پاکستان میں مذہبی آزادی: زمینی حقائق سرکاری بیانیہ کے برعکس ہیں
معروف کالم نگار سيدمجاہد علي آن لائن جريدہ “ہم سب” ميں لکھتے ہيں:
20؍ دسمبر کو جاري ہونے والي رپورٹ ميں امريکي وزير خارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان کے علاوہ برما، چين، اريٹريا، ايران، شمالي کوريا، سعودي عرب، تاجکستان اور ترکمنستان ان ملکوں ميں شامل ہيں جنہيں بين الاقوامي مذہبي آزادي کے 1998 ايکٹ کي رو سے خصوصي تشويش کے حامل ملک قرار ديا گيا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ‘ان ملکوں ميں مذہبي آزادي کے معاملات ميں منظم مختلف النوع قسم کي خلاف ورزياں نہ صرف جاري ہيں بلکہ انہيں برداشت کيا جا رہا ہے’۔ اس امريکي چارج شيٹ کے خلاف اب پاکستاني وزارت خارجہ کے جواب ميں دعويٰ کيا گيا ہے کہ‘پاکستان کثير مذہبي اور مختلف النوع اکائيوں کا ملک ہے جہاں تمام عقائد کے ماننے والوں کو آئين کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ انتظاميہ، مقننہ اور عدليہ سميت تمام ملکي شعبے مل کر يہ بات يقيني بناتےہيں کہ پاکستان کے تمام شہريوں کو اپنے مذہب پر عمل پيرا ہونے کي مکمل آزادي ہو، جس ميں عقائد، ذات يا مسلک کي بنياد پر کوئي تفريق نہ برتي جائے’۔
يہ جوابي بيان صرف ايسے ملک کي وزارت خارجہ جاري کرسکتي ہے جو زميني حقائق کو نظر انداز کرنے اور جھوٹ کي بنياد پر ملک کي ايک خوشنما تصوير سامنے لانے پر مصر ہو۔ بصورت ديگر اس بيان ميں پاکستاني اقليتوں کے حوالے سے جو حقائق بيان کرنے کي کوشش کي گئي ہے انہيں کاغذي حيثيت بھي حاصل نہيں ۔ گو کہ يہ دعويٰ کيا جاتا ہے کہ پاکستان ميں مذہبي اقليتوں کو مساوي حقوق فراہم کيے گئے ہيں اور ملک کا آئين ان کي ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ليکن بدنصيبي سے يہ دعويٰ بھي حقائق کے منافي اور حقيقي صورت حال کے برعکس ہے۔ پاکستان کا آئين جس ميں ملک کے ہر شہري کے حقوق کي ضمانت دي گئي ہے، اسي آئين ميں ايک ترميم کے ذريعے ايک مذہبي اقليت کو غير مسلم قرار دينے کا عظيم کارنامہ بھي انجام ديا گيا ہے۔ اس طرح پاکستان شايد دنيا کا واحد ملک ہے جس ميں کسي عقيدہ کے ماننے والوں کے بارے ميں رياست نے يہ طے کيا ہے کہ وہ خود کو کس نام سے پکار سکتے ہيں۔ گويا پاکستان کا آئين ايک خاص گروہ سے اپنے عقيدہ کا فيصلہ کرنے کا اختيار بھي چھين رہا ہے۔
اسي پر اکتفا نہيں کيا گيا بلکہ سابق فوجي آمر جنرل ضيا الحق کے دور ميں ايسے قوانين بنائے گئے جن کے تحت اس اقليتي گروہ کے ليے نہ صرف خود کو مسلمان کہنا قابل سزا جرم قرار پايا ہے بلکہ وہ اپني عبادت گاہوں کو مسجد نہيں کہہ سکتے اور نہ ہي انہيں مسلمانوں کي مقدس کتاب قرآن کا مطالعہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس مذہبي اقليت کا کوئي رکن، جسے وزارت خارجہ کے تازہ ترين بيان کے مطابق مکمل مذہبي آزادي حاصل ہے، قرآن پڑھتے يا اس کا حوالہ ديتے پايا جائے تو اسے گرفتار کرکے سزا دي جاسکتي ہے۔ کسي مقدس کتاب کي عزت کروانے کا يہ محير العقل طريقہ اختيارکرنے کا شرف بھي پاکستان کو ہي حاصل ہے۔ حالانکہ دنيا بھر کے عقائد کے ماننے والے چاہتے ہيں کہ ان کي مقدس کتاب کا وسيع پيمانے پر مطالعہ کيا جائے اور اس عقيدہ کے نہ ماننے والے بھي اس سے روشني حاصل کرنے کي کوشش کريں۔ پاکستان ميں احمدي اقليت کے ساتھ تعصب، امتياز اور نفرت کي صورت حال ميں اس بنيادي اصول اور طريقہ کو بھي فراموش کرديا جاتا ہے۔
