متفرق مضامین

آداب مقاماتِ مقدسہ

(محمد کاشف خالد۔مربی سلسلہ قادیان)

دنیا میں جتنے انبیاء، خلفا، اولیاء اللہ وغیرہ گزرے ہیں اُن سے منسلک مقامات بھی عوام الناس کے لیے بابرکت اور قابل تعظیم ٹھہرے ہیں ۔یعنی ایسے مقامات جہاں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں نے عبادت الٰہی اور تبلیغ دین میں اپنے لَیل و نہار صَرف کیے ہوتے ہیں ۔یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ مقامات اپنی ذات میں مقدس یا غیر مقدس نہیں ہوتے بلکہ ان میں ظاہرہونے والا ایک واقعہ یا واقعات اُسے مقدس، تاریخی اور یادگار بنا دیتے ہیں۔ مکہ مکرمہ کے ارد گرد بہت سی غاریں تھیں لیکن وہ غار جس میں خدا کا پیارا رسولؐ عبادات بجا لایا کرتا تھا اور وہ غار جس میں اس نے ہجرت کے وقت پناہ لی، قیامت تک کے لیے مقدس مقامات میں شامل ہو گئیں۔ وہ اپنی مٹی اور پتھر کی وجہ سے مقدس نہ بنیں بلکہ اُن میں رونما ہونے والے واقعات نے انہیں معزز بنا دیا ۔
مقدس مقامات وہ جگہیں ہوتی ہیں جن سے انسان کی روح کا تعلق ہوتا ہے اور اس کی روح اس وقت تک ایک لمحہ کے لیے بھی چین نہیں لے سکتی جب تک وہ انہیں پا نہ لے۔ اور یہ مقدس مقامات خواہ کسی مذہب یا فرقے کے ہوں ہر ایک کا ایک ہی جذبہ ہوتا ہے ۔

شعائر اللہ

خدا کے پاک کلام قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کا جلال ظاہر ہونے والے مقدس و مطہر مقامات کو ‘‘شعائر اللہ’’ کا لقب عطا کیا ہے ۔اور ایک حقیقی مومن کی یہ نشانی بتائی کہ وہ ان شعائر اللہ کا صدق دل کے ساتھ ادب و احترم کرتا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

ذٰلِكَ وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوبِ (الحج: 33)

یہ (اہم بات ہے ) اور جو کوئی شعائر اللہ کو عظمت دے گا یقیناً یہ بات دلوں کے تقویٰ کی علامت ہے ۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

‘‘جو شخص اُن مقامات کا ادب کرتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہار ہوا ہو …توچونکہ یہ ادب اُس کے دل کے تقویٰ اورخشیت الٰہی کی وجہ سے ہوگا اس لیے طبعی طور پر اُس کی دلی پاکیزگی کا اس کے ظاہر پر بھی اثر پڑے گا ۔ اور اس طرح وہ ظاہری اور باطنی دونوں طور پر نیکیوں سے آراستہ ہو جائے گا۔’’

ادب یا شرک ؟

یہ ایک طبعی امر ہے کہ انسان اپنے محبوب سے محبت کے باعث اس سے منسلک یادگاروں سے بھی محبت کرتا ہے، ان کو دیکھنا اور بار بار ان کا دیدار کرنا چاہتا ہے اور ان کا ادب و احترام بصدق دل بجا لاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ زندہ قوموں نے اپنےاور خدا کے محبوب بزرگان کی یادگاروں کو محفوظ رکھا اور اپنی آنے والی نسلوں اور اولادوں کو ان سے متعارف کروایا۔

