حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کا دلنشیں تذکرہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍جنوری 2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ،سرے،یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے10؍ جنوری 2020ء کو مسجدمبارک ، اسلام آباد، ٹلفورڈ، سرے،یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیضان احمد راجپوت صاحب کے حصہ میں آئی۔
تشہد،تعوذاورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گذشتہ خطبے میںبیان فرمودہ جائزے کے مطابق وقفِ جدیدکی وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کی مجالس میں پہلی پوزیشن کی درستی فرمائی۔ پہلی پوزیشن پر اسلام آباد جماعت نہیں، بلکہ آلڈرشا ٹ جماعت ہے۔اسلام آباد کی دوسری پوزیشن ہے۔
اس کے بعد حضورِانور نے 27؍دسمبر کے خطبے میں بیان فرمودہ حضرت سعد بن عبادہؓ کے تعارف کے متعلق بھی ایک درستی فرمائی۔اس درستی کےبعدحضور ِانور نے گذشتہ سے پیوستہ خطبے میں مذکور حضرت سعد بن عبادہؓ کے ذکر کو جاری رکھتے ہوئے مزید تفاصیل پیش فرمائیں۔
غزوۂ خندق میں طویل محاصرے کے باعث مسلمانوں کی تکالیف اور پریشانی کودیکھتے ہوئے آنحضرتﷺ نے عیینہ بن حصن کو مدینے کی ایک تہائی کھجوراس شرط پر دینے کی پیش کش پر غور کیا کہ وہ قبیلہ غطفان کے لوگوں کو واپس لےجائے۔ اس معاملے میں آپؐ نے حضرت سعدبن عبادہؓ اور حضرت سعد بن معاذؓ سے مشورہ طلب کیا۔دونوں اصحاب نے اس تسلّی کے بعدکہ یہ خدائی فرمان نہیں، آنحضورﷺکی اس تجویز پر یک زبان ہوکر عرض کیا کہ جب ہم نے شرک کی حالت میں کبھی کسی دشمن کو کچھ نہیں دیا تو اب مسلمان ہوکرکیوں دیں۔بخدا ہم تلوار کے سوا انہیں کچھ نہیں دیں گے۔آنحضورﷺ کہ جنہیں زیادہ فکر انصار کی تھی، اس جواب سے بے حد خوش ہوئے۔
ابوسفیان کی ہدایت پر قبیلہ بنو نضیر کا یہودی رئیس حیی بن اخطب، قبیلہ بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد سے ملااور اسے اسلام کی عنقریب تباہی کا ایسا یقین دلایا کہ وہ آنحضورﷺ کے ساتھ کیے ہوئے عہدو پیمان سے پِھر گیا۔جب آنحضورﷺ کو قبیلہ بنو قریظہ کی اس خطرناک غدّاری کا علم ہوا تو آپؐ نے خفیہ طور پر حضرت زبیربن العوامؓ اور پھر حضرت سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ کو کعب کے پاس بھجوایا۔ جب یہ اصحاب کعب سے ملے تو اس نے نہایت مغرورانہ انداز میں آنحضورﷺ سے کیے جانے والے عہد سے انکار کردیا۔
غزوہ بنو قریظہ کے موقعے پر حضرت سعد بن عبادہؓ نے کئی اونٹوں پر کھجوریں لاد کر رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کےلیے بھجوائیں۔غزوۂ موتہ 8؍ہجری میں حضرت زیدؓ شہید ہوگئے تو نبی کریمﷺ اُن کے اہلِ خانہ سے تعزیت کے لیے تشریف لے گئے۔زیدؓ کی بیٹی روتی ہوئی آپؐ کے پاس آئی جس پر آپؐ بھی بہت زیادہ شدّت سے رونے لگے۔سعدبن عبادہؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہؐ !یہ کیا؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ ایک محبوب کی اپنے محبوب سے محبت ہے۔
