اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی حضرت سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کا دلنشیں تذکرہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍دسمبر2019ءبمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، سرے،لندن
امير المومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے72؍دسمبر 9102ء کو مسجد بيت الفتوح ، مورڈن، سرے، لندن ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا ۔ جمعہ کي اذان دينے کي سعادت مکرم خواجہ منير الدين صاحب کے حصہ ميں آئي۔
تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کي تلاوت کے بعد حضورِانور ايّدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے فرمايا:
گذشتہ خطبے ميں حضرت سعد بن عبادہؓ کا ذکر ہورہا تھا۔ آپؓ کا تعلق قبيلہ خزرج کے خاندان بنو ساعدہ سے تھا اور آپؓ تمام قبيلہ خزرج کے رئيس تھے۔ آنحضرتﷺ کے عہدِ مبارک ميں ان کا شمارممتاز ترين صحابہ ميں ہوتا تھا۔ حتيٰ کہ آنحضورﷺ کي وفات پر بعض صحابہ نےانھي کو خلافت کےليے پيش کياتھا۔ آپؓ حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت ميں فوت ہوئے۔
حضرت سعد بن عبادؓہ،منذربن عمروؓ اور ابو دجانہؓ نے جب اسلام قبول کيا تو ان سب نے اپنے قبيلہ بنو ساعدہ کے بت توڑ ڈالے۔ حضرت سعدؓ قبيلہ بنو ساعدہ کے نقيب مقرر کيے گئے تھے۔ آنحضرتﷺ نے حضرت سعدؓ اور طليب بن عمير ؓکے درميان مؤاخات قائم فرمائي تھي۔ قبيلہ اوس اور خزرج ميں ايسا کوئي گھر نہ تھا جس ميں چار شخص پےدرپے فياض ہوں سوائے دُليم پھر ان کے بيٹے عبادہ پھر سعدؓ اور پھر قيس کے يعني حضرت سعدؓ کا خاندان سخاوت ميں اپني مثال آپ تھا۔
جب رسول اللہﷺ مدينہ تشريف لائے توسعد آپؐ کي خدمت ميں روزانہ گوشت اور ثريد کا ايک بڑا پيالہ بھجوايا کرتے تھے۔ حضرت زيد بن ثابتؓ کے بيان کے مطابق مدينے ميں رسول اللہﷺ کي خدمت ميں سب سے پہلا ہديہ جو گندم کي روٹي کے ثريد پر مشتمل تھا آپؓ لےکر حاضر ہوئے۔ آپؐ نے اپنے صحابہ کو اس ميں شريک فرمايا۔ اسي موقعے پر حضرت سعدؓ بھي ايک بڑا پيالہ لےکر حاضر ہوئے جو ان کے غلام نے سر پراٹھايا ہواتھا۔ يہ کافي بڑا پيالہ تھا جس ميں ثريداور ہڈياں تھيں۔ آپؐ نے سات ماہ حضرت ابو ايوب انصاريؓ کے گھر پر قيام کيااس دوران حضرت سعد بن عبادہؓ اور حضرت اسعد بن زُرارہ کا پيالہ بلا ناغہ آپؐ کي خدمت ميں آتا رہا۔
ايک مرتبہ آنحضورﷺ حضرت سعدبن عبادہؓ کي درخواست پر اُن کے گھر تشريف لےگئے۔ حضرت سعدؓ نے آپؐ کي خوب خاطر تواضع کي۔ سعدؓ نے آنحضورﷺ سے غسل کا عرض کيا، آپؐ نے غسل فرمايا پھر سعدؓ نے آپؐ کي خدمت ميں عمدہ رنگين لحاف پيش کيا جسے آپؐ نے اپنے گرد لپيٹ ليا اور پھر ہاتھ اٹھا کر سعدؓ اور ان کے اہلِ خانہ کےليے دعا کي۔
علامہ ابنِ سيرين کے بيان کے مطابق حضرت سعد بن عبادہؓ اکثر اسّي اہلِ صفّہ کو کھانا کھلانے کےليے اپنے ہم راہ لے جاتے تھے۔صحابہ عموماً ان غربا کا خيال رکھتےتھے اور سب سے زيادہ خيال رکھنے والے حضرت سعد بن عبادہؓ تھے۔