کوئی یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ جس طرح ایک مشرک اپنے بتوں کا ادب و احترام کرتا ہے یا ان کو وسیلہ بنا کر حقیقی خدا کی عبادت کرنے کا دعویٰ کرتا ہے ، اسی طرح مسلمان بھی خانہ کعبہ یعنی بیت اللہ یا دیگر شعائر اللہ کا بے حد ادب و احترام کرتے ہیں اور مٹی سے بنی ان عمارات کو اہمیت دیتے ہیں ۔ تو کیامٹی سے بنے بتوں کی عبادت اورمٹی سے بنے ایک گھر کی طرف منہ کرکے عبادت کرنے میں کوئی فرق نہیں؟
درحقیقت اُن کی یہ بات تب صحیح مانی جا سکتی ہے جب مسلمان اپنی عبادت کے لیے ان عمارات کا محتاج ہوتا ، یا اس کا یہ ایمان ہوتاکہ یہ عمارتیں اس کی حاجات پوری کرنے کی طاقت رکھتی ہیں ۔ لیکن ایسا نہیں ہے ۔ مسلمانوں کے دلوں میں جو شعائر اللہ کی عظمت ہے وہ عین خدا کے حکم کے تحت ہے ۔ (الحج : 33) دلوں کے حال کو کسی صورت دکھایا تو نہیں جاسکتا لیکن لفظوں میں اسے ضرور ڈھالا جا سکتا ہے ۔ اور ایک مسلمان کے دل میں جو شعائر اللہ کے ادب و احترم کا جذبہ ہوتا ہے وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے۔ آپؓ نے حجرِ اسود کے حوالہ سے فرمایا:

‘‘ میں جانتا ہوں کہ تُو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع۔ اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھتا تو تجھے ہر گز بوسہ نہ دیتا ۔’’

(صحیح بخاری، کتاب المناسک، باب ما ذکر فی الحجر الاسود)

پس ہر وہ مقام جسےآنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ثانیہ کے مظہر حضرت امام مہدیؑ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا ، وہ بھی تاریخی بن گئی ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عاشقِ صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اُس مقدس زمین کا حوالہ دیتے ہوئے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کےمبارک قدم پڑے فرماتے ہیں:

یُحِبُّ جَنَانِی کُلَّ اَرْضٍ وَ طئْتَھَا

فَیَالَیْتَ لِیْ کَانَتْ بِلَادَکَ مَوْلدَا

میرا دل اس زمین کی محبت سے بھر ہوا ہے جس پر رسول اللہﷺ کے قدم مبارک پڑے ۔ کاش کہ میری پیدائش آپﷺ کے وطن میں ہوئی ہوتی۔

(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 93)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 1924ء میں جب یورپ تشریف لے گئے تو وہاں آپؓ کو قادیان کی مقدس بستی کی یاد آئی جوکہ آپؓ کےمحبوب والدحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے وجود سے منسلک تھی ۔ آپؓ نے اپنے محبوب کے مقام کی محبت کو اشعار میں یوں بیان فرمایا :

خیال رہتا ہے ہمیشہ اس مقام پاک کا

سوتے سوتے بھی کہہ اُٹھتا ہوں ہائے قادیاں

گلشن احمد کے پھولوں کی اُڑا لائی جو بُو

زخم تازہ کر گئی بادِ صبائے قادیاں

نہ صرف اپنے محبوب کے مقام سے دُور جانے پر ہی ایک عاشق کو اس کی یاد آتی ہے بلکہ جب کوئی عاشق کافی مدت کے بعد مقام محبوب کا دیدار کرتا ہے تو اس کے جذبات نا قابل بیان ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی جذبات کو حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اپنے اس خطبہ جمعہ میں بیان کیا جب آپ1991ء میں پہلی مرتبہ بطور خلیفہ قادیان کی بستی میں تشریف لائے تھے ۔فرمایا:

‘‘یہ وہ دن ہیں کہ جب سے ہم یہاں آئے ہیں خواب سا محسوس ہو رہا ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے خواب دیکھ رہے ہیں حالانکہ جانتے ہیں کہ یہ خواب نہیں بلکہ خوابوں کی تعبیر ہے۔ایسے خوابوں کی تعبیر جو مدّتوں، سالہا سال ہم دیکھتے رہے اور یہ تمنا دل میں کلبلاتی رہی ، بلبلاتی رہی کہ کاش ہمیں قادیان کی زیارت نصیب ہو ۔ کاش ہم اس مقدّس بستی کی فضا میں سانس لے سکیں جہاں میرے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے کامل غلام مسیح موعود علیہ السلام سانس لیا کرتے تھے ۔ جب میں یہاں آیا اور میں نے اس بات کو سوچا کہ ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ ایسی فضا میں دوبارہ سانس لیں گے۔ تو مجھے بچپن میں پڑھا ہوا سائنس کا ایک سبق یاد آ گیا۔ جس میں یہ بتانے کے لیے کہ جتنے ایک انسان کے سانس میں ایٹم (Atom) ہوتے ہیں ان کی تعداد کتنی ہے۔ وہ مثال دیا کرتے تھے کہ سیزر نے جو آخری دفعہ مرتے وقت ایک سانس لیا تھا اس سانس میں اتنے ایٹم تھے کہ اگر وہ برابر ساری کائنا ت میں ، ساری فضا میں تحلیل ہو جائیں اور برابر فاصلے پر چلے جائیں تو ہر انسان جو سانس لیتا ہے اس کے ایک سانس میں سیزر کے سانس کا ایک ایٹم بھی ہوگا ۔ تو جب میں نے سوچاتو مجھے خیال آیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے یہاں لکھو کھہا مرتبہ سانس لیے ، یہ فضا تو آپؑ کے سانسوں کے ان اجزا سے بھری پڑی ہے اور ہر سانس میں خدا جانے کتنے ہزاروں، لاکھوں ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سانس کے ایٹم ہوں گے جو آج ہم بھی Inhaleکرتے ہیں ۔’’

(خطبہ فرمودہ 20؍دسمبر 1991ء۔مطبوعہ خطبات طاہر جلد 10 صفحہ 982)

پس حقیقت یہی ہے کہ ان مقامات سے محبت صرف اس پیارے مکین کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوا تھا اور ان مقامات سے اُس کی یادیں وابستہ ہیں ۔ مقام محبوب بھی ایک عاشق صادق کو محبوب ہوتا ہے ۔ ان مقامات کی خاک کو خدا کے پیارے وجودوں کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ خدا کے پیاروں کی سانسیں ان کی فضاؤں اور ہواؤں کو معطر اور مطہر بناتی رہیں۔

اولیاء اللہ کے مقامات بابرکات

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ہمیں مقدس مقامات کے بابرکت ہونے کے حوالہ سے ولی اللہ کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘ اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں قبول کرتا ہے ۔ اور نہ صرف اس کی دعائیں قبول کرتا ہے بلکہ اس کے اہل و عیال ، اس کے احباب کے لیے بھی برکات عطا کرتا ہے ۔ اور صرف یہاں تک ہی نہیں بلکہ اُن کے مقاموں میں برکت دی جاتی ہے جہاں وہ ہوتے ہیں اوراُن زمینوں میں برکت رکھی جاتی ہے اور ان کپڑوں میں برکت دی جاتی ہے جن میں وہ ہوتے ہیں۔’’

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 595 ۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ انگلستان)

اسی طرح آپؑ کے الہامات سے بھی ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ خدا کے پیاروں سے تعلق رکھنے والی اشیاء بھی بابرکت ہو جاتی ہیں:

‘‘ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے’’

(تذکرہ ، صفحہ 10 مطبوعہ اکتوبر 1969ء)

’’ و اعطی لک برکاتٍ حتی یتبرک الملوک بِثیابِکَ ‘‘

(تذکرہ ، صفحہ 11 مطبوعہ اکتوبر 1969ء)

دہلی میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام خواجہ بختیار کاکی ؒکے مزار پرتشریف لے گئے اور وہاں ایک لمبی دعا کروائی۔ واپس آتے ہوئے آپ ؑ نے فرمایا کہ