فتح مکّہ کےموقعے پر جب قریش کو رسول اللہﷺ کی روانگی کی اطلاع ملی تو ابوسفیان،حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء آنحضورﷺ کی جستجو میں مکّے سے نکلے۔ مسلمانوں کے عظیم الشان لشکر کے نظّارے نے ان تینوں کو خوب مرعوب کیا۔ اسی دوران رسول اللہﷺ کے پہرےداروں نے انہیں گرفتار کرکے آپؐ کی خدمت میں پیش کردیا۔ابو سفیان نے اسلام قبول کرلیا۔ اس واقعے کے متعلق حضورِ انور نے سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی رقم فرمودہ تفصیل پیش فرمائی۔ جس کے مطابق اسلامی لشکرجب مکّہ کی طرف بڑھا تو رسول کریم ﷺ نے حضرت عباسؓ کو حکم دےکر ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کو ایک سڑک کے کنارے کھڑا کروادیا تاکہ وہ اسلامی لشکراور اس کا جذبۂ فدائیت مشاہدہ کرسکیں۔جب ان کے سامنے سے قبائلِ عرب گزرنا شروع ہوئے تو ان افراد کے دل خداتعالیٰ کے عطاکردہ رعب سے مرعوب ہوتے چلےگئے۔ وہ تمام قبائل جن کی اسلام دشمنی کے باعث کفّارِ مکّہ کو امید تھی وہ اسلام کے خلاف قریش کی مدد کریں گے۔ آج وہ سب قبائل،رسولِ خداﷺ کےلیے اپنے خون کا آخری قطرہ بہانے کا عزم لیے، اسلام کی اعانت میں صف آرا کھڑےتھے۔اس موقعے پر انصار کے دستے کی قیادت حضرت سعد بن عبادہؓ کر رہے تھے۔ آپؓ نے ابوسفیان کو دیکھ کرکہا کہ آج خداتعالیٰ نے ہمارےلیے مکّےمیں تلوارکے زور سے داخل ہونا حلال کردیا ہے۔ آج قریشی قوم ذلیل کردی جائے گی۔ جب رسول اللہﷺ ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو اس نے کہا کیا آپؐ نے اپنی قوم کے قتل کی اجازت دےدی ہے؟آپؐ نے فرمایا ابوسفیان! سعد نے غلط کہا ہے۔ آج رحم کا دن ہے۔ آج اللہ تعالیٰ قریش اور خانہ کعبہ کو عزت بخشنے والا ہے۔پھرآنحضرتﷺ نے ایک آدمی کو سعدؓ کے پاس بھجوایا اور فرمایاکہ جھنڈا اپنے بیٹے قیس کودےدو۔ اس طرح سعدؓ کے ہی بیٹے کو کمانڈر بناکر آپؐ نے مکہ والوں کا دل بھی رکھ لیا اور انصار کےدلوں کو بھی صدمہ پہنچنے سے محفوظ رکھا۔
غزوۂ حنین سے حاصل ہونے والے اموالِ غنیمت آپؐ نے مہاجرین میں تقسیم فرمادیے۔ انصار نے اس بات کو محسوس کیااور حضرت سعد بن عبادہؓ نے آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس بات کا اظہار فرمایا۔آنحضرتﷺ نے تمام انصارکو جمع کروایا اور ان سے خطاب فرمایا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اے انصار کے گروہ! کیا جب مَیں تمہارے پاس آیا تو تم گم راہی میں نہ پڑے ہوئے تھےکہ اللہ نے تمہیں ہدایت سے سرفرازفرمایا۔ تم مالی تنگی کا شکار، اور ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ اللہ نے تمہیں مال دار بنادیا اور ایک دوسرے کی محبت تمہارے دلوں میں ڈال دی۔انصار نے آپؐ کے دریافت فرمانے پر ان باتوں کی تصدیق کی۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ بخدا اگر تم چاہتے تو یہ کہہ سکتے تھے کہ آپؐ ہمارے پاس اس حال میں آئے تھے کہ آپؐ کوآپ کی اپنی ہی قوم نے جھٹلادیا تھا،اور اپنے وطن سے نکال دیا تھا۔ ہم نے آپؐ کی تصدیق کی۔اگر تم ایسا کہتے تو تمہاری وہ بات سچی ہوتی۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اے انصار کے گروہ! کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ لوگ تو بھیڑ بکریاں اور اونٹ لےکر جائیں اور تم رسول اللہ(ﷺ) کو لےکر اپنے گھروں میں لوٹو؟ آپؐ نے خدا کی قسم کھا کر فرمایاکہ اگر ہجرت نہ ہوتی تو مَیں انصار میں سے ایک شخص ہوتا۔اگر لوگ ایک وادی میں چل رہے ہوں اور انصار دوسری وادی میں، تو مَیں انصار کی وادی کو اختیار کروں گا۔ اے اللہ! انصار پر رحم فرما اور انصار کے بیٹوں پر اور انصار کے بیٹوں کے بیٹوں پر۔ یہ سن کر وہاں موجود تمام انصار رونے لگے حتیٰ کہ اُن کی داڑھیاں اُن کے آنسوؤں سے تر ہوگئیں۔ انصار نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ ہم تقسیم اور حصّے کے لحاظ سے اس پر راضی ہیں اور آپؐ ہمارے لیے کافی ہیں۔