آنحضورﷺ مدينہ تشريف آوري کے اگلے برس ماہِ صفر ميں ابوا ءمقام پر تشريف لے گئے۔ يہاں نبي کريمﷺ کي والدہ حضرت آمنہ کي قبر بھي ہے۔ غزوہ ابوا ءکا دوسرا نام غزوہ ودان بھي بيان کيا جاتا ہے۔ جہاد بالسيف کي اجازت صفر دو ہجري ميں نازل ہوئي۔قريش کے خوني ارادوں اور خطرناک کارروائيوں کے مقابلے کےليے آپؐ اسي ماہ مہاجرين کي ايک جماعت کو ساتھ لےکر مدينے سے نکلے۔ روانگي سے قبل آپؐ نے حضرت سعد بن عبادہؓ کو اپنے پيچھے امير مقرر فرمايا۔
حضرت صاحب زادہ مرزا بشيراحمد صاحبؓ بيان فرماتے ہيں کہ ‘‘ ہر وہ سفر جس ميں آپؐ جنگ کي حالت ميں شريک ہوئے ہوں غزوہ کہلاتا ہےخواہ وہ خصوصيت کے ساتھ لڑنے کي غرض سے نہ کيا گيا ہو۔’’
حضرت سعد بن عبادہؓ کي غزوۂ بدر ميں شرکت کے متعلق دو آرا بيان کي جاتي ہيں۔ واقدي، مدايني اور ابنِ قلبي کےنزديک يہ بدر ميں شامل ہوئے تھے جبکہ ابنِ اسحاق وغيرہ کے مطابق آپؓ غزوۂ بدر ميں شريک نہ ہوسکے تھے۔ طبقات الکبريٰ کي ايک روايت کے مطابق آپؓ غزوۂ بدر کے ليے انصار کے گھروں ميں جاکر انہيں تيار کر رہے تھے کہ اس دوران آپؓ کوکتّے نے کاٹ ليا چنانچہ آپؓ غزوۂ بدر ميں شرکت نہ کرسکے۔ روانگي سے قبل حضرت سعدؓ نے آنحضرتﷺ کي خدمت ميں عضب نامي تلوار تحفةً پيش کي، آنحضورﷺ نے غزوۂ بدر ميں اسي تلوار کے ساتھ شرکت کي تھي۔ رسول اللہﷺ نے حضرت سعد کو غزوۂ بدر کے مالِ غنيمت ميں سے حصّہ عنايت فرمايا تھا۔ حضرت سعدؓ غزوۂ احد اور خندق سميت تمام غزوات ميں رسول اللہﷺ کے ساتھ شريک ہوئے۔
حضرت سعدؓ نے آپؐ کي خدمت ميں ايک گدھا بھي تحفةً پيش کيا تھا اسي طرح آپؐ کي سات زرہوں ميں سے ايک لوہے کي زرہ بھي حضرت سعد بن عبادہؓ نے غزوۂ بدر پر روانگي کے بعد بھجوائي تھي۔
حضرت اسامہ بن زيدؓ سے مروي ايک روايت کے مطابق آنحضرتﷺ غزوۂ بدر سے قبل ايک مرتبہ حضرت سعد بن عبادہؓ کي عيادت کو جارہے تھے کہ آپؐ کا گزر ايک ايسي مجلس کے پاس سے ہوا جس ميں عبداللہ بن ابي بن سلول بھي موجود تھاجو ابھي مسلمان نہ ہوا تھا۔آپؐ اس مجلس کے پاس ٹھہرے اور انہيں قرآن کريم سنايا اور اسلام کي تعليم دي۔ عبداللہ نے آپؐ سے بدتميزي کا رويّہ دکھايا جس سے آنحضورﷺ کو سخت تکليف ہوئي اورآپؐ نے اس کا ذکر حضرت سعد بن عبادہؓ سے بھي کيا۔ حضرت سعدؓ نے عرض کي کہ يا رسول اللہﷺ اس بستي والوں نے يہ فيصلہ کيا تھا کہ عبداللہ بن ابي بن سلول کو اپنا سرداربناليں ليکن اللہ تعاليٰ نے اس حق کي وجہ سے جو اس نے آپؐ کو عطا فرمايا ہے يہ منظور نہ کيا تو وہ حسد کي آگ ميں جل گيا۔ يہ سن کر آپؐ نے اس سے درگزر کيا اور اس کي ايذا دہي پر صبر کرتے رہے۔
غزوۂ بدر کے موقعے پر نبي کريمﷺ نےصحابہ سے مشاورت کي۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے رائے دينا چاہي تو آپؐ نے ان سے اعراض فرمايا۔ پھر حضرت سعد بن عبادہؓ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے يا رسول اللہؐ! آپؐ ہم سے مشورہ طلب کرتے ہيں۔ خدا کي قسم اگر آپؐ ہميں سمندر ميں گھوڑے ڈالنے کا حکم ديں تو ہم انہيں ڈال ديں گے۔ غرض انصار کي جانب سے حضرت سعد کي اس پُر خلوص تقرير کے بعد آپؐ نے خروج کاارادہ فرمايا۔