‘‘بعض مقامات نزولِ برکات کے ہوتے ہیں اور یہ بزرگ چونکہ اولیاء اﷲ تھے اس واسطے ان کے مزار پر ہم گئے۔ ان کے واسطے بھی ہم نے اﷲ تعالیٰ سے دعا کی اور اپنے واسطے بھی اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی اور دیگر بہت دعائیں کیں۔ لیکن یہ دو چار بزرگوں کے مقامات تھے جو جلد ختم ہو گئے۔اور دہلی کے لوگ تو سخت دل ہیں۔ یہی خیال تھا کہ واپس آتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے ہوئے الہام ہوا۔ دست تو دعائے تو ترحم ز خدا۔’’

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 528۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

عبرت کے مقامات کی سیراور ایک مومن کی قلبی حالت

جہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو عبرت ناک مقامات کی سیر کرنے کا حکم دیا ہےوہیں دوسری طرف شارع قرآن حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں اپنے قول و عمل سے سمجھا دیا کہ ایسے مقامات کو دیکھنے پر ایک حقیقی مومن کی دلی کیفیت کیا ہونی چاہیے اور اسے کس زاویے سے ان کھنڈرات میں محبت و خوف الٰہی کےدلی جذبات اجاگر کرنے چاہئیں۔ چنانچہ اس حوالے سےحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کا ایک واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں:

‘‘ثمود قوم کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر اپنے لیے عمارتیں بنایا کرتی تھی۔ اس قوم کا دار الحکومت حجر تھا جو مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان ہے اور اس وادی کو جس میں حجر واقعہ ہے وادیٔ قریٰ کہا جاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب غزوۂ تبوک پر جا رہے تھے اور ہزاروں صحابہؓ آپ کے ساتھ تھے۔ چلتے چلتے راستہ میں حجر شہر آیا اور وہاں تھوڑی دیر کے لیے آپ نے پڑاؤ کیا۔ صحابہؓ نے یہ دیکھا تو انہوں نے اپنے آٹے نکالے اور گوندھ کر کھانا پکانے لگ گئے۔ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرمایا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تھا اس لیے یہاں کا پانی کوئی نہ پیئے اور نہ کسی اَور مصرف میں لائے ۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا نَزَلَ الْحِجْرَ فِيْ غَزْوَةِ تَبُوْكَ اَمَرَهُمْ اَنَّ لَا يَشْرَبُوْا مِنْ بِئْرِهَا وَلَا يَسْتَقَوْا مِنْهَا فَقَالُوْا قَدْ عَجِنَّا مِنْهَا وَاسْتَقَيْنَا فَاَمَرَهُمْ اَنْ يَّطْرَحُوْا ذٰلِكَ الْعَجِيْن وَيُهْرِيْقَوْا ذٰلِكَ الْمَاءَ۔

(بخاری کتاب الانبیاء)

یعنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم غزوۂ تبوک کو جاتے ہوئے حجر مقام پر اُترے تو آپؐ نے صحابہ کو حکم دے دیا کہ نہ تو وہاں کے کنووں کا پانی خود پئیں اور نہ پینے کے لیے ساتھ لیں۔ تو لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ ہم نے تو اس پانی سے آٹے گوندھ لیے ہیں اور پانی بھی لے لیا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے گوندھے ہوئے آٹے کو پھینکنے اور جمع شدہ پانی کو گرانے کا حکم دے دیا۔
دیکھو اللہ تعالیٰ کے انبیاء خدا تعالیٰ کے غضب سے کس قدر ڈرا کرتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ وہ لوگ مر گئے جن پر غضب نازل ہوا تھا، وہ شہر اُجڑ گیا جو اُس غضب کا نشانہ بنا تھا۔ سالوں کے بعد سال اور صدیوں کے بعد صدیاں گزرتی چلی گئیں مگر اس قدر مدت دراز گزرنے کے باوجود رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حالت تھی کہ وہ آج بھی اس مقام پر خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوتے دیکھ رہے تھے۔ آج بھی اس مقام پر خدا تعالیٰ کے فرشتوں کو لعنت کرتے دیکھ رہے تھے۔ آپؐ نے اتنا بھی پسند نہ کیا کہ اُس جگہ کے پانی سے گندھا ہوا آٹا صحابہ استعمال کریں۔ آپؐ نے فوراً حکم دیا کہ اپنے گندھے ہوئے آٹے کو پھینک دو، سواریوں پر چڑھ جاؤ اور فوراً اس مقام سے نکل جاؤ کہ یہ وہ مقام ہے جو خدا تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنا تھا۔’’

