہ غلام خَبَّابْ نے جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو قُبَا (یہ بھی ایک روایت آتی ہے طبقات الکبریٰ میں) کے مقام پر انہوں نے حضرت عبداللہ بن سَلَمہ عَجْلَانِی کے ہاں قیام کیا اور جب حضرت عُتْبَہؓ مدینہ پہنچے تو انہوں نے حضرت عَبَّاد بن بِشرؓ کے ہاں قیام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُتْبَہ بن غَزْوَانؓ اور حضرت اَبودُجَانہؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 73 من حلفاء بنی نوفل بن عبد مناف دار الکتب العلمیۃ بیروت ، 1990ء)
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 220 منازل المھاجرین بالمدینۃ مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
حضرت عُتبہ بن غَزْوَانؓ کے حوالے سے کچھ اَور بھی ہے ان شاء اللہ تعالیٰ اس کا آئندہ ذکر کروں گا۔
اس وقت میں ایک تو یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ روزنامہ الفضل کی ویب سائٹ انہوں نے شروع کی ہے اور اس کے بارے میں اعلان کروں گا ۔اسی طرح دو جنازے بھی ہیں۔ ان مرحومین کے بارے میں ذکر کروں گا۔
الفضل کے 106 سال پورے ہونے پر لندن سے الفضل آن لائن ایڈیشن کا آغاز ہو رہا ہے اور یہ اخبار روزنامہ الفضل آج سے 106 سال پہلے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی اجازت اور دعاؤں کے ساتھ 18؍جون 1913ء کو شروع فرمایا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد کچھ عرصہ لاہور سے شائع ہوتا رہا ۔پھر حضرت مصلح موعودؓ کی قیادت میں یہ ربوہ سے نکلنا شروع ہوا۔ اس قدیم اردو روزنامہ اخبار کا لندن سے الفضل آن لائن ایڈیشن کا مؤرخہ 13؍ دسمبر 2019ء سے آغاز ہو رہا ہے۔ آج ان شاء اللہ تعالیٰ آغاز ہو جائے گا جو بذریعہ انٹرنیٹ دنیا بھر میں ہر جگہ بڑی آسانی کے ساتھ دستیاب ہو گا۔ اس کی ویب سائٹ Alfazlonline.org تیار ہو چکی ہے اور پہلا شمارہ بھی اس پر دستیاب ہے۔ یہاں ہماری آئی ٹی کی جو مرکزی ٹیم ہے انہوں نے اس کے لیے بڑا کام کیا ہے۔
اس میں الفضل کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے بہت کچھ موجود ہے جو ارشاد باری تعالیٰ کے عنوان کے تحت قرآن کریم کی آیات بھی آیا کریں گی اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت احادیث نبویؐ بھی ہوں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے اقتباسات بھی ہوں گے۔ اسی طرح بعض احمدی مضمون نگاروں کے مضمون اور دوسرے جو اہم مضامین ہیں وہ بھی ہوں گے۔ نظمیں بھی احمدی شعراء کی ہوں گی۔ یہ اخبار ویب سائٹ کے علاوہ ٹوئٹر پر بھی موجود ہے اور اینڈرائڈ (Android)کا ایپ (app)بھی بن گیا ہے۔ یہ کیونکہ اب روزانہ شروع ہو گیا ہے تو سوشل میڈیا کے ان ذرائع سے بھی اردو پڑھنے والے احباب کو استفادہ کرنا چاہیے اور اسی طرح مضمون نگار اور شعراء حضرات بھی اس کے لیے اپنی قلمی معاونت کریں تا کہ اچھے اور تحقیقی مضامین بھی اس میں شائع ہوں۔ اس ویب سائٹ میں روزانہ کے شمارہ کی پی ڈی ایف کی شکل میں امیج فائل بھی موجود ہو گی جس کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ ڈاؤن لوڈ بھی کیا جا سکے گا جو پرنٹ کی شکل میں پڑھنا چاہیں وہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ بہرحال اس کا آج ان شاء اللہ آغاز ہو جائے گا۔ اسی طرح پیر کے روز اس میں خطبہ جمعہ کا مکمل متن جو ہے وہ شائع کیا جائے گا اور تازہ خطبے کا خلاصہ بھی بیان ہو جائے گا۔ تو ان شاء اللہ جمعے کے بعد اس کا افتتاح ہو جائے گا۔