غزوۂ احد سے قبل ايک جمعے کي شام حضرت سعدبن معاذؓ، حضرت سعد بن عبادہؓ اور حضرت اُسيد بن حضيرؓ ہتھيار پہنے مسجدِ نبوي ميں رسول اللہﷺ کے دروازے پر صبح تک پہرہ ديتے رہے۔ غزوۂ احد کےليے جب نبي کريمﷺ مدينے سے نکلنے لگے تو حضرت سعد بن معاذؓ اور حضرت سعد بن عبادہؓ زرہيں پہنے ہوئے آپؐ کے آگے آگے تھے۔ باقي لوگ آنحضرت ﷺ کے دائيں اور بائيں تھے۔
غزوۂ احد سے واپسي پر قريش کے لوگ روحاء مقام پر ٹھہرے اور يہاں ان کو خيال آيا کہ مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچا ہے چنانچہ واپس جاکر مدينے پر اچانک حملہ کردينا چاہيے جس کا مسلمان مقابلہ نہ کرسکيں گے۔ دوسري جانب آپؐ قريش کے تعاقب ميں نکلے اور حمراء الاسد مقام تک پہنچے۔ قريشي لشکر کو جب نبي کريمﷺ کي آمد کي خبر ملي تو وہ بھاگ کھڑا ہوا۔حضرت سعدؓاس موقعے پر تيس اونٹ کھجوريں لائے جو اسلامي لشکر کےليے وافر تھيں اسي طرح اونٹ بھي ذبح کيے جاتے رہے۔
ربيع الاول 4 ہجري ميں رسول اللہﷺ نے يہود کے قبيلہ بنو نضير کے قلعوں کا پندرہ روز تک محاصرہ کيا۔ نبي کريمﷺنے ان لوگوں کو خيبر کي طرف جلاوطن کرديا۔ اس غزوے کے اموالِ غنيمت کي تقسيم کے موقعے پر آپؐ نے اللہ تعاليٰ کي حمدو ثناء کے بعد انصار کے احسانات کا ذکر فرمايا۔ اس کے بعدآپؐ نے فرمايا کہ اگر انصار چاہيں تو يہ سارا مال انصار اور مہاجرين ميں برابر تقسيم کرديا جائے۔ اس صورت ميں مہاجرين اور انصار کے درميان مؤاخات قائم رہے گي۔ ليکن اگر انصار پسند کريں تو يہ سارا مال مہاجرين ميں تقسيم کرديا جائے اور اس صورت ميں مؤاخات کے ذريعے انصار جو سلوک مہاجرين کے ساتھ کر رہے ہيں اُس کي ضرورت نہ رہے گي۔ حضرت سعد بن عبادہؓ اور حضرت سعد بن معاذؓ دونوں نے عرض کيا کہ يارسول اللہؐ! آپؐ يہ اموال مہاجرين ميں تقسيم فرماديں اور مہاجرين ہمارےگھروں ميں اسي طرح ہوں گےجيسے پہلے تھے۔ يعني مؤاخات کے ذريعے ہمارے گھروں ميں آنےجانے کا اِن کا حق برقرار رہے گا۔ تمام انصار نے يک زبان ہوکر عرض کي کہ يارسول اللہؐ ہم راضي ہيں۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمايا اےاللہ! انصار اور انصار کے بيٹوں پر رحم فرما۔
حضرت سعدؓ کي والدہ حضرت عمرہ بنت مسعود صحابيہ تھيں۔ ان کي وفات اس وقت ہوئي جب رسول اللہؐ غزوۂ دومة الجندل کے ليے تشريف لےگئے تھے۔ يہ غزوہ ربيع الاول 5 ہجري ميں ہوا تھا۔ حضرت سعدؓ اس غزوے ميں حضورﷺ کے ہم رکاب تھے۔ سعدؓ نے آپؐ سے نمازِ جنازہ پڑھانے کي درخواست کي چنانچہ آنحضورﷺ نے نمازِ جنازہ پڑھائي حالانکہ اُن کي وفات کو ايک مہينہ ہو چکا تھا۔
حضرت سعد بن عبادہؓ نے رسول کريم ﷺ سے عرض کي کہ ميري والدہ نے وصيت نہيں کي تھي۔ اگرمَيں ان کي طرف سے صدقہ دوں تو کيا وہ ان کو مفيد ہوگا؟ آپؐ نے فرمايا ہاں۔ سعد نے عرض کي کہ کون سا صدقہ آپؐ کو زيادہ پسند ہے؟آپؐ نے فرمايا پاني پلاؤ۔ چنانچہ حضرت سعد بن عبادہؓ نے ايک کنواں کھدوايا اور اسے اپني والدہ کے نام سے موسوم کرديا۔ علامہ ابو طيب شمس الحق نے ابو داؤد کي شرح ميں اس روايت کے ذيل ميں لکھا ہے کہ آنحضرتﷺ نے سب سے افضل صدقہ پاني پلانےکو قرار ديا ہے اس کي وجہ يہ تھي کہ ان ايام ميں پاني کم ياب تھا۔
خطبے کے اختتام پر حضورِ انور نےفرمايا کہ ابھي حضرت سعد بن عبادہؓ کا ذکر چل رہا ہے، ان شاء اللہ آئندہ بيان ہوگا۔
٭…٭…٭