(تفسیر کبیر جلد8 صفحہ 145-245)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں:

‘‘تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم کی طرف دیکھو اور غور کرو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے خدا تعالیٰ کے غضب کے مقام کو کتنا بُرا جانا اور کس طرح اُس سے نفرت کا اظہار کیا کہ گندھا ہوا آٹا پھینکوا دیا۔ اور یہ پسند نہ کیا کہ اُس آٹے کا ایک لقمہ تک کسی صحابی کے اندر جائے حالانکہ وہ ایام سخت تنگی کے تھے۔ صحابہ کی مالی اور اقتصادی حالت سخت کمزور تھی۔ خود صحابہ بیان کرتے ہیں کہ ہم بعض دفعہ کھجوروں کی گٹھلیاں کھا کھا کر گزارہ کیا کرتے تھے۔ اس تنگی کے باوجود رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے منوں آٹا پھینکوا دیا اور اس بات کی ذرا بھی پروا نہ کی کہ لشکر کا کیا بنے گا۔ اس غزوہ میں تین ہزار صحابی آپ کے ساتھ تھا۔ اگر فی کس ایک پاؤ آٹے کا بھی اندازہ لگایا جائے تو قریباً آٹھ سو سیر یا بیس من کے قریب آٹا ایسے زمانہ میں جبکہ اُن کے پاس کھانے پینے کے وافر سامان نہیں ہوا کرتے تھے حکماً پھینکوا دیاگیا۔ ’’

(تفسیر کبیر جلد8 صفحہ245)

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوے پر چلتے ہوئے ہمیں اپنی حالتوں پر غور کرنا چاہیے کہ ہمارے دلوں میں خدا کی سزا کا خوف کس قدرہے۔جب بھی ہم ایسے قابل عبرت مقام پر جائیں تو ہمارے دل خدا کے خوف سے لرزاں ہونے چاہئیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کےدرج ذیل الفاظ اس ضمن میں اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہیں ۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں:

لَا تَدْخُلُوْا مَسَاكِنَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ اِلَّا اَنْ تَکُوْنُوْابَاکِیْنَ اَنْ یُّصِیْبَکُمْ مِثْلَ مَا اَصَابَھُمْ

(صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبیاء ، باب قول اللّٰہ تعالیٰ: الی ثمود اخاھم صالحاً)

یعنی ان لوگوں کی بستیوں میں نہ داخل ہو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، بجز اس حالت میں کہ گریہ میں ہو۔ کہیں تمہیں بھی وہی مصیبت نہ پہنچے جو اُن کو پہنچی تھی۔

بابرکت مقامات کا ادب و احترم

ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ مقامات جہاں پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کا کلام لے کر اور بے شمار برکات کے ساتھ نازل ہوئے ہوں ، جہاں انبیاء، صلحاء، اولیاء نے دعاؤں میں راتیں گزاری ہوں اور دین کی خدمت کرتے ہوئے دن گزارے ہوں ، جہاں خدا کی رحمت کے نشان ظاہر ہوئے ہوں ہم ان مقامات کی بہت عزت کیا کریں اور اِن مقامات کی برکتوں سے حصہ لینے کے لیے ان سے دلی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے خدا کے حضور سر بسجود ہوں ۔