دو مرحومین ہیں جن کا میں ذکر کروں گا اور جن کے جنازے پڑھاؤں گا ان شاء اللہ، ان میں سے پہلا مکرمہ سیدہ تنویرالاسلام صاحبہ کا ہے جو مکرم مرزا حفیظ احمد صاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں۔ 7دسمبر کو 91 سال کی عمر میں یہ وفات پا گئی ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ ان کا خاندانی تعارف اس طرح ہے۔ ان کے والد کا نام میر عبدالسلام تھا اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیرینہ اور مخلص صحابی حضرت میر حسام الدین صاحبؓ کی پڑپوتی تھیں۔ حضرت سید میر حامد شاہ صاحبؓ کی پوتی تھیں اور حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہو تھیں۔
حضرت میر حسام الدین صاحبؓ بڑےمشہور صحابی ہیں۔ آپ 1839ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے اور سیالکوٹ کے بڑے معروف حکیم تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جب سیالکوٹ میں قیام پذیر تھے تو حکیم صاحب دواسازی اور مطب کیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں حضرت اقدسؑ کی رہائش ان کے مکان کے ایک حصہ میں بھی رہی ہے اور 1877ء میں حضرت اقدسؑ سیالکوٹ تشریف لائے تو حکیم صاحب کے مکان پر ایک دعوت کی تقریب میں تشریف لے گئے۔ حضرت اقدسؑ کی وہ پاکیزہ جوانی اور نمونہ تھا کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا تو وہ لوگ جو نیک اور سعید فطرت تھے اور فہم و فراست کے نور سے حصہ پانے والوں میں سے تھے انہوں نے آپؑ کو قبول کیا اور سیالکوٹ کے جن احباب نے آپؑ کو قبول کیا ان میں سے اخلاص و وفا میں یہ گھرانہ بھی سر فہرست تھا۔
(ماخوذ از احمد علیہ السلام سیرت و سوانح (غیر مطبوعہ) مکرم سید مبشر احمد ایاز صاحب جلد 2 صفحہ 468)
سید میر حامد شاہ صاحب نے 29 دسمبر 1890ء کو حضرت اقدس کی مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی۔ رجسٹر بیعت کے مطابق ان کا نمبر 213 ہے اور ان کی اہلیہ فیروزہ بیگم صاحبہ کا نمبر 246 ہے جنہوں نے 7فروری 1892ء کو بیعت کی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں ان کا ذکر کیا ہے۔ ازالہ اوہام میں آسمانی فیصلہ،آئینہ کمالات اسلام ،تحفہ قیصریہ ،سراج منیر ،کتاب البریہ، حقیقة الوحی اور ملفوظات جلد پنجم میں کئی جگہ اپنے مخلصین، جلسہ سالانہ کے شرکاء، چندہ دہندگان، جلسہ ڈائمنڈ جوبلی اور پُرامن جماعت کے ضمن میں ان کا ذکر فرمایا ہے۔
(ماخوذ از تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا از نصر اللہ خان ناصر ، عاصم جمالی صفحہ 42-43)
بہرحال مکرمہ سیدہ تنویر الاسلام صاحبہ ان کی نسل میں سے تھیں اور یہ 1928ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں اور پھر جنوری 1948ء میں ان کی شادی مرزا حفیظ احمد صاحب سے ہوئی اور اس طرح یہ حضرت خلیفة المسیح الثانی کی بہو بنیں۔ ان کو 1956ء سے لے کر 2008ء تک مختلف اوقات میں تقریباً اڑتالیس سال مرکزی لجنہ کی سیکرٹری نمائش کے طور پر خدمت بجا لانے کی توفیق ملی۔ اسی طرح اَور بھی ان کی خدمات ہیں۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ سے ان کا بہت پیار کا تعلق تھا ۔ تہجد کا بہت خیال رکھنے والی تھیں بلکہ ان کی ملازمہ نے بتایا کہ جس رات ان کی وفات ہوئی ہے اس رات بھی تین بجے کے قریب تہجد ادا کی اور پھر سو گئیں اور اسی حالت میں ان کی وفات ہو گئی۔ ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ مجھے بتاتی تھیں کہ جب میں بیاہ کر، حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی بہو بن کے اس خاندان میں آئی تو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ اور حضرت ام ناصرؓ نے مجھے اتنا پیار اور عزت اور محبت دی کہ میکے کی یاد مجھے بالکل بھول گئی۔ پھر انہوں نے بہت حوالے بھی دیے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے باتیں یاد تھیں اور اچھی یادداشت تھی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور رحم فرمائے۔ درجات بلند کرے۔
دوسرا ذکر ہماری مرحومہ سسٹر حاجہ شکورہ نوریہ صاحبہ کا ہے۔ امریکہ کی ہیں جو یکم دسمبر کو وفات پا گئی تھیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آپ 1927ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ ابتدائی زمانہ واشنگٹن ڈی۔سی میں گزارا۔1960ء کی دہائی میں آپ ہائی سکول میں تاریخ کے مضمون کی ٹیچر رہیں۔ بعد میں ورلڈ ہسٹری میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی۔ پھر ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی خواہش تھی کہ آپ پروٹسٹنٹ مشنری بنیں لیکن بعد میں جب آپ کو اس بات کا علم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں تو آپ نے دوسرا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر 1968ء میں باضابطہ طور پر آپ نے چرچ کو بھی چھوڑ دیا۔ امریکہ، میکسیکو اور کینیڈا میں سفر کے بعد آپ نے افریقہ کی متعدد یونیورسٹیوں میں مطالعہ کے لیے ایک سال کی رخصت لی۔ پھر یورپ کا سفر بھی اختیار کیا۔ ذہن میں اٹھنے والے دینی سوالات اور مسائل کو حل کروانے کی تلاش میں رہتی تھیں۔
واشنگٹن ڈی سی جب واپس آئیں تو ان کا تعارف مذہب اسلام سے ہوا۔ اتفاقاً آپ کی ملاقات ایئر پورٹ پر اپنے ایک دوست کے بیٹے سے ہوئی جنہوں نے کچھ عرصہ قبل احمدیت قبول کی تھی۔ اس وقت وہاں مکرم میر محمود احمد ناصر صاحب ہوتے تھے۔وہ وہاں مکرم میر محمود احمد صاحب ناصر سے ملاقات کرنے کے لیے مکرم مبشر صاحب کے ہمراہ ایئر پورٹ پر موجود تھے تو اسی میں ان کا بھی تعارف ہو گیا۔ انہوں نے آپ کو دین اسلام سے متعارف کروایا اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا اور آہستہ آہستہ اسلام کی طرف مائل ہونے لگیں اور جس عقیدے کی آپ کو تلاش تھی وہ آپ کو اسلام میں نظر آنے لگا۔ 1979ء میں آپ نے خواب میں قرآن کریم کے ایک نسخہ اور کلمہ شہادت کو دیکھا۔ اس کے بعد آپ کو یقین ہو گیا کہ اسلام اور احمدیت ہی حقیقی مذہب ہے۔ چنانچہ آپ نے بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد آپ نے مختلف حیثیتوں سے جماعتی خدمات سرانجام دیں۔ لجنہ اماء اللہ امریکہ کے مختلف پروگراموں میں نہ صرف حصہ لیتیں بلکہ فعال کردار ادا کرتی تھیں۔ 1986ء میں آپ واشنگٹن ڈی سی مجلس کی لوکل صدر منتخب ہوئیں جہاں پانچ سال تک آپ نے خدمت سرانجام دی اور ساتھ ساتھ آپ کو نیشنل نائب صدر کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ اس کے علاوہ آپ کو مختلف شعبہ جات میں بھی خدمت کی توفیق ملی۔ 