حجّۃ الوداع کےموقعے پر آپؐ کی سواری گم ہوگئی جو حضرت صفوان بن معطل قافلے کے پیچھے آتے ہوئےلے آئے۔جب حضرت سعد بن عبادہؓ کو حضورِاکرمﷺ کی سواری کی گم شدگی کی خبر ملی تو وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں سامان سے لدے ہوئے اونٹ کے ساتھ حاضر ہوئےاور یہ اونٹ آپؐ کی خدمت میں پیش کرنا چاہا۔ آنحضورﷺ کی اونٹنی چونکہ مل چکی تھی چنانچہ آپؐ نے برکت کی دعاکے ساتھ یہ اونٹ واپس کردیا ۔
ایک مرتبہ حضرت سعدبن عبادہؓ بیمار ہوئے تو آپؐ عیادت کےلیے تشریف لے گئے۔ جب آپؐ وہاں پہنچے تو انہیں گھر والوں کے جمگھٹ میں پایا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ فوت ہوگئےہیں؟ گھر والوں کے بتانے پر کہ فوت نہیں ہوئے، آپؐ نے ان کی تکلیف دہ حالت دیکھی تو رو پڑےاورفرمایا کہ اللہ آنکھ کے آنسو نکلنے یا دل غم گین ہونے پر عذاب نہیں دیتا ۔ پھر زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی وجہ سے عذاب دے گا یا رحم کرےگا یعنی نوحہ کرنے کی وجہ سے۔
ایک مرتبہ حضرت جابر بن عبداللہؓ کے والد نے اُن سے حریرہ تیار کروایا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھجوایا۔آپؐ نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ گوشت ہے؟ جابر نے نفی میں جواب دیا۔ جب جابر اپنے والد کے پاس واپس لوٹے تو ان کے والد نے آنحضورﷺ سے ہونے والی گفتگو کے متعلق پوچھا۔ آپؓ نے جب بتایا کہ آنحضورﷺ نے یہ دریافت فرمایا تھا کہ کیا یہ گوشت ہے؟ تو جابر کے والد نے ایک بکری ذبح کرواکے اس کاگوشت بھنوایا اور اسے رسول اللہﷺکی خدمت میں پیش کردیا۔ اس پر آنحضرتﷺ نے دعا دی کہ اللہ تعالیٰ انصار کو ہماری طرف سے جزائے خیر دے،بالخصوص عبداللہ بن عمرو بن حرام اور سعد بن عبادہؓ کو۔
حضرت ابواسیدؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ انصار کے گھرانوں میں سے بہترین بنو نجارپھر بنو عبداشہل پھر بنو حارث اور پھر بنو ساعدہ اور انصار کے تمام گھرانوں میں بھلائی ہے۔ یہ سن کر حضرت سعد بن عبادہؓ بولے کہ مَیں سمجھتا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے انہیں ہم سے افضل قرار دیا ہے۔ اس پر ان سے کہا گیا کہ آنحضرتﷺ نے آپ کو بھی تو بہت سے لوگوں پر فضیلت دی ہے۔
حضرت سعد بن عبادہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے انہیں ایک قبیلے سے صدقات کی وصولی پر مقرر کرتے ہوئے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ دیکھنا قیامت کے دن اس حال میں نہ آنا کہ تم اپنے کندھے پر کسی جوان اونٹ کو لادے ہوئے ہو اور وہ چیخ رہا ہو۔ آپؓ نے عرض کیا کہ آپؐ یہ ذمہ داری کسی اَور کے سپرد فرمادیں۔
آنحضرتﷺ کے دور میں چھ انصار نے قرآن کریم جمع کیا تھا جن میں حضرت سعد بن عبادہؓ بھی شامل تھے۔
خطبے کے آخر میں حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت سعدؓ کا تھوڑا سا ذکر باقی ہے جو ان شاء اللہ آئندہ بیان ہوگا۔
٭…٭…٭