آنحضرت ﷺ کی سیرت سے واضح ہوتا ہے کہ آپؐ  جب کبھی ایسے بابرکت مقام کا رُخ فرماتے تو آپ کے دل میں اس مقام کے لیے بے انتہا ادب ہوتا ۔ اس جگہ جا کر آپﷺ کے پاک و صاف دل پر خدا تعالیٰ کی خشیت طاری ہو جاتی اور سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے آپﷺ کسی اَور طرف توجہ نہیں فرماتےتھے ۔چنانچہ اسلام میں ایسے بابرکت مقامات میں سے اعلیٰ درجہ کا مقام مساجد کو حاصل ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں۔اس حوالہ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

‘‘مساجد خدا کا گھر کہلاتی ہیں اور مساجد وہ مقام ہیں جو خدا تعالیٰ کی عبادت کے لیے مخصوص ہیں ۔مگر لوگ جب مساجد میں آتے ہیں تو وہ ہزار قسم کی بکواس کرتے ہیں۔ آپس میں دنیاوی معاملات پر لڑتے جھگڑتے ہیں۔ایک دوسرے کو جوش میں گالیاں بھی دے دیتے ہیں ۔ غیبت بھی کر لیتے ہیں اور انہیں ذرا بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ خدا کے گھر میں بیٹھ کر کس قسم کی شرم ناک حرکات کر رہے ہیں۔ انہیں تو چاہیے تھا کہ وہ جب تک مساجد میں رہتے اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اُن کی زبانیں تر رہتیں مگر وہ بجائے ذکر الٰہی کرنے کے دنیوی امور میں اپنے قیمتی وقت کو ضائع کرکے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے مرتکب بن جاتے ہیں۔’’

(تفسیر کبیر جلد8 صفحہ 245)

پس ہمیں اس بات کی طرف توجہ کرنی چاہیے کہ مساجد کا ادب و احترام کس حد تک ایک مومن کے ایمان کا حصہ ہے۔ حضور ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیےبہترین نمونہ ہے ۔ آپﷺ کے مبارک ارشادات ہماری رہ نمائی فرماتے ہیں کہ مسجد کے آداب کیا ہیں جنہیں ہم بچپن ہی سے سنتے چلے آئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کی نافرمانی کا لازمی نتیجہ انسان کے دیگر اعمال اور اس کی سوچ و کردار پر بھی پڑتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو احکام الٰہی پر کاربند رہنے اور انہیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

زیارت مقامات مقدسہ اور ایک مومن کی قلبی حالت

بابرکت مقامات میں انسان جتنا بھی وقت گزارے اس کے روحانی معیار میں ترقی کا موجب ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عاشق صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام قادیان میں مبعوث ہوئے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ ؓکی قادیان کی زیارت پر کیا کیفیت ہوتی تھی؟

حضرت میاں محمد عبد اللہ سنوری صاحب ؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے ایک دفعہ حضرت صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ناقل)سے عرض کیا کہ حضور جب میں قادیان آتا ہوں… میں دیکھتا ہوں کہ یہاں وقتاً فوقتاً یکلخت مجھ پر بعض آیاتِ قرآنی کے معنی کھولے جاتے ہیں اور میں اس طرح محسوس کرتا ہوں کہ گویا میرے دل پر معانی کی ایک پوٹلی بندھی ہوئی گرا دی جاتی ہے ۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہمیں قرآن کے معارف دے کر ہی مبعوث کیا گیا ہے اور اسی کی خدمت ہمارا فرض مقرر کی گئی ہے ۔ پس ہماری صحبت کا بھی یہی فائدہ ہونا چاہیے۔

( سیرۃ المہدی جلد اوّل روایت نمبر 111، صفحہ 09)

اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے ایک جلیل القدر صحابی جو کابل افغانستان سے ایک لمبا اور تکلیف دہ سفر طے کرکے قادیان کی زیارت کے لیے آئے اور مخالفت کے باوجود اسی بستی کو اپنا گھر بنانے کے مشتاق تھےیعنی حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید ؓ۔ آپ نے فرمایا :