1995ء میں آپ کو حج کرنے کی توفیق ملی۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر اور آپ کی رہ نمائی میں قرآن کریم کی جو پانچ جلدوں والی تفسیر ہے، Five volume commentary ، اس کے لیے 118صفحوں پر مشتمل انڈیکس تیار کرنے والی ٹیم میں یہ شامل تھیں اور اس کو بنانے میں ان کا بڑا کردار تھا۔ لجنہ اور جماعت کے مختلف رسائل اور مجلسوں میں بھی آپ نے متعدد عناوین پر مضامین لکھے۔ 1997ء اور 1998ء میں اطفال کے لیے ہر اتوار والے دن کلاسز کا اجرا کیا۔ ناصرات کے لیے احمدی سمر کیمپ (summer camp)میں کونسلر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ کئی سالوں تک آپ نے احمدیہ نیشنل ہیومن رائٹس کمیٹی میں بھی خدمات سرانجام دیں جس کے ذریعہ آپ نے نہایت جانفشانی سے پاکستانی حکومت کی طرف سے احمدیوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں پر نہایت جامع ڈاکیومنٹس تیار کیے۔
مکرم شمشاد ناصر صاحب وہاں کے مبلغ ہیں لکھتے ہیں، لیکن ان تمام کاموں سے بڑھ کر آپ کہا کرتی تھیں کہ تبلیغ کرنا ان کی پہلی محبت تھی اور ہر کام پر اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو ہی مقدم رکھا کرتی تھیں۔ کئی سال تک آپ لجنہ کی نیشنل تبلیغ سیکرٹری کے طورپر خدمات بجا لاتی رہیں۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں بھی تبلیغ کیا کرتی تھیں۔ نیز یونیورسٹی کیمپس اور گرجا گھروں میں بھی مختلف تبلیغی پروگرام منعقد کرنے میں فعال کردار ادا کیا کرتی تھیں۔ جماعتی لٹریچر کو مختلف ایتھنک (ethinic)گروہوں میں تقسیم کرنے کے لیے بھی آپ نے باقاعدہ منصوبہ تیار کیا ہوا تھا۔
یہ شمشاد صاحب کی رپورٹ نہیں تھی۔ یہ دوسرے حوالے سے آئی تھی۔ شمشاد صاحب نے جو ان کا ذکر کیا ہے وہ اس طرح ہے۔ لکھتے ہیں کہ
سسٹر شکورہ نوریہ صاحبہ پردہ کی بہت پابند تھیں۔ ہر وقت پاکستانی سٹائل کا بُرقع پہن کر رکھتیں۔ ان کا بُرقع ان کے کسی کام میں کبھی رکاوٹ نہیں بنا۔ جماعتی کاموں کی وجہ سے انہیں بعض اوقات حکومتی سطح پر سینیٹرز، کانگریس مین وغیرہ سے بھی ملنا پڑتا تھا اور وہاں بھی بُرقع پہن کر جایا کرتی تھیں اور سارے کام بخوبی سرانجام دیتی تھیں۔ تبلیغ کے کاموں میں مبلغین کرام کی بہت مدد کرتی تھیں۔ شمشاد صاحب کہتے ہیں کہ میں جب یہاں نیا آیا تو میرے ساتھ بیٹھ کر مجھے امریکہ کی ہسٹری بتائی اور کام کرنے میں مدد کرتی تھیں۔ پھر لکھتے ہیں کہ آپ کو خلافت کا بے حد احترام تھا اور بڑی گہری وابستگی تھی۔ اب میں جب 2018ء میں امریکہ گیا ہوں تو باوجود بیماری کے وہیل چیئر پر، بڑی مشکل سے، تکلیف سے ملنے بھی آئی تھیں۔ خطبات بڑی باقاعدگی کے ساتھ سنتی تھیں۔ شروع میں جب ایم۔ٹی۔اے نہیں تھا اور کیسٹ کے ذریعہ خطبہ آتا تھا تو آپ خطبے کا انگریزی ترجمہ کرنے میں بہت مدد کیا کرتی تھیں۔ نماز باجماعت کی پابند تھیں۔ یہ لکھتے ہیں کہ میں نے تو جب بھی انہیں دیکھا مسجد میں ہی دیکھا اور باقاعدگی کے ساتھ مسجد میں نماز باجماعت میں شامل ہوا کرتی تھیں۔
اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند کرے اور اللہ تعالیٰ خدمت کے جذبے سے معمور اور اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے ایسے اَور لوگ بھی جماعت کو عطا فرمائے۔
(الفضل انٹر نیشنل 03جنوری 2020ء صفحہ 05تا09)