ناروے ميں حال ہي ميں ايک انتہا پسند گروہ کي طرف سے قرآن کو نذر آتش کرنے کي کوشش کي گئي تھي ۔ اس وقوعہ کي مذمت کرنے ميں پاکستاني حکومت کے ارکان اور وزارت خارجہ پيش پيش تھي۔ ناروے کے مسلمانوں نے نہ صرف اس پر ناپسنديدگي کا اظہار کيابلکہ اس واقعہ کے خلاف متعدد مظاہرے بھي کيے گئے۔ ان مظاہروں ميں ملک کي اعليٰ سياسي قيادت نے بھي بھرپور شرکت کي۔ اب متعدد مسلمان تنظيميں ناروے کے غير مسلم شہريوں ميں ہزاروں کي تعداد ميں قرآن پاک کے نسخے تقسيم کررہي ہيں تاکہ لوگ خود اس مقدس کتاب کو پڑھ کر رائے قائم کرسکيں۔ اس واقعہ اور اس پر رد عمل کي روشني ميں اگر پاکستان ميں غير مسلم قرار ديے گئے احمديوں کے ساتھ قرآن خواني کے حوالے سے روا رکھے جانے والے سلوک پر غور کيا جائے تو اندازہ کيا جاسکتا ہے کہ اہل پاکستان کا طرز عمل نہ صرف عقلي اصولوں کے خلاف ہے بلکہ تعصب اور مذہبي منافرت کا نمونہ بھي ہے۔
حال ہي ميں ايک خاتون سرکاري افسر نے مذہبي ہم آہنگي کے بارے ميں گفتگو کے دوران مختلف فرقوں کا ذکر کرتے ہوئے احمديوں کو بھي شامل کرليا اور کہا کہ اس ملک کے سب شہريوں کو ايک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے اتحاد و اشتراک مظاہرہ کرنا چاہيے۔ اس ايک فقرہ کي وجہ سے اس افسر کو نوجوان طالب علموں کي عدالت ميں اپنے عقيدہ کا ثبوت فراہم کرنا پڑا اور اس بات کا جواب دينا پڑا کہ اگر کوئي گروہ غير مسلم ہے تو اس کے ساتھ کيسے اتحاد کيا جاسکتا ہے۔ اگر کسي قوم کے نوجوان قرآن پر يقين رکھنے والے کسي عقيدہ کے بارے ميں اس قدر سخت رويہ رکھتے ہوں کہ اس کے ماننے والوں کے ساتھ کسي بھي سطح پر مل کر چلنے کا کوئي فعل توہين مذہب ميں شمار کيا جائے تو ديگر مذہبي اقليتوں کے بارے ميں اس قوم کے تعصبات کا اندازہ کرنا مشکل نہيں ہونا چاہيے۔ سندھ ميں ہندوؤں اور پنجاب ميں عيسائي اقليتوں کو جس صورت حال کا سامنا ہے، اس کے دستاويزي ثبوت انساني حقوق کي متعدد تنظيموں کي رپورٹوں ميں ديکھے جاسکتے ہيں۔
آئين ميں ايک گروہ کو غير مسلم قرار دينے کے علاوہ ملک کے بلاسفيمي (blasphemy)قوانين ميں بھي جنرل ضيا ءکے دور ميں 295 اے، بي اور سي کي جو شقيں شامل کي گئي ہيں، ان کے تحت کسي بھي شخص پر توہين مذہب يا توہين رسالت کا الزام عائد کرکے اسے طويل عرصہ کے ليے قيد کيا جاسکتا ہے، جس طرح ملتان کے استاد جنيد حفيظ کو 2013ءسے قيد ميں رکھا گيا ہے يا مشال خان کي طرح مشتعل طالب علموں کے ہاتھوں قتل کروايا جاسکتا ہے۔ بعد ميں کسي عدالت کو مشال خان کے ان قاتلوں کے بارے ميں مناسب ثبوت نہيں ملتے جو اسے ايک گروہ کي صورت ميں زد و کوب کرکے ہلاک کرنے ميں ملوث تھے۔ اور نہ ہي ملک کا عدالتي نظام اس وقت متحرک ہوتا ہے جب ايک زيريں عدالت سے بري ہونے کے بعد ان نوجوانوں کا ‘ہيرو’کي طرح استقبال کيا جاتا ہے اور اس موقع پر انہيں ‘محافظ رسالت’کا خطاب بھي عطا ہوتا ہے۔ ملک ميں جب توہين مذہب کے ايسے يک طرفہ اور متعصبانہ قوانين موجود ہوں اور ان کے خلاف بات کرنا اتنا حساس معاملہ ہو کہ اس پر صوبے کے گورنر کا قتل بھي باعث ثواب و رحمت سمجھا جائے، وہاں اقليتوں کے مساوي حقوق کا تصور بھي ممکن نہيں’’۔
بحوالہ:https://www.humsub.com.pk/290381/syed-mujahid-ali-1320/
(مرسلہ۔طارق احمدمرزا،آسٹريليا)
٭…٭…٭