‘‘قادیان شریف میں وہی آرام سے رہتا ہے جو درود شریف بہت پڑھتا ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ کے اہلِ بیت سے محبت رکھتا ہے ۔ مسجد مبارک میں اللہ تعالیٰ نے مکہ اور مدینہ کی برکتیں نازل کی ہیں ۔’’

(الفضل انٹرنیشنل 11 جولائی تا 71 جولائی 3002ء)

پس وہ بستی جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے اور وہ بستی جہاں آپﷺ کے غلام ِصادق کا ظہور ہوا، دونوں ہی اس کرۂ ارض پر برکات الٰہیہ کا مظہر ہیں ۔ضرورت ہے تو اس بات کی کہ ہم ان مقامات کی برکتوں کو حتی الوسع سمونے والے بنیں ۔

حضرت مصلح موعود ؓنےاحمدیوں کو بار بار قادیان آنے اور اس کی برکات سے حصہ لینے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا کہ

‘‘پس میں آپ لوگو ں کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں …کہ کثرت سے قادیان آؤ۔اور بار بار آؤ تاکہ تمہارے ایمان تازہ رہیں۔ اور تمہاری خشیت اللہ بڑھتی رہے۔ …فرداً فرداً اسی کے لیے دعا کہ تحریک پیدا ہوتی ہے جو بار بار سامنے نظر آئے۔ پس اس بات کو مد نظر رکھ کر بھی یہاں آؤ۔ پھر قادیان میں نہ صرف قرآن شریف علمی طور پر حاصل ہوتا ہے بلکہ عملی طور پر بھی ملتا ہے۔ …پھر یہاں کی ایک ایک اینٹ ایک ایک مکان حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت کی دلیل ہے کیونکہ یہ وہ شہر ہے جس کا نام بھی کوئی نہ جانتا تھا مگر اس میں پیدا ہونے والے ایک شخص نے کہا کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ تمہیں تمام جہان میں مشہور کر دوں گا۔ اور یہاں دور دور سے لوگ آئیں گے۔’’

(انوار خلافت، انوار العلوم جلد 3صفحہ 171تا 174)

دنیاوی اور روحانی مملکت

مسلمان بادشاہوں نے جب ہندوستان پر اپنی حکومت قائم کی تو ساتھ ہی انہوں نے اپنی سلطنت کو دوام بخشنے کےلیے بلند و مضبوط قلعوں اور شاندار محلوں کی بھی تعمیر کرائی ۔ ان لوگوں کے تعمیراتی ہنر کی وجہ سے ان شہروں کو دنیا میں ایک خاص مقام حاصل ہو گیا اور لوگ ان کھنڈرات کا دیدار کرنے کے لیے سفر کرتے ہیں۔یہ دنیا کیسی عبرت کی جگہ ہے کہ انسان جتنا اونچا ہوتاہے اتنا ہی گِرتا ہے۔

ایک طرف تو یہ دنیاوی جاہ و حشمت والے مغل بادشاہ تھے جن کی بنائی ہوئی عمارات و محلات وقت کے ساتھ ساتھ کھنڈرات میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے خزانے ماضی کے قصے بن کر رہ گئے ہیں۔ دوسری طرف قادیان کی چھوٹی سی گمنام بستی سے اُٹھنے والا ایک روحانی مغل بادشاہ ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے اِذن و تائید کے ساتھ ایک ایسی حکومت کی بنیاد ڈالی جو قیامت تک قائم رہنے والی اور پہلے سے مزید مضبوط ہونے والی ہے ۔ اس روحانی حکومت کے محلات اور منارے وقت کے ساتھ ساتھ خوبصورتی کی نئی منازل طے کر رہے ہیں۔ قادیان دارالامان کی تعمیراتی ترقی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔روحانی علوم و معارف کے وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھےانہیں آپؑ نے دنیا کے سامنےرکھا۔ آپؑ کی بستی سے ظاہر ہونے والایہ خزانہ کبھی کم ہونے والا نہیں بلکہ آپ کے خلفاء کے ذریعہ اس میں  اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔اسی طرح آپؑ کی اولاد کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو بھی بشارات آپ ؑ کو دیں وہ بھی بڑی شان کے ساتھ ظاہر ہو رہی ہیں۔ آپؑ نے اپنے ماننے والوں کو بار بار تاکید کی کہ وہ اس بستی کی زیارت کے لیے آتے رہا کریں۔

ایک مرتبہ حضورؑ کی حیات مبارکہ میں بعض احباب نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ہم قادیان میں رہ کر حضورؑ پر بار ہیں اور بےکار رہتے ہیں۔ اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے ۔ جوشخص ایسا خیال کرتا ہے کہ اس کے آنے میں اس پر بوجھ پڑتا ہے یا ٹھہرنے میں ہم پر بوجھ ہوگا۔ اُسے ڈرنا چاہیے کہ وہ شرک میں مبتلا ہے ۔ ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اگر سارا جہاں ہمارا عیال ہو جائے تو ہماری مہمّات کا متکفل خود خدا تعالیٰ ہے۔ ہم پر ذرا بھی بوجھ نہیں ۔ ہمیں تو دوستوں کے وجود سے بڑی راحت پہنچتی ہے ۔ پھر فرمایا :یہ ایام پھر نہ ملیں گے اور یہ کہانیاں رہ جائیں گی ۔

(ماخوز از رجسٹر روایات ۔جلد 4، صفحہ71۔81)

آخر پر خاکسار اس ضمن میں سیدنا حضرت مصلح موعود ؓکے ایک اقتباس سے اپنے مضمون کا اختتام کرتا ہے :

‘‘ مومن کے ایمان کی سچی علامت یہی ہے کہ جب وہ کسی ایسے مقام سے گذرے جو خدا تعالیٰ کے کسی عذا ب کو یاد دلانے والا ہو تو وہاں اُس کے اعضاء اور جوارح سے کسی قسم کی بیباکی ظاہر نہ ہو تی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی خشیت اس کے دل پر طاری ہو اور وہ اس عذاب کو اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھ رہا ہو جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجر میں اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتے دیکھا ۔ اسی طرح جب وہ مسجد میں آئے یا کسی ایسی جگہ جائے جہاں خدا تعالیٰ نے اپنا کوئی نشان ظاہر کیا ہو تو وہاں فضول اور لغو باتیں نہ کرے بلکہ ذکر الٰہی اور خدا تعالیٰ کی یاد کرے ۔ نمازیں پڑھے ، دعاؤں میں مشغول رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو زیادہ سے زیادہ جذب کرنے کی کوشش کرے یا اگر باتیں ہی کرنی ہوں تو دین کی با تیں کرے ۔’’

(تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 345)

پس یہ وہ آدابِ مقامات ہیں جوایک مسلمان کے دل میں ہونے چاہئیں۔ آج ہمیں اس حوالے سےاپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ایک نبی ہمارے ملک میں پیدا ہوا اور اپنے کام کی بنیاد ڈال کر فوت بھی ہو گیا۔ اس کی زندگی جس بستی میں گزری آج وہ ہمارے سامنے ہے ۔ ہم میں سے بعض تو اسی بستی کے مکین ہیں جبکہ بعض کو وقتاً فوقتاً اس بستی کی زیارت کا موقع ملتا رہتا ہے ۔ خدا کے مامور کے اس مبارک مقام سے ہم کس قدر روحانی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ؟ جب ہم بہشتی مقبرہ میں مزار حضرت مسیح موعودؑ پر دعا کرنے کے لیے جاتے ہیں تو کیا ہمارے اندر وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جو ہونی چاہیے ؟کیا مساجد کا احترام ہمارے دلوں میں پیدا ہوا ہے اور کس قدر ہم اس کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ ہمیں آدابِ مقامات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button